اس نے کہا، ’’اچھا، تو فوٹو کھینچ رہے ہو؟ ٹھیک ہے، کھینچ لو اور یہ تصویریں ممبئی میں بِٹّو سہگل کو دے دینا۔‘‘ سہگل ’سینکچوری میگزین‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ شراب کے نشہ میں مدہوش اس آدمی کو لگا تھا کہ میں جانوروں پر کیے جا رہے ظلم کی تصویریں کھینچ رہا ہوں۔ حالانکہ، وِدربھ کے چندرپور ضلع میں یہ بات چیت کیسے ہو سکتی تھی، یہ ایک راز ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس آدمی نے ممبئی میں کبھی کام کیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’سینکچوری‘ کی ٹیم نے حالیہ دنوں میں اس جنگلاتی علاقہ میں کام کیا ہو۔ وہ آدمی بڑی بے ترتیبی سے یہ سب بیان کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد، اس شخص نے ہم دونوں کو ایک طرح سے بے بس کر دیا۔ اس کے بعد مجھے اس سے مزید سوالات کرنے کی خواہش نہیں رہی۔
دیلان واڈی میں ’شنکرپٹ‘ یا کارنیوال (میلہ) اپنے شباب پر تھا۔ ظاہر ہے، اس میلہ میں سب سے خاص چیز بیل گاڑیوں کی دوڑ تھی، جس پر سب کی نظریں مرکوز تھیں۔ ہم اس تذبذب میں مبتلا تھے کہ اسے دوڑ کہنا چاہیے یا پھر رفتار کا مقابلہ۔ تمام بیل گاڑیوں کو میدان میں ایک ساتھ کھڑا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے دوڑ والا راستہ اتنا چوڑا نہیں تھا۔ ایک بار میں زیادہ سے زیادہ دو ہی بیل گاڑیوں کو جگہ مل سکتی تھی، جنہیں ایک کلومیٹر تک دوڑنا ہوتا تھا۔ وہ بھی اس لیے کہ کئی دہائیوں سے ان بیل گاڑیوں کے دوڑنے سے میدان میں دو ’راستے‘ بن گئے تھے۔ حالانکہ، زیادہ تر، صرف ایک ہی بیل گاڑی ہوتی تھی، جس پر دو بیل بندھے ہوتے تھے اور ایک بار میں ایک ہی آدمی انھیں دوڑاتا تھا۔
یہ اس قسم کی دوسری دوڑ کے مناظر سے بالکل الگ ہے، کیوں کہ اسے دیکھنے والے چاروں طرف موجود تھے، یہاں تک کہ راستے کے بیچ میں بھی، ان میں سے کچھ تو تیزی سے دوڑتے ہوئے بیلوں کو دیکھنے کے لیے پگڈنڈیوں کو پار کرنے میں بھی لگے ہوئے تھے۔ لیکن کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ کسی چونکانے والے کرتب باز کی طرح بیچ راستے میں کونے والے ایسے شرارتی لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے، وہاں موجود ناظرین زور زور سے چلّانے لگتے تھے۔ لیکن بیل گاڑی کو دوڑانے والے آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اپنی رفتار ذرا بھی کم نہیں کرتا تھا۔ حالانکہ نوجوانوں کے بہت سے ایسے گروپ تھے، جو اپنے ’ہیرو‘ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے خطرناک طریقے سے دوڑ والے راستے کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ کم ہنگامہ مچانے والے لوگ تھوڑی دور، کسی محفوظ جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ پُوال سے لدی بیل گاڑی کے بالکل اوپر بیٹھ کر اس نظارہ کو دیکھ رہے تھے، گویا کسی ڈریس سرکل یا بالکونی میں بیٹھے ہوں۔ باقی لوگ میلہ میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے، سامان خرید رہے تھے، لیکن جب انہیں بیل گاڑی کی دوڑ دیکھنے والوں کی طرف سے کوئی شور سنائی دیتا، تو وہ بھی ادھر متوجہ ہو جاتے۔
یہ روزانہ کی بیل گاڑیاں نہیں ہیں، بلکہ دوڑ میں حصہ لینے والی بیل گاڑیاں ہیں۔ بہت چھوٹی، تسلی بخش، کچھ حد تک ہلکی اور حیرت انگیز رفتار کے قابل۔ دوڑ میں حصہ لینے والے سبھی لوگ الگ الگ عمر اور سائز کے تجربہ کار کسان ہیں۔ ایک آدمی تو ضرور ۶۰ سال کے آس پاس کا رہا ہوگا۔ لیکن یہاں پر عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔ حد صرف دوڑ کی مقرر کی گئی ہے۔ انہیں باقاعدہ کوئی ’انعام‘ نہیں دیا جاتا، حالانکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں کچھ ’تحائف‘ ضرور دیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی شان کے لیے دوڑ میں حصہ لیتے ہیں۔
جب ہم میدان میں پہنچے، تو یہ لوگ دوڑ کی تیاری کر رہے تھے۔ اپنی بیل گاڑیوں کو چیک کرنے اور بیلوں کو کھلانے پلانے میں مصروف تھے۔ بعض عمدہ قسم کے مویشی کھونٹے سے بندھے ہوئے تھے، جنہیں کسی اور کام میں استعمال کیا جانا تھا۔ دوڑ میں حصہ لینے والے بیل بغیر جھالر والے تھے، جنہیں ایک کنارے پر جمع کیا گیا تھا، جہاں وہ اپنے نتھنے پھلانے میں مصروف تھے۔ ڈھول بجانے والے نے دوڑ کے آغاز کا اعلان کیا۔ دوڑ ختم ہونے کے بعد ڈھول بجانے والے یہ لوگ بھی اسی جگہ واپس آ جاتے ہیں، جہاں سے دوڑ کی شروعات ہوتی ہے۔ دوڑ میں حصہ لینے والے لوگ جب اپنی بیل گاڑیوں کو بیل کے بغیر واپس لاتے ہیں تو اکثر ان کے چھوٹے بیٹے انہیں کھینچ کر لے جاتے ہیں۔
بیل گاڑیوں کے تیزی سے گزرنے پر شور کی آواز بڑھ جاتی ہے اور دوڑ کی رفتار مزید تیز ہو جاتی ہے۔ میرے خیال سے اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے اپنی رفتار سے ہم سب کو چونکا دیا۔ دوڑ میں حصہ لینے والا، جو پتوار کی طرح ایک ہاتھ سے بیل کی پونچھ پکڑے ہوا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اُس وقت کسی اور چیز کے مقابلے خود اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک چھڑی پکڑے ہوا ہے، تیزی سے بھاگا۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ کس پر کنٹرول کیا جا رہا ہے، آدمی پر یا جانور پر۔ سامعین نے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ اڑنے والی غبار سے ہمارے کیمرے ڈھک گئے۔ شرابی نے ہماری نااہلی پر ایک گھٹیا سا فقرہ کسا۔ ’سیکورٹی‘ والے، لوگوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے خود بیچ میں آ گئے اور ہمیں معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بھی فوٹو لے لو۔ لہٰذا ہم نے ان کی بھی تصویریں کھینچ لیں۔
دریں اثنا، ایک زوردار چیخ نے ہمیں آگاہ کیا کہ دوڑ لگانے والا اگلا آدمی ہم سے کچھ ہی میٹر کے فاصلے پر ہے اور تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ساتھ ہی سیکورٹی والے بھی گھبرا کر ادھر ادھر بھاگے، بالکل صحیح وقت پر، اور بیل گاڑی وہاں سے تیزی سے گزر گئی۔ سوار اپنی پوری توانائی کے ساتھ بیل گاڑی چلا رہا تھا۔ مجمع پھر قریب آ گیا۔ سیکورٹی والوں نے دوبارہ ان لوگوں کو راستے سے ہٹایا، لیکن وہ پھر اپنی تصویر کھنچوانے کے لیے راستے کے بیچ میں آ گئے۔
اگلی دوڑ کافی اہم تھی، اور بیل گاڑی کو دوڑانے والا بھی زبردست تھا۔ یہ ۶۰ سال کے ایک کسان تھے۔ مجمع کے اچھے برتاؤ سے پرجوش ہو کر، اِس دفعہ میں کافی قریب جاکر کھڑا ہو گیا، تاکہ اُس آدمی کے چہرے کی تصویر قریب سے اور صاف صاف لے سکوں۔ تبھی اس شرابی نے حرکت کی۔ بہت زیادہ شور ہونے کی وجہ سے میں دیکھ نہیں پایا کہ وہ میرے گھٹنے کے بالکل پیچھے جھکا ہوا ہے۔ میں نے ایک قدم پیچھے ہٹایا اور اس شرابی کے اوپر گرتے گرتے بچا۔ اس سے بچنے کے لیے اگر میں ذرا بھی آگے بڑھتا، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں بیل گاڑی سے چند ہی ملی میٹر کے فاصلے پر ہوتا اور مویشیوں کی سانس تک محسوس کر سکتا تھا۔ اور ہاں، میں نے دوڑ لگانے والے کا چہرہ قریب سے دیکھ ہی لیا، اس سے بھی کہیں زیادہ قریب سے جتنا کہ میں چاہتا تھا۔
مجمع نے ہر ایک کا شکریہ ادا کیا۔ شرابی نے زخمی حالت میں میری طرف دیکھا۔ میں نے اس احساس کے ساتھ اسے دیکھا کہ ’فرنٹ لائن‘ کا ایڈیٹر اسے شائع نہیں کرے گا۔ دوڑ لگانے والا پوری طرح سے غبار میں ڈوبا ہوا تھا۔ غبار کو بیٹھنے میں تھوڑا وقت لگا: میں تقریباً ان لوگوں میں شمار ہونے سے بال بال بچا، جو اپنے اوپر بیل گاڑی گزر جانے سے موت کے شکار ہو جاتے ہیں۔ دوڑ میں۔ میں نے بیل گاڑی کی دوڑ لگانے والی لائن سے خود کو پیچھے کھینچ لیا تھا، لیکن میری طرف کا پہیہ میرے کینوس کے جوتے کو چھوتے ہوئے گزر گیا۔ آخری دو تصویریں ارادتاً نہیں بلکہ اتفاقی تھیں۔
دوڑ میں حصہ لینے والے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنا کنٹرول کھو دیا تھا۔ ظاہر ہے، ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی مضبوط جانور کوئی دوسرا راستہ پکڑ لے۔ اور جب سوار اُس باغی جانور کو قابو میں نہ کر پائے۔ ایسا ہی ایک جانور متعینہ راستے سے الگ ہو گیا اور پُوال سے لدی ہوئی بیل گاڑی سے ٹکرانے ہی والا تھا کہ اس کے اوپر بیٹھے ہوئے سامعین آگاہ ہو گئے۔ دوسرا اپنا راستہ چھوڑ کر مجمع میں گھس گیا، جسے روکنے کے لیے دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑی۔
دریں اثنا، سامان بیچنے والوں، عارضی دُکانوں، چھوٹے موٹے مصنوعی زیورات اور کرشمائی جڑی بوٹیاں بیچنے والوں نے اچھی کمائی کی۔ دوڑ لگانے والوں نے گاڑیوں سے بیلوں کو کھول دیا۔ وہ شرابی لڑکھڑاتا ہوا سورج ڈوبنے کی سمت میں کہیں گم ہو گیا۔ اور ہم بھی، ایک بڑے مجمع کے ساتھ باہر کی طرف نکلنے لگے۔ میلہ ختم ہو چکا تھا۔
یہ مضمون ۹ مارچ، ۲۰۰۷ کو سب سے پہلے ’فرنٹ لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز