ہم ایک موٹے ہاتھی کے قدموں کے نشان ڈھونڈنے کے لیے پہاڑیوں اور کھیتوں میں گھوم رہے ہیں۔
ہمیں ایسے بہت سے نشان ملتے ہیں جو سائز میں کھانے کی پلیٹ سے کہیں زیادہ بڑے ہیں، اور نرم زمین پر کافی گہرے بنے ہوئے ہیں۔ جو نشان پرانے ہیں، وہ آہستہ آہستہ مسخ ہو رہے ہیں۔ بقیہ نشان ان جانوروں کی کارستانی بیان کر رہے ہیں: تھوڑی آوارہ گردی، اچھا کھانا، اور ڈھیر سارا گوبر۔ اور جن چیزوں سے ہوکر انہوں نے اپنی پگڈنڈیاں بنائی ہیں: گرینائٹ پول، تار کے باڑ، درخت، دروازے…
ہم ہاتھی سے متعلق ان تمام چیزوں کی تصویر کھینچنے کے لیے رکتے ہیں۔ میں اپنے ایڈیٹر کو قدموں کے نشان کی ایک تصویر بھیجتی ہوں۔ ’’کیا یہ ہاتھی کا ہے؟‘‘ اس امید میں کہ شاید وہ اس کا ’ہاں‘ میں جواب دیں۔ حالانکہ، میں دعا کر رہی ہوں کہ ہاتھی کی موجودگی سے متعلق ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے۔
کیوں کہ، میں نے یہی سنا ہے کہ کرشنا گیری ضلع کی گنگن ہلّی بستی میں اس بات کی امید مت کیجئے گا کہ ہاتھی اپنی سونڈ کو آپ کے سر پر رکھ کر آشیرواد دیں گے اور بدلے میں کھانے کو کیلا مانگیں گے۔ مندر کے ہاتھی بھلے ہی ایسا کرتے ہوں، لیکن یہاں کے ہاتھی ان کے جنگلی بھائی بہن ہیں۔ اور وہ عام طور سے بھوکے ہوتے ہیں۔
دسمبر ۲۰۲۱ میں، تمل ناڈو کے کرشنا گیری ضلع میں راگی کے کسانوں سے ملنے کے لیے کیا گیا میرا سفر، مجھے غیر متوقع طور پر ہاتھیوں کے آنے جانے والے راستے پر لے گیا۔ میں نے سوچا کہ اس علاقے میں رہنے والے لوگ کاشتکاری سے جڑی معیشت کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ ظاہر ہے، کچھ لوگوں نے اس پر بات بھی کی۔ لیکن، ایک کھیت سے دوسرے کھیت پر جاتے ہوئے، راستے میں زیادہ تر لوگوں نے یہی بتایا کہ وہ صرف اپنے گھریلو استعمال کے لیے ہی راگی اُگاتے ہیں – اور اس کی وجہ ہاتھی ہے۔ کم قیمت (۳۵ سے ۳۷ روپے کی بجائے، ۲۵ سے ۲۷ روپے فی کلو)، ماحولیاتی تبدیلی، اور حد سے زیادہ بارش کی وجہ سے کسانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوپر سے ہاتھیوں کے حملے نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔
آنند رامو ریڈی اسے ذرا تفصیل سے بتاتے ہیں، ’’ہاتھی کافی ذہین ہوتے ہیں۔ انہوں نے تار کی رسیوں کو نیچے کرنا اور تار کے باڑ کو پار کرنا سیکھ لیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ بجلی کے کرنٹ والے باڑ کو درختوں سے کیسے شارٹ سرکٹ کیا جاتا ہے۔ اور وہ ہمیشہ جھنڈ کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘‘ آنند (جیسا کہ لوگ انہیں پکارتے ہیں)، دینکنی کوٹّئی تعلق میں واقع ایک بستی، واڈرا پلایم کے ایک کسان ہیں۔ وہ ہمیں گھمانے کے لیے میلا گیری ریزرو فاریسٹ کے کنارے لے جاتے ہیں، جو کہ کاویری نارتھ وائلڈ لائف سینکچوری کا حصہ ہے۔
برسوں سے یہ ہاتھی جنگلوں کے باہر اور کھیتوں میں یونہی گھومتے رہے ہیں۔ موٹی کھال والے جانوروں کے یہ گروپ گاؤوں میں آتے، راگی کی زیادہ تر فصل کو کھا جاتے اور بقیہ کو برباد کر جاتے۔ اس کی وجہ سے کسانوں کو ٹماٹر، گیندا، گلاب کے پھول جیسے متبادل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہونا پڑا، جن کے متعلق ان کا خیال ہے کہ بازار میں اس کی قیمت بھی ملتی ہے اور ہاتھی ان فصلوں کو کھاتے بھی نہیں ہیں۔ آنند بتاتے ہیں، ’’سال ۱۹-۲۰۱۸ میں بجلی دوڑنے والے تار سے باڑ لگانے کے بعد، اب یہاں ہاتھیوں کا جھنڈ نہیں آتا ہے۔ لیکن موٹّئی وال، مکّانا، گیری … جیسے نر ہاتھیوں کو کوئی نہیں روک سکتا، اُن کی بھوک انہیں باہر نکلنے اور ہمارے کھیتوں میں آنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔‘‘
تمل ناڈو کے کرشنا گیری اور دھرم پوری ضلعوں کے اعزازی وائلڈ لائف وارڈن، ایس آر سنجیو کمار بتاتے ہیں، ’’انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کی ایک بڑی وجہ جنگل کا معیار ہے۔‘‘ ان کا اندازہ ہے کہ اکیلے کرشنا گیری میں، ۳۳۰ گاؤوں اس مسئلے کے شکار ہیں۔
سنجیو کمار جنگلاتی حیات کے تحفظ سے متعلق ایک این جی او، کینیتھ اینڈرسن نیچر سوسائٹی (کے اے این ایس) کے بانی رکن اور سابق صدر بھی ہیں۔ اس علاقہ میں میرے دورہ کے کچھ دنوں بعد ہی، ژوم کال پر انہوں نے ایک پریزنٹیشن شیئر کی۔ اسکرین پر نظر آنے والی تصویر حیران کر دینے والی تھی۔ اس میں ہاتھی کی شکل کے سیاہ دھبے دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’’اس میں سے ہر ایک [سیاہ دھبہ] وہ گاؤں ہے جہاں [انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان] یہ تصادم ہوتا ہے۔ اور یہ ڈیٹا، فصل برباد ہونے کے بعد معاوضے کے لیے کی گئی درخواستوں سے جمع کیا گیا ہے۔‘‘
ہاتھی، شمال مشرقی مانسون کے فوراً بعد حملہ کرتے ہیں، جب فصلیں کاٹنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔ ’’انسانوں کی بھی موت ہوتی ہے، [کرشنا گیری ضلع میں] سال میں ۱۲ یا ۱۳، اور یہ موت دسمبر اور جنوری کے درمیان زیادہ ہوتی ہے جو کہ عام طور سے راگی کی فصل کاٹنے کا وقت ہوتا ہے۔‘‘ ہاتھی بھی مرتے ہیں۔ ’’جوابی حملہ ہوتا ہے۔ اور ریلوے لائنوں، شاہراہوں پر ہونے والے حادثوں میں ان کی موت ہو جاتی ہے، یا پھر وہ کسی کھلے ہوئے کنویں میں گرنے سے مر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلی سور کو روکنے کے لیے جو بجلی کے تار لگائے گئے ہیں، ان سے کرنٹ لگنے کے بعد بھی ہاتھیوں کی موت واقع ہوتی ہے۔
سنجیو بتاتے ہیں کہ ہاتھی، پودوں کی ۱۰۰ سے زیادہ انواع کھاتے ہیں۔ ’’وہ پودے کے کئی حصوں کو کھاتے ہیں۔ قید میں رکھے گئے ہاتھیوں پر کیے گئے مشاہدے کی بنیاد پر، ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ ۲۰۰ کلو گھاس کھاتے ہیں اور ۲۰۰ لیٹر پانی پیتے ہیں۔ ’’لیکن،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’جنگل میں، یہ مقدار الگ الگ موسموں میں کافی مختلف ہوتی ہے – اسی لیے ان کی صحت بھی مختلف ہو سکتی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ، ایک حملہ آور اور تیزی سے پھیلنے والا پھول دار پودا، پنچ پھول (Lantana camara) اب ’’ہوسور خطہ میں موجود جنگل کے ۸۵ سے ۹۰ فیصد حصے میں پھیل چکا ہے‘‘۔ یہ ایک سخت جان پودا ہے، جسے بکریاں اور گائیں چھوتی تک نہیں ہیں، اور یہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ ’’باندی پور اور نگر ہول کا بھی یہی حال ہے۔ پنچ پھول کو کاٹ کر سفاری کے لیے راستے صاف کیے گئے ہیں تاکہ گھاس چرنے کے لیے وہاں ہاتھی آ سکیں اور سیاح انہیں دیکھ سکیں۔‘‘
سنجیو اپنی دلیل دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جنگل میں پنچ پھول کی زیادتی کی وجہ سے ہی ہاتھی اپنے علاقوں سے باہر نکلتے ہیں۔ اس کے علاوہ، موٹے ہاتھیوں کے لیے راگی ایک رسیلی اور ذائقہ دار غذا ہے۔ ’’اگر ان کی جگہ میں ہوتا، تو میں بھی اسے کھانے کے لیے آتا۔‘‘ خاص کر نر ہاتھی، ان فصلوں پر حملہ کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں، کیوں کہ ۲۵ سے ۳۵ سال کی عمر کے درمیان ان کا جسم تیزی سے بڑھتا ہے۔ لہٰذا، اسی عمر کے ہاتھی سب سے زیادہ خطرہ مول لیتے ہیں۔
لیکن موٹّئی وال نہیں ایسا نہیں کرتا۔ وہ پرانا جانور ہے اور اپنی حدود کو جانتا ہے۔ سنجیو کا ماننا ہے کہ وہ ۴۵ سے زیادہ اور تقریباً ۵۰ سال کا ہے۔ وہ اسے ’سب سے پیارا‘ ہاتھی کہتے ہیں۔ ’’میں نے ایک ویڈیو دیکھی ہے، جب وہ مُست میں ہے۔‘‘ ( مُست نر ہاتھیوں میں بائیولوجیکل اور ہارمون میں اضافے سے متعلق حالت ہے، جسے عام اور صحت مند دونوں تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ ۳-۲ مہینوں تک اور بھی زیادہ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔) ’’عام طور پر، وہ پر تشدد ہو سکتے ہیں، لیکن موٹئی وال پر امن ہے۔ وہ الگ الگ عمر کے ہاتھیوں کے ساتھ ایک جھنڈ میں تھا، اور خاموشی سے ایک طرف کھڑا تھا۔ اس نے دنیا دیکھی ہے۔‘‘
سنجیو کا اندازہ ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے ۹ فٹ لمبا ہے اور اس کا وزن شاید ۵ ٹن کے آس پاس ہے۔ اس کا ایک ساتھی مکّانا بھی ہے، اور وہ دوسرے نر ہاتھیوں کے ساتھ بھی گھومتے ہیں۔ ’’کیا اس کے بچے ہوں گے؟‘‘ میرے یہ پوچھنے پر سنجیو ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس کے تو بہت سارے بچے ہوں گے۔‘‘
لیکن جب وہ اپنے جسم کی نشو و نما کی حد کو پار کر چکا ہے، تو وہ کھیتوں پر حملہ کیوں کرتا ہے؟ سنجیو کمار اس کے جواب میں موٹئی وال کی جسمانی حالت کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بات کرتے ہیں۔ ’’اسے باہر بہت اچھا کھانا ملتا ہے۔ جیسے راگی، کٹہل اور آم۔ انہیں کھانے کے بعد، وہ واپس جنگل میں چلا جاتا ہے۔‘‘ دیگر نر ہاتھی ہیں جو گوبھی، بینس، پھول گوبھی بھی کھاتے ہیں۔ سنجیو کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے اجنبی کھانے ہیں، جو حشرہ کُش سے اُگائے جاتے ہیں۔
’’تین سال پہلے بہت برا حال تھا۔ ٹماٹر اور بینس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ لگانے والے کسانوں کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ اور جب ہاتھی ایک حصہ کھاتا ہے، تو وہ اس سے پانچ گنا زیادہ نقصان کرتا ہے۔‘‘ زیادہ تر کسان ایسی فصلوں کی طرف رخ کر رہے ہیں، جنہیں ہاتھی نہیں کھاتے۔ موٹئی وال اور ان کے دوست اس علاقے میں زرعی طور طریقوں کو مؤثر طریقے سے بدل رہے ہیں۔
برسوں سے ہاتھی جنگل سے نکل کر کھیتوں میں گھوم رہے ہیں۔ موٹی چمڑی والے جانوروں کا یہ جھنڈ گاؤوں میں آتا ہے، راگی کی فصلوں کے بڑے حصے کو چٹ کر جاتا ہے
*****
’پہلے ہمیں کچھ معاوضہ مل جاتا تھا، وہ
[عہدیدار] صرف تصویریں لیتے ہیں، لیکن ہمیں کوئی پیسہ نہیں ملتا ہے‘
ونودمّا، گُملا پورم گاؤں کی گنگن ہلّی
بستی کی کسان
گوپی شنکر سبرامنی اُن چنندہ لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے موٹئی وال کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ گولّا پلّی سے آدھے گھنٹے کی دوری پر ان کی ایک غیر سرکاری تنظیم، نو درشنم ہے جہاں میں اپنے میزبان گوپا کمار مینن کے ساتھ ٹھہری ہوں۔
گوپی جس دوست سے ملنا چاہتے تھے، اسے چھوڑ کر ایک دوسرا ہاتھ ملا، جو لمبا چوڑا اور کافی شرمیلا تھا۔ تبھی موٹئی وال تقریباً فوراً ہی دور چلا گیا۔ پہاڑی پر ایک خوبصورت گھر کے برآمدے میں بیٹھے گوپی ہمیں کئی کہانیاں سناتے ہیں۔ کچھ راگی سے جڑی، لیکن زیادہ تر ہاتھیوں کے بارے میں۔
تعلیمی لیاقت کے لحاظ سے ایئرو اسپیس انجینئر گوپی نے کھیتی کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے شعبہ کو چھوڑ دیا۔ گُملا پورم گاؤں کی گنگن ہلّی بستی میں نو درشنم ٹرسٹ کے زیر کنٹرول ۱۰۰ ایکڑ زمین پر وہ برسوں سے رہ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ٹرسٹ کی مالی ضرورتیں وہاں رہنے والے لوگوں، سیاحوں اور ورکشاپ کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ ’’ہم بڑے منصوبے نہیں بناتے ہیں، ہمارے پاس بہت بڑا بجٹ نہیں ہے، ہم سب کچھ بالکل سادہ اور چھوٹا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی سب سے اہم سرگرمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ارد گرد کے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر فوڈ کوآپریٹو چلاتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کو زندہ رہنے کے لیے جنگل پر منحصر رہنا پڑتا تھا، کیوں کہ سال کے صرف کچھ ہی مہینوں میں کھیتی کا کام ہوتا تھا۔
گوپی بتاتے ہیں، ’’ہم نے ۳۰ کنبوں کی مدد کی، جس میں سے زیادہ تر گنگن ہلّی گاؤں سے ہیں۔ ہم نے انہیں جگہ اور اونچی قیمت والی غذائی اجناس کے بارے میں معلومات فراہم کرکے جنگل پر ان کے انحصار کو کم کیا۔‘‘ راگی اب عام طور پر اُن کے گھروں کے لیے اُگائی جاتی ہے۔ اور صرف اضافی فصل کو ہی فروخت کیا جاتا ہے۔
نو درشنم میں گزارے گئے پچھلے ۱۲ سالوں میں گوپی نے جو سب سے اہم تبدیلی دیکھی ہے، وہ راگی کی انواع میں تبدیلی ہے۔ چار سے پانچ مہینوں میں تیار ہونے والی مقامی راگی کی نسل سے صرف ۳ مہینے میں تیار ہونے والی راگی کی ہائبرڈ قسم۔ ان کا کہنا ہے کہ جب خشک زمین کی فصل زیادہ وقت تک زمین پر رہتی ہے، تو یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہوتا ہے۔ ’’یہ کہیں زیادہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ قلیل المدتی فصل کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ ایک مٹھی راگی کی بجائے دو مٹھی راگی کھا رہے ہیں۔ ’’یہی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔‘‘
لیکن کسان ہائبرڈ فصل اُگانے کے لیے مجبور ہوئے ہیں، کیوں کہ ایک تیزی سے پیدا ہونے والی فصل کو زیادہ وقت تک محفوظ نہیں کرنا پڑتا؛ اور بازار فصلوں میں فرق نہیں کرتا۔ گوپی بتاتے ہیں کہ کسانوں کو اپنی فصلوں میں توازن بنانا ہوگا۔ ’’اگر کئی لوگ ایک ساتھ نگرانی کر رہے ہیں، تو ایک کونے سے آواز دے کر دوسرے کونے تک بات پہنچائی جا سکتی ہے اور ہاتھیوں سے کھیتوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر سبھی لوگ ایک ساتھ تیز فصل کو لگاتے ہیں، تو ہاتھی آپ کی فصل کے لیے آئیں گے…‘‘
ہماری بات چیت کے درمیان پرندوں کی میٹھی آواز گونج رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سیٹیوں، گانے، اور قہقہوں کے ساتھ وہ جنگل کی خبریں دینا چاہتی تھیں۔
دوپہر کے کھانے – اُبلی ہوئی راگی اور پالک کی شوربے دار سبزی – کے بعد ہم نے کرکری مونگ پھلی کی مٹھائی اور راگی کے لڈو کھائے۔ جن عورتوں (ونودمّا اور بی منجولا) نے یہ سب کچھ بنایا تھا، وہ کنڑ میں بات کر رہی تھیں (جس کا گوپی اور ان کے دوست میرے لیے ترجمہ کر رہے تھے)۔ بارش اور ہاتھیوں کی وجہ سے ان کی راگی کی زیادہ تر فصل خراب ہو گئی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہر روز راگی کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی کھلاتے ہیں – ’ہلکی گاڑھی‘ دلیا جب تک کہ وہ بڑے ہونے پر چاول کھانا شروع نہ کریں۔ وہ باجرے کی سال بھر کی فصل کو بوریوں میں بھر کر اپنے گھر پر رکھتے ہیں، اور ضرورت پڑنے پر پیستے ہیں۔ لیکن اس سال ان کے لیے اپنی خراب فصل کو سال بھر چلانا مشکل تھا۔
دونوں عورتیں نو درشنم کے قریب واقع گنگن ہلّی بستی کی رہنے والی ہیں اور کھانا کھا کر ابھی ابھی لوٹی ہیں۔ اپنے کھیتوں میں وہ (ونودمّا کے پاس چار ایکڑ اور منجولی کے پاس ڈیڑھ ایکڑ کھیت ہے) راگی، دھان، پھلیاں، اور سرسوں کی فصل اُگاتی ہیں۔ منجولا بتاتی ہیں، ’’جب بے موسم بارش ہوتی ہے، تو راگی کے بیج پودے میں ہی پھوٹنے لگتے ہیں۔‘‘ اور فصل تب خراب ہو جاتی ہے۔
اس سے بچنے کے لیے، ونودمّا کی فیملی نے جلدی سے فصل کاٹنے اور راگی اور ڈنٹھل کو تیزی سے الگ کرنے کے لیے ایک مشین کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انداز ایسے تھے کہ جس سے زبان کا فرق کم ہونے لگا، ہوا میں ان کا ہاتھ گھمانا ہمارے لیے پوری طرح واضح تھا۔
انسانوں اور جانوروں کے درمیان تصادم کے بارے میں ان کے ذریعے ظاہر کی جانے والی مایوسی بغیر ترجمے کے بھی سمجھ میں آ رہی تھی۔ ’’پہلے ہمیں کچھ معاوضہ مل جاتا تھا۔ اب، وہ [عہدیدار] صرف تصویریں لیتے ہیں، لیکن ہمیں کوئی پیسہ نہیں ملتا ہے۔‘‘
ایک ہاتھی کتنا کھاتا ہے؟ ’بہت زیادہ!‘ گوپی بتاتے ہیں کہ ایک بار دو ہاتھیوں نے دو راتوں میں راگی کی دس بوریوں کو ہضم کر لیا تھا، جس کی قیمت تقریباً ۲۰ ہزار روپے تھی۔ ’’ایک ہاتھی نے تو ایک بار میں ۲۱ کٹہل کھا لیے تھے۔ اور گوبھی بھی…‘‘
کسان اپنی فصل بچانے کے لیے رات بھر جاگتے رہتے ہیں۔ گوپی بتاتے ہیں کہ کس طرح سے راگی کے موسم میں وہ دو سال سے راتوں میں مچان پر بیٹھ کر ہاتھیوں پر نظر رکھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل زندگی ہے، کیوں کہ صبح ہونے تک آپ پست ہو جاتے ہیں۔ نو درشنم کے ارد گرد کی تنگ اور گھماؤ دار سڑکوں سے ہم کئی مچانوں کو تلاش کرتے ہیں۔ کچھ پکے ہیں، تو کچھ کچے ہیں اور تیار ہیں۔ زیادہ تر مچانوں سے ایک قسم کی گھنٹی جڑی ہے۔ ایک ٹن کے ڈبے اور رسی سے جڑی ایک چھڑی کو لگایا گیا ہے، تاکہ ہاتھی نظر آنے پر دوسروں کو اس کی اطلاع دی جا سکے۔
اصلی بحران تو یہ ہے کہ ہاتھی ہر حال میں فصلوں کو برباد کر دیتے ہیں۔ گوپی بتاتے ہیں، ’’جب ایک ہاتھی یہاں آیا تو ہم اسے روک نہ سکے۔ ہم نے پٹاخے پھوڑے، سب کچھ کیا لیکن اس نے وہی کیا جو اس کے من میں تھا۔‘‘
گنگن ہلّی علاقہ اب ایک عجیب و غریب مسئلہ سے دوچار ہو رہا ہے۔ محکمہ جنگلات کے ذریعے ہاتھیوں کو روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ کی حد نو درشنم کے بالکل قریب آکر ختم ہو تی ہے۔ اس کی وجہ سے گویا ہاتھیوں کو ان کی زمین پر آنے کی دعوت مل جاتی ہے۔ ایک سال میں ۲۰ حملے سے لے کر اب ہر رات ایسا ہوتا ہے، جب کوئی فصل کٹنے کے لیے تیار ہو۔
گوپی اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’باڑ کے دونوں طرف کے لوگ پریشان ہیں۔ جب آپ [ہاتھیوں کو روکنے کے لیے باڑ لگانا] شروع کرتے ہیں، تو آپ رک نہیں سکتے۔‘‘
*****
’میری بیوی چاہتی ہے کہ میں گھر پر اور زیادہ
رہوں۔‘
ہاتھیوں کی شرارت سے فصلوں کی نگرانی میں
مصروف ۶۰ سالہ کسان نے نیشنل گرین ٹربیونل جج سے کہا
انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کو ختم کرنے کے لیے ایک حساس اور مستقل حل کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ اپنے آپ میں کسی ہاتھی جتنا ہی بڑا ہے۔ عالمی سطح پر فرنٹیئرس اِن ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن میں شائع ایک مقالہ کے مطابق، ’’دنیا بھر میں تقریباً ایک اعشاریہ دو ارب لوگ، جو روزانہ ۲۵ء۱ ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں، ایشیا اور افریقہ کے اُن ممالک میں رہتے ہیں، جہاں ہاتھیوں کی کافی آبادی رہتی ہے۔‘‘ اور پس ماندہ طبقوں کو جگہ اور وسائل کی وجہ سے ’’دیگر انواع، جیسے ہاتھیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
اعزازی وائلڈ لائف وارڈن سنجیو کمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں ۲۲ ریاستوں کو ہاتھیوں سے تصادم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے سب سے زیادہ متاثرہ ریاستیں تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ، اوڈیشہ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ، اور آسام ہیں۔
موسمیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے ذریعے راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تین سال سے بھی کم عرصے میں (اپریل ۲۰۱۸ سے دسمبر ۲۰۲۰ تک) اس تصادم کی وجہ سے ۱۴۰۱ انسانوں اور ۳۰۱ ہاتھیوں کی موت ہوئی ہے۔
کاغذی بنیاد پر دیکھیں تو کسان کو اس کے نقصان کی تلافی کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ جنگلات، ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے پروجیکٹ ایلیفینٹ ڈویژن کے ذریعے جاری کردہ حکومت ہند کی ۲۰۱۷ کی ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ معاوضہ فصل کے تخمینی نقصان کا ۶۰ فیصد ہونا چاہیے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے، ’’اگر معاوضہ فصل کی قیمت کے ۱۰۰ فیصد کے قریب ہے، تو کسان کو اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے کوئی ترغیبی رقم نہیں ملے گی۔‘‘
انڈین فاریسٹ سروس (آئی ایف ایس) کی افسر اور ہوسور کے وائلڈ لائف وارڈن کے دفتر میں جنگلات کی اسسٹنٹ کنزرویٹر، کے کارتکیئنی کا کہنا ہے کہ ہوسور فاریسٹ ڈویژن میں ہر سال ۲۰۰ ہیکٹیئر سے زیادہ کی فصل خراب ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’محکمہ جنگلات کو فصلوں کے معاوضے کی مانگ سے متعلق کسانوں کی ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ کے درمیان درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ اور معاوضے کی سالانہ ادائیگی ۸۰ لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہوتی ہے۔‘‘ اس میں کسی آدمی کے مرنے پر ۵ لاکھ روپے بطور نقصان کی تلافی کی رقم بھی شامل ہے۔ جب کہ اس علاقے میں ہاتھیوں کی وجہ سے ہر سال ۱۳ لوگوں کی جان جاتی ہے۔
کارتکیئنی بتاتی ہیں، ’’ایک ایکڑ کے لیے قابل ادائیگی زیادہ سے زیادہ معاوضہ ۲۵ ہزار روپے ہے۔ بدقسمتی سے، ایک باغبانی فصل کے لیے یہ کافی نہیں ہے، کیوں کہ کسانوں کو فی ایکڑ ۷۰ ہزار روپے سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ، معاوضے کا دعویٰ کرنے کے لیے، کسان کو کاغذی کارروائی جمع کرنی ہوگی، زراعت یا باغبانی افسر (جیسا بھی معاملہ ہو) کے ذریعے کھیت کا معائنہ کروانا ہوگا، پھر گاؤں کے ایڈمنسٹریٹو آفیسر (وی اے او) کو ان کی زمین سے متعلق دستاویزوں کا جائزہ لینا ہوگا اور اس کی تصدیق کرنی ہوگی، اور آخر میں، فاریسٹ رینج آفیسر دورہ کرتا ہے اور تصویریں لیتا ہے۔ ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر (ڈی ایف او) تب معاوضے کی منظوری دیتا ہے، جب دعویٰ پوری طرح ثابت ہو جائے۔
ان سب سے جڑا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ کسانوں کو معاوضے کے طور پر ۳۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی تین زرعی سائیکل تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کارکیئنی کہتی ہیں، ’’بہتر ہوگا کہ اسے ریوالونگ فنڈ کا استعمال کرکے فوراً حل کر لیا جائے۔‘‘
سنجیو کمار کا ماننا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے سے نہ صرف انسانوں کی زندگی اور ان کے معاش کو بچایا جا سکے گا، بلکہ اس سے ان کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا۔ اتنا ہی نہیں، ریاستی محکمہ جنگلات کی شبیہ میں بھی بہتری آئے گی۔ ’’فی الحال ہاتھیوں کی حفاظت کا سارا بوجھ کسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔‘‘
سنجیو یہ مانتے ہیں کہ مہینوں تک راتوں رات ہاتھیوں سے کھیتوں کی حفاظت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ سے کسانوں کو کئی دنوں تک اپنا بہت سارا وقت کھیتوں کو دینا پڑتا ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے نیشنل گرین ٹربیونل کی ایک میٹنگ کے دوران ایک کسان نے جج صاحب سے کہا، ’میری بیوی چاہتی ہے کہ میں گھر پر اور زیادہ رہوں‘۔ سنجیو بتاتے ہیں کہ کسان کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ تھی اور اس کی بیوی کو شک تھا کہ اس کے کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلقات ہیں۔
کسانوں کا تناؤ محکمہ جنگلات کے لیے بھی مصیبت ہے۔ سنجیو کمار کہتے ہیں، ’’وہ اپنا غصہ محکمہ پر نکالتے ہیں۔ انہوں نے دفتر میں توڑ پھوڑ کی ہے۔ انہوں نے راستہ جام کیا ہے، ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کی ہے، انہیں جبراً روکا ہے۔ اس کی وجہ سے محکمہ جنگلات کے کام میں اڑچن پیدا ہوتی ہے اور تحفظ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔‘‘
انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کے اثرات معیشت، ماحولیات اور نفسیات پر بھی پڑے ہیں۔ تصور کیجئے کہ آپ کوئی بزنس کر رہے ہیں، اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ آپ کی کسی غلطی کے بغیر ہی کسی بھی دن برباد ہو سکتا ہے
اور ان سب کے علاوہ، ہاتھیوں کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، کیوں کہ سال ۲۰۱۷ میں ہوئی گنتی کے مطابق تمل ناڈو میں ہاتھیوں کی تعداد ۲۷۶۱ تھی۔ یہ ہندوستانی ہاتھیوں کی آبادی کا صرف ۱۰ فیصد ہے، جو کہ ۲۹۹۶۴ ہے۔
بدلہ لینا، بجلی کا جھٹکا، سڑک اور ریل حادثہ اس چھوٹی سی آبادی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ایک سطح پر تو لگتا ہے کہ کیا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے؟ حالانکہ سنجیو اور دیگر لوگوں نے مورتی کی مدد سے اس کا ایک حل ڈھونڈ نکالا ہے۔
*****
’ہم بجلی پر بالکل بھی منحصر نہیں ہونا چاہتے۔
سولر پینل پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اسکے علاوہ، ہاتھیوں نے بجلی کا توڑ بھی
نکال لیا ہے۔‘
ایس آر سنجیو کمار، کرشنا گیری اور دھرم
پوری ضلع کے اعزازی وائلڈ لائف وارڈن
سنجیو کمار بتاتے ہیں کہ کرشنا گیری ضلع میں میلا گیری ہاتھی باڑ کا خیال جنوبی افریقہ کے ایڈو ایلیفینٹ نیشنل پارک سے آیا ہے۔ ’’رمن سوکمار (ایلیفینٹ مین آف انڈیا) نے مجھے اس کے بارے میں بتایا تھا۔ وہاں انہوں نے پرانی ریل پٹریوں اور لفٹ کے تاروں کا استعمال کیا تھا۔ اور جب انہوں نے باڑ لگا دیے، تب تصادم ختم ہو گیا۔‘‘ سنجیو نے ایڈو پارک کے خیال کو اپنایا۔
تب تک، ہوسور فاریسٹ ڈویژن میں ہاتھیوں کو جنگل کے اندر اور کھیت سے باہر رکھنے کی کئی کوششیں ہوئیں، لیکن کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ انہوں نے ہاتھیوں کو روکنے کے لیے جنگل کے چاروں طرف گڑھے کھودے، انہوں نے شمسی توانائی کے ذریعے چلنے والے بجلی کے تار لگائے، کانٹے دار باڑ لگائے۔ اور یہاں تک کہ انہوں نے افریقہ سے کانٹے دار درختوں کی درآمد بھی کی۔ ان میں سے کچھ بھی کام نہیں آیا۔
جب آئی ایف ایس دیپک بِلگی کو ہوسور ڈویژن کے ڈپٹی کنزرویٹر آف فاریسٹ کے طور پر تعینات کیا گیا تھا، تب ایک کامیابی حاصل ہوئی۔ سنجیو بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس خیال میں دلچسپی لی، اس کے لیے انہوں نے پیسوں کا انتظام کیا، کلکٹر سے بات کی، اور ’’ہم نے ایک تجرباتی باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
یہ دلچسپ ہے کہ ایک ہاتھی کی طاقت کے بارے میں ہمیں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔ یا ان میں سے ایک یا کئی ہاتھی کتنا وزن اٹھا سکتے ہیں یا دھکیل سکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے مدھوملائی میں ایک باڑ کے پروٹو ٹائپ کو لگایا اور قید اور تربیت یافتہ ہاتھیوں (کُمکی) کی مدد سے اس کی مضبوطی کا پتہ لگایا۔ ان میں سے ایک مورتی تھا، بغیر دانتوں والا ہاتھی، جس کا وزن تقریباً ۵ ٹن ہے۔ مورتی کئی لوگوں کو مار گرانے کے لیے بدنام تھا، حالانکہ بعد میں اسے محکمہ جنگلات کے ذریعے ٹرینڈ کیا گیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ اس کا کام یہ تھا کہ وہ ان تاروں کی مضبوطی کے بارے میں مفید اعداد و شمار جمع کرنے میں مدد کرے، تاکہ ہاتھیوں اور انسانوں کے درمیان تصادم کو روکا جا سکے۔
سنجیو کہتے ہیں، ’’آپ اسے دیکھ کر اس کے ماضی کا اندازہ نہیں لگا سکتے، کیوں کہ اس کی ٹریننگ بہت اچھے طریقے سے ہوئی تھی۔ وہ بہت نرم مزاج اور شائستہ ہو گیا تھا۔‘‘ اب، مورتی ریٹائر ہو چکا ہے۔ جیسا مجھے بتایا گیا ہے کہ ہاتھیوں کے ریٹائرمنٹ کی عمر ۵۵ سال ہوتی ہے۔ اب کافی اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ چاہے وہ اچھی جگہ پر رہنا ہو، اچھا کھانا کھانا ہو یا پھر مادہ ہاتھیوں کے ساتھ مباشرت کرنی ہو۔ جنگل میں اس کی خدمات کی ضرورت نہیں ہوگی یا اسے اس کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیوں کہ اس کے لیے اسے نوجوان نر ہاتھیوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
مورتی سے انہوں نے جانا کہ ۱۸۰۰ کلوگرام کی زیادہ سے زیادہ قوت ایک ہاتھی کچھ خاص موقعوں پر استعمال کر سکتا ہے۔ انہوں نے جو پہلے دو کلومیٹر کی باڑ بنائی (مورتی کے تجربات کی بنیاد پر ستون ڈیزائن کیے) وہ آنند کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔
’’ہم نے اُس کوشش سے بہت کچھ سیکھا۔ صرف ایک ہفتہ کے اندر مکّانا – جو موٹئی وال کے ساتھ گھومتا ہے – نے اسے توڑ دیا۔ ہمیں اسے پھر سے ڈیزائن کرنا پڑا، اور اب یہ بنیادی ڈیزائن سے ساڑھے تین گنا زیادہ مضبوط ہے۔ اسٹیل کی رسی پہلے سے ہی بہت مضبوط ہے، اور ۱۲ ٹن کا وزن برداشت کر سکتی ہے۔ یعنی آپ اس رسی سے دو ہاتھیوں کو اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
سنجیو کہتے ہیں کہ دیگر ماڈلوں کے مقابلے، ان کی باڑ تقریباً اٹوٹ ہے۔ یہ پہلے سے تعمیر شدہ اور اسٹیل سے تیار مضبوط کنکریٹ کے ستونوں، اور اسٹیل وائر سے مل کر بنی ہے۔ ہاتھی ستون یا تار کو نہیں توڑ سکتے۔ وہ اس کے اوپر چڑھ کر جا سکتے ہیں۔ ’’اس سے ہمیں کسی بھی مسئلہ کے لیے حل تلاش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ٹیم نے فصلوں کو تباہ و برباد کرنے آتے یا تباہی کرکے لوٹ رہے ہاتھیوں کو بھی کیمرے میں قید کیا۔‘‘ اور انہوں نے جو دیکھا، اس کی بنیاد پر درست کیا۔ سنجیو ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی ہاتھی نظر آ جاتے ہیں اور ہمیں دکھاتے ہیں کہ باڑ کو لے کر اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس اسٹیل کی بغیر بجلی والی باڑ کی قیمت ۴۰ لاکھ سے ۴۵ لاکھ روپے فی کلومیٹر ہے۔ ضلع کلکٹر نے پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے اور ساتھ ہی ریاستی حکومت کی تمل ناڈو اختراعی پہل اسکیم کے ذریعے، پہلے دو کلومیٹر اور پھر بعد میں ۱۰ کلومیٹر باڑ کے لیے فنڈنگ کی۔
اب تک ہاتھیوں کو روکنے کے لیے ۲۵ کلومیٹر کی جو باڑ لگائی گئی ہے، اس میں سے ۱۵ بغیر بجلی والی ہیں، اور ۱۰ بجلی والی (شمسی توانائی کے ساتھ) ہیں۔ اس کا وولٹیج بہت زیادہ رکھا گیا ہے – ۱۰ ہزار وولٹ – اور یہ ڈائرکٹ کرنٹ (ڈی سی) کی ایک چھوٹی مقدار ہے، جو ہر سیکنڈ میں دوڑتی ہے۔ سنجیو بتاتے ہیں، ’’عام طور پر، ہاتھی اسے چھونے سے نہیں مریں گے۔ بجلی کے کرنٹ سے ہونے والی موتیں ۲۳۰ وولٹ اے سی کرنٹ سے ہوتی ہیں، جس کا استعمال ہم گھروں یا کھیتوں میں کرتے ہیں۔ لیکن ہاتھی اس سے محفوظ ہیں، کیوں کہ یہاں گھروں میں استعمال ہونے والے کرنٹ کا کچھ ہزارواں حصہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ اس سے ان کی موت ہو جائے گی۔‘‘
جب ڈی سی وولٹیج ۶۰۰۰ وولٹ تک گر جاتا ہے – مثال کے طور پر، اگر کوئی درخت یا پودا باڑ پر گر گیا ہے – تو ہاتھی اسے خوشی خوشی پار کر لیتے ہیں۔ اور کچھ نر ہاتھیوں میں کھانے کی خواہش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس سب کچھ اکھاڑتے چلتے ہیں۔ سنجیو کہتے ہیں، ’’یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔‘‘
وہ بتاتے ہیں، ’’ویسے تو ہم بجلی پر بالکل بھی منحصر نہیں رہنا چاہتے ہیں۔ شمسی توانائی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اُدھر، ہاتھیوں نے بجلی کا کھیل معلوم کر لیا ہے۔ وہ حرارت کی موصلیت (انسولیشن) اور ایصالیت (کنڈکٹیویٹی) کو جانتے ہیں۔ وہ درخت یا درخت کی ایک شاخ لیتے ہیں اور باڑ کو چھوٹا کرنے لگتے ہیں۔ یا اسے توڑنے کے لیے نر ہاتھی اپنے دانت کا استعمال کرتا ہے – انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ ان کے دانت بجلی کے ایک برے موصل (کنڈکٹر) ہیں۔ سنجیو ہنستے ہیں، ’’میرے پاس ایک تصویر ہے، جس میں ایک ہاتھی یہ دیکھنے کے لیے کہ باڑ میں کرنٹ جاری ہے یا نہیں، درخت کی ایک چھوٹی شاخ سے باڑ کا جائزہ لے رہا ہے۔‘‘
*****
’میلا گیری باڑ کے سبب، ہاتھی جنوبی سمت کی جانب
چلے گئے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، کیوں کہ اُس طرف وسیع جنگل ہی ہے، جو پورے نیل گیری
تک پھیلا ہوا ہے۔‘
کے کارتکیئنی، انڈین فاریسٹ سروس آفسیر
انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم کے اثرات معیشت، ماحولیات، اور نفسیات پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ تصور کیجئے کہ آپ کوئی بزنس کر رہے ہیں، اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ آپ کی کسی غلطی کے بغیر ہی کسی بھی دن برباد ہو سکتا ہے۔ کرشنا گیری ضلع میں کئی نسلوں سے رہ رہے اور کھیتی کر رہے کسانوں کی یہی کہانی ہے۔
سنجیو کمار بتاتے ہیں کہ مقامی پیداوار کی دعوت اڑانے اور فصلوں پر دھاوا بولنے کے علاوہ، ہاتھیوں نے زیادہ دوری طے کرنا بھی سیکھ لیا ہے، اور یہ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں ہوا ہے۔ ’’محفوظ جنگل کے آس پاس ایک یا دو کلومیٹر بھٹکنے کی بجائے، اب وہ آندھرا پردیش اور کرناٹک میں تقریباً ۷۰ یا ۸۰ کلومیٹر کا سفر کرنے لگے ہیں، وہاں کچھ مہینے گزارتے ہیں، اور پھر واپس آ جاتے ہیں۔‘‘ ہوسور علاقے میں، جہاں فصلوں پر سب سے زیادہ حملے کیے جاتے ہیں، ہاتھی بھاری اور بڑے ہوئے ہیں، وہ صحت مند دکھائی دیتے ہیں اور ان کے کئی بچے ہوتے ہیں۔
نوجوان ہاتھی بہت زیادہ خطرہ مول لیتے ہیں۔ سنجیو نے محفوظ جنگلات کے باہر ہاتھیوں کی موت کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا، اور اس کی پڑتال کی۔ انہوں نے پایا کہ تقریباً ۶۰ سے ۷۰ فیصد موتیں نوجوان نر ہاتھیوں کی ہوئی ہیں۔
آنندا نے مجھے بتایا کہ وہ ان دنوں ہاتھیوں کے جھنڈ کو بہت کم دیکھتے ہیں۔ بس نر ہاتھی نظر آ جاتے ہیں: موٹئی وال، مکانا، اور گیری۔ وہ اب بھی وہاٹس ایپ پر مجھے ہاتھیوں کے دھاوا بولنے کی تصویریں بھیجتے رہتے ہیں۔ ان میں آم کی گری شاخیں، کیلے کے کچلے ہوئے پیڑ، مسل دیے گئے پھل، اور ہاتھیوں کا ڈھیر سارا گوبر نظر آتا ہے۔ وہ جب بھی بولتے ہیں، تو ان کی آواز میں نرمی ہوتی ہے، کبھی ناراضگی نہیں ہوتی۔
سنجیو کہتے ہیں، ’’ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ اگر غصہ آتا ہے تو وہ حکومت یا محکمہ جنگلات پر نکلتا ہے۔ ’’وہ جانتے ہیں کہ معاوضہ بہت تاخیر سے آتا ہے یا نہیں بھی آتا ہے، اس لیے انہوں نے اس کا دعویٰ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اور یہ ایک مسئلہ والی بات ہے، کیوں کہ تب ڈیٹا میں اس تصادم کی حقیقی شدت درج نہیں ہوگی۔‘‘
اس تصادم کو ختم کرنے کا ایک واحد طریقہ ہے – ہاتھیوں کو جنگل کے اندر رکھنا۔ مسئلہ تبھی دور ہوگا، جب ان کی قدرتی رہائش گاہ کو آباد کیا جائے گا۔ ’’اس سے ۸۰ فیصد مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پنچ پھول (لینٹانا) سے چھٹکارہ پانا بھی ضروری ہے۔‘‘
ابھی کے لیے، ۲۵ کلومیٹر کی باڑ سے – جو ہاتھیوں اور انسانوں کے آمنا سامنا ہونے والے علاقوں کا ۲۵ فیصد ہے – تصادم میں ۹۵ فیصد کی کمی آئی ہے۔ کارتکیئنی کہتی ہیں، ’’میلا گیری باڑ کے سبب، ہاتھی جنوبی سمت کی جانب چلے گئے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، کیوں کہ اُس طرف وسیع جنگل ہی ہے جو ستیہ منگلم تک جاتا ہے اور پورے نیل گیری تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ان کے لیے بہتر ہے۔‘‘
زیادہ تر کے لیے میلا گیری باڑ ایک طبعی رکاوٹ ہے۔ ’’جہاں یہ باڑ شمسی توانائی کے ذریعے چلائے جاتے ہیں، وہاں یہ ایک نفسیاتی رکاوٹ ہے – یہ صرف انہیں ایک ہلکا سا جھٹکا دیتی ہے اور ڈراتی ہے۔ لیکن ہاتھی ہوشیار ہوتے ہیں۔ چھتے والی باڑ یا باگھ کی دہاڑ، یا الارم کال کام نہیں کرتے۔‘‘ مجموعی طور پر، سنجیو کمار کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ سبھی ہاتھیوں کو ہر وقت بیوقوف نہیں بنا سکتے۔
ہاتھی ہمیشہ ایک قدم آگے چلتے ہیں۔ گویا انہیں پتہ چل گیا ہو، اور وہ لوگوں کو سکھا رہے تھے کہ انہیں اندر کیسے رکھا جائے؛ انہوں نے کیمرہ کے بچھے جال کو توڑنا شروع کر دیا۔ سنجیو بولتے جاتے ہیں اور میں اپنی اسکرین پر لگی تصویر کو غور سے دیکھ رہی ہوتی ہوں: دو ہاتھی باڑ کے سامنے ایک ساتھ گھوم رہے ہیں، اور منصوبہ بنا رہے ہیں کہ باڑ کے تاروں کو کیسے پار کیا جائے اور راگی تک پہنچا جائے…
مضمون نگار، گوپا کمار کا اس اسٹوری کی رپورٹنگ کے دوران مدد کرنے، ان کی مہمان نوازی، اور قیمتی اِن پُٹ کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت رقم حاصل ہوئی ہے۔
کور فوٹو (موٹئی وال): نشانت شرینواسیا۔
مترجم: محمد قمر تبریز