گُر پرتاپ سنگھ ۱۱ویں کلاس کے طالب علم ہیں اور ان کا چچیرا بھائی، ۱۳ سالہ سکھبیر سنگھ ۷ویں کلاس میں ہے۔ دونوں پنجاب کے امرتسر ضلع کے رہنے والے ہیں۔ وہ ابھی اسکول سے دور ہیں، لیکن ایک الگ قسم کی تعلیم پر نکلے ہوئے ہیں۔
’’ہم یہاں رات میں کسانوں کے علاقے کی نگرانی کرتے ہیں، اور ہم ایسا کرتے رہیں گے،‘‘ ۱۷ سالہ گر پرتاپ نے مجھے ہریانہ کے سونی پت میں، سنگھو- دہلی سرحد پر بتایا۔
وہ اُن سینکڑوں ہزاروں کسانوں میں شامل ہیں جو دہلی کی مختلف سرحدوں پر جمع ہوئے ہیں۔ کچھ کسان راجدھانی میں کچھ ہفتے پہلے داخل ہو گئے تھے، اور شمالی دہلی کے براڑی کے میدان میں کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔
تمام مقامات پر، اس سال ستمبر میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کیے گئے تین زرعی قوانین کو مسترد کرانے کے مطالبہ کو لیکر ان کے بڑے اور پرامن احتجاجی مظاہروں میں کوئی کمی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اور یہ کسان آگے کی لمبی لڑائی لڑنے کو تیار ہیں، اپنے مطالبات کو لیکر پر عزم، اپنی تحریک کو لیکر پابند عہد ہیں۔
رات ہو چکی ہے اور جب میں سنگھو اور براڑی میں ان کے ذریعے لگائے گئے کچھ کیمپوں کے پاس سے گزرتا ہوں، تو دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ سونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ کسان اپنے ٹرکوں میں رہ رہے ہیں، کچھ پیٹرول پمپوں پر سو رہے ہیں، کچھ لوگ اجتماعی طور پر گانا گاتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔ ان تمام جگہوں پر گرم جوشی، بھائی چارہ، اور عزم اور احتجاج کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰
کسان اِن تین قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔
وہ ان قوانین کو، زراعت میں ان کے حقوق اور حصہ داری کو لازمی طور پر ملک کے سب سے طاقتور کارپوریشن کو سونپنے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو انہیں ان بڑے تاجروں کے رحم و کرم پر جینے کو مجبور کر دے گا۔ ’’اگر یہ وعدہ خلافی نہیں ہے، تو اور کیا ہے؟‘‘ اندھیرے میں ایک آواز پوچھتی ہے۔
’’ہم کسانوں کو پہلے بھی ان کمپنیوں کا تجربہ رہا ہے – اور ہم اُن پر بھروسہ نہیں کرتے۔ وہ ہمیں پہلے بھی دھوکہ دے چکے ہیں، اور ہم بیوقوف نہیں ہیں۔ ہم اپنے حقوق کو جانتے ہیں،‘‘ اُس دیر شام کو سنگھو میں لگے کیمپوں سے گزرتے ہوئے میں نے کئی آوازوں میں سے ایک کو کہتے ہوئے سنا۔
کیا وہ اس تعطل کے بارے میں فکرمند نہیں ہیں، جب سرکار اِن قوانین کو کسی بھی طرح مسترد کرنے کے امکان سے انکار کر رہی ہے؟ کیا وہ ٹِک پائیں گے؟
’’ہم مضبوط ہیں،‘‘ پنجاب کا ایک دیگر کاشتکار کہتا ہے۔ ’’ہم اپنا کھانا خود بنا رہے ہیں اور دوسروں کو بھی تقسیم کر رہے ہیں۔ ہم کسان ہیں، ہم جانتے ہیں کہ مضبوط کیسے بنے رہیں۔‘‘
اور ہریانہ کے بھی بہت سے ہیں، جو یہاں احتجاج کرنے والوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ کیتھل ضلع کے ۵۰ سالہ شو کمار بابھد کہتے ہیں: ’’ہمارے کسان بھائی اپنے گھروں کا آرام چھوڑ کر اتنی دور، دہلی کی سرحد تک آئے ہیں۔ ہم انہیں وہ سب کچھ فراہم کر رہے ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔‘‘
سنگھو اور براڑی میں یہ کسان اُس ہمدردی اور دیکھ بھال کا بھی ذکر کرتے ہیں، جو انہیں ساتھی شہریوں سے مل رہی ہے۔ ’’لوگ ہماری مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے سرحد کے مختلف مقامات پر کیمپ لگائے ہیں، جن سے ہمیں طبی مدد مل رہی ہے،‘‘ ایک احتجاجی کہتا ہے۔
’’ہم کافی کپڑے لائے ہیں،‘‘ ایک اور مجھے بتاتا ہے، ’’پھر بھی لوگ زیادہ سے زیادہ کپڑے اور کمبل کا عطیہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک کارواں ہے جو گھر جیسا لگتا ہے۔‘‘
سرکار اور کارپوریٹ دنیا کو لیکر، ان کے اندر بہت زیادہ غصہ اور شکایت ہے۔ ’’سرکار نے کسانوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے،‘‘ ایک احتجاجی کہتا ہے۔ ’’ہم اس ملک کو کھانا دیتے ہیں اور بدلے میں ہمیں آنسو گیس کے گولے اور پانی کی بوچھار ملتی ہے۔‘‘
’’جب کسان سردیوں کی ٹھنڈ میں اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، تو یہ کارپوریٹ، یہ سیاسی لیڈر، اپنے بستروں میں سو رہے ہوتے ہیں،‘‘ ایک دوسرا کہتا ہے۔
لیکن مخالفت کرنے کا عزم بھی پختہ ہے: ’’ہم ہر سال ٹھنڈی ہواؤں کا سامنا کرتے ہیں، لیکن اس سردی میں، ہمارے دل جلتے ہوئے انگارے ہیں،‘‘ ایک ناراض کسان کہتا ہے۔
’’آپ ان ٹریکٹروں کو دیکھ رہے ہیں؟‘‘ ان میں سے ایک پوچھتا ہے۔ ’’یہ ہمارے لیے ہتھیار بھی ہیں۔ ہم ان کی دیکھ بھال اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں۔‘‘ دہلی کی سرحدوں پر اب ہزاروں ٹریکٹر ہیں اور ان سے جڑی ٹرالیوں میں بھر کر بے شمار لوگ یہاں آ چکے ہیں۔
ایک دوسرا آدمی بولتا ہے: ’’میں پیشہ سے میکینک ہوں، اور میں نے خود سے وعدہ کیا ہے کہ میں ہر ایک کسان کے ٹریکٹر کی مرمت مفت میں کروں گا۔‘‘
ان میں سے ہر ایک کو لگتا ہے کہ وہ ایک لمبی لڑائی پر نکلے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ تعطل مہینوں تک چل سکتا ہے۔ لیکن کوئی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہے۔
ان میں سے ایک کہتا ہے: ’’جب تک اِن تین قوانین کو مسترد نہیں کر دیا جاتا، ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ یا جب تک کہ ہماری موت نہیں آ جاتی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز