اگنی دیوتا کے منصوبہ پر پانی پھیرتے ہوئے، اندر ایک بار پھر کھانڈو جنگل پر موسلا دھار بارش کر رہے تھے۔ اگنی دیوتا غصے میں تھے اور اندر کو ہرانا چاہتے تھے۔ انہیں (اگنی دیوتا) کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو یہ کر پائے۔

اندر پرستھ میں ارجن کی شادی سوبھدرا کے ساتھ ختم ہو رہی تھی۔ یہ تقریب لمبے وقت تک بڑی دھوم دھام سے چلتی رہی، ٹھیک اسی طرح جیسے راجاؤں کی شادیوں میں ہوا کرتا ہے۔ تقریب کے بعد، ارجن اور کرشن اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ پاس کے کھانڈو وَن (جنگل) میں پکنک منانے گئے۔ جب وہ جنگل میں تھے، اگنی دیوتا برہمن کی شکل اختیار کرکے ان کے پاس پہنچے۔ انہوں نے کرشن اور ارجن سے اچھا کھانا کھانے کی اپنی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے شکایتی انداز میں بتایا کہ یگیوں میں بہت زیادہ گھی والا کھانا کھانے کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئے تھے اور اس لیے انہیں کھانے کے لیے کچھ تازہ اور ہرا بھرا کھانا چاہیے تھا۔ یعنی جنگل۔

انہوں نے پوچھا، ’’جنگلی جانوروں اور درختوں سے بھرے کھانڈو وَن سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اس سے مجھے اپنی طاقت اور توانائی واپس حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘

لیکن اندر نے ان کے منصوبہ پر پانی پھیرنے کی ٹھان لی تھی۔ انہیں (اگنی دیوتا کو) مدد کی ضرورت تھی۔ کرشن اور ارجن ایک برہمن کو خالی ہاتھ بھیج دینے کا مطلب اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے (کرشن اور ارجن نے) ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ اگنی دیوتا نے جنگل کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اونچے شعلے خطرناک طریقے سے پھیلنے لگے۔ کرشن اور ارجن جنگل کے کنارے کھڑے ہو کر ہر بھاگتے ہوئے جانور کو مار رہے تھے اور اندر سے جنگ کر رہے تھے۔ زمین اور آسمان، نارنجی لپٹوں میں جل رہے تھے…

- مہابھارت کے آدی پرو کے ’کھانڈو وَن دہن‘ واقعہ سے ماخوذ۔

انشو مالویہ کی آواز میں یہ نظم سنیں

کھانڈو وَن

کھانڈو وَن جل رہا ہے، دھرم راج!

وَن سے اٹھتا گاڑھا سیاہ دھواں
ہماری ناک کی سرنگوں سے ہوتا ہوا
پھیپھڑوں کے گہواروں میں داخل ہوتا جاتا ہے
پر تشدد جانوروں کی مانند…


اندھیرے میں چمکتی ہیں
انگاروں جیسی آنکھیں
ڈر سے گھگھی بندھ جاتی ہے ہماری
اور ہمارے پھیپھڑے سوکھے ہوئے انگور کے گچھوں کی طرح
سیاہ، بدرنگ رس ٹپکاتے؛

قوم کا دَم گھُٹ رہا ہے
یوگی راج!

کھانڈو وَن جل رہا ہے!!

شہری سیٹھوں کے یگیوں سے پریشان
راجاؤں کی حوس والے یگیوں سے
پوری طرح لیس
برہمن کی شکل و صورت والی آگ کو
آکسیجن چاہیے
اپنی جوانی کو روشن کرنے کے لیے؛
اسے چاہیے تازہ پیڑوں کا لہو
اسے چاہیے مردہ جانوروں کی بدبو
اسے چاہیے…
انسانی چیخ…
لکڑیوں کی چٹختی آواز جیسی پکار میں،

’تتھاستو‘ کرشن بولا


’کام ہو جائے گا‘ ارجن نے مونچھ پر ہاتھ پھیرا…
اور کھانڈو وَن شعلے سے چمک اٹھا…


کھانڈو وَن جل رہا ہے
یوگیشور!

دَم گھُٹنے سے بھاگ رہے ہیں
جانور چیختے ہوئے
پروں سے پکڑ کر چڑیوں کو واپس لپٹوں میں پٹخ رہی ہے
آگے؛


بھیل، کول، کیرات، ناگ…جنگل سے باہر کے لوگ
ایک چُلّو آکسیجن کے لیے چھٹپٹاتے ہوئے
بھاگ رہے ہیں جنگل سے باہر -


تراہیمام!


کھانڈو وَن کی سرحد پر کھڑا ہے کرشن،
نشے سے مدہوش ہیں آنکھیں،


کھڑا ہے ارجن ڈیوٹی پر
آگ سے بچ کر بھاگتے لوگوں کو
موت کے گھاٹ اتارتا
واپس آگ کے شعلوں میں جھونکتا…


ہمیں آکسیجن بخش دو
مہابھارت کے فاتحین
یہ بھارت تمہارا
یہ مہابھارت تمہارا
یہ دھرتی، یہ دولت – ساز و سامان،
یہ مذہب، یہ پالیسی
معلوم – نامعلوم سب تمہارا
ہمیں بس ایک سیلنڈر آکسیجن چاہیے…مدھو سودن
یہ آکسیجن آگ کی غذا نہیں
ہماری زندگی ہے

تم نے کہا تھا نا!
آگ روح کو نہیں جلا سکتی
لیکن یہ جنگل ہماری روح تھا اور
اب یہ جل رہا ہے

کھانڈو وَن جل رہا ہے
گیتیشور!
کھانڈو وَن ایک بڑی چِتا جیسا
دھو – دھو کر
جل رہا ہے!!

الفاظ و معانی

آدی پرو: باب ۲۱۴ سے ۲۱۹ – مہابھارت کا وہ حصہ ہے جس میں اوپر دیے گئے واقعہ کا ذکر آتا ہے۔

دھرم راج: یودھشٹھر سے خطاب ہے۔

یوگی راج، یوگیشور، مدھو سودن، گیشیشور: یہ سبھی کرشن کے دوسرے نام ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Anshu Malviya

அன்ஷு மால்வியா ஒரு இந்தி கவிஞர். மூன்று கவிதைத் தொகுப்பை பிரசுரித்தவர். அலகாபாத்தைச் சேர்ந்த சமூகக் கலாசார செயற்பாட்டாளர் ஆவார். நகரத்தின் ஏழைகளுக்காகவும் முறைசாரா தொழிலாளருக்காகவும் கூட்டுக் கலாசாரத்துக்காகவும் இயங்குபவர்.

Other stories by Anshu Malviya
Paintings : Antara Raman

அந்தரா ராமன் ஓவியராகவும் வலைதள வடிவமைப்பாளராகவும் இருக்கிறார். சமூக முறைகல் மற்றும் புராண பிம்பங்களில் ஆர்வம் கொண்டவர். பெங்களூருவின் கலை, வடிவமைப்பு மற்றும் தொழில்நுட்பத்துக்கான சிருஷ்டி நிறுவனத்தின் பட்டதாரி. ஓவியமும் கதைசொல்லல் உலகமும் ஒன்றுக்கொன்று இயைந்தது என நம்புகிறார்.

Other stories by Antara Raman
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique