اُس دن نسیم الدین کافی جذباتی ہو گئے تھے۔ ان کی زندگی میں ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ انہیں اپنے ماں باپ سے دور جانا پڑ رہا ہو۔ سات سال کے نسیم الدین کے لیے، گھر سے ۱۰-۱۲ کلومیٹر دور نئی جگہ جانے کا تجربہ ایسا تھا جیسے راستے میں ہر قدم پر کچھ چھوٹ جائے۔ ان کے من میں گھر پر گزارے گئے سالوں کی یادیں تھیں اور آنکھوں کے سامنے جیسے بچپن پیچھے چھوٹتا جا رہا تھا۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مجھے بہت برا لگ رہا تھا اور میں رونے لگا۔ گھر اور فیملی کو چھوڑ کر جانے کے خیال سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘
وہ ’راکھال‘ (جانوروں کی رکھوالی کرنے کا کام) کے طور پر کام کرنے کے لیے بھیجے جا رہے تھے۔ اب ۴۱ سال کے ہو چکے نسیم الدین بتاتے ہیں، ’’میری فیملی کی مالی حالت بہت خراب تھی، میرے ماں باپ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ حالات ایسے تھے کہ دو وقت کا کھانا تک نصیب نہیں ہو رہا تھا۔ زیادہ تر دنوں میں عالم یہ رہا کہ جو کچھ بھی بغیر کھاد پانی کی مشقت کے پیدا ہو جاتا تھا، ہم نے اسی کے سہارے دن میں بمشکل ایک بار کھانا کھایا۔ ہمارے گاؤں میں شاید ہی کوئی ایسا تھا جسے دو وقت کی روٹی نصیب ہو رہی ہو۔‘‘ پڑھائی لکھائی ان کے لیے دور کی کوڑی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس وقت میں اسکول جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہم لوگ بالکل بدحالی میں جی رہے تھے، تو میری فیملی میری پڑھائی لکھائی کا خرچ کیسے اٹھا سکتی تھی؟‘‘
اس لیے، انہیں دھبری ضلع کے اوراربھوئی گاؤں (تب آسام میں) واقع اپنا جھونپڑی نما چھوٹا سا گھر چھوڑ کر کام کی تلاش میں نکلنا پڑا اور اس سلسلے میں وہ ۳ روپے کا ٹکٹ لیکر بس سے منولّا پاڑہ گاؤں تک گئے۔ وہاں جس شخص نے انہیں کام دیا اس کے پاس ۷ گائیں اور ۱۲ بیگھہ زمین تھی۔ نسیم الدین گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ راکھال کا کام کرتے ہوئے زندگی بیحد مشکلوں بھری رہی۔ مجھے اس عمر میں بھی گھنٹوں کام کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے پورا کھانا تک نہیں ملتا تھا؛ اگر ملتا بھی تھا، تو وہ باسی ہوتا تھا۔ بھوک کی وجہ سے مجھے رونا آتا تھا۔ شروع شروع میں تو مجھے ایک روپیہ بھی نہیں ملتا تھا، ملتا تھا تو بس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا اور بستر لگاکر سونے کے لیے تھوڑی سی جگہ۔ ہر سال میرے مالک کے کھیتوں میں ۱۰۰-۱۲۰ من چاول کی پیداوار ہو جایا کرتی تھی۔ اس طرح کام کرتے ہوئے جب چار سال گزر گئے، تو مجھے بھی دو من چاول دیا جانے لگا۔‘‘ یعنی مارچ سے نومبر تک کے کھیتی کے سیزن کے ختم ہونے پر تقریباً ۸۰ کلو چاول۔
آسام اور میگھالیہ کی سرحد پر واقع دیہی علاقوں میں کچھ دہائی پہلے تک گھر کے نوجوان بچوں کو ’راکھال‘ کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے بھیجنے کا رواج تھا۔ غریب فیملی کے لوگ اپنے بچوں کو عام طور پر بغیر نقد مزدوری کرنے کے لیے امیر کسانوں کے یہاں چرواہا کا کام کرنے بھیج دیتے تھے۔ مقامی علاقوں میں اس قسم کے نظام کو ’پیٹ بھتّی‘ کہا جاتا تھا (جس کا لفظی معنی ’چاول سے پیٹ بھرنا‘ ہوتا ہے)۔
نسیم الدین کے دونوں چھوٹے بھائیوں کو بھی ان کے گاؤں اوراربھوئی میں ہی ’راکھال‘ کا کام کرنے بھیجا گیا تھا۔ ان کے والد حسین علی (۸۰ سال کی عمر میں جن کا پچھلے مہینے انتقال ہو گیا) بے زمین کسان تھے۔ وہ فصل بٹوارہ نظام کے تحت پٹہ پر لی گئی ۷-۸ بیگھہ زمین پر دھان کی کھیتی کرتے تھے۔ (ان کی ماں ناصرہ خاتون کا انتقال ۲۰۱۸ میں ہوا۔ وہ ایک ماہر خاتون خانہ تھیں۔)
نسیم الدین کافی محنتی تھے۔ ’راکھال‘ کا کام کرتے ہوئے وہ صبح ۴ بجے کے آس پاس بیدار ہو جاتے تھے اور کام میں لگ جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں فجر کی اذان کے وقت اٹھ جایا کرتا تھا۔‘‘ وہ چارہ تیار کرنے کے لیے بھوسے میں پانی ڈال کر اس میں سرسوں کی کھلی ملاتے تھے، گوشالہ کی صاف صفائی کرتے تھے، اور گایوں کو مالک کے بھائی کے ساتھ دھان کے کھیتوں میں لے جاتے تھے۔ وہاں وہ گھاس کاٹنے، گایوں کو پانی دینے اور بقیہ دیگر کام کرتے تھے۔ دن کے وقت کا کھانا کھیت میں ہی بھیج دیا جاتا تھا۔ فصل کی کٹائی کے سیزن میں کسی کسی دن وہ شام ہو جانے کے بعد بھی کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دن بھر کے تھکا دینے والے کام کے بعد شام کو بدن ٹوٹنے لگتا تھا اور پھر رات میں اگر پیٹ بھر کھانا نہ ملے یا باسی کھانا ملے تو سوچ کر دیکھئے کہ کیسا لگے گا؟ ایسا لگتا تھا جیسے میرے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ میں بہت بے بس اور لاچار محسوس کرتا تھا۔‘‘
گوشالہ میں بانس کی بنی چارپائی پر سرہانے پرانے کپڑوں کا بنا تکیہ لگائے اور پوال کے بستر پر سوتے ہوئے اکثر ان کی راتیں روتے اور سسکتے گزریں۔
انہیں ۲-۳ مہینے پر اپنے گاؤں جانے کی اجازت تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں بمشکل ۲-۳ دن ہی رک سکتا تھا۔ ہر بار گھر چھوڑ کر واپس کام پر جانا میرے لیے بیحد جذباتی کر دینے والا تجربہ رہا۔‘‘
جب نسیم الدین ۱۵ سال کے ہوئے، تو ان کے والد نے ان کا مالک بدلتے ہوئے ان کو کام کے لیے کہیں اور بھیج دیا۔ اس بار انہیں ایک تاجر کسان کے گھر بھیجا گیا تھا، جس کے پاس ۳۰-۳۵ بیگھہ زمین، کپڑے کی ایک دکان، اور دیگر کاروبار تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دوبارہ کام پر کسی نئی جگہ جاتے ہوئے مجھے گھر کی بہت یاد آ رہی تھی اور مجھے رونا بھی آیا۔ سوڈھا بیپاری (نیا مالک) نے اپنی فیملی سے میرا تعارف کرایا اور مجھے ۲ روپے تحفہ میں دیا۔ میں نے بعد میں اس پیسے سے چاکلیٹ خریدی۔ مجھے اس سے تھوڑی خوشی ہوئی۔ کچھ دنوں بعد مجھے بہتر لگنے لگا اور میں نے ان کے ساتھ تال میل بیٹھا لیا۔‘‘
پھر کم و بیش ویسا ہی تھا، گوشالہ میں سونے کے لیے ایک کونا اور فصل کی کٹائی کا سیزن ختم ہونے پر دو بورا چاول اور ساتھ میں ۴۰۰ روپے نقد، جو کہ یک مشت سالانہ تنخواہ تھی۔ ان کے روزانہ کے کام کاج میں مویشیوں کو چرانے لے جانا اور گوشالہ کی صاف صفائی جیسے کام شامل تھے۔ لیکن نسیم الدین کی زندگی یہاں آ کر تھوڑی بہتر ہو گئی تھی۔ وہ اب ۱۵ سال کے تھے اور زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتے تھے۔ ساتھ ہی، وہ کہتے ہیں کہ ان کا نیا مالک تھوڑا رحم دل تھا۔
کھانے میں گرما گرم چاول، سبزیوں، اور مچھلی یا میٹ کری نے ’پنٹا بھات‘ (باسی چاول) کی جگہ لے لی تھی، جو کہ پچھلے مالک کے یہاں کام کرتے ہوئے انہیں کھانے کو نہیں ملتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اگر میں ان کے ساتھ بازار جاتا تھا، تو مجھے رس گلے کی دعوت ملتی تھی۔ اور عید پر نئے کپڑے ملتے تھے۔ ایسے موقعوں پر مجھے لگتا تھا جیسے میں ان کی فیملی کا رکن ہوں۔‘‘
مگر ان کے والد کے تو کچھ اور ہی ارادے تھے۔ دو سال بعد تقریباً ۱۷ سال کی عمر میں انہیں ایک اور بار نئی جگہ کام پر بھیج دیا گیا۔ اب کی بار ان کے اپنے گاؤں اوراربھوئی میں ہی۔ گاؤں کے سرپنچ نے انہیں ۱۵۰۰ روپے کی سالانہ تنخواہ پر کام پر رکھا اور ساتھ میں فصل کی کٹائی کے سیزن کے ختم ہونے پر اب تک ملتا آ رہا دو بوری چاول دینا بھی جاری رکھا۔
اس طرح دھیرے دھیرے ایک اور سال گزر گیا۔
نسیم الدین کہتے ہیں، ’’مجھے اکثر لگتا تھا کہ میری زندگی غلامی میں ہی گزر جائے گی۔ لیکن، مجھے اس وقت کوئی اور راستہ نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔‘‘ پھر بھی انہوں نے امید نہیں چھوڑی اور دوسروں کی غلامی چھوڑ کر خود ہی کچھ کرنے کا خواب دیکھنا جاری رکھا۔ انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ نوے کی دہائی آتے آتے علاقے کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے لیے سرکار کی طرف سے قدم اٹھائے جانے کے بعد روزگار کے موقعے بنے، تو ان کے گاؤں کے نوجوان لڑکے کام کے سلسلے میں باہر جانے لگے تھے۔ ان نوجوانوں کو ’راکھال‘ کا کام اب راس نہیں آ رہا تھا اور اس لیے قصبوں اور شہروں میں ہی چائے کی دکانوں اور ڈھابوں پر کام کرکے، وہ مہینے میں ۳۰۰-۵۰۰ روپے تک کمانے لگے تھے۔ پھر کام سے فرصت پاکر جب وہ گھر لوٹتے، تو ان کے پاس نسبتاً زیادہ نقد پیسے ہوتے تھے۔
انہیں بالکل نئے ریڈیو سنتے اور چمکدار گھڑیاں پہنتے دیکھ کر نسیم الدین کو اندر ہی اندر بے چینی ہونے لگتی تھی اور کچھ نے تو سائیکل تک خرید لی تھی۔ وہ دماغ پر تھوڑا زور ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’وہ امیتابھ بچن اور متھن چکرورتی کی طرح بیل باٹم (چوہری مہری) پینٹ پہننے لگے تھے اور تھوڑے صحت مند بھی نظر آنے لگے تھے۔ وہ کیا کرتے تھے اور ان سب چیزوں کا بندوبست کیسے کرتے تھے، ان سب کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیے، میں ان سے کبھی کبھی کچھ پوچھ لیا کرتا تھا۔ اور آخرکار میں نے بھی ان کے ساتھ ہو لینے کا فیصلہ کیا۔‘‘
نسیم الدین کو ان کے گاؤں سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور میگھالیہ کے باگھ مارہ قصبہ میں کام کی جانکاری ملی۔ انہوں نے کسی سے اس کا ذکر کیے بغیر آنے جانے کے بارے میں جانکاری حاصل کی اور ایک منصوبہ بنایا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں تھوڑا تناؤ محسوس کر رہا تھا، لیکن میں نے ارادہ کر لیا تھا۔ اس بات کے امکان سے کہ میرے گھر والے پیچھے پیچھے آ جائیں گے اور مجھے واپس آنے کو مجبور کریں گے، میں نے گھر پر بھی کسی کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔‘‘
ایک دن صبح صبح مویشیوں کو چرانے لے جانے کی بجائے نسیم الدین بھاگنے لگے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں ان میں سے ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلا، جن سے میں کام کے سلسلے میں باہر جانے کے بارے میں بات چیت کرتا آیا تھا۔ ہم تب تک دوڑتے رہے جب تک کہ ہتسنگی ماری قصبہ کا بس اسٹاپ نہیں آ گیا۔ وہاں سے باگھ مارہ جانے کے سفر میں تقریباً نو گھنٹے کا وقت لگا۔ میں نے کچھ کھایا بھی نہیں۔ میرے پاس تو ۱۷ روپے کے ٹکٹ کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ میں نے باگھ مارہ پہنچنے کے بعد اپنے گاؤں کے ہی ایک دوسرے لڑکے سے کچھ پیسے قرض لیے۔‘‘
نسیم الدین کہتے ہیں، ’مجھے اکثر لگتا تھا کہ میری زندگی غلامی میں ہی گزر جائے گی۔ لیکن، مجھے اس وقت کوئی اور راستہ نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔‘ پھر بھی انہوں نے امید نہیں چھوڑی اور دوسروں کی غلامی چھوڑ کر خود ہی کچھ کرنے کا خواب دیکھنا جاری رکھا
اپنی منزل پر بغیر روپے پیسے کے خالی پیٹ پہنچنے کے بعد، نسیم الدین ’رومونی چا دکان‘ (رومونی کی چائے کی دکان) کے سامنے بس سے اترے۔ اکیلے بچے کی آنکھوں میں بھوک کی بے چینی محسوس کرتے ہوئے دکان کے مالک نے انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔ نسیم الدین کو کھانا کھلایا گیا، رہنے کی جگہ، اور برتن دھونے کا کام دیا گیا۔
وہاں پہنچنے کے بعد پہلی رات نسیم الدین کے لیے آنسوؤں کا سیلاب لیے آئی۔ وہ گاؤں کے مالک کے پاس بقیہ پڑی اپنی تنخواہ کے ۱۰۰۰ روپے کے بارے میں سوچ کر روئے۔ اس وقت صرف پیسہ ہی ان کی فکر کا واحد سبب تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے بہت برا لگا۔ میری کڑی محنت کے بعد بھی اتنی بڑی رقم فضول میں ہاتھ سے چلی گئی۔‘‘
مہینوں کام کرتے ہوئے گزر گئے۔ انہیں چائے کا کپ اور پلیٹ دھونا اور انہیں میز پر لگانا آ گیا۔ انہوں نے گرما گرم چائے بنانا بھی سیکھ لیا۔ انہیں کام کے بدلے ہر مہینے ۵۰۰ روپے ملتے تھے اور انہوں نے سارا پیسہ بچا لیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب میں نے ۱۵۰۰ روپے اکٹھا کر لیے، تو مجھے لگا کہ اب ماں باپ سے ملنے واپس جانا چاہیے۔ مجھے معلوم تھا کہ اتنے روپے ان کے لیے بہت راحت دینے والے ثابت ہوں گے۔ اور میں گھر جانے کو لیکر بے قرار ہو رہا تھا۔‘‘
گھر لوٹنے کے بعد انہوں نے اپنی ساری بچت اپنے والد کو سونپ دی۔ فیملی کا برسوں پرانا قرض ادا کر دیا گیا اور وہ کہتے ہیں کہ ان کی فیملی نے بھاگ جانے کی بات کو بھلا دیا۔
ایک مہینہ بعد نسیم الدین باگھ مارہ واپس آ گئے اور ۱۰۰۰ روپے کی ماہانہ تنخواہ کے بدلے چائے کی ایک دوسری دکان پر برتن دھونے کا کام پا لیا۔ جلد ہی انہیں ویٹر بنا دیا گیا اور وہ چائے دینے، مٹھائیاں اور دیگر ناشتہ، مثلاً پوڑی سبزی، پراٹھے، سموسے، رس ملائی، رس گلا، اور دیگر چیزیں پہنچانے اور پیش کرنے کا کام کرنے لگے۔ وہ صبح ۴ بجے سے رات کے ۸ بجے تک کام کرتے تھے۔ سارے نوکر-ویٹر ڈھابے پر ہی سو جاتے تھے۔
انہوں نے یہاں تقریباً چار سال تک کام کیا اور باقاعدگی سے پیسے گھر بھیجتے رہے۔ جب تقریباً ۴۰۰۰ روپے کی بچت ہو گئی، تو نسیم الدین نے گھر واپس لوٹنے کا ارادہ کیا۔
اپنے بچت کے پیسوں سے انہوں نے ایک بیل خریدا اور پٹہ پر لی گئی زمین کو جوتنے کا کام شروع کر دیا۔ ان کے گاؤں میں کام کے لحاظ سے صرف یہی کیا جا سکتا تھا۔ جتائی، بوائی اور گھاس پھوس کی کٹائی کے کام میں ان کا پورا دن نکل جاتا تھا۔
ایک دن صبح صبح جس کھیت میں وہ کام کر رہے تھے، اس کے قریب سے ہی حلوائیوں کا ایک گروپ گزر رہا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے پوچھا کہ وہ المونیم کی بڑی بڑی تشتریوں میں کیا لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ رس گلا ہے۔ تب مجھے سمجھ آیا کہ یہ منافع کا سودا ہے۔ مجھے اس بات کی پشیمانی ہوئی کہ میں نے چائے کی ایک دکان پر کام کیا تھا، جہاں رس گلے بنائے جاتے تھے، لیکن میں انہیں بنانا سیکھ نہیں پایا۔‘‘
نسیم الدین اب زندگی میں تھوڑی استقامت چاہتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میری عمر (۲۰ سال کے آس پاس کی عمر) کے لڑکوں کی شادیاں ہو رہی تھیں۔ ان میں سے کچھ کو کسی سے محبت تھی۔ مجھے لگا کہ اب وقت ہے کہ مجھے بھی اپنی شریک حیات ڈھونڈ لینی چاہیے، اپنا گھر بنانا اور بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرنا چاہیے۔‘‘ وہ ایک کسان کے کھیتوں کی سینچائی کر رہی ایک عورت کی طرف راغب ہوئے۔ وہ اسے دھان کے سرسبز کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ ایک دن انہوں نے کسی طرح اس سے بات کرنے کی ہمت جٹائی۔ ان کا داؤ الٹا پڑ گیا۔ وہ بھاگ گئی اور اگلے دن سے کام پر آنا ہی بند کر دیا۔
وہ یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں نے اس کا انتظار کیا، لیکن وہ دوبارہ کبھی نظر نہیں آئی۔ اس کے بعد میں نے اپنے بہنوئی سے بات کی اور انہوں نے میرے لیے لڑکی دیکھنا شروع کیا۔‘‘ انہوں نے فیملی کی پسند کی لڑکی سے شادی کی۔ اب ۳۵ سال کی ہو چکی ان کی بیوی بالی خاتون، پاس کے ہی ایک گاؤں کے حلوائی کی بیٹی ہیں۔ (بعد میں انہیں پتہ چلا کہ پہلی بار جس پر ان کا دل آیا تھا وہ ان کی بیوی کی چچی تھیں۔)
شادی کے بعد بیوی کی فیملی سے مٹھائی بنانے کا ہنر سیکھنے کا موقع ان کے ہاتھ لگا۔ پہلی بار انہوں نے تین لیٹر دودھ سے مٹھائی بنانے کی کوشش کی اور ۱۰۰ رس گلے بنائے۔ گھر گھر جاکر ایک روپیہ میں ایک رس گلا بیچتے ہوئے انہوں نے ۵۰ روپے کا منافع کمایا۔
جلد ہی یہ ان کی آمدنی کا مستقل ذریعہ بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ فیملی کے قرضے ادا کرنے اور قحط یا سیلاب کی وجہ سے کھیتی میں ہوئے نقصان کی تلافی کرنے میں کامیاب رہے۔
سال ۲۰۰۵ میں ۲۵ سال کی عمر میں نسیم الدین اپنے گاؤں سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور میگھالیہ کے جنوب مغربی گارو پہاڑیوں والے ضلع کی سرحد پر واقع مہندر گنج گئے۔ انہوں نے ایسی باتیں سنی تھیں کہ وہاں مٹھائی کا کاروبار اچھا چلے گا۔ لیکن قصبے میں اجنبی ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلیں پیش آ رہی تھیں۔ ان دنوں سلسلہ وار طریقے سے ہوئی لوٹ پاٹ کی وجہ سے تھوڑا ڈر کا ماحول بنا ہوا تھا۔ لوگ محتاط ہو گئے تھے۔ نسیم الدین کو منظم جگہ کی تلاش کرنے میں تین مہینے کا وقت لگا اور مٹھائیوں کے بہتر گاہک بنانے میں تین سال کا وقت لگا۔
ان کے پاس کوئی جمع پونجی نہیں تھی، اس لیے انہوں نے پیسے بعد میں دینے کی شرط پر اپنا کاروبار شروع کیا اور ساری سپلائی کے لیے پیسے دینے کے لیے کچھ وقت لیا۔ ان کی بیوی بالی خاتون ۲۰۱۵ میں مہندر گنج چلی آئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں تین بچے آئے، ۱۸ سال کی ہو چکی بیٹی راج مینا خاتون، اور بیٹے فرید الاسلام اور شرف الاسلام، جن کی عمر بالترتیب ۱۷ اور ۱۱ سال ہے۔ ان کے دونوں بیٹے ابھی اسکول میں پڑھتے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے نسیم الدین کو ہر مہینے ۱۸-۲۰ ہزار روپے کا منافع ہو رہا ہے۔ فیملی کا کاروبار مزید بڑھ گیا ہے۔ رس گلے کے ساتھ ساتھ وہ اور بالی خاتون جلیبیاں بھی بناتے ہیں۔
نسیم الدین ہفتہ میں ۶-۷ دن کام کرتے ہیں اور یہ بات سیزن پر منحصر کرتی ہے۔ وہ اور بالی خاتون، عام طور پر رس گلا دوپہر میں یا شام کے وقت بناتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ۵ لیٹر دودھ اور ۲ کلو چینی کا استعمال کرتے ہیں اور تب جاکر ۱۰۰ بالکل سفید رس گلے بنتے ہیں جنہیں وہ جمع کر لیتے ہیں۔ وہ صبح میں جلیبیاں بھی چھانتے ہیں، جسے تازہ تازہ ہی بنانا اور بیچنا ہوتا ہے۔ نسیم الدین دونوں چیزوں کو ترتیب سے رکھ کر گھر سے نکلتے ہیں اور انہیں گھر گھر جاکر یا چائے کی دکانوں پر بیچتے ہوئے دوپہر میں دو بجے کے آس پاس گھر لوٹتے ہیں۔
چھوٹے پیمانے پر مٹھائیوں کے کاروبار کے سہارے چل رہی ان کی زندگی کی گاڑی اچانک اس وقت رک گئی جب مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے اچانک ملک گیر لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔ اس کے بعد کے کچھ ہفتے ان کی فیملی کے لیے بیحد مشکلوں بھرے رہے۔ انہوں نے چاول، دال، سوکھی مچھلیوں اور لال مرچ پاؤڈر کے معمولی سے اسٹاک کے سہارے گزر بسر کیا۔ آگے ان کے مکان مالک نے چاول اور سبزیوں کا انتظام کرنے میں مدد کی۔ (چونکہ نسیم الدین مہندر گنج میں بطور مہاجر کارکن رہتے ہیں، اس لیے سرکار کی طرف سے راحتی اشیاء کے طور پر دی جا رہی چیزیں ان کے راشن کارڈ پر انہیں نہیں دی جا سکتیں۔)
کچھ دنوں بعد وہ گھر رہتے ہوئے تنگ ہو رہے پڑوسیوں کو رس گلے بیچنے میں کامیاب رہے اور اس سے ان کی ۸۰۰ روپے کی آمدنی ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کی ذرا بھی آمدنی نہیں ہوئی۔
لاک ڈاؤن کے لگنے کے بعد ایک مہینہ کا وقت گزر گیا تھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت ان کے مکان مالک نے ان سے جلیبی کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ نسیم الدین نے موجود سامان کی مدد سے تھوڑی جلیبی بنائی۔ پھر ان کے پڑوسی بھی جلیبی کی مانگ کرنے لگے۔ نسیم الدین نے پاس میں ہی کیرانہ کے سامان کی دکان سے تھوڑا آٹا، چینی اور کھجور کا تیل اُدھار لیا۔ وہ ہر دن دوپہر میں جلیبی بنانے لگے اور اس طرح ہر دن ان کی ۴۰۰-۵۰۰ روپے کی کمائی ہونے لگی۔
اپریل میں رمضان کے مہینہ کی شروعات میں جلیبی کی مانگ اور بڑھ گئی۔ آس پاس پولیس چوکی ہونے کے باوجود ہفتہ میں ایک یا دو بار وہ ماسک لگاکر اور سینٹائزر کا استعمال کرتے ہوئے، احتیاط کے ساتھ ایک گاؤں میں جلیبی فروخت کر آئے تھے۔ اس سے لاک ڈاؤن کی شروعات میں ہونے نقصان کی تلافی ہو گئی اور قرض اتر گیا۔
لاک ڈاؤن ہٹا لیے جانے کے بعد وہ پھر سے رس گلا اور جلیبی کا کاروبار کرنے میں مصروف ہو گئے۔ حالانکہ، وہ کہتے ہیں کہ ان کی آمدنی کا کافی حصہ ان کے والد، بیوی اور بیٹی کی معمولی، لیکن لگاتار بیماری پر خرچ ہوا۔
سال ۲۰۲۰ کے آخر میں نسیم الدین نے آسام واقع اپنے گاؤں اوراربھوئی میں اپنا خود کا مکان بنوانا شروع کیا۔ ان کی بچت کا کافی بڑا حصہ اس میں لگ گیا۔
اس کے بعد ۲۰۲۱ کا لاک ڈاؤن آیا۔ نسیم الدین کے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی (اور جولائی میں ان کا انتقال ہو گیا)۔ ان کا کاروبار عام طور پر بالکل ٹھپ پڑا رہتا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’وبائی مرض کے دوران میری آمدنی باقاعدہ نہیں رہی ہے۔ میں آس پاس کے گاؤوں میں پیدل ہی مٹھائی بیچنے جاتا ہوں، کبھی کبھی ۲۰-۲۵ کلو مٹھائیوں کا وزن اٹھائے ۲۰-۲۵ کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اور اب میں ہفتہ میں ۶-۷ دن کی بجائے ۲-۳ دن ہی سودا بیچ پا رہا ہوں۔ مجھے تکھان محسوس ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں زندگی اور مشکل ہو گئی ہے۔ لیکن پھر اتنی مشکل نہیں جتنی مشکل بچپن کے دنوں میں تھی۔ ان دنوں کی یاد آتے ہی آج بھی آنسو چھلک پڑتے ہیں۔‘‘
رپورٹر کی بات: نسیم الدین شیخ اپنی فیملی کے ساتھ مہندر گنج واقع میرے والدین کے ذریعے بنائے گئے پرانے مکان میں ۲۰۱۵ سے کرایہ دار کے طور پر رہ رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکان رہتی ہے، وہ میرے والدین کے کام میں ہر ممکن مدد کرتے ہیں اور کبھی کبھی ہمارے سبز باغ کی دیکھ ریکھ بھی کرتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز