uploads/Articles/Chitrangada/Writing_on_the_wall/gita1.jpg

چوتھی کلاس میں پڑھنے والی نو سال کی گیتا ٹھاکر کو گھٹانے میں دقت آ رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ رونے لگی


ہندوستان میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد موجودہ دہائی میں بڑھ کر ۳۰۰ ملین، یعنی تیس کروڑ ہو گئی ہے، لیکن تعلیم کا معیار کیا ہے؟ ہر سال جنوری میں، شہریوں کا ایک رپورٹ کارڈ (اے ایس ای آر، یا ’تعلیمی رپورٹ کی سالانہ حالت‘) پیش کیا جاتا ہے کہ اسکولوں میں بچے کیا پڑھ رہے ہیں: کیا وہ بنیادی متن پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں، اور کیا وہ نمبروں کو سمجھتے ہیں؟

یہ رپورٹ کافی معیاری ہوتی ہے اور جن حقائق کا اس سے انکشاف ہوتا ہے، وہ سرکار کے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے اعداد و شمار کی پول کھولتے ہیں۔ اے ایس ای آر اسکول جانے والے سبھی بچوں میں بنیادی تعلیم کے معیار کی جانچ کرتا ہے، یہ دیکھتا ہے کہ کیا وہ متن پڑھ سکتے ہیں اور دوسری کلاس کے عدد پر مبنی سوالوں کو حل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سال ۲۰۰۸ میں، سروے میں پایا گیا کہ اسکول جانے والے ۴۴ فیصد بچے تفریق اور تقسیم سمیت دوسری کلاس کی حسابیات سے متعلق سوالوں کو حل نہیں کر سکتے۔

غیر سرکاری تنظیم، پرتھم نے اس سلسلے میں تین مہینے لمبی مشق شروع کی۔ اس نے طلبہ اور سائنس دانوں سے لے کر بینکرس اور اچار بنانے والوں تک کی ۳۰ ہزار رضاکاروں پر مبنی ایک ٹیم بنائی اور انھیں اسکولی بچوں اور اسکول میں موجود بنیادی سہولیات کی جانچ کرنے کے لیے ہندوستان بھر کے شہروں اور گاؤوں میں بھیجا۔ اس سال کی مشق میں ملک بھر کے ۳ لاکھ گھروں کے تقریباً ۷ لاکھ بچوں کی جانچ کی جا رہی ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Writing_on_the_wall/gita.jpg

کافی مشقت کے بعد گیتا سوال کو یوں حل کرتی ہے


پرتھم کے انسٹرکٹر، سوامی ایلون نے جب نو سالہ گیتا ٹھاکر کا امتحان لیا، تو نمبروں کو دیکھ کر چوتھی کلاس کی یہ بچی رونے پر مجبور ہو گئی۔ ۳۹ میں سے ۲۷ گھٹانا اس کے لیے بھاری پڑ گیا، اور آخرکار اس نے جب اس کا حل ڈھونڈ لیا، تو جواب آیا ۱۱۶۔ اس کی شاید ایک ممکن وجہ یہ ہے: اس کے گاؤں کے اسکول میں لازمی طور پر چار ٹیچر ہونے چاہئیں، لیکن صرف ایک ٹیچر ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Writing_on_the_wall/navan.jpg

چھتیس گڑھ نے پچھلی دہائی کے دوران پیشہ ور ٹیچروں کی چھٹی کر دی، اور اب یہ پوری طرح ٹھیکہ پر رکھے گئے ٹیچروں پر منحصر ہے، جیسے کہ ۲۱ سالہ اَنڈر گریجویٹ نَوَن کمار


چھتیس گڑھ نے پچھلی دہائی کے دوران پیشہ ور ٹیچروں کی چھٹی کردی، اور اب یہ پوری طرح کم پڑھے لکھے پیرا۔ ٹیچروں پر منحصر ہے، جنہیں سرکاری اسکولوں میں کم تنخواہ پر ٹھیکہ پر رکھا جاتا ہے۔ اَنڈر گریجویٹ ۲۱ سالہ نَوَن کمار نے اس قسم کے کانٹریکٹ اسکول ٹیچر بننے کی درخواست دے رکھی ہے۔ سروے کرنے والوں نے جب ان کا ٹیسٹ لیا، تو وہ ۹۱۹ کو ۹ سے تقسیم نہیں کر سکے۔ ایلون نے بتایا: ’’ہم نے کئی گاؤوں میں یہ پایا کہ وہاں کے ٹیچروں کو خود بھی حسابیات یا میتھ نہیں آتی، اسی لیے بچے بھی سوال حل نہیں کر پاتے۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Writing_on_the_wall/hiramati.jpg

قومی تعلیمِ بالغاں مشن میں داخلہ لینے کے بعد، دھان کی کھیتی کرنے والی ہیرا متی اب اٹک اٹک کر ابتدائی متن پڑھ لیتی ہیں


ہندوستان کو تباہ کن طور پر دنیا میں سب سے ناخواندہ ہونے کا امتیاز حاصل ہے، جہاں ۳۰ کروڑ سے زیادہ لوگ نہ تو کچھ لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی جوڑ گھٹا سکتے ہیں۔ اس سال، اے ایس ای آر سروے بالغ عورتوں میں خواندگی کی معیار کو بھی جانچ رہا ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ماں اور اس کے بچوں کی تعلیم میں کوئی مثبت میل ہے۔ دھان کی کھیتی کرنے والی ہیرامتی ٹھاکر، جو کہ عمر کے ۵۰ویں سال میں چل رہی ہیں، کی شادی کرانے کے لیے اسکول سے باہر نکال لیا گیا تھا۔ ان کے بچوں نے، جو خود بھی اب جوان ہو چکے ہیں، بھی اسکول بیچ میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس سال قومی تعلیمِ بالغاں مشن میں داخلہ لینے کے بعد، ہیرامتی اب ابتدائی متن اٹک اٹک کر پڑھ لیتی ہیں۔ ’’آج اگر غریب آدمی پڑھائی نہیں کرے گا، تو اس کی زندگی کولی کی طرح ہو جائے گی۔ مجھے جب بھی فرصت ملتی ہے، میں کتاب لے کر بیٹھ جاتی ہوں، اور خود ہی پڑھنا شروع کر دیتی ہوں۔‘‘ وہ مسکراتی ہیں، ساتھ ہی سروے کرنے والوں سے سوال کرتی ہیں: ’’کیا اب مجھے نوکری مل سکتی ہے؟‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Writing_on_the_wall/school.jpg

گاؤں کا اسکول تین کمرے والا ہے، جس میں نہ تو پانی آتا ہے اور نہ ہی ٹوائلیٹ ہیں


گاؤں کا اسکول تین کمروں پر مبنی عمارت ہے، جس میں پہلی سے ساتویں کلاس تک کی پڑھائی ہوتی ہے، لیکن یہاں نہ تو پینے کے پانی کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی کوئی ٹوائلیٹ ہے (’’اس کا پروپوزل چل رہا ہے‘‘ ٹرائبل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے ایک اہل کار نے جلدی سے بتایا)۔ آج پیر کی صبح کو اسکول میں کوئی ٹیچر بھی نہیں تھا۔

پوری ریاست میں کانٹریکٹ ٹیچرس ہڑتال پر گئے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی موجودہ تنخواہ، جو ۴ ہزار سے ۶ ہزار کے درمیان ہے، کو بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لہٰذا، ان کی جگہ پر اب ۲۵ سالہ مادھو جادھو اور ستیہ پرکاش جیسے بی ایڈ کے طلبہ ہفتہ میں تین دن بچوں کو پڑھانے اسکول آتے ہیں۔ پہلی سے تیسری کلاس کے بچوں کو ایک خستہ حال کمرہ میں ساتھ ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ جادھو نے بتایا: ’’بچوں کو بہت کم آتا ہے، وہ چھوٹا سوال بھی حل نہیں کر سکتے۔ یہاں پر ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/Writing_on_the_wall/jadhav1.jpg

مادھو جادھو(بیچ میں کھڑے ہوئے) اور ستیہ پرکاش جیسے بی ایڈ اسٹوڈنٹس، تنخواہ میں اضافہ کی مانگ کو لے کر ہڑتال پر گئے ہوئے ٹیچروں کی جگہ پر پڑھا رہے ہیں


مضمون نگار نے ہندوستان کے سرکاری اسکولوں کا یہ جائزہ لینے کے لیے چھتیس گڑھ کی راجدھانی، رائے پور سے ۲۹۰ کلومیٹر جنوب میں واقع بستر کے پرچن پال گاؤں کا ہفتہ کے آخری دنوں میں سروے کیا۔

Chitrangada Choudhury

சித்ரங்கதா சௌத்ரி ஒரு சுதந்திர ஊடகவியலாளர் மற்றும் பாரியின் மையக் குழு உறுப்பினர்.

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique