’’خوف سے آزادی‘‘ اور ’’سزا سے بری علاقہ‘‘، یہی نعرے اسکول کی دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں۔ یہ جسمانی سزا کے خاتمہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن جب اسکولوں پر پولیس کا قبضہ ہو جائے، تو اس کے الگ معنی ہو جاتے ہیں، جیسا کہ ڈھنکیا اور گووندپور کے آس پاس ہو رہا ہے، یہاں کے لوگ ریاست کے ذریعہ اپنی زمینوں پر پوسکو کے بڑے پاور اور اسٹیل پروجیکٹ کے لیے قبضہ کیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یہاں کے بچوں کو اُس وقت قومی سطح پر توجہ ملی، جب وہ بھی زبردستی تحویل اراضی کے خلاف احتجاج میں اپنے والدین کے ساتھ شامل ہوئے۔ اس سے بھی زیادہ توجہ انھیں تب ملی، جب اسکول کی حاضری کم ہونے پر اڑیسہ کی وزیر برائے فروغِ خواتین و اطفال انجلی بہیرا کا غصہ پھوٹ پڑا۔ بچوں کو اسکول سے جوڑے رکھنے سے متعلق ان کی سوچ لاثانی ہے۔ ان کی اس سوچ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا کہ یہ بچے وہاں صرف اس لیے موجود نہیں تھے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احتجاج میں شامل تھے۔
اس ریاست میں، کلاس روم میں لاکھوں بچوں کی موجودگی کے باوجود انھیں تعلیم نہیں حاصل ہو پاتی۔ اس کے علاوہ، اڑیسہ میں ’’جون کے وسط سے ہی، زیادہ تر اسکولوں میں مڈ ڈے میل (دوپہر کا کھانا) نہیں تقسیم کیا گیا ہے،‘‘ برج پٹنائک بتاتے ہیں، جو کہ سپریم کورٹ کے فوڈ کمشنرس کے صلاح کار ہیں۔ ’’اور وہ پچھلے سال مرکزی حکومت کے ذریعہ اس اسکیم کے لیے جاری کیے گئے ۱۴۶ کروڑ روپے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘
لیکن گاؤوں کا حال بتاتے ہوئے، بلیا ماڈل اَپر پرائمری اسکول کے ایک ٹیچر کہتے ہیں، ’’ہمارے چھ کمروں میں سے چار پر پولیس کا قبضہ ہو چکا ہے، جو یہاں احتجاج پر قابو کرنے لیے موجود ہیں۔‘‘ اس اسکول میں ۷ویں جماعت تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ ’’ہر صبح، تمام بچے جمع ہوتے ہیں، ہم ان کی حاضری لیتے ہیں، اس کے بعد پہلی سے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ انھیں کیسے پڑھایا جائے؟‘‘ پولیس نے بہت سے اسکولوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے بالی ٹوتھ میں ایک اسکول کو خالی کیا ہے، لیکن اب بھی چار دیگر اسکولوں میں موجود ہیں، جن میں سے ایک بلیا بھی ہے۔
گووندپور کا ۱۰ سالہ راکیش بردھن کہتا ہے، ’’اسکول میں وہ ہمیں باجی راؤت کی کہانی پڑھاتے ہیں۔‘‘ ایک ۱۳ سالہ ملاح اور روایتی اڑیہ ہیرو، جسے انگریزوں نے گولی مار کر اس لیے ہلاک کر دیا تھا، کیوں کہ اس نے مجاہدین آزادی کا پیچھا کرنے والے انگریزوں کو ندی کے اُس پار لے جانے سے منع کر دیا تھا۔ ’’وہ ہم سے کہتے ہیں، ’تمہیں باجی راؤت جیسا بننا چاہیے اور جس طرح اس نے اپنے ملک کے لیے قربانی دی، ویسا ہی کرنا چاہیے‘۔ لیکن جب ہم اپنے گھروں کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو وہ بری طرح پیش آتے ہیں۔‘‘
ان کے ٹیچرس اس پر کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ۱۴ سالہ بشوامبر موہنتی کہتا ہے، ’’وہ کیا کہہ سکتے ہیں؟ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی زمین اور گاؤں کھو دیے، تو یہاں کوئی اسکول بھی نہیں بچے گا۔‘‘ ایک ٹیچر کا کہنا ہے، ’’انھوں نے پولیس کو اپنے والدین پر ربڑ کی گولیاں چلاتے دیکھا ہے۔ انھوں نے اپنے پان کے باغوں اور اپنے گھروں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ سب اڑیسہ کی ترقی کے لیے اچھا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ردِ عمل اور کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ ایک دوسرا طالب علم سوال کرتا ہے، ’’وہ ہمارے والدین پر اپنی بندوقیں تان رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم اسکول میں رہیں؟‘‘
احتجاجوں میں بچوں کے ’’غلط استعمال‘‘ سے پریشان، بچوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والے قومی کمیشن کی ایک ٹیم نے یہاں کا دورہ کیا۔ اپنے دورہ کے اخیر میں، اس نے احتجاجیوں سے کہا کہ وہ بچوں کو اس سے دور رکھیں، ساتھ ہی اس ٹیم نے حکومت سے بھی کہا کہ وہ ’’بچوں کی تعلیم کے لیے بنائے گئے اسکولوں میں موجود پولیس فورس کو وہاں سے ہٹائے۔‘‘
’’اگر حکومت ہمیں حکم دیتی ہے، تو ظاہر ہے ہم کوئی دوسرا ٹھکانہ تلاش کریں گے،‘‘ جگت سنگھ پور ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایس دیو دت نے مجھ سے کہا۔
دریں اثنا، ٹیچروں کو مزید کام یہ دیا گیا کہ وہ ’’غیر حاضر‘‘ رہنے والے بچوں کے والدین سے بات کریں۔ ’’بی ڈی او چاہتے ہیں کہ ہم انھیں روزانہ کی حاضری اور کتنے والدین سے ہم نے بات کی، اس کی رپورٹ انھیں روز دیں،‘‘ ایک ٹیچر نے کہا۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس اور کوئی کام نہیں ہے، پہلے ہی ہمیں ۷۴ ریکارڈس روز تیار کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
گووند پور اَپر پرائمری اسکول میں ۲۴۰ اسٹوڈنٹس اور چار ٹیچرس ہیں۔ ان میں سے صرف ایک ریگولر ٹیچر ہے۔ باقی ’شکشا سہایک‘ (اسسٹنٹ ٹیچرس) اور ’گن شکشک‘ (بڑی کلاس لینے والے) ہیں۔ پچھلے ماہ ریاستی حکومت نے ریگولر ٹیچروں کی خالی اسامیاں پُر کرنے کے لیے ۲۰ ہزار شکشا سہایکوں کی بھرتی کی۔ زیادہ تر ’سہایک‘ کی صحیح ٹریننگ نہیں ہوئی ہے اور وہ ٹھیک سے پڑھا نہیں سکتے۔
پوسکو علاقہ کی پنچایت میں، صرف ’’کارگزار ہیڈماسٹرس‘‘ ہیں۔ ریاست بھر کے زیادہ تر اسکولوں میں ہیڈماسٹروں کی پوسٹ سالوں سے خالی پڑی ہوئی ہے۔ اڑیسہ میں پرائمری اسکول ٹیچروں کی بھی ۲۹ ہزار اسامیاں خالی ہیں۔ ’’اگر انھوں نے ان خالی عہدوں کو پُر کیا، تو انھیں مزید تنخواہیں دینی پڑیں گی،‘‘ ایک ٹیچر غصے سے کہتا ہے۔ ترلوچن پور گاؤں کے ۴۰۰ بچے اسکول جاتے ہیں، لیکن وہاں ایک بھی ریگولر ٹیچر نہیں ہے۔
’سرو شکشا ابھیان‘ (یعنی سب کے لیے تعلیم) کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹا جا رہا ہے، لیکن ’’ٹیچرس‘‘ کی بھرتی بہت ہی کم تنخواہ پر کی جا رہی ہے، شکشا سہایکوں کو صرف ۴ ہزار روپے ملتے ہیں۔ اگر وہ چھ سالوں تک پڑھاتے رہیں، تو ضلع پریشد ٹیچر بن سکتے ہیں۔ ’’گن شکشکوں‘‘ (ایجوکیشن گارنٹی اسکیم کے تحت انہیں ’’رضاکار ٹیچرس‘‘ بھی کہا جاتا ہے) کی حالت تو اور بھی بدتر ہے۔ ’’وہ سب سے کم تعلیم یافتہ ہیں، انھیں پڑھانے کے کام پر نہیں لگانا چاہیے، لیکن وہ ایسا کر رہے ہیں،‘‘ ایک اہل کار بتاتا ہے۔ وہ ایک مہینہ میں ۲،۲۵۰ سے ۲،۵۰۰ روپے کماتے ہیں۔ یہ مہاتما گاندھی نینشل رورل امپلائمنٹ گارنٹی اسکیم کے تحت جو بے زمین مزدور ۳۰ دنوں میں کماتے ہیں، اس سے بھی کہیں زیادہ کم ہے۔ ’’ٹیچروں‘‘ کی تنخواہوں پر اتنا کم خرچ کرنے سے پورا نظام ٹھپ ہو چکا ہے۔ ’’تعلیم یافتہ لوگ اب اس پیشہ میں بھلا کیوں آئیں گے؟‘‘ ایک ٹیچر سوال کرتا ہے۔
پورے ملک میں چونکہ ٹیچروں کا معیار گرتا جا رہا ہے، لہٰذا پرائیویٹ ٹیوشن انڈسٹری پھل پھول رہی ہے۔ کچھ ٹیچرس ٹیوشن سے زیادہ کما رہے ہیں۔ دوسرے اتنے با صلاحیت نہیں ہیں کہ وہ یہ بھی کر سکیں۔ کچھ تو بالکل بھی پڑھاتے نہیں ہیں۔ اوپر سے دوسری بہت سارے مسائل۔ ان تمام حدود کے درمیان، نظام کو درست کرنے کی ایک ایماندار ایجوکیشن سکریٹری کی محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ کاموں کا انبار لگ گیا۔ اپراجیتا سارنگی کے خلاف ناراض اسکول مینجمنٹ کمیٹیوں اور ٹیچروں نے عدالتوں میں ۸۵ مقدمے دائر کر رکھے ہیں۔
ڈھنکیا اور گووِند پور میں طلبہ احتجاجی ریلیوں میں کم نظر آتے ہیں، لیکن اب بھی موجود ہیں۔ ایک کہتا ہے، ’’اب، ایک الگ چھوٹا گروپ ہر روز جاتا ہے۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ یہ بچے مارک ٹوائن کے مقولہ پر کاربند ہیں: ’’اسکول کو اپنی تعلیم میں کبھی بھی مداخلت نہ کرنے دیں۔‘‘
یہ مضمون سب سے پہلے ’ دی ہندو ‘ اخبار میں ۱۸ جولائی، ۲۰۱۱ کو شائع ہوا تھا۔