/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05627-1.jpg

کلاس جاری ہے جب کہ ٹیچر نیلما نیتام وہاں موجود ہیں


دھمتری (چھتیس گڑھ)۔ دھمتری سے قریب ۵ کلومیٹر دور، یا یوں کہیں کہ دھمتری سے ملحق گاؤں لوہرسی میں واقع لڑکیوں کا پرائمری اسکول، کئی معنوں میں خاص ہے۔ یوں تو باہر سے دیکھنے پر ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک پرانا اسکول ہے، یہاں پر موجود پیپل کے درخت کی گولائی ہی جیسے کہہ رہی ہو کہ اس کی عمر ۸۰ یا ۹۰ سال سے کم نہیں ہے۔ وہیں اندر جانے پر اور خاص کر یہاں کی طالبات سے ملنے پر اسکول کی موجودہ حالت سے روبرو ہونے کا اور ان کی سرگرمیوں کو دیکھ کر یہاں کی لڑکیوں اور اسکول کا مثبت پہلو نظر آتا ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05670-1.jpg

تقریباً سو سال پرانے اسکول میں داخل ہونے کا دروازہ


اس اسکول کو آزادی سے ۲۹ سال قبل، ۱۹۱۸ میں قائم کیا گیا تھا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے سالِ قیام سے لے کر آج تک، یعنی گزشتہ ۹۶ برسوں تک یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے نام کا رجسٹر آج بھی یہاں بحفاظت رکھا گیا ہے۔ ’’یہ اتنا پرانا رجسٹر ہے، اس میں اسکول کے سالِ قیام کے بارے میں، اس وقت کے مرد و خواتین ٹیچرس کے بارے میں اور بچوں کے بارے میں بہت ساری باتیں درج ہیں، اس لیے جب ہمیں یہ دستاویز ایک پرانے لکڑی کے بکسے میں دیمک کھائی حالت میں ملے تو ہم نے اس میں نیا کور لگا دیا ہے اور اسے بحفاظت رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیوں کہ یہ اسکول کی تاریخ کو جاننے کا ایک پختہ ذریعہ ہے،‘‘ یہ کہنا ہے اسکول کی ٹیچر نیلما نیتام کا۔


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05417-1.jpg

/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/registers-loharsi.jpg

جس پرانے رجسٹر کو دیمک نے چاٹ لیا ہے، اس کے صفحات


ہم نے بھی ان تمام دستاویزوں میں سے کچھ کو دیکھا، جیسے ان میں سے ایک ہے پرموشن بک، پُتری شالا، لوہرسی، تحصیل۔ دھمتری، ضلع رائے پور۔ اس رجسٹر کو یوں تو بیچ میں دو تین جگہ دیمک چاٹ چکے ہیں، مگر کچھ ناموں اور اطلاع کو چھوڑ سب واضح ہے۔ نام وغیرہ کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اس وقت کے قلم، جسے روشنائی کی دوات میں ڈبوکر لکھا جاتا تھا، اس سے لکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے حروف تھوڑے موٹے موٹے ہیں، پر جنہوں نے اسے لکھا ہے ان کی تحریر بہت ہی خوبصورت ہے۔

لیکن جب ہم ناموں کو دیکھتے ہیں، تب اس میں نام اس طرح سے لکھا ہے جیسے بنین بائی، تیلینا، سونا بائی کوسٹین، درپت بائی لوہارن، رمسیر بائی کلارِن، سوگندھین بائی گونڈن۔ اس طرح سے نام کے ساتھ ان طالبات کی ذات کا بھی واضح طور پر ذکر ہے۔ یہ اس لیے بھی ہوا ہے، کیوں کہ یہ رجسٹر ہاتھ سے لکھا گیا ہے، جب کہ اس کے بعد کا رجسٹر ہم نے دیکھا وہ پرنٹیڈ تھا، جس میں نام کے لیے الگ، گارجین کے لیے الگ اور ذات کے لیے الگ کالم تھا۔ اس لیے اس میں نام کے ساتھ ذات نہیں لکھی گئی تھی۔ وہ الگ خانے میں لکھی گئی تھی۔

اسی طرح سے ان دستاویزوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کیا کیا موضوعات تھے، جیسے ادب میں مکالمہ، کہانی، ڈراما، نثر، بیان، لغت، شاعری، املا، دستخط اور کاپی لکھنا۔ ویسے ہی ریاضی میں گننا، آپریشن، کرنسی، عام پیمائش، لکھنے کا انداز، ضرب کا ٹیبل، تحریری اور زبانی جمع اور تفریق۔ ان تمام موضوعات وغیرہ کو دیکھ کر اسکول کے ایک ٹیچر جیوتش وشواس کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت مسلسل جامع تجزیہ عام تھا۔‘‘ آج کل مسلسل جامع تجزیہ (سی سی ای) کو لے کر بحث جاری ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05650-1.jpg

کلاسوں میں کہانی، ڈراما، نثر، شاعری اور مکالمہ کی تعلیم شامل تھی


ان دستاویزوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت ساری لڑکیاں بڑی ہو جانے کے بعد یا بالغ ہو جانے کے بعد آگے کی پڑھائی نہیں کرتی تھیں۔ یہ بات ان کے اسکول چھوڑنے کی وجہ میں لکھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کئی بچیوں کے اسکول چھوڑنے کی وجہ نقل مکانی اور غریبی کے طور پر درج ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ غریبی کے سبب دوسری گاؤں چلی گئیں، تو کہیں لکھا ہے کہ بدلے میں دوسری لڑکی دی گئی۔ اس طرح سے الگ الگ اسکول چھوڑنے کی وجہ لکھی گئی ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05593-1.jpg

وقفہ کے دوران طالبات


وہیں، ۱۹۳۶ کی ایک دستاویز میں ایک جگہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ’’دو لڑکیاں سالانہ امتحان میں شامل نہیں ہوئیں، لیکن وہ دو بہت ہوشیار ہیں، اس لیے ان کا نام اگلی کلاس میں لکھا گیا ہے۔‘‘ اس طرح سے ان دستاویزوں کے مطالعہ سے اس وقت کی تعلیم اور معاشرہ کے بارے میں کئی جانکاری مل رہی ہے۔ ۱۹۱۸ کے اس رجسٹر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس پرائمری اسکول کا نام پہلے پُتری شالا تھا، جو بعد میں بدل کر پرائمری گرلس اسکول ہوا۔ ۱۹۱۸ میں یہاں ۶۴ لڑکیاں پڑھتی تھیں، جب کہ آج یہاں کل طالبات کی تعداد ۷۴ ہے، جن میں سے ایک درج فہرست ذات (ایس سی)، ۱۲ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور باقی ۲۱ پس ماندہ طبقے کی ہیں۔ اسکول میں ابھی کل ملا کر ۳ ٹیچر ہیں، جن میں سے ایک نیلما نیتام ہیں جو گزشتہ ۵ برسوں سے اسی اسکول میں ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05665-1.jpg

شروع میں اس اسکول کا نام ’پُتری‘ اسکول تھا، بعد میں اسے بدل کر گرلس پرائمری اسکول کر دیا گیا


اس اسکول میں اس وقت لوہرسی کے علاوہ آمدی اور مجگہن کی لڑکیاں بھی پڑھنے آتی تھیں۔ یہاں ہم سبھی ٹیچر، دوپہر کا کھانا بنانے والے باورچی مل جل کر بات چیت کے ذریعے کسی بھی مسئلہ کا حل نکال لیتے ہیں۔ بچیاں بھی اسکول میں ٹیچروں سے کافی مل جل کر رہتی ہیں۔ ان میں کافی دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس اسکول میں جب ہم پہلی بار گئے تب ہم نے دیکھا کہ بچے اور میڈم مل کر پودوں میں پانی دے رہی تھیں۔ اس طرح سے اس اسکول کی تاریخ ہی نہیں، حال میں بھی کافی امید نظر آ رہی ہے۔ اس اسکول کی کلاس کی دیواروں پر چرند و پرند کی رنگین پینٹنگ دکھائی دے رہی ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ جیوتش کمار وشواس سر نے پینٹ کیا ہے۔ جب ان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ سب تصویریں بچوں کی نصابی کتابوں پر مبنی ہیں، جن سے بچوں کے لیے پڑھنا لکھنا، سوچنا سجھنا آسان ہو رہا ہے۔ اور سب سے اہم بات ہے کہ اس پینٹنگ کو ہم سب نے مل کر بنایا ہے، جن میں ٹیچر اور بچے سبھی شامل ہیں۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05639-1.jpg

ایک ٹیچر کے ذریعے بنائی گئی چرند و پرند کی تصویریں دیواروں کی خوبصورتی بڑھا رہی ہیں


ان بچوں نے کئی مشترکہ گیت بھی سیکھے ہیں، جو مل جل کر گاتے ہیں، جن میں ہندی کے علاوہ چھتیس گڑھی بھی شامل ہیں۔ لیکن سب سے اچھی بات یہ لگی کہ بچوں اور ٹیچروں کے درمیان بہت سی دوستانہ رشتے ہیں۔ اس گرلس اسکول میں اب تک کل ۱۸ ٹیچروں میں سے ۱۱ خاتون ٹیچر رہی ہیں اور فی الحال سنیل کمار یدو پرنسپل ٹیچر ہیں۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے اسکول کی طالبات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ تو ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں سے زیادہ سے زیادہ طالبات کو نوودے وِدیالیہ میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے سبھی مل کر بچوں کو تیار کر رہے ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05667-1.jpg

۱۹۱۸ میں یہاں ۶۴ طالبات تھیں، اب ۷۴ ہیں


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05533-1.jpg

ڈیوٹی کر رہے ٹیچروں کی فہرست


اس اسکول کی جو سب سے پرانی عمارت ہے، اسے یا تو مرمت کرنے کی یا اس کی جگہ دوسری عمارت کھڑی کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہاں کھلی جگہ بھی نہیں ہے۔ جو بھی ہو، اس اسکول میں آکر اس کی تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر اور حال میں بھی بچوں اور ٹیچروں کے جوش کو دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ اس اسکول میں جہاں زیادہ تر غریب گھر کی لڑکیاں پڑھ رہی ہیں، جن میں سے زیادہ تر بچیوں کے پاؤں میں چپل بھی نہیں ہے، لیکن ان کے جذبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسکول اور یہ بچیاں آنے والے دنوں میں اس اسکول کا نام اور بھی روشن کریں گی۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس اسکول سے دوسرے اسکول سبق کیوں نہیں لیتے؟


/static/media/uploads/Articles/Purusottam Thakur/ Girls Primary School Loharsi/dsc05560-1.jpg

زیادہ تر طالبات غریب گھروں سے ہیں، جن کے پاس پہننے کے لیے چپل تک نہیں ہے

ہندی سے انگریزی میں ترجمہ روچی وارشنیہ نے کہا، جب کہ اردو میں ڈاکٹر قمر تبریز نے

Purusottam Thakur

புருஷோத்தம் தாகூர், 2015ல் பாரியின் நல்கையைப் பெற்றவர். அவர் ஒரு ஊடகவியலாளர் மற்றும் ஆவணப்பட இயக்குநர். தற்போது அஸிஸ் பிரேம்ஜி அமைப்பில் வேலைப் பார்க்கிறார். சமூக மாற்றத்துக்கான கட்டுரைகளை எழுதுகிறார்.

Other stories by Purusottam Thakur
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique