یہ کسی کرتب کی طرح پتلی رسیوں کے اوپر چلنے جیسا تھا، جس میں بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ نہ تو کوئی جال تھی اور نہ ہی حفاظت کا کوئی اور انتظام۔ جس کھلے کنویں کے اوپر وہ قدم رکھنے جا رہی تھی، اس کے چاروں طرف کوئی دیوار بھی نہیں تھی۔ کنویں کا اوپری حصہ لکڑیوں کے بھاری لٹھوں سے ڈھکا ہوا تھا، تاکہ ۴۴ ڈگری سیلسیس درجہ حرارت والی دوپہر میں انتہائی گرم ہوا سے اڑ کر آنے والے گرد و غبار کو اس کے اندر گرنے سے روکا جا سکے۔ لٹھوں کو مختلف زاویوں میں ہلکا سا گھما کر بیچ میں ایک چھوٹا سا منہ بنایا گیا تھا۔
اسے لٹھوں کے کنارے کھڑے ہوکر پانی کھینچنا تھا۔ ایسا کرنے میں اسے دو خطرے تھے: وہ یا تو پھسل کر نیچے گر سکتی تھی یا لکڑیوں کے لٹھے اس کے جسم کے وزن سے ادھر ادھر بکھر سکتے تھے۔ ان میں سے کچھ بھی ہونے کا مطلب تھا، کم از کم ۲۰ فٹ کی گہرائی میں گرنا۔ اس سے بھی زیادہ برا یہ ہوتا کہ اگر وہ کنویں میں گرتی، تو لکڑیوں کے کچھ لٹھے اس کے اوپر گر جاتے۔ کنارے کی جانب پھسلنے پر اس کے پیر کُچل سکتے تھے۔
لیکن، اُس دن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ نوجوان عورت ایک گاؤں کے اندر واقع پھلیا یا بستی (جو قبیلہ پر مبنی ہو سکتا تھا) کی بھیلالا آدیواسی تھی۔ وہ آرام سے لکڑیوں کے ان لٹھوں پر چڑھی۔ اس کے بعد رسّی سے بندھی ایک بالٹی کو دھیرے دھیرے کنویں میں لٹکایا اور پانی بھر کر اسے اوپر کھینچ لیا۔ بالٹی کا پانی اس نے دوسرے برتن میں ڈالا۔ پھر، بالٹی کو اسی طرح دوبارہ بھرا۔ ایسا کرتے وقت وہ اور لکڑیوں کے یہ لٹھے ذرا بھی نہیں ڈگمگائے۔ اس کے بعد وہ مدھیہ پردیش کے جھابوا ضلع کے واکنیر گاؤں میں واقع اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ پانی سے بھرے دونوں برتن لیکر، سر پر رکھے سب سے بھاری برتن کو دائیں ہاتھ سے پکڑے اور بائیں ہاتھ میں بالٹی لٹکائے ہوئے۔
میں پھلیا سے اس کے ساتھ ہی چلا تھا اور اس کنویں تک پہنچنے میں مجھے کافی دور تک پیدل چلنا پڑا۔ اور میں نے حساب لگایا تھا کہ اگر وہ یہ دوری دن میں دو بار طے کرتی ہے (بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ) تو صرف اس کام کے لیے وہ چھ کلومیٹر سے کم نہیں چلتی۔ اس کے وہاں سے روانہ ہو جانے کے بعد میں کچھ دیر تک وہیں رکا۔ دوسری نوجوان عورتوں اور کچھ لڑکیوں نے پانی کھینچنے کے اس کام کو بڑے آرام سے دہرایا۔ یہ اتنا آسان لگ رہا تھا کہ میں نے بھی ایک لڑکی سے، رسی سے بندھی ہوئی بالٹی لیکر اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن، میں جب بھی لکڑیوں کے لٹھے پر چڑھتا وہ ڈگمگانے لگتے، بلکہ تھوڑا گھوم بھی جاتے تھے۔ میں جتنی بار کنویں کے دہانے تک پہنچتا، اتنی بار میرے پیروں کے نیچے کے لٹھے خطرناک طریقے سے ہلنے لگتے۔ ہر بار میں پیچھے، سوکھی زمین کی طرف لوٹ جاتا۔
اس درمیان وہاں کئی متجسس ناظرین جمع ہو گئے، جن میں وہاں پانی بھرنے آئی عورتیں اور کئی چھوٹے بچے شامل تھے جو کنویں میں میرے گرنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ گویا میں دوپہر کے وقت ان کے لیے تفریح کا ایک سامان بن گیا تھا۔ حالانکہ اسے ختم ہونا ہی تھا، کیوں کہ جو عورتیں مجھے کچھ دیر کے لیے کافی مزاحیہ سمجھ رہی تھیں، وہ پانی بھرنے کے اپنے اس انتہائی اہم کام کو پورا کرنے کے لیے بے چین ہونے لگیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ۱۹۹۴ کے اس واقعہ کے دوران میں کافی کوششوں کے بعد کنویں سے صرف آدھا بالٹی پانی ہی نکال پایا تھا، لیکن ناظرین نے میرے لیے جم کر تالیاں بجائیں۔
اس تحریر کا ایک مختصر حصہ ۱۲ جولائی، ۱۹۹۶ کو ’دی ہندو بزنس لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز