دونوں کی عمر ۱۷ سال ہے اور دونوں ہی حاملہ ہیں۔ وہ دونوں کبھی کبھی کافی زور سے ہنسنے لگتی ہیں اور اپنے والدین کی اس تعلیم کو بھول جاتی ہیں کہ نظریں نیچے رکھنی ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا، یہ سوچ کر دونوں ڈری ہوئی ہیں۔
سلیمہ پروین اور اسماء خاتون (نام بدل دیے گئے ہیں) پچھلے سال ساتویں کلاس میں تھیں، حالانکہ گاؤں کا سرکاری اسکول پورے تعلیمی سال ۲۰۲۰ کے لیے بند رہا۔ جیسے ہی لاک ڈاؤن شروع ہوا، ان کی فیملی کے مرد، جو پٹنہ، دہلی اور ممبئی میں کام کرتے تھے، بہار کے ارریہ ضلع میں بنگالی ٹولہ نامی ایک بستی میں واقع اپنے گھر لوٹ آئے۔ اس کے بعد ان کی شادیاں ہونے لگیں۔
’’کورونا میں ہوئی شادی،‘‘ اسماء کہتی ہیں، جو دونوں میں سے کچھ زیادہ ہی باتونی ہیں۔
سلیمہ کا نکاح دو سال پہلے ہوا تھا، اور وہ تقریباً ۱۸ سال کی عمر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے والی تھیں۔ پھر لاک ڈاؤن آ گیا، اور ان کے ۲۰ سالہ شوہر، جو درزی کا کام کرتے ہیں، اور ان کی فیملی – یہ لوگ بھی اسی بستی میں رہتے ہیں – نے ضد کی کہ وہ ان کے گھر آ جائیں۔ یہ جولائی ۲۰۲۰ کے آس پاس کی بات ہے۔ ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا، وہ دن بھر گھر پر رہتے تھے۔ دیگر مرد بھی گھر پر ہی رہتے تھے – ایسے میں کام کے لیے دو اور ہاتھ مل جائے، تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
اسماء کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ ذہنی طور پر تیار ہو سکے۔ ان کی بڑی بہن کا ۲۰۱۹ میں کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا اور پچھلے سال جون میں ان کی بہن کے شوہر (بہنوئی)، جو بڑھئی ہیں، نے لاک ڈاؤن کے دوران اسماء سے شادی کرنے پر زور دیا۔ جون ۲۰۲۰ میں ان کی شادی کر دی گئی۔
دونوں میں سے کسی کو بھی یہ پتا نہیں ہے کہ بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ ’’ماں یہ باتیں نہیں سمجھاتی،‘‘ اسماء کی ماں، رخسانہ کہتی ہیں، جسے سن کر یہ لڑکیاں اور زور سے ہنسنے لگتی ہیں۔ ’’شرم کی بات ہے۔‘‘ سبھی کی رائے ہے کہ یہ اور دیگر معلومات فراہم کرنے والا صحیح فرد دلہن کی بھابھی، یعنی اس کے بھائی کی بیوی ہے۔ لیکن اسماء اور سلیمہ نند- بھابھی ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی حمل یا زچگی کے بارے میں ایک دوسرے کو صلاح نہیں دے سکتا۔
اسماء کی چچی بنگالی ٹولہ کی آشا کارکن (منظور شدہ سماجی طبی کارکن) ہیں اور ’’جلد‘‘ ہی ان دونوں لڑکیوں کو سب کچھ سمجھانے کا وعدہ کرتی ہیں۔ بنگالی ٹولہ میں تقریباً ۴۰ کنبے رہتے ہیں اور یہ رانی گنج بلاک کی بیلوا پنچایت میں واقع ہے۔
یا پھر یہ لڑکیاں اس کے بارے میں ذکیہ پروین سے پوچھ سکتی ہیں، جو اُن سے صرف دو سال بڑی ہیں۔ ان کا بیٹا نظام محض ۲۵ دن کا ہے، جو اپنی کاجل والی آنکھوں سے ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا ہے۔ ’بری نظر‘ سے بچانے کے لیے اس کے ایک گال پر بھی کاجل لگایا گیا ہے۔ ذکیہ کا کہنا ہے کہ وہ ۱۹ سال کی ہیں، لیکن وہ ان سے کافی چھوٹی دکھائی دیتی ہیں۔ سوتی ساڑی کی لہردار تہہ انہیں اور بھی نازک اور کمزور بناتی ہے۔ وہ کبھی اسکول نہیں گئیں، اور ۱۶ سال کی عمر میں ان کی شادی ان کے ایک چچیرے بھائی سے کر دی گئی تھی۔
طبی ملازمین اور محققین کے تجزیہ کے مطابق، بہار کی یہ ’کووڈ کے دور کی کم عمر دلہنیں‘ اب حاملہ ہیں۔ اور وہ غذائیت اور معلومات دونوں کی کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔ حالانکہ، بہار کے گاؤوں میں لاک ڈاؤن سے پہلے بھی نوخیز عمر میں بچے کی پیدائش کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ’’یہاں پریہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ نوجوان لڑکیاں شادی کرتے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں اور ایک سال کے اندر بچے کو جنم دیتی ہیں،‘‘ بلاک ہیلتھ مینیجر پریرنا ورما کہتی ہیں۔
قومی خاندانی صحت کے سروے (این ایف ایچ ایس۔۵، ۲۰۱۹-۲۰) میں کہا گیا ہے کہ سروے کے وقت ۱۵-۱۹ سال کی ۱۱ فیصد لڑکیاں بچے کو جنم دے چکی تھیں یا حاملہ تھیں۔ پورے ملک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، تو کم عمری میں ہونے والی کل شادیوں میں سے ۱۱ فیصد لڑکیوں (۱۸ سال سے پہلے) اور ۸ فیصد لڑکوں (۲۱ سال سے پہلے) کی شادی اکیلے بہار میں ہوتی ہے۔
سال ۲۰۱۶ میں کیا گیا ایک اور سروے بھی یہی تصویر دکھاتا ہے۔ صحت اور ترقی سے متعلق امور پر کام کرنے والے ایک غیر منافع بخش ادارہ، پاپولیشن کونسل کے ایک مطالعہ میں پایا گیا کہ ۱۵-۱۹ سال کے درمیان کی ۷ فیصد لڑکیوں کی شادی ۱۵ سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی تھی۔ دیہی علاقوں میں، ۱۸-۱۹ سال کی عمر کے درمیان ۴۴ فیصد لڑکیوں کی شادی ۱۸ سال سے پہلے کر دی گئی تھی۔
دریں اثنا، پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران کم عمر میں شادی کرنے والی ان نوعمر لڑکیوں کی حالت ایسی ہے کہ وہ شہر میں شوہر کے کام پر لوٹنے کے بعد پوری طرح سے ناآشنا ماحول میں رہ رہی ہیں۔
ذکیہ کے شوہر ممبئی میں زری کی کشیدہ کاری کی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ جنوری میں نظام کی پیدائش کے کچھ دنوں بعد ہی وہ گاؤں چھوڑ کر ممبئی آ گئے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ذکیہ کو کوئی تکمیلی غذا نہیں ملتی ہے۔ اور سرکار کے ذریعے فراہم کی جانے والی کیلشیم اور آئرن کی گولیوں کی تقسیم ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ، انہیں آنگن واڑی سے حمل کی گولیاں ٹھیک سے ملیں۔
’’آلو کی ترکاری (سبزی) اور چاول،‘‘ ہی ان کی یومیہ غذا ہے، وہ بتاتی ہیں۔ دال، پھل کچھ بھی نہیں ہے۔ اگلے کچھ دنوں تک، ذکیہ کی فیملی نے انہیں انڈے یا گوشت کھانے سے منع کر دیا کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے بچے کو پیلیا (یرقان) ہو سکتا ہے۔ گھر کی دودھ دینے والی گائے کو دروازے پر باندھا جاتا ہے۔ لیکن اگلے کچھ مہینوں تک ذکیہ کو دودھ پینے کے لیے نہیں دیا جائے گا۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ان غذائی اشیاء سے پیلیا کی بیماری ہو سکتی ہے۔
فیملی، نظام کو لیکر بہت محتاط ہے۔ ذکیہ کی شادی ۱۶ سال کی عمر میں ہوئی تھی اور دو سال بعد نظام کی پیدائش ہوئی تھی۔ ’’اسے کیسرارہ گاؤں میں ایک بابا کے پاس لے جانا پڑا۔ وہاں ہمارے رشتہ دار رہتے ہیں۔ انہوں نے (بابا نے) ہمیں اسے کھلانے کے لیے ایک جڑی دی۔ اس کے فوراً بعد وہ حاملہ ہو گئی۔ یہ ایک جنگلی دوا ہے،‘‘ ذکیہ کی ماں کہتی ہیں، جو ایک خاتونِ خانہ ہیں (اور ان کے والد مزدوری کا کام کرتے ہیں)۔ دوسری بار، اگر وہ حاملہ نہیں ہوئیں، تو کیا وہ تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور، ان کو کیسرارہ لے جائیں گے؟ ’’نہیں، دوسرا بچہ تب آئے گا جب اللہ کی مرضی ہوگی۔‘‘
ذکیہ کی تین چھوٹی بہنیں ہیں، سب سے چھوٹی پانچ سال کی بھی نہیں ہوئی ہے۔ ان کا بڑا بھائی تقریباً ۲۰ سال کا ہے، اور وہ بھی مزدوری کا کام کرتا ہے۔ سبھی بہنیں اسکول اور مدرسے جاتی ہیں۔ حالانکہ، ذکیہ کو گھر کی خراب حالت کے سبب اسکول نہیں بھیجا گیا تھا۔
کیا ڈیلیوری کے بعد انہیں ٹانکے لگانے کی ضرورت پڑی تھی؟ ذکیہ سر ہلاتی ہیں۔ درد ہو رہا ہے کیا؟ ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، لیکن وہ کوئی جواب نہیں دیتیں اور اپنی نظریں نظام کی طرف موڑ لیتی ہیں۔
دو دیگر حاملہ خواتین پوچھتی ہیں کہ کیا زچگی (ڈیلیوری) کے دوران روئی تھی، اور ان کے آس پاس کی عورتیں یہ سن کر ہنسنے لگتی ہیں۔ ’’بہت روئی تھی،‘‘ ذکیہ اب تک کی گفتگو میں سب سے تیز آواز میں کہتی ہیں۔ ہم تھوڑا خوشحال، ایک پڑوسی کے جزوی طور پر تعمیرہ شدہ مکان میں، کہیں سے مانگ کر لائی گئی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھے تھے، جو فرش پر پڑے سیمنٹ کے ڈھیر پر لاکر رکھی گئی تھیں۔
عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ، عالمی صحت کا تخمینہ ۲۰۱۶ اسباب، عمر، صنف پر مبنی موت، ملک اور خطہ کے لحاظ سے، ۲۰۰۰-۲۰۱۶ (Global Health Estimates 2016: Deaths by Cause, Age, Sex, by Country and by Region, 2000-2016) میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ۲۰-۲۴ سال کی عورتوں کے مقابلے ۱۰-۱۹ سال کی عمر کی ماؤں میں ایکلمپسیا (زچگی سے قبل یا زچگی کے بعد ہائی بلڈ پریشر اور دورہ)، زچگی کے بعد (بچے کی پیدائش کے بعد چھ ہفتے تک) اینڈومیٹریئوسس اور دیگر انفیکشن کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو بھی پیدائش کے وقت کم وزن سے لیکر خطرناک بیماری تک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
ذکیہ کو لیکر ارریہ بلاک کی ہیلتھ مینیجر، پریرنا ورما کی ایک اور تشویش ہے۔ ’’اپنے شوہر کے پاس مت جانا،‘‘ وہ ذکیہ کو صلاح دیتی ہیں۔ بہار کے گاؤوں میں انہوں نے بہت ہی چھوٹی عمر کی ماؤں کو بار بار حاملہ ہوتے دیکھا ہے۔
دریں اثنا، جو ایک ماہ کی حاملہ ہیں (فروری میں، جب میں ان سے ملی تھی)، زچگی سے قبل کی دیکھ بھال کے لیے مقامی آنگن باڑی میں ان کا رجسٹریشن ہونا ابھی باقی ہے۔ اسماء چھ ماہ کی حاملہ ہیں، لیکن ان کے پیٹ کا اُبھار بہت چھوٹا ہے۔ انہیں ’’طاقت کی دوا‘‘ ملنے لگی ہے – یہ اصل میں کیلشیم اور آئرن کی گولیاں ہیں، جو حکومت کے ذریعے تمام حاملہ خواتین کو ۱۸۰ دنوں تک مہیا کرائی جاتی ہیں۔
لیکن این ایف ایچ ایس۔۵ کی مانیں، تو بہار میں صرف ۹ اعشاریہ ۳ فیصد خواتین نے ہی اپنے حمل کے دوران ۱۸۰ دنوں یا اس سے زیادہ وقت تک آئرن فولک ایسڈ کی گولیاں کھائی ہیں۔ صرف ۲۵ اعشاریہ ۲ فیصد ماؤں نے کم از کم چار بار زچگی سے قبل کی دیکھ بھال کے لیے طبی مرکز کا دورہ کیا ہے۔
اسماء گھبراہٹ میں مسکرانے لگتی ہیں، جب ان کی ماں بتاتی ہیں کہ متوقع دولہا ان سے شادی کے لیے ایک سال انتظار کیوں نہیں کر سکتا۔ ’’لڑکی کی فیملی کو لگا کہ گاؤں کا کوئی اور لڑکا اسے بھگا لے جائے گا۔ وہ اسکول جا رہی تھی، اور ظاہر ہے، ہمارے گاؤں میں یہ سب چلتا رہتا ہے،‘‘ رخسانہ کہتی ہیں۔
قومی خاندانی صحت کے سروے (۲۰۱۹-۲۰) کے مطابق، ۱۵ سے ۱۹ سال کی ۱۱ فیصد لڑکیاں سروے کے وقت ماں بن چکی تھیں یا حاملہ تھیں
*****
پاپولیشن کونسل کے سال ۲۰۱۶ کے سروے (بعنوان ’اُدے‘ – انڈر اسٹینڈنگ ایڈولسینٹس اینڈ ینگ ایڈلٹس، یعنی بلوغت اور نوجوان بالغوں کو سمجھنا) میں جذباتی، جسمانی اور جنسی تشدد کے معاملوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو لڑکیوں کو اپنے شوہروں سے جھیلنا پڑتا ہے۔ پندرہ سے ۱۹ سال کی ۲۷ فیصد لڑکیوں کے منہ پر کم از کم ایک بار طمانچہ مارا گیا تھا، اور ۳۷ اعشاریہ ۴ فیصد لڑکیوں کو کم از کم ایک بار جسمانی تعلقات بنانے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی، اس عمر کی ۲۴ اعشاریہ ۷ فیصد شادی شدہ لڑکیوں پر شادی کے فوراً بعد بچے پیدا کرنے کا دباؤ بنایا گیا، اور ۲۴ اعشاریہ ۳ فیصد کو ڈر تھا کہ اگر انہوں نے شادی کے فوراً بعد بچے پیدا نہیں کیے، تو لوگ انہیں ’بانجھ‘ کہنے لگیں گے۔
پٹنہ میں مقیم انامیکا پریہ درشنی، جو ’سکشما: انیشی ئیٹو فار وہاٹ ورکس، بہار‘ میں ہو رہی تحقیق کی قیادت کر رہی ہیں، بتاتی ہیں کہ لاک ڈاؤن نے ریاست میں کمر عمری کی شادی کی روک تھام کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ’’سال ۲۰۱۶-۱۷ میں یو این ایف پی اے اور ریاستی حکومت نے مشترکہ طور پر ’بندھن توڑ‘ نامی ایک ایپ لانچ کیا تھا، تب کم عمری کی شادی کو لیکر کئی رپورٹ یا شکایتیں موصول ہوئی تھیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اس ایپ میں جہیز اور جنسی جرائم جیسے مسائل کے بارے میں معلومات ہیں اور ساتھ ہی ایک ایس او ایس (ناگہانی صورتحال میں مدد کا) بٹن ہے، جس کا استعمال قریبی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
جنوری ۲۰۲۱ میں سکشما نے ’ہندوستان میں کم عمری کی شادی، خاص طور سے بہار کے حوالے سے‘ عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی۔ یہ ادارہ کم عمری کی شادی پر ایک تفصیلی سروے کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ انامیکا بتاتی ہیں کہ لڑکیوں کی کم عمر میں شادی کو روکنے کےلیے ان کی اچھی تعلیم، مختلف سرکاری اسکیموں، شرائط کے ساتھ پیسے کی منتقلی اور کئی دیگر پروگراموں پر ملا جلا رد عمل ملا ہے۔ ’’ان میں سے کچھ پروگراموں کا یقیناً مثبت اثر پڑا ہے۔ مثال کے طور پر، لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے لیے مالی مدد یا بہار میں لڑکیوں کے لیے سائیکل کی اسکیم نے سیکنڈری اسکول میں لڑکیوں کی موجودگی اور ان کی نقل و حرکت میں اضافہ کیا ہے۔ ان اسکیموں سے فیضیاب ہونے والی لڑکیوں کی بھی شادی ۱۸ سال کی عمر میں ہو جاتی ہے، لیکن یہ بھی ٹھیک ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
کم عمری کی شادی کی روک تھام کا قانون، ۲۰۱۶ کو سختی سے نافذ کیوں نہیں کیا جاتا ہے، اس پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بہار میں کم عمری کی شادی کے قوانین کے مؤثر نفاذ سے متعلق کوئی بھی مطالعہ عوامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔ لیکن آندھرا پردیش، گجرات، مغربی بنگال اور راجستھان جیسی دیگر ریاستوں میں کیے گئے مطالعات سے پتا چلا ہے کہ سیاسی مداخلت، ذاتی مفاد والے منظم گروہوں اور نیٹ ورک کے اثر کی وجہ سے، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون کو نافذ کرنے میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‘‘
بالفاظ دیگر، سیاست سے وابستہ یا خوشحال خاندانوں سمیت، معاشرے میں بڑے پیمانے پر قبولیت کے سبب کم عمری کی شادی کو روکنا آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، چونکہ یہ روایت ثقافتی اور مذہبی عقائد سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے، اس لیے حکومت کے لیے مداخلت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ارریہ سے ۵۰ کلومیٹر مشرق میں، پورنیہ ضلع کے پورنیہ مشرقی تعلقہ میں، آگا ٹولہ گاؤں کی منیشا کماری اپنی ماں کے برآمدے کے آرامدہ سایہ میں، اپنے ایک سال کے بچے کو گود میں بٹھاکر کھلا رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی عمر ۱۹ سال ہے۔ انہیں مانع حمل کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے اور اگلے حمل کو ٹالنے کے لیے وہ اکثر قسمت پر بھروسہ کرتی ہیں۔ ان کی چھوٹی بہن، ۱۷ سالہ منیکا، فیملی کے ذریعے شادی کے لیے دباؤ بنانے کے سبب مرجھانے لگی ہے۔ ان کی ماں ایک خاتون خانہ ہیں، اور والد زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔
منیکا کہتی ہیں، ’’میرے سر نے بتایا ہے کہ شادی کی کم از کم عمر ۱۸ سال ہے۔‘‘ وہ پورنیہ شہر کے ایک رہائشی اسکول کے ٹیچر کا حوالہ دیتی ہے، جہاں وہ ۱۰ویں کلاس میں زیر تعلیم تھی، لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد وہ گھر لوٹ آئی تھی۔ اب اس کی فیملی اسے اسکول واپس بھیجنے کو لیکر پس و پیش میں ہے – اس سال کئی اور چیزیں ناقابل برداشت ہیں۔ گھر لوٹنے کے بعد، اس بات کا امکا ہے کہ منیکا کی شادی طے کر دی جائے گی۔ ’’سب یہی کہہ رہے ہیں کہ شادی کر لو،‘‘ وہ بتاتی ہے۔
پڑوس میں، تقریباً ۲۰-۲۵ کنبوں کی ایک بستی، رام گھاٹ میں رہنے والی بی بی تنزیلہ ۳۸ یا ۳۹ سال کی عمر میں آٹھ سال کے ایک لڑکے اور دو سال کی ایک لڑکی کی دادی بن چکی ہیں۔ ’’اگر کوئی لڑکی ۱۹ سال کی عمر میں غیر شادی شدہ ہے، تو اسے بڑھیا سمجھا جاتا ہے، کوئی اس سے شادی نہیں کرے گا،‘‘ تنزیلہ کہتی ہیں۔ ’’ہم شیرشاہ آبادی مسلمان ہیں، ہم اپنی مذہبی کتاب پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ ہمارے یہاں مانع حمل کی اجازت نہیں ہے، اور بالغ ہونے کے کچھ سالوں بعد ہی لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ ۱۴ سال کی عمر میں وہ دلہن، اور اس کے ایک سال بعد ماں بن گئی تھیں۔ چوتھے بچے کی پیدائش ہونے کے بعد، کچھ پیچیدگیاں ہوئیں اور ان کی نس بندی کر دی گئی۔ ’’ہمارے مذہب میں، کوئی بھی اپنی مرضی سے آپریشن نہیں کرواتا ہے،‘‘ وہ بچہ دانی نکالنے اور نس بندی کرانے کے بارے میں کہتی ہیں، جو بہار میں (این ایف ایچ ایس۔۵ کے مطابق) مانع حمل کا سب سے مقبول طریقہ ہے۔ ’’کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ ہمارے ۴-۵ بچے ہو گئے ہیں، اس لیے اب ہم اور کی پرورش نہیں کر سکتے۔‘‘
رام گھاٹ کے شیرشاہ آبادی مسلمانوں کے پاس کاشتکاری کے لیے زمین نہیں ہے۔ مرد قریب کے پورنیہ شہر میں یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ کچھ پٹنہ یا دہلی چلے جاتے ہیں، اور کچھ بڑھئی یا پلمبر کا کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ نام انہیں مغربی بنگال کے مالدہ میں واقع شیرشاہ آباد قصبہ سے ملا ہے، جو شیر شاہ سوری کے نام پر ہے۔ وہ آپس میں بنگالی زبان بولتے ہیں، اور اپنی ہی برادری کے لوگوں کی گھنی آبادی کے درمیان رہتے ہیں۔ اُن پر اکثر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
گاؤں کی آشا کارکن، سنیتا دیوی کا کہنا ہے کہ رام گھاٹ جیسی بستیوں میں خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل پر سرکاری مداخلت کا بہت کم اثر پڑا ہے کیوں کہ یہاں بہت کم لوگ تعلیم یافتہ ہیں، کم عمری کی شادی عام بات ہے اور مانع حمل کی اجازت بالکل بھی نہیں ہے۔ وہ ایک نوجوان لڑکی، ۱۹ سال کی سعدیہ (نام بدل دیا گیا ہے) سے تعارف کرواتی ہیں، جو دو بچوں کی ماں ہیں۔ سعدیہ نے اپنے دوسرے بیٹے کو مئی ۲۰۲۰ میں، لاک ڈاؤن کے دوران جنم دیا تھا۔ ان کے دونوں بچوں کے درمیان محض ۱۳ مہینے کا فرق ہے۔ سعدیہ کی نند نے اپنے شوہر کی اجازت سے مانع حمل انجیکشن کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ ایک مقامی حجام ہیں، اور یہ اجازت انہوں نے آشا کارکن کے سمجھانے سے نہیں، بلکہ اپنی مالی تنگی کی وجہ سے دی ہے۔
تنزیلہ کہتی ہیں کہ وقت آہستہ آہستہ بدلنے لگا ہے۔ ’’بیشک، زچگی تکلیف دہ تھی، لیکن اُن دنوں جتنی نہیں جیسا کہ آج کل یہ محسوس ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آج کل ہمارے کھانے میں تغذیہ کی کمی کے سبب ہو،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ رام گھاٹ کی کچھ عورتیں اب مانع حمل گولیاں، یا انجیکشن، یا کاپر ٹی کا استعمال کرنے لگی ہیں۔ ’’حمل کو روکنا غلط ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ آج کل لوگوں کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہے۔‘‘
اُدھر، تقریباً ۵۵ کلومیٹر دور، ارریہ کے بنگالی ٹولہ میں اسماء بتاتی ہیں کہ انہوں نے اسکول نہیں چھوڑا ہے۔ جب ان کی شادی ہوئی تھی، تو لاک ڈاؤن کے سبب اسکول بند ہو گیا تھا۔ شادی کے بعد وہ ۷۵ کلومیٹر دور، کشن گنج چلی گئی تھیں۔ لیکن فروری ۲۰۲۱ میں صحت سے متعلق مسائل کے سبب وہ اپنی ماں کے پاس لوٹ آئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کے جنم کے بعد وہ اپنے اسکول، کنیا مدھیہ ودیالیہ پیدل چل کر جا سکیں گی۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ایسا کرنے میں ان کے شوہر کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
صحت کا سبب پوچھنے پر، اس کا جواب رخسانہ دیتی ہیں: ’’ایک دن شام کو مجھے اس کے سسرال سے فون آیا کہ اسے ہلکی سی بلیڈنگ (خون آنا) ہو رہی ہے۔ میں نے بس پکڑی اور فوراً کشن گنج پہنچ گئی۔ ہم سبھی ڈر کے مارے رونے لگے۔ وہ حوائج ضروریہ کے لیے باہر گئی ہوئی تھی، اور وہاں ہوا میں کچھ رہا ہوگا، کوئی چڑیل وغیرہ۔‘‘ اس کے بعد اس ممکنہ ماں کی حفاظت کے لیے جھاڑ پھونک کرانے کے لیے ایک بابا کو بلایا گیا۔ لیکن گھر واپس آنے کے بعد، اسماء نے فیملی سے کہا کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی ہیں۔ اگلے دن، وہ اسماء کو کشن گنج کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں لے گئے، جہاں سونوگرافی سے پتا چلا کہ جنین (پیٹ میں پل رہے بچہ) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
اپنے خود کے اس فیصلہ کو یاد کرکے اسماء مسکرانے لگتی ہیں، حالانکہ اس کی یادیں اب دھندلی ہو چکی ہیں۔ ’’میں یہ یقینی بنانا چاہتی تھی کہ میں اور میرا بچہ ٹھیک ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وہ مانع حمل کے بارے میں زیادہ نہیں جانتیں۔ لیکن ہماری بات چیت نے ان کے تجسس کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے بارے میں وہ مزید جاننا چاہتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز