’’میں مر جاؤں تو چلے گا، لیکن ہم بل ادا نہیں کر سکتے،‘‘ ہریش چندر ڈھاورے نے مرنے سے دو دن پہلے اپنی بیوی، جے شری سے کہا تھا۔ اس ۴۸ سالہ صحافی کی طبیعت کووڈ۔۱۹ کے سبب بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔
تب بھی، انہیں اپنی جان کی فکر نہیں تھی، بلکہ وہ اسپتال کے بل کو لیکر فکرمند تھے۔ ’’انہوں نے میرے ساتھ لڑائی کی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے،‘‘ ۳۸ سالہ جے شری یاد کرتی ہیں۔ ’’وہ گھر جانے کی ضد کر رہے تھے۔‘‘
مارچ ۲۰۲۱ کے آخر میں جب ہریش چندر کورونا وائرس سے متاثر ہوئے، تو صحافی کے طور پر بیس سال سے زیادہ کا تجربہ ان کے کوئی کام نہیں آیا۔ ان کی نوکری نے انہیں مزید خطرے میں ڈال دیا تھا۔
ہریش چندر ۲۰۰۱ سے ہی مہاراشٹر کے عثمان آباد ضلع میں مختلف اخبارات کے لیے نامہ نگار کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کی آخری نوکری مراٹھی روزنامہ ’راج دھرم‘ کے ساتھ تھی۔ ’’وہ کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر کے بارے میں رپورٹنگ کر رہے تھے۔ وہ پریس کانفرنس میں شریک ہوتے اور اکثر فیلڈ میں رہتے تھے،‘‘ جے شری بتاتی ہیں۔ ’’وہ جب بھی گھر سے باہر جاتے، ہمیں تشویش ہونے لگتی تھی۔ انہیں ہائی شوگر [ذیابیطس] اور بی پی (بلڈ پریشر) تھا۔ لیکن کہتے تھے کہ انہیں اپنا کام کرنا ہے۔‘‘
۲۲ مارچ کو ڈھاورے میں کووڈ کی علامت نظر آنے لگیں – جسم میں درد اور بخار۔ ’’جب ان کی صحت بہتر نہیں ہوئی، تو ہم انہیں شہر کے سول اسپتال لے گئے،‘‘ جے شری بتاتی ہیں۔ جانچ میں پازیٹو آنے کے بعد انہیں داخل کر دیا گیا۔ ’’وہاں سہولیات بہت اچھی نہیں تھیں اور ان کی صحت میں کوئی بہتری بھی نہیں آ رہی تھی،‘‘ جے شری آگے کہتی ہیں۔ اس لیے ۳۱ مارچ کو فیملی نے انہیں ۶۰ کلومیٹر دور، سولاپور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔
وہاں چھ دن گزارنے کے بعد، ۶ اپریل کی صبح کو ڈھاورے کا انتقال ہو گیا۔
اسپتال نے ۴ لاکھ روپے کا بل پکڑا دیا۔ موت کے وقت ہریش چندر کی ماہانہ تنخواہ ۴ ہزار روپے تھی۔ جے شری نے ان کی موت کے بعد اپنے سونے کے زیورات ایک لاکھ روپے میں فروخت کر دیے۔ ’’کچھ پیسے رشتہ داروں نے قرض دیے۔ عثمان آباد کے صحافیوں نے عطیہ دیا [۲۰ ہزار روپے] اور میری تھوڑی مدد کی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن ہم نے فیملی کے واحد کمانے والے رکن کو کھو دیا ہے، اور مجھے نہیں معلوم کہ ہم قرض کیسے لوٹا پائیں گے۔‘‘
ہریش چندر کی سالانہ آمدنی تقریباً ایک لاکھ روپے تھی۔ اس میں ان کی تنخواہ کے ساتھ، اخبار کے لیے لائے گئے اشتہارات پر ۴۰ فیصد کا کمیشن بھی شامل ہوتا تھا۔ جے شری اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتی ہیں، جہاں وہ بسکٹ، چپس اور انڈے فروخت کرتی ہیں۔ ’’اس سے مجھے مشکل سے کچھ مل پاتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وہ ایک بیوٹی پارلر بھی چلاتی تھیں، لیکن وبائی مرض کے سبب گزشتہ ڈیڑھ سال سے کوئی گاہک نہیں آیا ہے۔
ڈھاورے فیملی، جن کا تعلق نو بدھسٹ برادری سے ہے، مہاتما جیوتی راؤ پھُلے جَن آروگیہ یوجنا (ایم جے پی جے اے وائی) کے تحت صحت بیمہ کے لیے اہل ہے – ریاستی حکومت کی اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ روپے سے کم سالانہ آمدنی والے کنبوں کو طبی خرچ (ڈھائی لاکھ روپے تک) دیا جاتا ہے۔ اس میں ریاستی حکومت کے ذریعے منظور شدہ صحافیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت، اسپتال مریضوں کا علاج کرتا ہے، لیکن بل ریاستی حکومت کو بھیجتا ہے۔
اسپتال نے ہریش چندر کو اس اسکیم کے لیے درخواست کرنے کی ویٹنگ لسٹ میں ڈال دیا، جے شری بتاتی ہیں، جو کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے سبب بیمار پڑیں اور عثمان آباد کے سول اسپتال میں تین دن گزارے۔ ’’ہم نے ان سے اس درمیان ان کا علاج کرنے کے لیے کہا۔ لیکن درخواست پر کارروائی ہونے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر اس میں دیری کی۔‘‘ جس دن ہریش چندر کا انتقال ہوا تھا، اسی دن جے شری کو چھٹی دے دی گئی۔
اس سال فروری میں کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر شروع ہونے کے بعد سے ہی ملک بھر میں صحافیوں، خاص کر فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کی سیکورٹی کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت نے تو ابھی تک صحافیوں کو صف اول کے کارکن کے طور پر منظوری نہیں دی ہے، لیکن اوڈیشہ، تمل ناڈو، کرناٹک، اتر پردیش، اتراکھنڈ اور بہار جیسی ریاستوں نے صحافیوں کو اس زمرہ میں شامل کیا ہے اور ترجیحات کی بنیاد پر انہیں ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔
مہاراشٹر میں، حالانکہ، احتجاج اور ریاستی حکومت سے اپیل کے باوجود – کچھ وزرائے کابینہ کے ذریعے بھی – وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے نے صحافیوں کو ترجیحی زمرہ میں شامل نہیں کیا ہے۔
مہاراشٹر میں تقریباً ۸ ہزار صحافیوں کی یونین، مراٹھی پترکار پریشد (ایم پی پی) کے چیف ٹرسٹی، ایس ایم دیش مکھ کہتے ہیں، ’’اگست ۲۰۲۰ سے مئی ۲۰۲۱ کے درمیان ریاست میں ۱۳۲ صحافیوں کی موت ہو چکی ہے۔‘‘ لیکن دیہی علاقوں کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ موٹا اندازہ ہے – اس فہرست سے کم معروف مقامی اخبارات کے صحافیوں کے نام غائب ہو سکتے ہیں۔
’’یہ ممکن ہے کہ دیہی علاقوں سے کچھ معاملے [کی جانکاری] مجھ تک نہ پہنچے ہوں،‘‘ دیش مکھ تسلیم کرتے ہیں۔ ریاست میں اب تک تقریباً ۶ ہزار صحافی – جن میں سے سبھی ایم پی پی کے رکن نہیں ہیں – کووڈ۔۱۹ سے متاثر ہو چکے ہیں، وہ بتاتے ہیں۔ ’’کئی معاملوں میں، بھلے ہی وہ ٹھیک ہو گئے ہوں، لیکن ان کی فیملی کے اراکین کی موت ہو گئی۔‘‘
صف اول کے کارکن کا درجہ دینے کی مانگ کو رفتار عطا کرنے کے لیے، ۱۱ مئی کو مہاراشٹر بھر کے ۹۰ صحافیوں نے ایک آن لائن میٹنگ میں شرکت کی۔ کووڈ۔۱۹ اب چھوٹے شہروں اور گاؤوں میں پھیلنے لگا ہے، اس لیے دیہی علاقوں میں صحافیوں کی سیکورٹی کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے، کیوں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ان کے آس پاس بہتر طبی سہولیات دستیاب ہوں گی۔
نئی دہلی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف پرسپشن اسٹڈیز کے ذریعے ہندوستان میں کووڈ۔۱۹ کے سبب صحافیوں کی موت پر کی گئی تحقیق کے مطابق، یکم اپریل ۲۰۲۰ سے ۱۲ مئی ۲۰۲۱ کے درمیان ہونے والی ۲۱۹ اموات میں سے ۱۳۸ چھوٹے گاؤوں میں ہوئی تھیں۔
دیہی ہندوستان میں صحافی بغیر کسی منظوری کے، کم تنخواہ پر کڑی محنت کرتے ہیں۔ انہیں لگاتار نظر انداز کیا جا رہا ہے، عثمان آباد کے ۳۷ سالہ صحافی سنتوش جادھو کہتے ہیں۔ ’’صحافیوں کی [جمہوریت کے] چوتھے ستون اور کووڈ جانبازوں کے طور پر پذیرائی کی جاتی ہے۔ صحافت کو ضروری خدمت بھی کہا جاتا ہے، لیکن ہمیں ٹیکوں کے لیے ترجیح نہیں دی جا رہی ہے،‘‘ جادھو کہتے ہیں، جو ایک مراٹھی ٹیلی ویژن چینل کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں، جس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے۔ ’’ہم سے بیداری پیدا کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ ہم سے مناسب معلومات فراہم کرنے کی امید کی جاتی ہے۔ ہم دوسروں کے مسائل دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لیکن صحافیوں کے مسائل کوئی نہیں سنتا۔‘‘
جادھو جیسے صحافیوں کی حالت اور بھی خستہ ہے۔ ’’اگر آپ ممبئی یا دہلی میں ہیں، تو آپ کی آواز معنی رکھتی ہے۔ اس وقت دیہی علاقوں میں کام کر رہے اپنے نامہ نگاروں کی حفاظت کے لیے نیوز چینلوں اور اخبارات نے کیا کیا ہے؟ کتنے مدیروں نے اپنے صحافیوں کو بھروسہ دلایا ہے؟ کتنے لوگوں نے ترجیح کی بنیاد پر ان کی ٹیکہ کاری کے لیے مہم چلائی ہے؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ ’’دیہی علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو اچھی تنخواہ بھی نہیں ملتی ہے۔ اگر وہ مر گئے تو ان کے بچوں کا کیا ہوگا؟‘‘
کووڈ۔۱۹ اب چھوٹے شہروں اور گاؤوں میں پھیلنے لگا ہے، اس لیے دیہی علاقوں میں صحافیوں کی سیکورٹی کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے، کیوں کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ان کے آس پاس بہتر طبی سہولیات دستیاب ہوں گی
ڈھاورے کی ۱۸ سالہ بیٹی، وشاکھا ۱۲ویں کلاس میں ہے۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، لیکن اب یہ غیر یقینی ہے۔ ’’میں اس کی پڑھائی کا خرچ نہیں اٹھا سکتی،‘‘ ماں جے شری کہتی ہیں اور وشاکھا ان کا منہ دیکھ رہی ہے۔
وشاکھا (کور فوٹو میں، چشمہ پہنے ہوئے) یاد کرتی ہے کہ مرنے سے چار دن پہلے جب اس نے اپنے والد کو ویڈیو کال کیا تھا، تو انہوں نے بہت ساری بات کی تھی۔ ’’۲ اپریل کو ان کایوم پیدائش تھا،‘‘ وہ بتاتی ہے۔ ’’میں نے انہیں مبارکباد دینے کے لیے کال کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کی غیر موجودگی میں بھی کتابوں سے نظریں نہ ہٹانے کے لیے کہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہو میں زیادہ سے زیادہ پڑھائی کروں۔‘‘
وشاکھا کی پڑھائی کا مسئلہ زیر التوا ہے اور جے شری نے اسپتال کا بل چکانے کے لیے جو قرض لیا تھا اس کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ’’میرے رشتہ دار اتنے اچھے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک پیسے نہیں مانگے ہیں، لیکن یہ برا وقت ہے اور ہر کسی کو پیسے کی ضرورت ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اپنا قرض چکانا چاہتی ہوں، لیکن کیسے مجھے نہیں معلوم۔ میں اپنے دم پر جی رہی ہوں۔‘‘
عثمان آباد کے کچھ صحافیوں کو لگتا ہے کہ فیملی کو مالی بحران میں چھوڑنے کا جوکھم اٹھانے کی بجائے ان کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ وہ فیلڈ میں نہ جائیں۔
جادھو، جن کے ۶ اور ۴ سال کے دو بچے ہیں، فروری میں کووڈ کی دوسری لہر شروع ہونے کے بعد سے باہر نہیں جا رہے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۲۰ میں پہلی لہر کے دوران فیلڈ سے رپورٹنگ کرنے کی بہت بڑی قیمت چکائی۔ ’’میری وجہ سے میری ماں مر گئی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’۱۱ جولائی کو میں ٹیسٹ میں پازیٹو آیا تھا۔ وہ اس کے بعد متاثر ہوئیں۔ میں ٹھیک ہو گیا، لیکن وہ ٹھیک نہیں ہو پائیں۔ میں ان کی آخری رسومات میں بھی نہیں جا سکا۔ میرے اندر اب باہر نکلنے کی ہمت نہیں ہے۔‘‘ وہ عثمان آباد ضلع کے مختلف حصوں میں اپنے ذرائع سے ویڈیو حاصل کرتے ہیں۔ ’’میں کسی اہم انٹرویو یا پیس کے لیے جب کیمرے کی ضرورت ہو، صرف تبھی باہر نکلتا ہوں۔‘‘
لیکن ۳۹ سالہ دادا صاحب بان نے موقع سے ہی رپورٹنگ کو ترجیح دی۔ پرنٹ میڈیا کے لیے کام کرنے والے بیڈ ضلع کے آشٹی تعلقہ کے کاسری گاؤں کے صحافی، دادا صاحب ضلع کے ایک مراٹھی روزنامہ ’لوکاشا‘ کے لیے لکھتے تھے۔ وہ اپنی رپورٹ کے لیے ثانوی ذرائع کے پاس جانے پر بھی غور نہیں کرتے تھے۔
’’وہ اسپتالوں، ٹیسٹنگ مراکز اور دیگر مقامات کا دورہ کرتے اور زمینی حالات کے بارے میں لکھتے تھے،‘‘ ان کی ۳۴ سالہ بیوی مینا کہتی ہیں۔ ’’نئی لہر کے بارے میں رپورٹ کرتے وقت، وہ مارچ کے آخر میں اس بیماری سے متاثر ہو گئے تھے۔‘‘
بان کی فیملی انہیں کاسری سے ۶۰ کلومیٹر دور، احمد نگر کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں لے گئی۔ ’’لیکن ان کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں ہوئی،‘‘ مینا بتاتی ہیں۔ ’’ان کی آکسیجن کی سطح گھٹ کر ۸۰ ہو گئی تھی۔ یہ کم ہوتی چلی گئی۔‘‘
بان کو کوئی اور خطرناک بیماری نہیں تھی، لیکن چار دن بعد کووڈ۔۱۹ کے سبب انہوں نے دم توڑ دیا۔ ’’ہم نے اسپتالوں اور دواؤں پر ایک لاکھ روپے خرچ کیے،‘‘ بان کے ۳۵ سالہ بھتیجے دلیپ گیری کہتے ہیں۔ ’’اسپتال کا بل چکانے کے لیے ہم نے دوستوں اور رشتہ داروں سے پیسے اُدھار لیے۔ میرے چچا مہینے میں ۷-۸ ہزار روپے سے زیادہ نہیں کماتے تھے۔ ہمارے پاس کوئی بڑی بچت بھی نہیں ہے۔‘‘
بان کا علاج ایم جے پی جے اے وائی کے تحت بھی کیا جا سکتا تھا، جو بیڈ سمیت ریاست کے زرعی بحران کا سامنا کر رہے ۱۴ ضلعوں کے کسان کنبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ بان کی فیملی کے پاس ان کے گاؤں میں پانچ ایکڑ کھیت ہے، جس نے انہیں اس اسکیم کے لیے اہل بنایا۔
احمد نگر کے جس پرائیویٹ اسپتال نے بان کا علاج کیا تھا، اس نے انہیں ایم جے پی جے اے وائی کے تحت داخل کرنے سے منع کر دیا۔ ’’انہوں نے ہم سے کہا کہ اگر ہمیں اسکیم کا فائدہ چاہیے تو ہم کوئی دوسرا اسپتال تلاش کریں،‘‘ مینا بتاتی ہیں۔ ’’جب آپ ایک اچھا اسپتال تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں، تو اس وقت آپ پیسے کی فکر نہیں کرتے، بلکہ صرف اس آدمی کو بچانے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن ہم نہ تو اس آدمی کو بچا سکے اور ن ہی پیسہ۔‘‘
دادا صاحب اور مینا کے دو بیٹے ہیں – ۱۵ سالہ ہرشی کیش اور ۱۴ سالہ یش – جو اب غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور ڈاکٹر بنیں۔ ’’وہ ان کے صحافی بننے کے خواہش مند نہیں تھے،‘‘ دلیپ کہتے ہیں۔ ’’ان کا مستقبل اب ان کی ماں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ کھیتی ہے۔ ہم صرف جوار اور باجرا اُگاتے ہیں۔ ہم نقدی فصلیں نہیں اُگاتے،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔
ایک دوسرے کے بغل میں خاموش بیٹھے دونوں بھائی ہماری بات چیت سن رہے ہیں۔ ’’جب سے انہوں نے اپنے والد کو کھویا ہے، تب سے وہ غیر معمولی طور پر خاموش ہیں،‘‘ دلیپ بتاتے ہیں۔ ’’وہ چنچل تھے، مسلسل مذاق کرتے تھے۔ لیکن اب وہ کبھی کبھی کہتے ہیں کہ وہ بھی وہاں جانا چاہتے ہیں جہاں ان کے پاپا گئے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز