آر کیلاشم عموماً بینک سے لوٹتے وقت مضطرب رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں جب بھی اپنا پا س بُک اپ ڈیٹ کرانے جاتا ہوں، وہ یہ کہتے ہوئے مجھے واپس بھیج دیتے ہیں کہ مشین کی مرمت ہو رہی ہے، یا اگلی بار آنا۔‘‘
وہ بھی تب، جب انہیں اپنی بستی بنگلا میڈو سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور، کے جی کنڈی گئی شہر میں واقع بینک پہنچنے کے لیے تقریباً دو گھنٹے تک پیدل چل کر جانا پڑتا ہے۔ (ایک سال پہلے تک، آدھی دوری طے کرنے کے لیے بس سروس دستیاب تھی، لیکن وہ بھی اب بند ہو چکی ہے)۔
بینک میں ان کی اصل جدوجہد شروع ہوتی ہے۔ تمل ناڈو کے تیروولّور ضلع میں، کینرا بینک کی کے جی کندیگئی شاخ میں، پاس بُک میں اندراج کرانے کے لیے خودکار مشین لگی ہوئی ہے۔ کیلاشم اس مشین کا استعمال کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ ’’یہ میری لیے کام نہیں کرتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ایک دن صبح کو، جب وہ بینک سے متعلق اپنی یہ پریشانی مجھے بتا رہے تھے، تو ویلی کاتھن درخت کے سایہ میں پاس ہی زمین پر بیٹھی کچھ خواتین ہمارے بات چیت میں شامل ہو جاتی ہیں۔ ’’تاتا [دادا]، اندراج کرانے کے لیے آپ کے پاس بُک پر ایک اسٹیکر ہونا چاہیے،‘‘ ان میں سے ایک خاتون کہتی ہیں۔ ان کا کہنا صحیح ہے: کیلاشم کے پاس بُک پر بار کوڈ نہیں ہے، جو مشین کے کام کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے اسٹیکر کیوں نہیں دیا۔ مجھے یہ چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اُن عورتوں کو بھی زیادہ جانکاری نہیں ہے اور وہ صرف قیاس آرائی کر رہی ہیں: ’’اگر آپ کو [اے ٹی ایم] کارڈ ملا ہے، تو اسٹیکر بھی ملے گا،‘‘ ان میں سے ایک کہتی ہے۔ ’’آپ کو ۵۰۰ روپے دیکر نیا اکاؤنٹ کھلوانا پڑے گا،‘‘ دوسری کہتی ہے۔ ’’اگر آپ کا زیرو اکاؤنٹ ہے، تو آپ کو یہ نہیں ملے گا،‘‘ تیسری عورت کہتی ہے۔ کیلاشم حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھتے ہیں۔
بینک کی اس جدوجہد میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ بنگلا میڈو میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، جن کے لیے اپنے اکاؤنٹ کا انتظام کرنا، پیسے نکالنا یا اپنی آمدنی کا پتا لگانا آسان نہیں ہے۔ سرکاری طور پر چیروکّنور ایرولا کالونی کے نام سے مشہور ان کی بستی، تیروتّانی بلاک میں بہت سی کھلی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان ایک واحد سڑک ہے۔ سڑک کے دونوں طرف ۳۵ ایرولا کنبوں کی چھوٹی جھونپڑیاں اور دو چار پختہ مکان ہیں۔ (سرکاری دستاویزات میں اب اس برادری کا نام عام طور سے ایرولار لکھا جاتا ہے۔)
ساٹھ سالہ کیلاشم اور ان کی بیوی، ۴۵ سالہ سنجے یمّا ایک کچی جھونپڑی میں رہتے ہیں، جس کی چھت گھاس کی ہے۔ ان کے پاس چار بکریاں ہیں، جن کی دیکھ بھال سنجے یمّا کرتی ہیں؛ ان کے چار بالغ بچے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ باہر جا چکے ہیں۔ یومیہ اجرت کا کام کرنے والے کیلاشم کہتے ہیں، ’’کھیتوں میں کام کرتے وقت مجھے دن بھر جھکے رہنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے میری پیٹھ میں شدید درد ہوتا ہے اور میری ہڈیاں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ آج کل میں ایری ویلئی [تالاب کھودنے کا کام، جیسا کہ منریگا کے کام کو یہاں کہا جاتا ہے] کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون ۲۰۰۵ (منریگا) ہر ایک دیہی فیملی کو سال میں کم از کم ۱۰۰ دنوں کی مزدوری کا کام مہیا کرتا ہے – لیکن بنگلا میڈو کے ایرولاؤں کو ۱۰۰ دنوں کا کام شاید ہی کبھی ملتا ہے۔
تمل ناڈو میں ایرولا، خاص طور سے کمزور قبائلی گروپ (پی وی جی ٹی) کے طور پر درج ہیں۔ اپنی آمدنی کے لیے وہ زیادہ تر یومیہ اجرت کے کام پر منحصر ہیں۔ بنگلا میڈو کے مرد دھان کے کھیتوں، اینٹ کے بھٹوں اور تعمیراتی مقام پر موسم کے حساب سے ملنے والے کام کرتے ہیں، اور ایک دن میں ۳۵۰ روپے سے ۴۰۰ روپے تک نقد کماتے ہیں۔ جس دن انہیں کوئی کام نہیں ملتا، وہ نزدیک کے جھاڑی دار جنگلوں میں کھانے والے پھل اور قند تلاش کرتے ہیں۔ وہ اپنی روزمرہ کی غذا کے لیے چوہے، خرگوش، گلہری جیسے چھوٹے جانوروں اور پرندوں کا بھی شکار کرتے ہیں۔ (دیکھیں بنگلا میڈو میں دفن خزانے کی کھدائی اور بنگلا میڈو میں چوہوں کے ساتھ ایک الگ راہ پر )
بستی کی زیادہ تر عورتوں کے لیے منریگا کا کام ہی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ لیکن کچھ عورتیں موسم کے حساب سے اینٹ بھٹوں پر بھی کام کرتی ہیں۔ (دیکھیں ’بنگلا میڈو: عورتوں کے لیے نوکریاں کہاں ہیں؟‘ )
ایرولا منریگا کے مقام پر تالابوں کی صفائی، گڑھے کی کھدائی یا شجرکاری کرکے ایک دن میں ۱۷۵ روپے کماتے ہیں۔ یہ پیسہ سیدھے ان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کر دیا جاتا ہے۔
’’اگر میں اِس ہفتہ کام کروں، تو مجھے اگلے ہفتے کے بعد پیسہ ملتا ہے،‘‘ کیلاشم کہتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ مہینہ کے آخر میں کتنے پیسے کی بچت کر لیتے ہیں: ’’ہمیں [گھریلو اخراجات کے لیے] ہر مہینے ۵۰۰ روپے کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’باقی پیسہ بینک میں ہے۔ ایک بار بینک میں میرے پاس ۳۰۰۰ روپے تھے، جسے میں نے اپنے بیٹے کو کچھ خریدنے کے لیے دے دیا تھا۔‘‘
بینک سے پیسے نکالنے کے لیے کیلاشم کو فارم بھرنا پڑتا ہے۔ ’’وہ مجھ سے چالان دینے کے لیے کہتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے بھرا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ انہیں اور سنجے یمّا، دونوں کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ ’’بینک کے ملازمین ہمارے لیے یہ فارم بھرنے سے منع کر دیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں کسی کے آنے کا انتظار کرتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ وہ میرے لیے فارم بھر دیں۔ میں جب بھی [۲-۳ مہینے میں ایک بار] وہاں جاتا ہوں، تو ۱۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں نکالتا۔‘‘
جن لوگوں سے وہ مدد کی درخواست کرتے ہیں، ان میں سے ایک کا نام جی منی گندن ہے۔ وہ بینک سے متعلق کام میں کیلاشم کی مدد کرتے ہیں، اور آدھار کارڈ بنوانے یا سرکاری اسکیموں یا پنشن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے درخواست کرتے وقت فارم وغیرہ بھرنے میں وہ دیگر ایرولاؤں کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔
’’میں جب بھی وہاں [بینک میں] جاتا ہوں، تو دیکھتا ہوں کہ ۵ یا ۶ لوگ مدد حاصل کرنے کے لیے کسی کے آنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ چالان انگریزی میں ہیں۔ میں ان کی مدد کرتا ہوں، کیوں کہ میں تھوڑا بہت انگریزی پڑھ سکتا ہوں،‘‘ ۳۶ سالہ منی گندن کہتے ہیں، جنہوں نے ۹ویں کلاس کے بعد اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ ایک مقامی غیر منافع بخش تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں جو بچوں کے لیے اسکول کے بعد کلاسوں کا انتظام کرتی ہے۔ ’’شروع میں مجھے ڈر لگا رہتا تھا کہ مجھ سے غلطی ہو جائے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اگر ہم کھرونچتے ہیں یا کسی چیز کو درست کرتے ہیں، تو وہ اسے پھاڑ دیتے ہیں جس کے بعد ہمیں نئے کاغذ پر دوبارہ لکھنا پڑتا ہے۔‘‘ گزشتہ کچھ مہینوں سے چالان تمل زبان میں بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔
کیلاشم کی پڑوسن، ۵۵ سالہ گووندمّل، جو کبھی اسکول نہیں گئیں، انہیں بھی منریگا کی مزدوری اور ۱۰۰۰ روپے کی ماہانہ پنشن تک رسائی حاصل کرنے میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ایک بیوہ ہیں اور اکیلی رہتی ہیں؛ ان کی بیٹی اور دو بیٹے اُسی بستی میں اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ’’میں اپنے انگوٹھے کا نشان لگاتی ہوں۔ اس لیے وہ [بینک کے ملازمین] مجھے چالان جمع کرانے کے لیے کسی گواہ کا دستخط لانے کو کہتے ہیں۔ میں عام طور پر اسی شخص سے دستخط کرنے کی درخواست کرتی ہوں جس نے اسے بھرا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
جو شخص چالان بھرتا ہے، اسے بھی اپنا اکاؤنٹ نمبر دینا پڑتا ہے۔ منی گندن ہنستے ہوئے ایک واقعہ کو یاد کرتے ہیں: ’’میں نے ایک بار کسی کے لیے بطور گواہ دستخط کیا تھا اور اپنا اکاؤنٹ نمبر لکھ دیا تھا۔ بینک نے میرے اکاؤنٹ سے ہی پیسے کاٹ لیے۔ خوش قسمتی سے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور مجھے میرے پیسے واپس مل گئے۔‘‘
خود اپنے بینک کے کام کے لیے، منی گندن اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹرانزیکشن کے لیے وہ اسکرین پر تمل زبان کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہیں یہ کارڈ تین سال پہلے ملا تھا، لیکن اسے استعمال کرنے کے بارے میں سیکھنے کے لیے انہیں تھوڑا وقت لگا۔ ’’پیسے کیسے نکالنے ہیں اور اکاؤنٹ کا بیلنس کیسے چیک کرنا ہے، اسے سمجھنے کے لیے مجھے ۲۰ بار کوشش کرنی پڑی۔‘‘
کیلاشم اور گووندمّل اے ٹی ایم کارڈ کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ منی گندن بتاتے ہیں کہ کائی ناٹّو – یعنی جو لوگ دستخط کرنے کی بجائے انگوٹھے کا نشان لگاتے ہیں، انہیں اے ٹی ایم کارڈ نہیں دیے جاتے۔ حالانکہ، کے جی کندیگئی شہر میں موجود کینرا بینک کے برانچ مینیجر، بی لِنگمیّاہ کہتے ہیں کہ پہلے ایسا ضرور ہوتا تھا، لیکن اب یہ بینک ہر اُس شخص کو اے ٹی ایم کارڈ جاری کرتا ہے، جو اس کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جَن دَھن [اکاؤنٹ] ہے یا وہ انگوٹھا لگاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن بنگلا میڈو میں رہنے والے بہت سے لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے۔
’میں اپنے انگوٹھے کا نشان لگاتی ہوں۔ اس لیے وہ [بینک کے ملازمین] مجھے چالان جمع کرانے کے لیے کسی گواہ کا دستخط لانے کو کہتے ہیں۔ میں عام طور پر اسی شخص سے دستخط کرنے کی درخواست کرتی ہوں جس نے اسے بھرا ہے،‘ گووندمّل بتاتی ہیں
بینک تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے، کینرا بینک نے بنگلا میڈو سے پیدل تین کلومیٹر کی دوری پر، چیروکّنور میں ایک ’بہت ہی چھوٹی شاخ‘ بنائی ہے۔ یہاں کے لوگ اسے ’چھوٹا بینک‘ کہتے ہیں۔ اس برانچ کو چلانے کے لیے ایک آدمی کو ٹھیکہ پر رکھا گیا – یعنی بزنس کرسپانڈینٹ (بی سی) جو بائیو میٹرک ڈیوائس کا استعمال کرتے ہوئے، صارفین کو ان کے اکاؤنٹ کا بیلنس چیک کرنے اور پیسے نکالنے اور جمع کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔
۴۲ سالہ ای کرشنا دیوی، جو بینک کی اس شاخ کی بی سی ہیں، اپنے فون کے انٹرنیٹ سے ایک پورٹیبل بائیو میٹرک ڈیوائس کو جوڑتی ہیں۔ اس کے بعد وہ صارف کا آدھار نمبر ٹائپ کرتی ہیں۔ ڈیوائس فنگر پرنٹ کو پڑھتا ہے اور ٹرانزیکشن کی منظوری دیتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’آدھار بینک اکاؤنٹ سے جڑا ہونا ضروری ہے۔ میں نقد پیسے ہاتھ میں رکھتی ہوں۔‘‘ انہیں دوپہر کے ساڑھے تین بجے تک بینک میں دن کے اکاؤنٹس کو نمٹانا پڑتا ہے۔
لیکن جن لوگوں کو اپنا فنگر پرنٹ درج کرانے میں دقت پیش آ رہی ہے، جن کے پاس آدھار کارڈ نہیں ہے، یا جو لوگ اپنا پاس بُک اپ ڈیٹ کرانا چاہتے ہیں، انہیں اب بھی کے جی کندیگئی میں واقع بینک کی شاخ میں جانا پڑتا ہے۔
’’کبھی کبھی وہ [بی سی] کہتی ہیں کہ نقدی (کیش) ختم ہو گئی ہے۔ وہ ہمیں ایک رسید دیتی ہیں اور پیسہ لینے کے لیے بعد میں یا اگلے دن اپنے گھر بلاتی ہیں۔ پھر ہم دوبارہ جاتے ہیں،‘‘ گووندمّل بتاتی ہیں، جو کچھ سہیلیوں کے ساتھ مقامی تالاب کے کنارے سے ہوتے ہوئے تین کلومیٹر پیدل چل کر چیروکّنور جاتی ہیں۔ ’’ہم دفتر کے باہر انتظار کرتے ہیں۔ اگر وہ نہیں آتی ہیں، تو ہم ان کے گھر چلے جاتے ہیں۔‘‘
بزنس کرسپانڈینٹ عام طور پر اپنے گھروں سے کام کرتے ہیں۔ لیکن کرشنا دیوی صبح ۱۰ بجے سے دوپہر کے ایک بجے کے درمیان ایک پرانی اور غیر استعمال شدہ لائبریری میں بیٹھتی ہیں۔ جس دن کیش میں منریگا یا پنشن تقسیم کرنا ہو، اس دن وہ وہاں دیر تک رکتی ہیں۔ کام کے اُن گھنٹوں کے علاوہ، وہ زور دیکر کہتی ہیں کہ وہ دن میں کسی بھی وقت دستیاب ہیں۔ ’’جو لوگ کام کے لیے باہر نکلے ہوئے ہیں، وہ مجھ سے میرے گھر آکر ملتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
ہفتہ میں ایک بار، منگل کے روز، کرشنا دیوی اپنا بائیو میٹرک ڈیوائس لیکر کے جی کندیگئی کے مین برانچ جاتی ہیں۔ چار دیگر پنچایتوں کے بی سی بھی ہفتہ میں کسی اور دن باری باری ایسا ہی کرتے ہیں۔ یہ ڈیوائس ہفتہ میں ہر دن دوپہر کے تقریباً ۲ بجے تک دستیاب رہتا ہے، اُن صارفین کے لیے جو پیسہ نکالنے یا جمع کرنے کے لیے اپنا آدھار کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن، کیلاشم کو غلط فہمی ہے کہ وہ اس ڈیوائس تک صرف منگل کے روز کے جی کندیگئی میں ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ’’جس دن چیروکّنور کی بی سی وہاں آتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
کیلاشم کی طرح، زیادہ تر ایرولا کنبوں کے اکاؤنٹ کینرا بینک میں ہیں – تقریباً ایک دہائی سے یہاں کا یہ واحد بینک تھا۔ (کچھ سال پہلے، آندھرا بینک نے کے جی کندیگئی میں اپنی ایک برانچ کھولی، اور اس شہر میں اب چار الگ الگ بینکوں کے اے ٹی ایم ہیں)۔ کچھ لوگوں کے باقاعدہ بچت کھاتے ہیں، جب کہ دیگر کے پاس ’زیرو بیلنس‘ والا کھاتہ یا جَن دَھن اکاؤنٹ ہے جس میں کم از کم بیلنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تاہم، میں نے جن لوگوں سے بات کی، ان میں سے کئی نے بتایا کہ ان سے زیرو بیلنس والے اکاؤنٹ میں بھی کچھ پیسے رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ گووندمّل، جن کے پاس ایسا ہی ایک اکاؤنٹ ہے، بتاتی ہیں، ’’کے جی کندیگئی میں، وہ ہمیشہ مجھ سے وہاں کچھ پیسے چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں، کم از کم ۵۰۰-۱۰۰۰ روپے۔ صرف تبھی ایری ولئی [منریگا کے کام] کا پیسہ آتا ہے۔ اسی لیے میں چیروکّنور [چھوٹا بینک] جاتی ہوں۔ وہاں میں اپنے اکاؤنٹ میں صرف ۲۰۰-۳۰۰ روپے ہی چھوڑتی ہوں۔‘‘
سال ۲۰۲۰ کے آخر میں، جب میں نے کے جی کندیگئی برانچ کے مینیجر، کے پرشانت سے اس سلسلے میں بات کی تھی، تو انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ جَن دَھن اکاؤنٹ میں کم از کم بیلنس کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اگر انہیں تمام قسم کی ٹرانزیکشنز کے ساتھ کے وائی سی کی تعمیل کرتا ہوا اکاؤنٹ درکار ہو، تو انہیں ایک ریگولر اکاؤنٹ کھولنا پڑتا ہے جس میں کم از کم ۵۰۰ روپے کا بیلنس ہونا ضروری ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
لیکن، موجودہ مینیجر بی لنگمیّاہ تسلیم کرتے ہیں کہ جَن دھن کھاتہ والوں کو کم از کم بیلنس رکھنے کی ویسے تو ضرورت نہیں ہے، لیکن بینک کا عملہ انہیں ایسا کرنے کی درخواست ضرور کرتا ہے۔ اور وہ بتاتے ہیں کہ جب تک کوئی آدمی خاص طور سے جَن دھن یا زیرو بیلنس والے اکاؤنٹ کے لیے نہ کہے، بینک خود بخود ریگولر اکاؤنٹ کھولتا ہے۔
گووندمّل ایک دوسری پریشانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ’’پہلے تو انہوں نے [بینک] کہا کہ مجھے اکاؤنٹ کے لیے پیسے ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اب وہ ہر سال ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ لیتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ بینک میں اپنی امید سے کم پیسہ دیکھنے کو ملتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
کے پرشانت اس کنفیوژن کی وجہ فاضل وصولی کی سہولت کو بتاتے ہیں، جسے فیس لیکر فراہم کیا جاتا ہے۔ ایسا جَن دھن کھاتے کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ’’مان لیجئے کہ ان کے [اکاؤنٹ ہولڈر کے] پاس اکاؤنٹ میں ۲۰۰۰ روپے بچے ہیں اور وہ ۳۰۰۰ روپے نکالنا چاہتے ہیں، تو سسٹم ان میں سے کچھ کو یہ رقم نکالنے کی اجازت فراہم کر دیتا ہے۔ اگلی بار پیسہ جمع کرنے پر اس ۱۰۰۰ روپے کے فرق کو ایڈجسٹ کر دیا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ اس کا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
۲۸ سالہ ایس سومتی، جو گووندمّل کے گھر سے سڑک اُس پار رہتی ہیں، انہیں جب پچھلے سال فاضل وصولی کے بارے میں پتا چلا تو وہ حیران رہ گئیں۔ ’’کوئی ہمیں اس کے بارے میں سمجھا جا سکتا تھا۔ ہم نے سوچا کہ بینک ہمارا پیسہ لے رہا ہے۔‘‘
ایس ایم ایس سروس کے لیے بھی پیسے کٹ جاتے ہیں، کیوں کہ بینک ہر تین مہینے پر ۱۸ روپے وصول کرتا ہے۔ لیکن یہاں پر ہر کسی کے پاس فون نہیں ہے، اور جب لوگوں کا بیلنس ختم ہو جاتا ہے تو وہ میسج موصول نہیں کر پاتے۔ اور ایس ایم ایس صرف تبھی بھیجے جاتے ہیں جب وہ پیسے نکالتے ہیں، سومتی بتاتی ہیں۔ ’’وہ جب ہمارے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرتے ہیں تب ہمیں ایس ایم ایس کیوں نہیں بھیجتے؟ اس سے ہم بہت ساری پریشانیوں سے بچ جاتے۔‘‘
بڑھتے ہوئے ڈجیٹائزیشن کی وجہ سے بھی دیگر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نومبر ۲۰۲۰ میں ایک فراڈ کرنے والے نے منی گندن کے بھتیجے، ۲۳ سالہ آر جانسن کے ۱۵۰۰ روپے اڑا لیے تھے۔ ان کی بیوی، ۲۲ سالہ آر وَنَجا کے بینک اکاؤنٹ میں ان کی منریگا مزدوری کے ۲۰۰۰ روپے محفوظ رکھے ہوئے تھے۔ میاں بیوی کے پاس صرف یہی ایک بینک اکاؤنٹ ہے۔ کسی نامعلوم شخص نے خود کو بینک کا ملازم بتاتے ہوئے جب جانسن کو فون کیا، تو انہوں نے اسے ونجا کے کارڈ کی تفصیلات بتا دیں۔ ’’اس کی آواز بالکل بینک کے افسر کی طرح تھی۔ اس نے کہا کہ کارڈ لاک ہو گیا ہے اور مجھے اس کو نمبر دینا پڑے گا تاکہ وہ اسے اَن لاک کر سکے۔ میں نے وہ تمام نمبر بتا دیے جو مجھے معلوم تھے۔ خفیہ نمبر [او ٹی پی] بھی۔ ہمارے اکاؤنٹ میں صرف ۵۰۰ روپے بچے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
فون کرنے والے نے جانسن کو اس بات کے لیے بھی راضی کر لیا تھا کہ وہ اپنے چچا، منی گندن کے کارڈ کی تفصیلات بھی اسے بتا دیں تاکہ وہ جانسن کے کارڈ کو ’’اَن لاک‘‘ کر سکے۔ بینک نے متعدد مشکوک ٹرانزیکشن کے بارے میں منی گندن کو الرٹ کیا۔ تب تک، ان کے ۱۷۰۰۰ روپے اڑا لیے گئے تھے – یہ اس رقم کا ایک حصہ تھا جسے انہوں نے حال ہی میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کے تحت نیا مکان تعمیر کرنے کے لیے حاصل کیا تھا۔
جانسن اور دیگر ایرولاؤں کو ڈجیٹل دنیا اور بینکنگ سسٹم میں اپنی راہ تلاش کرنے کے لیے اب بھی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے کیوں کہ اس نظام میں ان کی مخصوص تشویشوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اور کیلاشم کا پاس بُک اپ ڈیٹ ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن وہ ایک چیز سے مطمئن ہیں: ’’ کائی ریگائی [بائیو میٹرک] مشین استعمال کرتے وقت کوئی چالان نہیں بھرنا پڑتا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز