جب وکرم اس رات گھر واپس نہیں لوٹے تو ان کی ماں پریہ کو ان کی فکر نہیں ہوئی تھی۔ وہ کما ٹھی پورہ کی ایک دوسری گلی میں ایک گھر والی کے یہاں کام کر رہے تھے اور عام طور پر ۲ بجے رات کو گھر واپس لوٹتے تھے یا اگر وہیں سو گئے تو کبھی کبھی اگلی صبح کو ہی واپسی ہوتی تھی۔
پریہ نے انہیں کال کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ جب اگلے دن ۸ اگست کی شام کو بھی وہ واپس نہیں لوٹے، تو پریہ کو ان کی فکر ستانے لگی۔ انہوں نے وسطی ممبئی کے نزدیکی ناگپاڑہ پولیس اسٹیشن میں گم شدہ افراد کی شکایت درج کرائی۔ اگلی صبح پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ شروع کردی۔ پریہ کہتی ہیں، ’’اسے ممبئی سینٹرل کے ایک فٹ برج کے نزدیک ایک مال کے پاس دیکھا گیا تھا۔‘‘
اب پریہ کی تشویش بڑھنے لگی تھی۔ وہ سوچ رہی تھیں، ’’اگر کوئی اسے اٹھا لے جائے تو کیا ہوگا؟ کیا اسے یہ نئی بیماری [کووڈ] لگ گئی ہے؟ اس علاقے میں کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔‘‘
وکرم نے خود ہی سفر کا انتخاب کیا تھا۔ اس کی تیاری انہوں نے پہلے سے کر رکھی تھی۔ اپنی عمر کا ۳۰ سال گزار چکیں ان کی ماں ایک سیکس ورکر ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران وہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں۔ وکرم اپنی ماں کی خستہ ہوتی مالی حالت اور بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ دیکھ رہے تھے۔ ان کی نو سالہ بہن رِدھی مدن پورہ کے قریبی علاقے میں واقع اپنے ہاسٹل سے گھر واپس آگئی تھیں۔ کنبے کا گزارہ غیر سرکاری اداروں (این جی او) کی جانب سے تقسیم کردہ راشن کے تھیلوں پر ہو رہا تھا۔ (اس اسٹوری کے تمام نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔)
۱۵ سالہ وکرم بھائیکھلا کے جس میونسپل اسکول میں پڑھتے تھے اسے مارچ میں لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی بند کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے چھوٹے موٹے کام کرنے شروع کر دیے۔
کھانا بنانے میں استعمال ہونے والے کیروسین تیل کے لیے اس کنبہ کو روزانہ ۶۰ سے ۸۰ روپے کی ضرورت ہوتی تھی۔ انہیں کماٹھی پورہ میں اپنے چھوٹے سے کمرے کا کرایہ ادا کرنے میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ دوائیں خریدنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔ پریہ اپنے گاہکوں اور مقامی افراد سے مزید قرض لیتی رہیں۔ ساہوکار سے لیا گیا قرض سود سمیت بڑھتے بڑھتے ۶۲ ہزار روپے ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ گھر والی (مکان مالکن یا کوٹھے کی میڈم) کو چھ مہینے سے زیادہ عرصہ سے صرف آدھا ہی ادا کر رہی تھیں۔ کمرے کا کرایہ ۶۰۰۰ روپے مہینہ تھا۔ اوپر سے انہوں نے گھر والی سے ۷۰۰۰ روپے ادھار بھی لیے تھے۔
جسم فروشی سے ان کی آمدنی، کام پر جانے والے دنوں پر منحصر ہوتی ہے۔ لاک ڈاؤن سے قبل ان کی آمدنی ۵۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے تک روزانہ ہو جاتی تھی۔ پریہ کہتی ہیں، ’’اس میں کوئی باقاعدگی نہیں تھی۔ اگر ردھی ہاسٹل سے واپس آ جاتی، یا اگر میں بیمار رہتی، تو میں چھٹی لے لیتی تھی۔‘‘ اس کے علاوہ پیٹ کی مستقل اور تکلیف دہ بیماری کی وجہ سے وہ اکثر کام نہیں کرسکتی تھیں۔
لاک ڈاؤن شروع ہونے کے کچھ دنوں بعد، وکرم کماٹھی پورہ میں اپنی گلی کے ویران گوشے میں اس امید میں کھڑے ہونے لگے کہ کوئی ٹھیکیدار انہیں یومیہ اجرت پر کسی تعمیراتی مقام پر لے جانے کے لیے رابطہ کرے گا۔ کبھی کبھی وہ ٹائلیں لگاتے، کبھی بانس کے مچان بناتے یا ٹرک پر لوڈنگ کا کام کرتے اور عام طور پر ۲۰۰ روپے یومیہ کما لیتے تھے۔ اب تک کی ان کی سب سے زیادہ کمائی ۹۰۰ روپے رہی ہے، جب انہوں نے ڈبل شفٹ میں کام کیا تھا۔ لیکن یہ کام صرف ایک یا دو دن کے تھے۔
انہوں نے اپنے پڑوس کی گلیوں میں چھتریاں اور ماسک بیچنے کی بھی کوشش کی۔ وہ اپنی پچھلی کمائی کے پیسوں سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نل بازار تک پیدل جا کر ہول سیل کی دکان سے یہ چیزیں خریدتے تھے۔ اگر پیسے کم پڑے تو اپنی ماں کے ایک مقامی قرض دہندہ سے قرض مانگ لیا کرتے۔ ایک دکاندار نے ایک بار کمیشن کے عوض ان سے ایئرفون بیچنے کی پیشکش کی۔ وکرم کہتے ہیں، ’’لیکن میں کوئی منافع نہیں کما سکا۔‘‘
انہوں نے ٹیکسی ڈرائیوروں اور سڑکوں کے کنارے بیٹھے افراد کو چائے بیچنے کی بھی کوشش کی۔ ’’میرا دوست اس آئیڈیا کے ساتھ اس وقت میرے پاس آیا تھا، جب میری پچھلی تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ وہ چائے بناتا تھا اور میں ملٹن کے تھرمس میں اسے بیچنے جاتا تھا۔‘‘ ایک کپ چائے ۵ روپے کی بکتی تھی، جس میں سے انہیں ۲ روپے ملتے تھے۔ وہ روزانہ ۶۰ سے ۱۰۰ روپے کا منافع حاصل کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔
انہوں نے ایک مقامی شراب کی دکان سے بیئر کی بوتلیں اور گٹکھے (تمباکو کا مرکب) کے پیکٹ بھی کماٹھی پورہ کے باشندوں اور راہ گیروں کو فروخت کیے۔ ان چیزوں کی مانگ تب ہوتی تھی، جب لاک ڈاؤن کے دوران دکانیں بند ہوتی تھیں۔ ان سے معقول منافع بھی ہوتا تھا۔ لیکن مقابلہ سخت تھا۔ بہت سے نوخیز لڑکے ان چیزوں کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس میں آمدنی بھی یکساں نہیں تھی۔ اس کے علاوہ وکرم کو ڈر تھا کہ کہیں ان کی ماں کو پتہ نہ چل جائے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
آخرکار وکرم نے ایک گھر والی کے یہاں صفائی اور عمارت میں رہنے والی عورتوں کے لیے سودا سلف لانے کا کام شروع کیا۔ اس کام سے انہیں ہر دوسرے دن ۳۰۰ روپے تک کی آمدنی ہو جاتی تھی، لیکن اس کام میں بھی تسلسل نہیں تھا۔
یہ سب کرتے ہوئے وکرم ان بچہ مزدوروں کی فوج میں شامل ہو گئے جو وبائی مرض کی وجہ سے محنت مزدوری کے کاموں میں دھکیلے گئے تھے۔ جون ۲۰۲۰ میں عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور یونیسف نے ’کووڈ ۱۹ اینڈ چائلڈ لیبر: اے رائم آف کرائسس، اے ٹائم ٹو ایکٹ‘ (یعنی، کووڈ ۱۹ اور بچہ مزدوری: بحران کا دھند ہٹانے کا وقت) کے عنوان سے ایک مقالہ شائع کیا۔ اس مقالے میں ہندوستان کو ان ممالک کے ساتھ رکھا کیا گیا ہے، جہاں بچوں نے وبائی مرض کے دوران والدین کی بے روزگاری سے پیدا شدہ معاشی تنگی میں مدد فراہم کرنے کے لیے آگے قدم بڑھایا۔ مقالے میں مزید کہا گیا ہے، ’’مزدوری کی قانونی عمر سے کم عمر کے بچے غیر رسمی اور گھریلو کاموں میں ملازمت حاصل کر لیتے ہیں۔ جہاں بشمول بچہ مزدوری کی بدترین شکلوں کے، ’’انہیں خطرناک اور استحصالی کام کے شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
لاک ڈاؤن کے بعد پریہ نے بھی نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اگست میں انہیں کماٹھی پورہ میں ۵۰ روپے یومیہ پر ایک گھریلو ملازمہ کی نوکری ملی بھی، لیکن وہ صرف ایک ماہ تک جاری رہ سکی۔
پھر ۷ اگست کو وکرم کا ان کے ساتھ جھگڑا ہوا۔ ان کی نوک جھونک اس وجہ سے ہوئی کیونکہ پریہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ کام کے بعد گھروالی کے کمرے میں سوئے۔ وہ پاس کے علاقے میں ایک نابالغ پر ہونے والے حالیہ جنسی حملے کے بعد پہلے سے ہی محتاط ہو گئیں تھیں اور امید کر رہی تھیں کہ وہ ردھی کو ہاسٹل واپس بھیج دیں گی (دیکھیں ’ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ‘)۔
اسی دوپہر کو وکرم نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ کچھ عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لیکن اس منصوبے پر ماں سے مشورے کے بعد ہی عمل کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، اس دن ’’میں غصے میں تھا اور گھر سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘‘ انہوں نے ایک دوست سے سن رکھا تھا کہ احمد آباد میں زیادہ منافع بخش کام کے مواقع موجود ہیں۔
لہٰذا، اپنے چھوٹے جیو فون اور جیب میں پڑے ۱۰۰ روپے کے ساتھ ۷ اگست کو شام ۷ بجے کے قریب وہ گجرات کے لیے روانہ ہوگئے۔
وکرم نے آدھی سے زیادہ رقم گٹکھے کے پانچ پیکٹ، ایک گلاس فروٹ جوس اور حاجی علی کے پاس کچھ کھانے کی چیزیں خریدنے پر صرف کر دیے اور وہاں سے وہ پیدل ہی چل پڑے۔ انہوں نے لفٹ لینے کی کوشش کی، لیکن کسی گاڑی نے انہیں لفٹ نہیں دیا۔ باقی ماندہ ۳۰ سے ۴۰ روپے میں سے ٹکٹ خرید کر درمیان میں وہ تھوڑی دوری کے لیے ایک بیسٹ بس میں بھی سوار ہو ئے۔ ۸ اگست کو تقریباً ۲ بجے تک، تھکا ہارا یہ ۱۵ سالہ لڑکا ویرار کے قریب ایک ڈھابے پر پہنچا اور رات وہیں گزاری۔ انہوں نے تقریباً ۷۸ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔
ڈھابے کے مالک نے دریافت کیا کہ وہ بھاگ کر تو نہیں آئے ہیں؟ وکرم نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ وہ یتیم ہیں اور نوکری کی تلاش میں احمد آباد جا رہے ہیں۔ ’’ڈھابے والے بھیا نے مجھے گھر واپس چلے جانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی نوکری نہیں دے گا اور کورونا کے دوران احمد آباد پہنچنا مشکل ہے۔‘‘ انہوں نے وکرم کو چائے پلائی، پوہا کھلایا اور ۷۰ روپے بھی دیے۔ وکرم کہتے ہیں، ’’میں نے گھر واپس چلے جانے کو سوچا، لیکن میں کچھ کمائی کرنے کے بعد واپس جانا چاہتا تھا۔‘‘
کچھ دور چلنے کے بعد ایک پٹرول پمپ کے قریب انہیں کچھ ٹرک نظر آئے۔ انہوں نے لفٹ مانگی لیکن کوئی انہیں مفت میں اپنی گاڑی میں بٹھانے پر راضی نہیں ہوا۔ ’’وہاں کچھ بسیں بھی کھڑی تھیں جن میں کچھ لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، لیکن یہ جاننے کے بعد کہ میں ممبئی [جہاں کووڈ کے بہت سے معاملے رپورٹ ہو رہے تھے] سے آیا ہوں، کسی نے مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔‘‘ وکرم نے کئی لوگوں سے التجا کی، آخر میں ایک ٹیمپو ڈرائیور راضی ہو گیا، ’’وہ اکیلے تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں بیمار ہوں اور جب میں نے نفی میں جواب دیا تو مجھے اندر بیٹھا لیا۔‘‘ ڈرائیور نے بھی وکرم کو خبردار کیا کہ انہیں کام ملنے کا امکان نہیں ہے۔ ’’وہ واپی ہو کر جا رہے تھے، اس لیے مجھے وہاں تک چھوڑنے پر راضی ہو گئے۔‘‘
وکرم ۹ اگست کی صبح قریب ۷ بجے ممبئی سینٹرل سے تقریباً ۱۸۵ کلومیٹر دور، گجرات کے ولساڈ ضلع میں واقع واپی پہنچے۔ ان کا ارادہ وہاں سے احمد آباد جانے کا تھا۔ اسی دوپہر کو انہوں نے کسی دوسرے نمبر سے اپنی ماں کو فون کیا تھا۔ وکرم کے فون کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور ان کے پاس کوئی ٹاک ٹائم بھی دستیاب نہیں تھا۔ انہوں نے پریہ سے بس اتنا کہا کہ وہ ٹھیک ہیں اور واپی میں ہیں، اور فون کاٹ دیا تھا۔
اس دوران پریہ باقاعدگی سے ممبئی کے ناگپاڑہ پولیس اسٹیشن کا چکّر لگا رہی تھیں. ان دوروں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’پولیس نے مجھ پر لاپرواہی کا الزام لگایا، میرے کام پر تبصرہ کیا، اور کہا کہ وہ خود گیا ہے اور جلد ہی واپس آ جائے گا۔‘‘
وکرم کے مختصر کال کے بعد انہوں نے پاگلوں کی طرح کال لگانے کی کوشش کی۔ فون کے مالک کا جواب بھی آیا، ’’اس نے کہا کہ وہ وکرم کے ساتھ نہیں ہے اور اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔ وکرم سے اس کی ملاقات ہائی وے کے ایک چائے اسٹال پر ہوئی تھی اور بات کرنے کے لیے اس نے اپنا فون اسے دے دیا تھا۔‘‘
۹ اگست کی رات کو وکرم واپی میں رکے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’عمر میں مجھ سے بڑا ایک لڑکا ایک چھوٹے سے ہوٹل کی پہرہ داری کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں کام کے سلسلے میں احمد آباد جا رہا ہوں اور کہیں سونا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا یہیں اس ہوٹل میں رک جاؤ اور کام کرو، وہ مالک سے اس سلسلے میں بات کرے گا۔‘‘
اپنی ماں کو کی گئی پہلی کال کے چار دن بعد، ۱۳ اگست کو وکرم نے صبح ۳ بجے ایک اور کال کی تھی۔ انہوں نے ماں کو بتایا کہ انہیں واپی کے ایک ہوٹل میں برتن دھونے اور کھانے کے آرڈر لینے کی نوکری مل گئی ہے۔ پریہ اس صبح جلد ہی ناگپاڑہ پولیس اسٹیشن پہنچ گئی تھیں، لیکن وہاں ان سے کہا گیا کہ اپنے بیٹے کو لینے خود چلی جائیں۔
وکرم کو واپس لانے کے لیے اس شام پریہ اور ردھی ممبئی سینٹرل سے واپی کے ٹرین پر سوار ہوئیں۔ اس کے لیے پریہ نے ایک گھر والی اور مقامی مہاجن سے ۲۰۰۰ روپے قرض لیے تھے۔ ٹرین کے ایک ٹکٹ کی قیمت ۴۰۰ روپے تھی۔
پریہ اپنے بیٹے کو واپس لانے کے لیے پرعزم تھیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ وکرم خود ان کے جیسی بے مقصد زندگی گزارے۔ پریہ کہتی ہیں، ’’میں بھی گھر سے بھاگی تھی اور اب میں اس گندگی میں پھنس گئی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ پڑھائی کرے۔‘‘ پریہ تقریباً وکرم کی عمر کی ہی تھیں جب وہ مہاراشٹر کے امراوتی ضلع میں واقع اپنے گھر سے فرار ہوئی تھیں۔
وہ بھاگی تھیں ان کی پرواہ نہ کرنے والے ایک فیکٹری مزدور اور شرابی باپ کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے کے لیے (دو سال کی عمر میں ان کی ماں کی موت ہو گئی تھی)۔ وہ بھاگی تھیں انہیں مارنے پیٹنے والے اور ۱۲ سال کی عمر میں ان کی شادی کرانے کے خواہشمند رشتہ داروں کی پہنچ سے۔ وہ بھاگی تھیں ان کے ساتھ دست درازی کرنے والے ایک مرد رشتہ دار کے شکنجے سے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے سنا تھا کہ مجھے ممبئی میں کام مل سکتا ہے۔‘‘
چھترپتی شیواجی ٹرمینس پر ٹرین سے اترنے کے بعد پریہ کو مدن پورہ کے ایک گھر میں ۴۰۰ روپے ماہانہ کی نوکری اور رہنے کے لیے جگہ مل گئی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ چند مہینوں کے لیے جنوبی ممبئی کے ریے روڈ پر کرایے کے کمرے میں ایک کیرانا دکان کے ورکر کے ساتھ رہیں، جو بعد میں ان کے مطابق غائب ہو گیا تھا۔ وہ سڑکوں کے کنارے رہنے لگیں۔ جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ ’’میں بھیک مانگ کر زندہ رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔‘‘ وکرم کی پیدائش (۲۰۰۵ میں جے جے ہسپتال میں ہوئی تھی) کے بعد بھی وہ فٹ پاتھ پر ہی رہیں۔ ’’ایک رات میری ملاقات ایک ’دھندھے‘ والی سے ہوئی جس نے مجھے کھانا کھلایا۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ میرے پاس ایک دودھ پیتا بچہ ہے، لہٰذا مجھے اس [جنسی] دھندھے میں شامل ہو جانا چاہیے۔‘‘ کافی پس و پیش کے بعد پریہ راضی ہو گئیں۔
کبھی کبھی وہ کماٹھی پورہ کی چند عورتوں کے ہمراہ جنسی دھندے کی غرض سے کرناٹک کے بیجاپور بھی جاتی تھیں۔ یہ عورتیں اسی قصبے کی تھیں۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران اُن عورتوں نے ایک آدمی سے ان کی ملاقات کراوائی۔ ’’انہوں نے بتایا کہ وہ مجھ سے شادی کرے گا اور اس طرح میں اور میرا بیٹا اچھی زندگی گزار پائیں گے۔‘‘ ایک نجی محفل میں ان کی ’شادی‘ ہوئی اور وہ ۶ سے ۷ مہینے تک ایک ساتھ رہے، لیکن پھر اس شخص کے گھر والوں نے پریہ سے چلے جانے کو کہا۔ پریہ بتاتی ہیں، ’’اس وقت رِدھی [پیدا] ہونے والی تھی۔‘‘ انہیں بعد میں احساس ہوا کہ وہ آدمی اپنا غلط نام استعمال کر رہا تھا اور پہلے سے ہی شادی شدہ تھا، اور یہ کہ ان عورتوں نے پریہ کو اس کے ہاتھوں بیچ دیا تھا۔
سال ۲۰۱۱ میں ردھی کی پیدائش کے بعد پریہ نے وکرم کو امراوتی میں ایک رشتہ دار کے گھر بھیج دیا تھا۔ ’’وہ بڑا ہو رہا تھا اور اس علاقے کی چیزوں کا مشاہدہ کر رہا تھا...‘‘ لیکن یہ کہتے ہوئے وکرم وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے کہ غلطی کرنے پر وہ لوگ ان کی پٹائی کرتے تھے۔ ’’ہم نے اس وقت بھی گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی۔ لیکن دو دن بعد وہ واپس آ گیا تھا۔‘‘ وکرم ٹرین میں سوار ہو کر دادر اسٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں ٹرین کے ایک خالی ڈبے میں دن گزارے اوردوسروں نے بھکاری سمجھ کر جو کچھ دیا اسے کھا لیا۔
اس وقت وکرم کی عمر ۸ سے ۹ سال کی تھی۔ انہیں ’آوارہ گردی‘ کے الزام میں وسطی ممبئی کے ڈونگری کے جوینائل ہوم میں ایک ہفتے کے لیے حراست میں بھی رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد پریہ نے انہیں ایک خیراتی تنظیم کے زیرانتظام چلائے جا رہے اندھیری کے ایک رہائشی اسکول میں بھیج دیا۔ اس اسکول سے انہوں نے ۶ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
پریہ کہتی ہیں، ’’وکرم ہمیشہ مشکلوں میں رہا ہے۔ مجھے اس کے ساتھ زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔‘‘ وہ چاہتی تھیں کہ وکرم اندھیری کے ہاسٹل میں رہیں (جہاں انہیں ایک دو دفعہ ایک کونسلر کے پاس بھی لے جایا گیا تھا)، لیکن ہاسٹل کے کیئرٹیکر کو پیٹ کر وہ وہاں سے بھی فرار ہوگئے تھے۔ سال ۲۰۱۸ میں پریہ نے بھائیکھلا کے میونسپل اسکول کی ۷ویں جماعت میں ان کا داخلہ کرایا لیکن وہ کماٹھی پورہ واپس آگئے تھے۔
دوسرے لڑکوں کے ساتھ بدسلوکی اور لڑائی جھگڑا کرنے کے الزام میں وکرم کو بھائیکھلا اسکول سے بھی کئی دفعہ نکالا جا چکا ہے۔ پریہ کہتی ہیں، ’’میرے کام کو لے کر طلباء یا آس پاس کے لوگوں کا اسے چھیڑنا اچھا نہیں لگتا ہے۔ اسے بہت جلد غصہ آجاتا ہے۔‘‘ وہ عام طور پر اپنے خاندان کے بارے میں کسی کو نہیں بتاتے، اور اسکول میں دوست بنانا ان کے لیے بہت مشکل ہے۔ وکرم کہتے ہیں، ’’وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں اور جان بوجھ کر میری ماں [کے پیشے] کو موضوع بناتے ہیں۔‘‘
وہ ایک ہونہار طالب علم ہیں۔ عام طور پر انہیں ۹۰ فیصد سے زیادہ نمبر آتے ہیں، لیکن ان کی ۷ویں جماعت کی مارک شیٹ بتاتی ہے کہ بعض اوقات وہ مہینے میں بمشکل تین دن اسکول گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کر سکتے ہیں اور آگے پڑھنا بھی چاہتے ہیں۔ نومبر ۲۰۲۰ کے اوائل میں انہوں نے (تعلیمی سال ۲۰۱۹ - ۲۰) اپنی ۸ویں جماعت کی مارک شیٹ حاصل کی۔ انہیں سات مضامین میں اے گریڈ اور بقیہ دو میں بی گریڈ ملے تھے۔
وکرم کہتے ہیں، ’’میرے کئی دوست [کماٹھی پورہ میں] اسکول چھوڑ کر کام کرتے ہیں۔ ان میں سے چند کو پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کام کرنا بہتر ہے، کیونکہ بچت کر کے کوئی کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (۲۰۱۰ میں کولکاتا کے ریڈ لائٹ علاقوں میں رہنے والے بچوں پر کیے گئے ایک مطالعہ میں تقریباً ۴۰ فیصد اسکول ڈراپ آؤٹ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ اس مایوس کن حقیقت کو اجاگر کرتا ہے جہاں اسکول میں کم حاضری ریڈ لائٹ علاقوں میں رہنے والے بچوں کے سب سے عام مسائل میں سے ایک ہے۔‘‘)
ہماری بات چیت کے دوران وکرم نے گٹکھے کا پیکٹ کھولتے ہوئے کہا، ’’ماں کو مت بتانا۔‘‘ اس سے پہلے وہ کبھی کبھار سگریٹ اور شراب نوشی بھی کر لیا کرتے تھے، لیکن یہ چیزیں کڑوی لگیں اس لیے چھوڑ دیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں گٹکھے کی عادت نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے اسے چکھنے کی کوشش کی اور پتہ نہیں کب اس کی لت لگ گئی۔‘‘ بعض اوقات پریہ نے انہیں گٹکھا کھاتے ہوئے پکڑا اور پٹائی بھی کی۔
’’یہاں کے بچے تمام غلط عادتیں اختیار کر لیتے ہیں، اسی لیے میں انہیں ہاسٹل میں رہ کر پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ پریہ کہتی ہیں کہ لپ اسٹک لگا کر یا ان کی چلنے کی نقل کرتے ہوئے ’’ردھی بھی یہاں کی عورتوں کی نقل کرتی ہے۔ مارنا پیٹنا، لڑائی جھگڑا وہ سب کچھ ہے جو آپ یہاں ہر روز دیکھیں گے۔‘‘
لاک ڈاؤن سے پہلے وکرم دوپہر ۱ بجے سے شام ۶ بجے تک اسکول میں رہتے تھے اور شام ۷ بجے تک ایک این جی او کے ذریعہ چلائے جا رہے نائٹ سنٹر میں پڑھائی کرتے تھے۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا جب بچوں کی مائیں کام پر ہوتی تھیں۔ اس کے بعد وہ یا تو گھر واپس آکر اس کمرے کی راہداری میں سو جاتے تھے جہاں ان کی ماں اپنے گاہکوں سے ملتی تھیں، یا کبھی کبھی نائٹ شیلٹر میں ہی رات گزار لیتے تھے۔
لاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی بہن کے گھر واپس آ جانے سے ان کا کمرہ اور زیادہ تنگ ہوگیا تھا، جسے وہ ’ٹرین کا ڈبہ‘ کہتے تھے۔ لہٰذا وہ رات کے وقت سڑکوں پر گھومتے تھے، یا جہاں کام مل جاتا تھا وہاں ٹھہر جاتے تھے۔ فیملی کا کمرہ بمشکل ۱۰ مربع فٹ کا ہے، جسے چار بائی چھ کے تین مستطیل نما خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر ایک خانے میں ایک انفرادی سیکس ورکر یا اس کی فیملی بطور کرایہ دار رہتی ہے۔ یہ کمرے عام طور پر ان عورتوں کے لیے کام کی جگہیں بھی ہوتے ہیں۔
۱۴ اگست کو پریہ اور اپنی بہن کے ساتھ بذریعہ ٹرین واپی سے واپسی کے بعد وکرم اگلے دن محلے کے ناکے پر کام کی تلاش میں گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے سبزیاں بیچنے کی کوشش کی، تعمیراتی مقامات پر کام کیا، یا بوریاں اٹھائیں۔
وکرم کی والدہ ان کے اسکول کے پیغام کا انتظار کر رہی تھیں۔ وکرم کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ آن لائن کلاسز کب شروع ہوں گی۔ ان کے پاس اسمارٹ فون بھی نہیں تھا اور اگر ہوتا تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ان کا سارا وقت کام میں گزر جاتا تھا، اور کنبے کو انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے پیسے کی ضرورت پڑتی۔ اس کے علاوہ پریہ کہتی ہیں کہ وکرم کی طویل غیر حاضری کے بعد اسکول نے ان کا نام کاٹ دیا ہے۔
انہوں نے وکرم کو کسی رہائشی اسکول میں داخلے میں مدد بہم پہنچانے کے لیے ڈونگری میں واقع چائلڈ ویلفیئر کمیٹی سے رابطہ کیا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ کام جاری رکھیں گے تو پڑھائی چھوٹ جائے گی۔ ان کی درخواست پر کارروائی جاری ہے۔ اگر انہیں داخلہ مل بھی جاتا ہے تب بھی ان کا ایک تعلیمی سال (۲۰۲۰-۲۱) ضائع ہو جائے گا۔ پریہ کہتی ہیں، ’’میں چاہتی ہوں کہ وہ پڑھائی کرے اور اسکول شروع ہونے کے بعد کام پر نہ جائے۔ میں اسے آوارہ بنتے نہیں دیکھنا چاہتی۔‘‘
ردھی کو دادر کے ایک رہائشی اسکول میں داخلہ مل گیا ہے۔ نومبر کے وسط میں انہیں وہاں پہنچا دیا گیا ہے۔ اپنی بیٹی کے جانے کے بعد پریہ نے دوبارہ جسم فروشی کا دھندہ شروع کر دیا ہے۔ یہ کام وہ کبھی کبھی کرتی ہیں خاص طور پر جب پیٹ کا درد انہیں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
وکرم بطور شیف (باورچی) اپنا ہاتھ آزمانا چاہتے ہیں۔ انہیں کھانا بنانا پسند ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے کسی کو نہیں بتایا، وہ کہیں گے ’کیا لڑکیوں کا کام ہے‘۔‘‘ ان کا بڑا منصوبہ کماٹھی پورہ سے باہر نکلنے کی خواہش مند سیکس ورکز کو وہاں سے منتقل کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے بہت کمانا پڑے گا تاکہ میں انہیں کھانا کھلا سکوں اور بعد میں ہرایک کو ایسی نوکری مل جائے، جو وہ واقعی کرنا چاہتی ہیں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ یہاں کی عورتوں کی مدد کریں گے، لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سی نئی دیدیاں اس علاقے میں آتی ہیں، بہتوں کو زبردستی بری چیزوں [جنسی زیادتیوں] کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہاں پھینک دیا جاتا ہے۔ کون اپنی مرضی سے آتا ہے؟ اور انہیں تحفظ کون دیتا ہے؟‘‘
اکتوبر میں وکرم واپی کے اسی ہوٹل میں واپس گئے۔ انہوں نے دو ہفتے تک دوپہر سے آدھی رات تک برتن دھونے اور فرش و میزیں وغیرہ صاف کرنے کا کام کیا۔ انہیں دن میں دو وقت کا کھانا اور شام کو چائے ملتی تھی۔ نویں دن ایک ساتھی کارکن سے ان کا جھگڑا ہوگیا، دونوں نے ایک دوسرے کو مارا پیٹا۔ اس کے بعد دو ہفتوں کے لیے ۳۰۰۰ روپے کی متفقہ اجرات کی بجائے ۲۰۰۰ روپے لے کر وہ اکتوبر کے آخر میں گھر واپس آ گئے تھے۔
اب وہ ادھار کی سائیکل سے ممبئی سینٹرل کے آس پاس کے مقامی ریستورانوں سے پارسل کی ڈیلیوری کر رہے ہیں۔ بعض اوقات وہ کماٹھی پورہ میں ایک فوٹو اسٹوڈیو سے پین ڈرائیو اور ایس ڈی کارڈ کی ڈیلیوری کا بھی کام کرتے ہیں۔ ان کی کمائی بدستور معمولی بنی ہوئی ہے۔
پریہ جلد ہی ہاسٹل سے کسی پیغام کی امید کر رہی ہیں۔ وہ امید کر رہی ہیں کہ ان کا متلون مزاج اور پریشان کن بیٹا وہاں سے نہ بھاگے۔ وکرم نے دوبارہ اسکول جانے پر رضامندی ظاہر کی ہے، لیکن وہ گھر کی کفالت میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے لیے کام بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم