’’میں نے ہر طرح کے طوفان دیکھے ہیں، لیکن یہ الگ طرح کا تھا۔ یہ تقریباً ۱۲ گھنٹے تک رہا۔ دوپہر کے وقت، پانی کھیتوں میں ایسے داخل ہوا جیسے کوئی پاگل سانڈھ ہمارا پیچھا کر رہا ہو۔ میں نے اپنے بھائی کے جسمانی طور سے معذور بیٹے کو اٹھایا اور یہاں سے بھاگا،‘‘ سوپن نائک یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، وہ مغربی بنگال کے سندر بن علاقے کے جنوبی کسیا باد گاؤں کے پرائمری اسکول میں ایک ٹیچر ہیں۔
امفن طوفان ۲۰ مئی کو، ۱۸۵ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے کاک دویپ بلاک کی رام گوپال پور پنچایت میں واقع اس گاؤں کے پاس ہی زمین سے ٹکرایا تھا۔
گاؤں والوں نے ایسا طوفان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہاں کے لوگ بتاتے ہیں کہ امفن نے سندربن کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا نقصان تو آئیلا (۲۰۰۹) اور بلبل (۲۰۱۹) طوفان نے بھی نہیں پہنچایا تھا۔
’’ہمارا اسکول تباہ ہو گیا ہے۔ چھت اڑ گئی ہے اور چار کلاسیں گر گئی ہیں۔ تقریباً ۱۰۰ طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے،‘‘ نائک کہتے ہیں، جو جنوبی کسیا باد کے پرائیویٹ مانب تیرتھ پرائمری اسکول میں پڑھاتے ہیں۔
ہندوستانی محکمہ موسمیات کے مطابق، ’سپر سائیکلونک طوفان‘ ۲۰ مئی کو سندربن کی جانب بڑھنا شروع ہوا۔ امفن طوفان شام کو تقریباً ساڑھے چار بجے کاک دویپ کے جنوب مغرب میں واقع ساگر جزیرہ کے پاس زمین سے ٹکرایا۔ جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں، کاک دویپ، کل تلی، نام کھانا، پٹھار پرتیما اور ساگر بلاک طوفان کے زمین سے ٹکرانے کی جگہ کے قریب تھے – اور جنوبی بنگال کے سب سے زیادہ متاثر حصوں میں شامل ہیں، جہاں اس سمندری طوفان نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
۲۹ مئی کو، کاک دویپ بس اسٹینڈ سے جنوبی کسیا باد کی طرف جاتے وقت – تقریباً ۴۰ کلومیٹر کی اس دوری کو طے کرنے میں تقریباً دو گھنٹے لگے – ہم نے دیکھا کہ سڑک کے دونوں طرف ملبے بکھرے ہوئے تھے۔ درخت جڑ سے اکھڑ گئے تھے، اور گھر اور دکانیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔
جنوبی کسیا باد کے راستے میں، رنجن گاین اور ان کی فیملی کے رکن، نیتا جی پنچایت کے مادھب نگر میں واقع اپنے گھر کے پاس میٹھے پانی کے تالاب سے مچھلی پکڑ رہے تھے۔ سمندری طوفان کے ذریعے لائے گئے نمکین پانی نے تالاب کو آلودہ کر دیا ہے۔ ’’ہم نے اس سال میٹھے پانی میں ماہی پروری پر تقریباً ۷۰ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔ وہ سبھی اب مر چکی ہیں۔ ہم کسی زندہ بچی مچھلی کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اسے بازار میں فروخت کر سکیں۔ میرے پان کے پتّے بھی برباد ہو چکے ہیں اور میری فیملی اب قرض میں ڈوبی ہوئی ہے،‘‘ گاین نے بتایا، جن کا تقریباً ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ’’خوشیوں کے دن ہمارے لیے کبھی واپس نہیں آئیں گے، کبھی نہیں۔‘‘
مادھب نگر میں ہم پریتی لتا رائے سے بھی ملے۔ کاک دویپ کی کئی دیگر عورتوں کی طرح، وہ یہاں سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور، کولکاتا کے جادوپور علاقے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر معاش حاصل کرتی تھیں۔ یہ ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ تھا، لیکن مارچ کے آخری ہفتہ میں، کووڈ-۱۹ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد یہ کام بند ہو گئے۔ ان کی پان کی فصل کو امفن طوفان نے برباد کر دیا۔ وہ اندازہ لگاتی ہیں کہ ان کا تقریباً ۳۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے۔
ہم جب گاؤں میں پہنچے، تو جنوبی کسیا باد کی تباہی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ نازک پان کی فصل، وہاں کے کسانوں کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کا صفایا ہو چکا تھا۔ یہاں کے لوگوں کے لیے، جو گاؤں اور اس کے آس پاس کے ہاٹوں میں مچھلی، دھان اور پان کے پتّے فروخت کرکے کمائی کرتے ہیں، امفن مزید تباہی لیکر آیا – جب کہ وہ لاک ڈاؤن میں بازار بند ہونے کے سبب پہلے سے ہی جدوجہد کر رہے تھے۔
’’ہم کئی نسلوں سے پان کی کھیتی کرتے آ رہے ہیں،‘‘ ایک شخص نے کہا، جو ہمیں اپنا نام نہیں بتانا چاہتا تھا۔ ’’اس سے ہر مہینے میری ۲۰-۲۵ ہزار روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔ لاک ڈاؤن نے ہمارے کاروبار کو بند کیا تھا، لیکن امفن نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔‘‘ کچھ اخباری رپورٹوں کے حوالے سے جنوبی ۲۴ پرگنہ کے محکمہ باغبانی کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان سے ضلع میں پان کے کسانوں کو تقریباً ۲۷۷۵ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
مئی میں طوفان کے بعد کسیا باد میں قابل کاشت زمین پر کھارا پانی جمع ہو گیا تھا۔ ’’پانی پہلے بھی آتا تھا، لیکن اتنا نہیں۔ سمندری طوفان سے صرف دھان کی ہی فصل برباد نہیں ہوئی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ زمین اب آگے بھی استعمال کے لائق ہو،‘‘ ایک اور کسان نے کہا۔ لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی کمی کے سبب، بورو چاول کی ان کی ربیع کی فصل کی کٹائی متاثر ہوئی تھی، اور گرمیوں میں بے موسم کی بارش نے اس سال ان کی پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا تھا – جب تک کہ امفن طوفان نہیں آیا تھا۔
اسی گاؤں کا نیوگی خاندان اس علاقے کے کچھ ایسے لوگوں میں سے ہے، جو بجریگر پرندوں کو پالتے ہیں۔ یہ چھوٹے پرندے خاص طور سے کولکاتا میں پالتو جانوروں کے طور پر مقبول ہیں۔ نیوگی فیملی انہیں آٹھ کلو میٹر دور، نارائن گنج کے بازار میں فروخت کرتی ہے۔ طوفان کی رات، کئی پنجرے ٹوٹ کر کھل گئے تھے، جس سے سبھی پرندے اڑ گئے۔ اگلی صبح وہ ان میں سے کچھ کو پکڑنے میں کامیاب رہے، لیکن زیادہ تر اڑ گئے۔ اس کی وجہ سے، ان پرندوں کو پالنے پر انہوں نے جو ۲۰ ہزار روپے خرچ کیے تھے، وہ بھی چلا گیا۔
دیگر نقصان لاکھوں میں ہیں۔ سمندری طوفان سے تباہ مانب تیرتھ پرائمری اسکول کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن، مادھو داس کہتے ہیں کہ انہیں اسکول کی دوبارہ تعمیر کے لیے ۲۵ ہزار روپے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’ہمارے پاس پیسے کم ہیں اور مانسون جلد ہی آ جائے گا۔ لیکن بچوں کی تعلیم سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ہمیں اپنے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس کی دوبارہ تعمیر کرنی چاہیے،‘‘ داس کہتے ہیں۔
لمبے عرصے سے طوفان، کھارے پانی اور دیگر قدرتی مسائل کا سامنا کر رہے سمندر بن میں کئی لوگوں کو ایسا پہلے بھی کرنا پڑا ہے – صفر سے دوبارہ شروع کرنا۔
مترجم: محمد قمر تبریز