’’مجھے ایسا دن سال میں ایک بار ہی مل پاتا ہے۔‘‘
سوپنالی دتّاتریہ جادھو دراصل ۳۱ دسمبر، ۲۰۲۲ والے دن کا ذکر کر رہی ہیں۔ ’وید‘ نام کی مراٹھی فلم کچھ دنوں پہلے ہی ریلیز ہوئی تھی۔ یہ ایک رومانٹک فلم ہے جس میں کچھ جانے پہچانے چہرے ہیں۔ پھر بھی، قومی سطح پر اسے زیادہ توجہ حاصل نہیں ہو سکی۔ لیکن گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی سوپنالی نے اسے اپنی چھٹی کے دن دیکھنے کا فیصلہ کیا تھا – جو کہ انہیں پورے سال میں صرف دو دن ہی مل پاتا ہے۔
اُس چھٹی کے دن کے بارے میں بڑے جوش سے بتاتے ہوئے ۲۳ سالہ سوپنالی کہتی ہیں، ’’نیا سال تھا، اسی لیے۔ ہم نے اس دن کھانا بھی باہر ہی کھایا تھا، گورے گاؤں میں کسی جگہ پر۔‘‘
سال کے باقی دن، سوپنالی کو روزانہ کولہو کے بیل کی طرح کھٹنا پڑتا ہے، جب وہ ممبئی کے چھ گھروں میں لمبے وقت تک برتن اور کپڑا دھونے کے علاوہ دیگر گھریلو کام کرتی ہیں۔ ایک گھر سے کام ختم کرنے کے بعد دوسرے گھر جانے میں انہیں ۱۰ سے ۱۵ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ یہی ان کے لیے فرصت کے لمحات ہیں، جب وہ اپنے فون پر مراٹی گانے سنتی ہیں۔ اس میں انہیں جو مزہ ملتا ہے، اس کے بارے میں وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں یہ [گانے] سنتے ہوئے کچھ دیر گزار سکتی ہوں۔‘‘
نیلم دیوی (۲۵) کا کہنا ہے کہ فون کی وجہ سے کچھ آرام مل جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب بھی مجھے موقع ملتا ہے، میں موبائل [فون] پر بھوجپوری اور ہندی فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہوں۔‘‘ وہ ایک مہاجر زرعی کارکن ہیں، جو فصل کی کٹائی کے موسم میں کام کرنے کے لیے اپنے گھر، بہار کے محمد پور بلیا گاؤں سے موکامہ ٹال – ۱۵۰ کلومیٹر سے زیادہ دور – آتی ہیں۔
وہ یہاں پر ۱۵ دیگر خواتین مزدوروں کے ساتھ آئی ہیں جو کھیتوں سے دال کی فصل کاٹ کر ان کے گٹھر کو گھر یا کھلہان تک ڈھونے کا کام کریں گی۔ کام کے عوض انہیں جو مزدوری ملتی ہے وہ پیسے کی شکل میں نہیں ملتی، بلکہ ۱۲ بنڈل (گٹھر) کاٹ کر ڈھونے کے بعد ایک بنڈل دال ملتی ہے۔ ان کے کھانے میں جتنی بھی چیزیں شامل ہوتی ہیں ان میں سب سے مہنگی دال ہی ہے، اور جیسا کہ سہاگنی سورین کا کہنا ہے، ’’ہم اسے سال بھر کھا سکتے ہیں اور اپنے قریبی رشتوں داروں میں بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ پورے مہینہ کی مزدوری کے طور پر انہیں تقریباً ایک کوئنٹل دال مل جاتی ہے۔
ان کے شوہر کام کی تلاش میں ان سے بھی کہیں زیادہ دور چلے جاتے ہیں اور ان کے بچے دوسروں کی نگرانی میں گھر پر ہی رک جاتے ہیں؛ چھوٹے بچوں کو وہ اپنے ساتھ ہی لے جاتی ہیں۔
دھان کی پرالی (یا پوال) کو اینٹھ کر رسی بناتے ہوئے، وہ پاری کو بتاتی ہیں کہ گھر سے دور یہاں پر انہیں اپنے موبائل پر فلمیں دیکھنے کا موقع نہیں مل پاتا ہے، کیوں کہ ’’انہیں چارج کرنے کے لیے بجلی نہیں ہے۔‘‘ نیلم کے پاس خود اپنا فون ہے – جو کہ دیہی ہندوستان میں مشکل سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ آکسفیم انڈیا کے ذریعہ شائع کردہ ڈیجیٹل ڈیوائیڈ اِن ایکویلٹی رپورٹ ۲۰۲۲ کے مطابق، دیہی ہندوستان میں ۶۱ فیصد مردوں کے مقابلے صرف ۳۱ فیصد عورتوں کو ہی موبائل تک رسائی حاصل ہے۔
لیکن نیلم نے ایک راستہ نکال لیا ہے: چونکہ زیادہ تر ٹریکٹر مزدوروں کی عارضی جھونپڑیوں کے پاس ہی کھڑے رہتے ہیں، ’’اس لیے ہم لوگ اپنے فون کو ٹریکٹر سے چارج کر لیتے ہیں اور ضروری کال کرنے کے بعد انہیں دور رکھ دیتے ہیں۔ اگر یہاں پر بجلی کا مناسب انتظام ہوتا تو ہم لوگ فلمیں بھی ضرور دیکھتے۔‘‘
موکامہ ٹال میں یہ عورتیں صبح ۶ بجے سے کام کر رہی ہیں، اور دوپہر میں درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے انہوں نے آخرکار اپنے اوزار نیچے رکھ دیے ہیں۔ اب ٹیوب ویل سے پانی بھرنے کا وقت ہے، تاکہ وہ اپنے گھر کے کام نمٹا سکیں۔ اس کے بعد بقول انیتا، ’’ہر کسی کو اپنے لیے فرصت کا کچھ وقت ملنا چاہیے۔‘‘
جھارکھنڈ کے گریڈیہ ضلع میں واقع نرائن پور گاؤں کی رہنے والی انیتا، جو ایک سنتھال آدیواسی ہیں، کہتی ہیں، ’’میں دوپہر میں سوتی ہوں کیوں کہ اس وقت بہت زیادہ گرمی ہونے کی وجہ سے ہم لوگ کام نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والی ایک زرعی مزدور ہیں جو مارچ کے مہینہ میں دال اور دیگر فصلوں کی کٹائی کرنے کے لیے بہار سے یہاں موکامہ ٹال آئی ہیں۔
درجن بھر عورتیں اپنی تھکی ہوئی ٹانگوں کو سامنے پھیلا کر، آدھے کٹ چکے ایک کھیت میں بیٹھی آرام کر رہی ہیں، شام ہونے ہی والی ہے۔
زرعی مزدوری کرنے والی یہ عورتیں بھلے ہی تھک چکی ہیں، لیکن ان کے ہاتھ اب بھی کام کر رہے ہیں۔ ان ہاتھوں سے وہ یا تو دالوں کو الگ کرکے ان کی صفائی کر رہی ہیں یا پھر اگلے دن کا بنڈل ڈھونے کے لیے دھان کی پرالی سے رسیاں بنا رہی ہیں۔ پاس ہی میں ان کے گھر ہیں جن کی چھتیں پولی تھین کی چادر سے اور تین فٹ اونچی دیواریں دالوں کی سوکھی ہوئی ڈنٹھلوں سے بنائی گئی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ان کا مٹی کا چولہا بھی جل جائے گا جس پر وہ رات کا کھانا پکانا شروع کریں گی، اور ان کی موجودہ بات چیت کا یہ سلسلہ اگلے دن جاری رہے گا۔
سال ۲۰۱۹ کے این ایس او ڈیٹا کے مطابق، ہندوستان میں عورتیں روزانہ ۲۸۰ منٹ اپنے گھریلو کام اور گھر کے ممبران کی دیکھ بھال سے متعلق خدمات کو انجام دینے میں گزارتی ہیں، جس کے لیے انہیں کوئی اجرت نہیں ملتی۔ وہیں، روزانہ اس قسم کے بلا اجرت کام میں مرد صرف ۳۶ منٹ گزارتے ہیں۔
*****
پندرہ سال کی سنتھال آدیواسی لڑکیوں، آرتی سورین اور منگلی مرمو کو بھی ایک ساتھ گزارنے کے لیے فرصت کے ان لمحات کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ دونوں آپس میں خالہ زاد بہنیں ہیں، جن کے ماں باپ کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے اور وہ مغربی بنگال کے پارُل ڈانگا گاؤں میں زرعی مزدوری کرتے ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کر رہی ہیں، اور پاس ہی میں اپنے چرتے ہوئے مویشیوں کی رکھوالی بھی کر رہی ہیں۔ آرتی کہتی ہے، ’’مجھے یہاں آنا اور پرندوں کو دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ کبھی کبھی ہم پھل توڑ کر ساتھ میں کھاتے ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتی ہے، ’’اس وقت [فصل کی کٹائی کے موسم میں] ہمیں دور نہیں جانا پڑتا ہے، کیوں کہ مویشی ٹھونٹھ (فصل کی ڈنٹھل کا کھیت میں بچا ہوا حصہ) بھی کھا لیتے ہیں۔ اس سے، ہمیں کسی پیڑ کے نیچے یا شیڈ میں آرام سے بیٹھنے کا وقت مل جاتا ہے۔‘‘
پاری نے ان سے اتوار کے دن ملاقات کی تھی، جب ان کی مائیں بیر بھوم ضلع میں ہی ایک پڑوسی گاؤں میں اپنے رشتہ دار کے یہاں گئی ہوئی تھیں۔ ’’میری ماں ہی اکثر مویشیوں کو چرانے کے لیے لے جاتی ہیں، لیکن اتوار کو انہیں میں چرانے لے جاتی ہوں۔ مجھے یہاں آنا اور منگلی کے ساتھ کچھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے۔‘‘ آرتی نے اپنی خالہ زاد بہن کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا، ’’وہ میری دوست بھی ہے۔‘‘
منگلی کے لیے، مویشیوں کو چرانا روزمرہ کا کام ہے۔ اس نے پانچویں تک کی پڑھائی کی ہے اور پھر اسے پڑھائی چھوڑنی پڑی، کیوں کہ اس کے والدین آگے کی تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ وہ کہتی ہے، ’’جب لاک ڈاؤن آ گیا، تو ان کے لیے مجھے اسکول بھیجنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا۔‘‘ مویشی چرانے کے لیے علاوہ منگلی گھر کا کھانا بھی بناتی ہے۔ مویشیوں کو چرانے کا اس کا کام کافی اہم ہے، کیوں کہ اس خشک علاقے میں مویشی پروری ہی مستحکم آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
آکسفیم انڈیا کے ذریعہ شائع کردہ ڈیجیٹل ڈیوائیڈ اِن ایکویلٹی رپورٹ ۲۰۲۲ کے مطابق، دیہی ہندوستان میں ۶۱ فیصد مردوں کے مقابلے صرف ۳۱ فیصد عورتوں کو ہی موبائل تک رسائی حاصل ہے
آرتی کہتی ہے، ’’ہمارے ماں باپ کے پاس فیچر فون ہیں۔ جب ہم ساتھ ہوتے ہیں، تو ان چیزوں [خود کا فون ہونے] کے بارے میں بات کرتے ہیں۔‘‘ ڈیجیٹل ڈیوائیڈ اِن ایکویلٹی رپورٹ ۲۰۲۲ کہتی ہے کہ ہندوستان میں تقریباً ۴۰ فیصد موبائل استعمال کرنے والوں کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں، اور ساتھ ہی اس سے انہیں کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔
فرصت کے لمحات کے بارے میں پوچھے جانے پر، بات چیت میں اکثر موبائل فون کا ذکر آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کبھی کبھی کام سے جڑی بات چیت میں بھی فون کا ذکر آتا ہے۔ زرعی مزدور سنیتا پٹیل ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جب ہم اپنی سبزیاں بیچنے قصبوں میں جاتے ہیں اور خریدنے کے لیے آواز لگاتے ہیں، تو فون میں مصروف شہری عورتیں جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کرتیں۔ اس سے ہمیں بہت برا لگتا ہے اور غصہ بھی آتا ہے۔‘‘
سنیتا، چھتیس گڑھ کے راجناند گاؤں ضلع کے راکا گاؤں میں، دھان کے کھیت میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ساتھی خواتین مزدوروں کے ایک گروپ کے ساتھ آرام کر رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور کچھ عورتیں آنکھیں موند کر لیٹی ہوئی تھیں۔
دُگڑی بائی نیتام کہتی ہیں، ’’ہم سال بھر کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں تھوڑی بھی فرصت نہیں ملتی۔‘‘ دُگڑی ایک بزرگ آدیواسی خاتون ہیں اور انہیں بیوہ پنشن ملتی ہے، لیکن پھر بھی انہیں دہاڑی کا کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’ابھی ہم دھان کے کھیت سے گھاس پھوس نکال رہے ہیں؛ ہم سال بھر بس کام میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘
ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے سنیتا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس فرصت نہیں ہوتی! چھٹیاں شہری خواتین کی تفریح کا ذریعہ ہے۔‘‘ ان کے لیے اچھا کھانا ہی فرصت کے لمحات کی طرح ہے، جیسا کہ وہ بتاتی ہیں: ’’میرا دل کرتا ہے کہ ہم آتے جاتے اچھا اچھا کھانا کھائیں، لیکن پیسوں کی کمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘
*****
یلّو بائی نندی والے فرصت کے وقت، جیناپور گاؤں کے پاس کولہاپور – سانگلی قومی شاہراہ پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی ہیں۔ وہ کنگھی، بالوں کے سامان، مصنوعی زیورات، المونیم کے برتن اور اسی قسم کی دیگر چیزیں بیچتی ہیں، جنہیں وہ بانس کی ٹوکری اور پلاسٹک کے تھیلے میں رکھتی ہیں، جس کا وزن تقریباً ۷-۶ کلو ہوتا ہوگا۔
وہ اگلے سال ۷۰ کی ہو جائیں گی۔ مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع میں، وہ کہتی ہیں کہ چاہے میں ایک جگہ کھڑی رہوں یا ادھر ادھر گھومتی رہوں، میرے گھٹنے میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ اس کے باوجود انہیں یہ کام کرنا ہوگا، ورنہ ان کی یومیہ آمدنی ختم ہو جائے گی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے درد والے گھٹنے کو دباتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پورے دن میں سو روپے کمانا بھی مشکل ہوتا ہے، اور کبھی کبھی تو ایک روپیہ کی بھی کمائی نہیں ہوتی۔‘‘
ستّر سال کی یلّو بائی، شیرول تعلقہ کے دانولی گاؤں میں اپنے شوہر یلپّا کے ساتھ رہتی ہیں۔ فیملی کا تعلق نندی والے خانہ بدوش برادری سے ہے اور ان کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔
نوجوانی کے خوشگوار لمحات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’کسی بھی چیز میں دلچسپی ہونا، موج مستی، فرصت…یہ سب شادی سے پہلے ہوتا تھا۔ میں پورے وقت کھیتوں میں گھومتی تھی، ندیوں میں جاتی تھی۔ اس وقت میں شاید ہی گھر پر رہتی تھی۔ لیکن شادی کے بعد چیزیں بدل گئیں، اب میں وہ چیزیں نہیں کر پاتی ہوں۔ اب بس زندگی میں باورچی خانہ اور بچے ہی رہ گئے ہیں۔‘‘
دیہی خواتین کی روزمرہ کی زندگی پر ہوئے سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کی دیہی خواتین اپنے دن کا تقریباً ۲۰ فیصد وقت بغیر اجرت والے گھریلو کاموں اور فیملی کی دیکھ بھال کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ رپورٹ کا عنوان ٹائم یوز اِن انڈیا-۲۰۱۹ ہے، اور اسے شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت کے ذریعے شائع کیا گیا ہے۔
دیہی ہندوستان میں بہت سی خواتین کارکن، ماں، بیوی، بیٹی اور بہو کی شکل میں اپنا رول نبھانے کے بعد بھی اپنا خالی وقت گھر کے کاموں میں ہی گزارتی ہیں، جیسے اچار، پاپڑ اور سلائی کا کام۔ اتر پردیش کے بیٹھکوا ٹولہ کی ارمیلا کہتی ہیں، ’’ہاتھ سے سلائی کا کام ہمارے لیے آرامدہ ہوتا ہے۔ کچھ پرانی ساڑیوں سے ہم اپنی فیملی کے لیے کتھری بنا لیتے ہیں۔‘‘
اس ۵۰ سالہ آنگن واڑی ورکر کے لیے گرمیوں میں دیگر خواتین کے ساتھ بھینسوں کو روزانہ نہلانے کے لیے لے جانا ایک خوشگوار احساس جیسا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب ہمارے بچے کھیلتے ہیں اور بیلن ندی کے پانی میں کود پھاند کرتے رہتے ہیں، تو ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ بتاتی ہیں کہ گرمیوں میں بیلن ندی خاموش رہتی ہی، اس لیے اس وقت بچوں کے لیے اس میں کھیلنا کودنا محفوظ رہتا ہے۔
کوراؤں ضلع کے دیوگھاٹ گاؤں میں ایک آنگن واڑی کارکن کے طور پر ارمیلا پورے ہفتہ نوجوان ماؤں اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کے کام میں مصروف رہتی ہیں، ساتھ ہی ٹیکہ کاری اور زچگی سے قبل اور بعد میں ہونے والی جانچ کی ایک فہرست بناتی ہیں۔
اُرمیلا کے چار بچے ہیں اور ایک پوتا ہے، جو تقریباً تین سال کا ہے۔ وہ سال ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۵ تک دیوگھاٹ کی گرام پردھان رہ چکی ہیں۔ وہ دلت ٹولہ کی گنی چنی تعلیم یافتہ خواتین میں سے ایک ہیں۔ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’میں روز ان نوجوان لڑکیوں کو چڑھاتی ہوں، جو اسکول چھوڑ دیتی ہیں اور شادی کر لیتی ہیں۔ لیکن نہ تو وہ سنتی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر والے سنتے ہیں۔‘‘
ارمیلا کہتی ہیں کہ شادیوں اور سگائی میں عورتوں کو خود کے لیے تھوڑا وقت ملتا ہے۔ ’’ہم ایک ساتھ گاتے ہیں، ایک ساتھ ہنستے ہیں۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ گانے شادی شدہ زندگی اور خاندانی رشتوں کے ارد گرد مرکوز ہوتے ہیں اور تھوڑے گندے بھی ہو سکتے ہیں۔
دراصل، صرف شادی ہی نہیں بلکہ تہوار بھی عورتوں، خاص کر نوجوان لڑکیوں کو ان کے کاموں سے تھوڑا آرام دلا دیتے ہیں۔
آرتی اور منگلی نے پاری کو بتایا کہ جنوری میں بیربھوم کے سنتھال آدیواسیوں کے ذریعے منایا جانے والا باندنا ایک ایسا تہوار ہے جسے وہ سب سے زیادہ پسند کرتی ہیں۔ آرتی کہتی ہے، ’’ہم کپڑے پہنتے ہیں، تیار ہوتے ہیں، ناچتے اور گاتے ہیں۔ اُن دنوں میں ہماری مائیں گھر پر رہتی ہیں، اس لیے ہمارے پاس زیادہ کام نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے دوستوں کے ساتھ رہنے کا وقت مل جاتا ہے۔ کوئی ہمیں ڈانٹتا نہیں ہے اور ہم وہی کرتے ہیں جو ہمیں پسند ہے۔‘‘ اس دوران مویشیوں کی دیکھ بھال ان کے والد کرتے ہیں، کیوں کہ تہوار کے دوران ان کی پوجا کی جاتی ہے۔ منگلی مسکراتے ہوئے کہتی ہے، ’’اس وقت میرے پاس کوئی کام نہیں ہوتا۔‘‘
دھمتری کی رہنے والی ۴۹ سالہ چتر ریکھا تیرتھ یاترا کو بھی ایک چھٹی ہی مانتی ہیں۔ اپنے خالی وقت میں چتر ریکھا تیرتھ یاترا پر جانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنی فیملی کے ساتھ، دو تین دنوں کے لیے سیہور ضلع [مدھیہ پردیش] کے شیو مندر جانا چاہتی ہوں۔ میں کسی دن چھٹی لوں گی اور فیملی کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘
چتر ریکھا، چھتیس گڑھ کی ایک گھریلو ملازمہ ہیں اور چار گھروں میں کام کرتی ہیں۔ اس سے پہلے انہیں صبح ۶ بجے اٹھ کر اپنے گھر کا کام ختم کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر وہ دوسرے گھروں میں کام کرنے نکل جاتی ہیں اور شام ۶ بجے واپس آتی ہیں۔ اس کام کے لیے ہر مہینے انہیں ۷۵۰۰ روپے ملتے ہیں۔ یہ ان کی پانچ رکنی فیملی کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ان کی فیملی میں میاں بیوی کے علاوہ، دو بچے اور ان کی ساس ہیں۔
*****
گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی سوپنالی کے لیے بغیر کام کے ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے مہینہ میں صرف دو چھٹیاں ملتی ہیں؛ سنیچر اور اتوار کو بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ سب کی چھٹی ہوتی ہے، اس لیے ان دنوں میں مجھے کوئی چھٹی دیتا نہیں ہے۔‘‘ یہاں تک کہ وہ خود بھی اپنے لیے تھوڑا وقت نکالنے کے بارے میں نہیں سوچتی ہیں۔
وہ مزید بتاتی ہیں، ’’میرے شوہر کو اتوار کے دن کام پر نہیں جانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے رات میں فلم دیکھنے کے لیے چلنے کو کہتے ہیں، لیکن میں دن بھر کے کام سے اتنا تھک جاتی ہوں کہ مجھ میں ہمت نہیں بچتی۔ مجھے اگلی صبح کام پر جانا ہوتا ہے۔‘‘
اپنی فیملی چلانے کے لیے، یہ عورتیں طرح طرح کے کام کرتی ہیں، اور جس کام کو وہ پسند کرتی ہیں، کئی بار وہ بھی ان کے لیے فرصت کے لمحات میں بدل جاتے ہیں۔ روما لوہار (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، ’’میں گھر جاؤں گی اور کھانا بنانے، صاف صفائی، اور بچوں کو کھانا کھلانے جیسے گھر کے کام ختم کروں گی۔ اور پھر میں بلاؤز پیس اور اسٹول پر کانتھا کڑھائی کرنے بیٹھوں گی۔‘‘
مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع کے آدتیہ پور گاؤں کی ۲۸ سالہ یہ خاتون چار دیگر عورتوں کے ساتھ گھاس کے ایک میدان کے پاس بیٹھی ہیں، جہاں ان کے مویشی چر رہے ہیں۔ تقریباً ۲۸ سے ۶۵ سال کی تمام عورتیں بے زمین خاندانوں سے ہیں اور دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ ان کا تعلق لوہار برادری سے ہے، جو مغربی بنگال میں درج فہرست ذات کے طور پر درج ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے صبح میں ہی گھر کا سارا کام ختم کر لیا ہے اور اپنی گایوں اور بکریوں کو چرانے کے لیے لے آئے ہیں۔‘‘
’’ہمیں معلوم ہے کہ اپنے لیے وقت کیسے نکالنا ہے۔ لیکن، لوگوں کو ہم اس بارے میں بتاتے نہیں ہیں۔‘‘
ہم نے ان سے پوچھا کہ ’’جب آپ لوگ اپنے لیے وقت نکالتی ہیں، تو اس وقت کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’زیادہ تر وقت تو کچھ نہیں کرتے۔ مجھے بس جھپکی لینا یا ان عورتوں سے بات کرنا اچھا لگتا ہے جنہیں میں پسند کرتی ہوں۔‘‘ روما گروپ کی دیگر خواتین کی طرف با معنی نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ بات کہتی ہیں۔ پھر سبھی عورتیں قہقہہ لگانے لگتی ہیں۔
’’ہر کسی کو لگتا ہے کہ ہم کوئی کام نہیں کرتے ہیں! ہر کوئی کہتا ہے کہ ہم [عورتیں] صرف وقت برباد کرنا جانتی ہیں۔‘‘
اس اسٹوری کو مہاراشٹر سے دیویش اور جیوتی شنولی ؛ چھتیس گڑھ سے پرشوتم ٹھاکر ؛ بہار سے اُمیش کمار رائے ؛ مغربی بنگال سے اسمیتا کٹھور ؛ اتر پردیش سے پریتی ڈیوڈ نے رپورٹ کیا ہے، جس میں ریا بہل ، سمویتی ایئر ، جوشوا بودھی نیتر اور وشاکھا جارج کا ایڈیٹوریل تعاون حاصل ہے۔ فوٹو ایڈٹنگ بینیفر بھروچا نے کی ہے۔
کور فوٹو: اسمیتا کھٹور
مترجم: محمد قمر تبریز