شانتی مانجھی ۳۶ سال کی عمر میں اس سال پہلی بار نانی بن گئیں۔ اُس رات انہوں نے آخرکار اپنی زندگی میں پہلی بار اسپتال کا دورہ کیا تھا، جب کہ وہ خود دو دہائیوں کے عرصے میں بغیر کسی ڈاکٹر یا نرس کی مدد کے، اپنے گھر کے کونے میں ہی سات بچوں کو جنم دے چکی ہیں۔

ان کی سب سے بڑی بیٹی ممتا کو جب گھر پر دردِ زہ شروع ہوا، تو اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ’’میری بیٹی کو کئی گھنٹے سے دردِ زہ ہو رہا تھا، لیکن بچہ باہر نہیں آیا۔ ہمیں ایک ٹیمپو بلانا پڑا۔ ’ٹیمپو‘ سے ان کی مراد تین پہیے والی مسافر گاڑی سے ہے، جسے صرف چار کلومیٹر دور واقع شیوہر ٹاؤن سے گاؤں تک آنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا اور وہ غروب آفتاب کے وقت ان کے گھر پہنچا۔ ممتا کو فوراً شیوہر کے ضلع اسپتال لے جایا گیا، جہاں انہوں نے کئی گھنٹے کے بعد ایک لڑکے کو جنم دیا۔

شانتی ٹیمپو کے کرایے پر ابھی بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس نے ہم سے ۸۰۰ روپے لیے۔ ہمارے ٹولہ کا کوئی بھی آدمی اسپتال نہیں جاتا ہے، اس لیے ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کوئی ایمبولینس بھی ہے۔‘‘

شانتی کو اُسی رات گھر لوٹنا پڑا، یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کی سب سے چھوٹی بچی، کاجل نے سونے سے پہلے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نانی بن چکی ہوں، لیکن مجھے ماں کی بھی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے۔‘‘ ممتا اور کاجل کے علاوہ ان کی تین اور بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

مانجھی فیملی شمالی بہار کے شیوہر بلاک اور ضلع میں مادھوپور اننت گاؤں کے باہر تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع موسہر ٹولہ میں رہتی ہے۔ اس ٹولہ میں مٹی اور بانس سے بنی تقریباً ۴۰ جھونپڑیوں میں ۳۰۰-۴۰۰ لوگ رہتے ہیں۔ ان سبھی کا تعلق موسہر ذات سے ہے، جس کا شمار بہار کی سب سے پس ماندہ مہا دلت برادری میں ہوتا ہے۔ اس کی تنگ گلیوں کے ایک کونے میں کچھ بکریاں اور گائے کھونٹے سے بندھی ہیں۔

Shanti with four of her seven children (Amrita, Sayali, Sajan and Arvind): all, she says, were delivered at home with no fuss
PHOTO • Kavitha Iyer

شانتی اپنے سات بچوں میں سے چار کے ساتھ (امرتا، سیالی، ساجن اور اروند): وہ بتاتی ہیں کہ ان سبھی کی پیدائش بغیر کسی پریشانی کے گھر پر ہی ہوئی تھی

شانتی تھوڑی دیر پہلے ہی ٹولہ کے ایک کنارے پر واقع عوامی ہینڈ پمپ سے پلاسٹک کے ایک سرخ ڈبے میں پانی بھر کر لائی ہیں۔ صبح کے تقریباً ۹ بجے ہیں، اور وہ اپنے گھر کے باہر ایک تنگ گلی میں کھڑی ہیں، جہاں ایک پڑوسی کی بھینس سڑک کے کنارے سیمنٹ سے بنے ایک ناد (کُنڈ) سے پانی پی رہی ہے۔ مقامی زبان میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ انہیں خود اپنی ڈیلیوری میں کوئی دقت نہیں ہوئی، ’’سات گو‘‘ یعنی سبھی ساتوں بچوں کی پیدائش گھر پر ہی، بغیر کسی پریشانی کی ہوئی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نال کس نے کاٹی، تو وہ کہتی ہیں، ’’میری دیادِن۔‘‘ دیادن شوہر کے بھائی کی بیوی کو کہتے ہیں۔ نال کاٹنے میں کس چیز کا استعمال کیا گیا تھا؟ وہ نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں نہیں معلوم۔ ہمارے آس پاس جمع بستی کی تقریباً ۱۰-۱۲ عورتیں بتاتی ہیں کہ گھریلو چاقو کو دھوکر استعمال کیا جاتا ہے – ان کی نظر میں یہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس پر کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

مادھوپور اننت کے اس موسہر ٹولہ کی زیادہ تر عورتوں نے اسی طرح سے خود اپنی جھونپڑیوں میں بچوں کو جنم دیا ہے – حالانکہ، وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ان میں سے کچھ کو پیچیدگی پیدا ہو جانے کی وجہ سے اسپتال بھی لے جایا گیا ہے۔ بستی میں بچوں کی پیدائش کرانے والی کوئی ماہر دائی نہیں ہے۔ زیادہ تر عورتوں کے کم از کم چار یا پانچ بچے ہیں اور ان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ گاؤں میں پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) ہے بھی یا نہیں، یا وہاں پر کوئی ڈیلیوری بھی ہوتی ہے۔

شانتی سے یہ پوچھنے پر کہ کیا ان کے گاؤں میں کوئی ہیلتھ سنٹر یا سرکاری اسپتال ہے، تو وہ جواب دیتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ ۶۸ سالہ بھگولنیا دیوی کہتی ہیں کہ انہوں نے مادھوپور اننت میں ایک نئے کلینک کے بارے میں سنا ہے، ’’لیکن میں وہاں کبھی گئی نہیں ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہاں کوئی خاتون ڈاکٹر ہے بھی یا نہیں۔‘‘ ۷۰ سالہ شانتی چولائی مانجھی کہتی ہیں کہ ان کے ٹولہ کی عورتوں کو کسی نے بھی اس کے بارے میں کبھی کوئی اطلاع نہیں دی ہے، اس لیے ’’اگر کوئی نیا کیلنک ہے بھی تو ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟‘‘

مادھوپور اننت میں کوئی پی ایچ سی نہیں ہے، لیکن اس کا ذیلی مرکز ہے۔ گاؤں والے بتاتے ہیں کہ یہ اکثر بند رہتا ہے، جیسا کہ دوپہر میں ہمارے دورہ کے دوران بھی یہ بند ہی تھا۔ سال ۲۰۱۱-۱۲ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ ایکشن پلان میں کہا گیا ہے کہ شیوہر بلاک میں ۲۴ ذیلی مراکز کی ضرورت ہے – اس وقت یہاں ۱۰ مراکز تھے۔

شانتی بتاتی ہیں کہ ان کے کسی بھی حمل کے دوران انہیں آنگن واڑی کی طرف سے آئرن اور کیلشیم کی کبھی کوئی گولی نہیں ملی، نہ ہی ان کی بیٹی کو ملی۔ اور وہ چیک اپ کرانے کے لیے بھی کہیں نہیں گئیں۔

اس کے علاوہ اپنے پورے حمل کے دوران وہ کام بھی کرتی رہیں، صرف ڈیلیوری کے دن وہ ایسا نہیں کر پائیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہر ڈیلیوری کے ’’۱۰ دن بعد، میں دوبارہ کام پر لوٹ جاتی تھی۔‘‘

Dhogari Devi (left), says she has never received a widow’s pension. Bhagulania Devi (right, with her husband Joginder Sah), says she receives Rs. 400 in her account every month, though she is not sure why
PHOTO • Kavitha Iyer
Dhogari Devi (left), says she has never received a widow’s pension. Bhagulania Devi (right, with her husband Joginder Sah), says she receives Rs. 400 in her account every month, though she is not sure why
PHOTO • Kavitha Iyer

ڈھوگری دیوی (بائیں) کہتی ہیں کہ انہیں بیوہ پنشن کبھی نہیں ملا۔ بھگولنیا دیوی (دائیں، اپنے شوہر جوگندر ساہ کے ساتھ) بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے اکاؤنٹ میں ہر مہینے ۴۰۰ روپے ملتے ہیں، حالانکہ انہیں اس کی وجہ نہیں معلوم ہے

حکومت کی انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (آئی سی ڈی ایس) اسکیم کے تحت، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے ساتھ ساتھ شیرخوار بچے یا تو اناج کے پیکٹ کی شکل میں یا آنگن واڑی میں گرم، پکے ہوئے کھانے کے حقدار ہیں۔ حاملہ خواتین کو حمل کے دوران کم از کم ۱۸۰ دنوں تک آئرن فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیاں (ٹیبلیٹ) ملنی چاہئیں۔ شانتی حالانکہ اب سات بچوں کی ماں ہیں اور اب ان کا ایک نواسہ بھی ہے، لیکن انہوں نے ایسی کسی اسکیم کے بارے میں آج تک نہیں سنا ہے۔

پڑوس کے مالی پوکھر بھنڈا گاؤں کی منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا) کلاوتی دیوی کہتی ہیں کہ موسہر ٹولہ کی کسی بھی عورت نے آنگن واڑی میں اپنا رجسٹریشن نہیں کرایا ہے۔ ’’اس علاقے کے لیے دو آنگن واڑی ہے، ایک مالی پوکھر بھنڈا میں ہے اور ایک کھیروا درپ میں، جو کہ گاؤں کی پنچایت ہے۔ عورتوں کو نہیں معلوم کہ انہیں کس جگہ اپنا رجسٹریشن کروانا ہے، اسی لیے وہ کہیں بھی رجسٹریشن نہیں کروا پاتی ہیں۔‘‘ دونوں ہی گاؤوں موسہر ٹولہ سے تقریباً ڈھائی کلومیٹر دور ہیں۔ شانتی اور دوسری عورتوں کے لیے یہ بہت لمبی دوری ہے، کیوں کہ ان میں سے کسی کے بھی پاس اپنی زمین نہیں ہے اور وہ روزانہ کھیتوں یا انیٹ بھٹوں پر کام کرنے کے لیے ۴-۵ کلومیٹر پیدل چل کر جاتی ہیں۔

سڑک کنارے شانتی کے ارد گرد جمع ہو چکی سبھی عورتیں کہتی ہیں کہ آنگن واڑی سے انہیں نہ تو کوئی اناج ملا اور نہ ہی انہیں اس بات کی کوئی جانکاری ہے کہ اسے حاصل کیسے کیا جاتا ہے۔

بزرگ عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ ان کے لیے ریاستی سہولیات تک رسائی حاصل کرنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ ۷۱ سالہ ڈھوگری دیوی کہتی ہیں کہ انہیں بیوہ پنشن کبھی نہیں ملا۔ بھگولنیا دیوی ویسے تو بیوہ نہیں ہیں، لیکن انہیں اپنے اکاؤنٹ میں ہر مہینے ۴۰۰ روپے ملتے ہیں، حالانکہ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کس چیز کی سبسڈی ہے۔

آشا کارکن، کلاوتی حمل کے دوران اپنے حقوق سے ناواقف ہونے کے لیے ان ہی عورتوں کو قصوروار ٹھہراتی ہیں اور تعلیم کی کمی کو اس کی وجہ بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سب کے پاس پانچ، چھ، سات بچے ہیں۔ یہ بچے دن بھر ادھر ادھر دوڑتے رہتے ہیں۔ میں نے ان سے کئی بار کہا ہے کہ وہ اپنا رجسٹریشن کھیروا درپ آنگن واڑی میں کرالیں، لیکن وہ سنتی نہیں ہیں۔‘‘

نال کاٹنے میں کس چیز کا استعمال کیا گیا تھا؟ ہمارے آس پاس جمع ہو چکی بستی کی تقریباً ۱۰-۱۲ عورتیں بتاتی ہیں کہ گھریلو چاقو کو دھوکر استعمال کیا جاتا ہے – ان کی نظر میں یہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس پر کچھ سوچنے کی ضرورت ہے

ٹولہ کے قریب ہی مادھوپور اننت کا ایک سرکاری پرائمری اسکول ہے، لیکن موسہر برادری کے مٹھی بھر بچے ہی وہاں پڑھنے جاتے ہیں۔ شانتی پوری طرح سے ناخواندہ ہیں، جیسا کہ ان کے شوہر اور ساتوں بچے ہیں۔ سینئر سٹیزن ڈھوگری دیوی کہتی ہیں، ’’آخر میں انہیں یومیہ مزدوری ہی کرنی ہے۔‘‘

بہار کی درج فہرست ذاتوں میں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ (۲۰۰۱ کی مردم شماری کے مطابق) ملک گیر سطح پر درج فہرست ذاتوں کی شرح خواندگی ۵۴ اعشاریہ ۷ فیصد ہے، لیکن بہار میں یہ شرح اس کا آدھا یعنی ۲۸ اعشاریہ ۵ فیصد ہی ہے۔ ان ذاتوں میں موسہر برادری کی شرح خواندگی سب سے کم، یعنی ۹ فیصد ہے۔

تاریخی لحاظ سے موسہر برادریوں کے پاس اپنی زرعی زمین نہیں ہوتی۔ بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی سماجی ترقی پر نیتی آیوگ کا ایک سروے بتاتا ہے کہ بہار کے صرف ۱۰ اعشاریہ ایک فیصد موسہر لوگوں کے پاس دودھ دینے والے جانور ہیں، جو کہ ایس سی گروپ میں سب سے کم ہے۔ صرف ایک اعشاریہ چار فیصد موسہر کنبوں کے پاس بیل ہیں، جو کہ ایک بار پھر سب سے کم شرح ہے۔

کچھ موسہر لوگ سور پالتے ہیں، جو کہ ان کا روایتی پیشہ ہے، لیکن نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق، اس کی وجہ سے دوسری ذاتوں کے لوگ انہیں آلودگی پھیلانے والا سمجھتے ہیں۔ اس رپورٹ کے لیے جن دیگر درج فہرست ذاتوں کے گھروں کا سروے کیا گیا ان سبھی کے پاس سائیکل، رکشہ، اسکوٹر یا موٹر سائیکلیں تھیں، لیکن موسہر گھروں میں ایسی کوئی بھی گاڑی نہیں ملی۔

شانتی کی فیملی سور نہیں پالتی۔ ویسے ان کے پاس کچھ بکریاں اور مرغیاں ہیں، لیکن انہیں فروخت نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کے دودھ اور انڈوں کا استعمال وہ خود اپنے کھانوں میں کرتے ہیں۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم نے اپنی گزر بسر کے لیے ہمیشہ کام کیا ہے۔ ہم نے کئی سالوں تک بہار کے دوسرے حصوں میں اور دوسری ریاستوں میں بھی کام کیا۔‘‘ میاں بیوی جب پوری ریاست میں اینٹ بھٹوں پر کام کرتے ہیں، تو ان کے بچے بھی اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

A shared drinking water trough (left) along the roadside constructed with panchayat funds for the few cattle in Musahar Tola (right)
PHOTO • Kavitha Iyer
A shared drinking water trough (left) along the roadside constructed with panchayat funds for the few cattle in Musahar Tola (right)
PHOTO • Kavitha Iyer

سڑک کے کنارے تعمیر کردہ پانی پینے کی ایک مشترکہ ناد (بائیں) جسے موسہر ٹولہ (دائیں) کے کچھ جانوروں کے لیے پنچایت کے پیسے سے بنایا گیا تھا

شانتی بتاتی ہیں، ’’ہم وہاں کئی مہینے رہتے تھے، بعض دفعہ تو لگاتار چھ مہینے تک۔ ایک بار ہم لوگ کشمیر میں سال بھر رہے، جہاں ہم نے اینٹ بھٹے پر کام کیا۔‘‘ اُس وقت وہ حاملہ تھیں، لیکن انہیں یاد نہیں ہے کہ تب ان کے حمل میں کون سا بیٹا یا بیٹی تھی۔ ’’یہ چھ سال پہلے کی بات ہے۔‘‘ وہ یہ بھی نہیں جانتیں کہ کشمیر کے کس حصے میں وہ رکی تھیں، بس انہیں اتنا یاد ہے کہ اس اینٹ بھٹے پر کام کرنے والے سبھی مزدور بہار کے تھے۔

وہاں پر بہار کے مقابلہ مزدوری اچھی ملتی تھی۔ بہار میں ایک ہزار اینٹیں بنانے پر ۴۵۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ کشمیر میں انہیں ۶۰۰-۶۵۰ روپے ملتے تھے، اور چونکہ اینٹ بھٹے پر ان کے بچے بھی ان کے ساتھ کام کر رہے تھے، اس لیے شانتی اور ان کے شوہر ایک دن میں زیادہ اینٹیں بنا سکتے تھے، حالانکہ انہیں یہ یاد نہیں ہے کہ اس سال انہوں نے کل ملاکر کتنے پیسے کمائے تھے۔ ’’لیکن ہم اپنے گھر لوٹنا چاہتے تھے، بھلے ہی یہاں کم پیسہ کیوں نہ ملے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔

ان کے شوہر، ۳۸ سالہ ڈورک مانجی فی الحال پنجاب میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور ہر مہینے ۴-۵ ہزار روپے گھر بھیجتے ہیں۔ وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کا مطلب ہے کم کام دستیاب ہونا، اور شانتی کہتی ہیں کہ مزدوروں کو کام پر رکھنے والے ٹھیکہ دار ابھی صرف مردوں کو ترجیح دے رہے ہیں اس لیے وہ یہاں پر دھان کے کھیتوں میں کام کر رہی ہیں۔ ’’لیکن ادائیگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کھیت کا مالک پیسے کی ادائیگی کے لیے دن طے کرنے کا انتظار کرتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں کہ انہیں اپنی ’بنی ہاری‘ یا مزدوری مانگنے کے لیے اسی کسان کے گھر بار بار جانا پڑتا ہے۔ ’’لیکن کم از کم ہم اپنے گھر پر تو ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

بارش کا دن ہے اور شام کے وقت ان کی بیٹی، کاجل بستی کے دوسرے بچوں کے ساتھ سڑک کے کنارے کھیل رہی ہے۔ سبھی بارش میں بھیگے ہوئے ہیں۔ شانتی اس سے اپنی دو اچھی فراکوں میں سے ایک پہننے کے لیے کہتی ہیں تاکہ ہم ان کی تصویریں کھینچ سکیں۔ اس کے فوراً بعد اس بچی نے وہ فراک اتار پھینکا اور کیچڑ والی سڑک پر بچوں کے جھنڈ کے پاس واپس چلی گئی، جو ڈنڈے سے چھوٹے چھوٹے پتھروں پر وار کرتے ہوئے کھیل رہے تھے۔

شیوہر، آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے بہار کا سب سے چھوٹا ضلع ہے، جو سال ۱۹۹۴ میں سیتامڑھی سے الگ ہوکر ضلع بنا تھا۔ شیوہر کا ضلع ہیڈکوارٹر ہی اس کا واحد قصبہ ہے۔ جب ضلع کی اہم سڑک اور گنگا کی معاون ندی، باگ متی میں اس کے نقطہ آغاز یعنی نیپال سے آئے بارش کے پانی کی وجہ سے سیلاب آ جاتا ہے، تب مانسون کے اُن دنوں میں کئی بار گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوب جاتے ہیں، یہ سب اس کے متوازی ہوتا ہے جب کوسی اور دوسری ندیوں کے خطرے کے نشان کے اوپر بہنے کے سبب، پورے شمالی ہندوستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ اس علاقے میں اکثر دھان اور گنّے کی کھیتی ہوتی ہے اور دونوں فصلوں میں پانی کی بہت زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔

مادھوپور اننت کے موسہر ٹولہ میں لوگ عام طور پر آس پاس کے دھان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں یا پھر دور دراز کے علاقوں میں واقع تعمیراتی مقامات پر یا اینٹ بھٹوں پر۔ چنندہ لوگوں کے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے پاس ٹکڑا بھر زمین ہے، تقریباً ایک یا دو کٹھا (ایک ایکڑ کا ایک ٹکڑا)، ورنہ باقی کسی کے نام پر یہاں تھوڑی سی بھی زمین نہیں ہے۔

Shanti laughs when I ask if her daughter will also have as many children: 'I don’t know that...'
PHOTO • Kavitha Iyer
Shanti laughs when I ask if her daughter will also have as many children: 'I don’t know that...'
PHOTO • Kavitha Iyer

شانتی اس سوال پر ہنس دیتی ہیں کہ کیا ان کی بیٹیوں کے بھی اتنے ہی بچے ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے کیا پتہ...‘

شانتی کے الجھے ہوئے بالوں کی موٹی موٹی چوٹیاں ان کی دلکش ہنسی پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔ لیکن جب ان سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو دو چار دوسری عورتیں بھی اپنی ساڑی کا دامن ہٹاتے ہوئے اپنی چوٹیاں دکھانے لگتی ہیں۔ شانتی کہتی ہیں، ’’یہ اگھوری شیو کے لیے رکھا ہے۔‘‘ لیکن وہ اس میں یہ بات جوڑتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ بالوں کا نذرانہ پیش کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ ایسا اپنے آپ ہو گیا ہے، راتوں رات۔‘‘

حالانکہ، کلاوتی تھوڑی مشکوک ہیں اور کہتی ہیں کہ موسہر ٹولہ کی عورتیں اپنی ذاتی صفائی کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتیں۔ ان کے جیسی دیگر تمام آشا کارکنوں کو ضابطہ کے مطابق ہر ادارہ جاتی ڈیلیوری کے بدلے ۶۰۰ روپے انسینٹو ملنی چاہیے۔ لیکن، وبائی مرض کے بعد اس رقم کا کچھ حصہ ہی انہیں ملتا ہے۔ کلاوتی کہتی ہیں، ’’لوگوں کو اسپتال جانے کے لیے راضی کر پانا بیحد چیلنج بھرا اور مشکل کام ہے اور ایسا کر بھی لیں، تو بھی پیسے نہیں ملتے۔‘‘

موسہر کے علاوہ دیگر ذاتوں میں یہ عام تصور ہے کہ موسہر لوگ اپنے طور طریقوں کو لیکر کچھ زیادہ ہی ضدی ہیں اور شاید اسی وجہ سے شانتی، برادری کی قدامت پسندی اور روایات پر بات کرتے ہوئے تھوڑا جھجکتی ہیں۔ انہیں غذائیت کے بارے میں گفتگو کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ جب میں نے ان سے خاص طور پر موسہر برادری سے متعلق اسٹیریو ٹائپ نظریہ پر رائے جاننی چاہیے تو انہوں نے کہا، ’’ہم چوہا نہیں کھاتے۔‘‘

کلاوتی اس بات سے متفق ہیں کہ اس موسہر ٹولہ میں کھانے میں عام طور پر چاول اور آلو ہی کھایا جاتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ٹولہ میں بڑے پیمانے پر عورتوں اور بچوں میں خون کی کمی ہے، کلاوتی کہتی ہیں، ’’ان میں سے کوئی بھی ہری سبزیاں نہیں کھاتا، یہ بالکل پکّی بات ہے۔‘‘

شانتی کو مناسب قیمت کی دکان (عوامی تقسیم کے نظام کی دکان) سے سبسڈی پر ہر مہینے کل ۲۷ کلو چاول اور گیہوں مل جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’راشن کارڈ میں سبھی بچوں کا نام نہیں ہے، اس لیے ہمیں چھوٹے بچوں کے کوٹہ کا اناج نہیں مل سکتا۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ آج کے کھانے میں چاول اور آلو کی سبزی، اور مونگ کی دال ہے۔ رات کے کھانے میں روٹیاں بھی ہوں گی۔ انڈے، دودھ، اور ہری سبزیاں فیملی کو کبھی کبھار ہی نصیب ہوتی ہیں، اور پھل تو اور بھی نایاب ہیں۔

میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا ان کی بیٹی کو بھی اتنے ہی بچے پیدا ہوں گے، تو وہ اس سوال پر ہنس دیتی ہیں۔ ممتا کے سسرال والے سرحد کے ٹھیک اُس پار، نیپال میں رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس بارے میں مجھے کیا پتہ۔ لیکن، اگر اسے اسپتال لے جانے کی ضرورت پڑی ہے، تو شاید وہ یہیں آئے گی۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Iyer

கவிதா ஐயர் 20 ஆண்டுகளாக பத்திரிகையாளராக இருந்து வருகிறார். ‘லேண்ட்ஸ்கேப்ஸ் ஆஃப் லாஸ்: தி ஸ்டோரி ஆஃப் ஆன் இந்திய வறட்சி’ (ஹார்பர்காலின்ஸ், 2021) என்ற புத்தகத்தை எழுதியவர்.

Other stories by Kavitha Iyer
Illustration : Priyanka Borar

ப்ரியங்கா போரர், தொழில்நுட்பத்தில் பல விதமான முயற்சிகள் செய்வதன் மூலம் புதிய அர்த்தங்களையும் வெளிப்பாடுகளையும் கண்டடையும் நவீன ஊடக கலைஞர். கற்றுக் கொள்ளும் நோக்கிலும் விளையாட்டாகவும் அவர் அனுபவங்களை வடிவங்களாக்குகிறார், அதே நேரம் பாரம்பரியமான தாள்களிலும் பேனாவிலும் அவரால் எளிதாக செயல்பட முடியும்.

Other stories by Priyanka Borar
Editor and Series Editor : Sharmila Joshi

ஷர்மிளா ஜோஷி, PARI-ன் முன்னாள் நிர்வாக ஆசிரியர் மற்றும் எழுத்தாளர். அவ்வப்போது கற்பிக்கும் பணியும் செய்கிறார்.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique