یہ اسٹوری پاری کی ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی سیریز کا حصہ ہے، جس نے ماحولیات کی رپورٹنگ کے زمرہ میں سال ۲۰۱۹ کا رامناتھ گوئنکا ایوارڈ جیتا ہے
’’شام کو ۴ بجے ہمیں یہاں گرم رہنے کے لیے آگ جلانی پڑتی تھی،‘‘ کیرالہ کے پہاڑی وایناڈ ضلع میں اپنے خستہ حال کھیت پر آگسٹائن وڈکِل کہتے ہیں۔ ’’لیکن یہ ۳۰ سال پہلے ہوتا تھا۔ اب وایناڈ میں ٹھنڈ نہیں ہے، کسی زمانے میں یہاں دھند ہوا کرتی تھی،‘‘ مارچ کی شروعات میں زیادہ سے زیادہ ۲۵ ڈگری سیلسیس سے، اب یہاں درجۂ حرارت سال کے اِس وقت تک آسانی سے ۳۰ ڈگری کو پار کر جاتا ہے۔
اور وَڈکِل کی زندگی میں گرم دنوں کی تعداد دو گُنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ۱۹۶۰ میں، جس سال ان کی پیدائش ہوئی تھی، ’’وایناڈ علاقہ ہر سال تقریباً ۲۹ دن کم از کم ۳۲ ڈگری [سیلسیس] تک پہنچنے کی امید کر سکتا تھا،‘‘ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمِنگ پر ایک انٹریکٹو آلہ سے کی گئی پیمائش کا کہنا ہے، جسے نیویارک ٹائمز کے ذریعے اس سال جولائی میں آن لائن پوسٹ کیا گیا تھا۔ ’’آج وایناڈ علاقہ اوسطاً، روزانہ ۳۲ ڈگری یا اُس سے اوپر ۵۹ دنوں کی امید کر سکتا ہے۔‘‘
وَڈکِل کہتے ہیں کہ موسم کے پیٹرن میں تبدیلی، گرمی کے تئیں حساس اور کمزور فصلوں جیسے کہ کالی مرچ اور نارنگی کے پیڑوں کو نقصان پہنچا رہی ہے، جو کبھی اس ضلع میں دکن پٹھار کے جنوبی سرے پر مغربی گھاٹ میں کافی تعداد میں ہوتے تھے۔
وَڈکِل اور ان کی بیوی وَلسا کے پاس مننتھ واڈی تعلقہ کے چیروکوٹور گاؤں میں چار ایکڑ کھیت ہے۔ ان کی فیملی تقریباً ۸۰ سال پہلے کوٹّایم چھوڑ کر وایناڈ آ گئی تھی، تاکہ یہاں اس نقدی فصل کی مضبوط ہوتی اقتصادیات میں قسمت آزما سکیں۔ وہ بھاری تعداد میں نقل مکانی کا دور تھا جب ریاست کے شمال مشرق میں واقع اس ضلع میں وسط کیرالہ کے ہزاروں چھوٹے اور غریب کسان آکر بس رہے تھے۔
لیکن وقت کے ساتھ، لگتا ہے کہ یہ تیزی مندی میں بدل گئی۔ ’’اگر بارش پچھلے سال کی طرح ہی بے ترتیب رہی، تو ہم جس [آرگینک روبسٹا] کافی کو اُگاتے ہیں، وہ برباد ہو جائے گی،‘‘ وَڈکِل کہتے ہیں۔ ’’کافی منافع بخش ہے، لیکن موسم اس کے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گرمی اور بے ترتیب بارش اسے برباد کر دیتی ہے،‘‘ ولسا کہتی ہیں۔ اس شعبہ میں کام کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ [روبسٹا] کافی اُگانے کے لیے موزوں درجۂ حرارت ۲۳-۲۸ ڈگری سیلسیس کے درمیان ہے۔
وایناڈ کی سبھی کافی، جو مضبوط-اِن-باڈی روبسٹا فیملی کی (ایک جنگلی سدا بہار جھاڑی) ہے، کی کھیتی دسمبر اور مارچ کے درمیان کی جاتی ہے۔ کافی کے پودوں کو فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں پہلی بارش کی ضرورت ہوتی ہے – اور یہ ایک ہفتہ بعد پھول دینا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پہلی بوچھار کے بعد ایک ہفتہ تک بارش نہ ہو، کیوں کہ یہ نازک پھولوں کو برباد کر دیت ہے۔ کافی کے پھل یا ’چیری‘ کو بڑھنا شروع کرنے کے لیے پہلی بارش کے ایک ہفتہ بعد دوسری بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھول جب پوری طرح کھلنے کے بعد پیڑ سے گر جاتے ہیں، تو پھلیوں والی چیری پکنے لگتی ہے۔
’’وقت پر بارش آپ کو ۸۵ فیصد پیداوار کی گارنٹی دیتی ہے،‘‘ وَڈکِل کہتے ہیں۔ جب ہم مارچ کے شروع میں ملے تھے، تو وہ اس نتیجہ کی امید کر رہے تھے، لیکن فکرمند تھے کہ ایسا ہوگا بھی یا نہیں۔ یہ نہیں ہوا۔
مارچ کے شروع میں، کیرالہ کی سخت گرمی کی شروعات میں، درجۂ حرارت پہے ہی ۳۷ ڈگری اوپر جا چکا تھا۔ ’’دوسری بارش (رندھامتھ ماژا) اس سال بہت جلد آ گئی اور سب کچھ برباد ہو گیا،‘‘ وَڈکِل نے ہمیں مارچ کے آخر میں بتایا۔
وَڈکِل، جو دو ایکڑ میں اس فصل کو لگاتے ہیں، اس کی وجہ سے اس سال ۷۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ وایناڈ سوشل سروِس سوسائٹی (WSSS) کسانوں کو ایک کلو غیر پروسیس شدہ آرگینک کافی کے ۸۸ روپے، جب کہ غیر آرگینک کافی کے ۶۵ روپے دیتی ہے۔
وایناڈ میں ۲۰۱۷-۲۰۱۸ میں کافی کے ۵۵۵۲۵ ٹن کی پیداوار سے، اس سال ۴۰ فیصد کی گراوٹ آئی ہے، WSSS کے ڈائرکٹر فادر جان چُراپوژائِل نے مجھے فون پر بتایا۔ WSSS ایک کوآپریٹو سوسائٹی ہے جو مقامی کسانوں سے کافی خریدتی ہے۔ ابھی تک کوئی سرکاری اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں۔ ’’پیداوار میں بہت حد تک یہ گراوٹ اس لیے ہے کیوں کہ آب و ہوا میں تبدیلی وایناڈ میں کافی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوئے ہیں،‘‘ فادر جان کہتے ہیں۔ پورے ضلع میں جن کسانوں سے ہم ملے، وہ الگ الگ سالوں میں اضافی بارش اور کبھی کبھی کم بارش، دونوں سے پیداوار میں فرق کی بات کر رہے تھے۔
کم یا زیادہ بارش سے کھیتوں کا پانی خشک ہو جاتا ہے۔ فادر جان کا اندازہ ہے کہ ’’وایناڈ کے صرف ۱۰ فیصد کسان ہی بورویل اور پمپ جیسی آبپاشی کی سہولیات کے ساتھ خشک سالی یا بے ترتیب بارش کے دوران کام کر سکتے ہیں۔‘‘
وَڈکِل خوش قسمت لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ اگست ۲۰۱۸ میں وایناڈ اور کیرالہ کے دیگر حصوں میں آئے سیلاب کے دوران ان کا سینچائی پمپ خراب ہو گیا تھا۔ اس کی مرمت کرانے پر انھیں ۱۵ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے، جو کہ ایسے وقت میں بہت بڑی رقم ہے۔
اپنی بقیہ دو ایکڑ زمین پر وَڈکِل اور ولسا ربر، کالی مرچ، کیلے، دھان اور سُپاری اُگاتے ہیں۔ حالانکہ بڑھتی گرمی نے ان سبھی فصلوں پر بھی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ’’پندرہ سال پہلے، کالی مرچ ہی ہم سبھی کو زندہ رکھنے کا ذریعہ تھی۔ لیکن [تب سے] دھروتھواتّم [تیزی سے مرجھانے] جیسی بیماریوں نے ضلع بھر میں اسے برباد کر دیا ہے۔‘‘ چونکہ کالی مرچ ایک بارہ ماسی فصل ہے، اس لیے کسانوں کا نقصان تباہ کن رہا ہے۔
’’وقت گزرنے کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ کھیتی کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ آپ کو اس کا شوق ہو۔ میرے پاس یہ ساری زمین ہے، لیکن میری حالت دیکھیں،‘‘ وَڈکِل کہتے ہیں۔ ’’ان مشکل گھڑیوں میں آپ صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کچھ اضافی مرچ کو پیس لیں، کیوں کہ آپ چاول کے ساتھ اسے کھا سکتے ہیں،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
’’یہ ۱۵ سال پہلے شروع ہوا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ کالا وستھا اس طرح کیوں بدل رہی ہے؟‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملیالم لفظ کالاوستھا کا معنی آب و ہوا ہے، درجۂ حرارت یا موسم نہیں۔ یہ سوال ہم سے وایناڈ کے کسانوں نے کئی بار پوچھا تھا۔
بدقسمتی سے، اس کے جواب کا ایک حصہ کسانوں کے ذریعے دہائیوں سے اپنائے گئے کھیتی کے طور طریقوں میں پوشیدہ ہے۔
’’ہم کہتے ہیں کہ کھیت کے ہر ایک ٹکڑے پر کئی فصلیں اُگانا اچھا ہے بجائے اس کے کہ ایک ہی فصل لگائی جائے، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے،‘‘ سُما ٹی آر کہتی ہیں۔ وہ ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن، وایناڈ مییں ایک سائنس داں ہیں، جو زمین کے استعمال میں تبدیلی کے مسائل پر ۱۰ سالوں تک کام کر چکی ہیں۔ ایک فصلی کھیتی کیڑوں اور بیماریوں کو پھیلانے میں مدد کرتی ہے، جس کا علاج کیمیاوی حشرہ کش اور کھادوں سے کیا جاتا ہے۔ یہ زیر زمین پانی میں چلے جاتے ہیں یا ہوا میں گھل جاتے ہیں، جس سے میلاپن اور آلودگی ہوتی ہے – اور وقت کے ساتھ سنگین ماحولیاتی نقصان ہوتا ہے۔
سُما کہتی ہیں کہ یہ انگریزوں کے ذریعے جنگلات کی کٹائی سے شروع ہوا۔ ’’انھوں نے لکڑی کے لیے جنگلات کو صاف کیا اور کئی اونچائی والے پہاڑوں کو پودکاری میں بدل دیا۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی بھی اس سے جڑی ہوئی ہے کہ ’’کیسے [۱۹۴۰ کی دہائی سے ضلع میں بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی نقل مکانی کے ساتھ] ہمارا منظر نامہ بھی بدل گیا۔ اس سے پہلے، وایناڈ کے کسان بنیادی طور پر الگ الگ فصلوں کی کھیتی کیا کرتے تھے۔‘‘
اُن دہائیوں میں، یہاں کی اہم فصل دھان تھی، کافی یا کالی مرچ نہیں – خود ’وایناڈ‘ لفظ بھی ’وایل ناڈو‘ یا دھان کے کھیتوں کی زمین سے آتا ہے۔ وہ کھیت اس علاقے – اور کیرالہ کی ماحولیات اور ایکو سسٹم کے لیے اہم تھے۔ لیکن دھان کا رقبہ – ۱۹۶۰ میں تقریباً ۴۰ ہزار ہیکیٹئر – آج بمشکل ۸ ہزار ہیکٹیئر رہ گیا ہے۔ جو کہ ۲۰۱۷-۱۸ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق،ضلع کے مجموعی فصلی رقبہ کے ۵ فیصد سے بھی کم ہے۔ اور اب وایناڈ میں کافی کے باغات تقریباً ۶۸ ہزار ہیکٹیئر علاقہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو کہ کیرالہ میں کافی کے کل رقبہ کا ۷۹ فیصد ہیں – اور ۱۹۶۰ میں ملک بھر میں سبھی روبسٹا سے ۳۶ فیصد زیادہ تھا، وَڈکِل کی پیدائش اسی سال ہوئی تھی۔
’’کسان نقدی فصلوں کے لیے زمین صاف کرنے کی بجائے پہاڑی پر راگی جیسی فصلوں کی کھیتی کر رہے تھے،‘‘ سُما کہتی ہیں۔ کھیت نباتاتی نظام کو بنائے رکھنے میں اہل تھے۔ لیکن، وہ کہتی ہیں، بڑھتی نقل مکانی کے ساتھ نقدی فصلوں نے غذائی فصلوں پر سبقت بنا لی۔ اور ۱۹۹۰ کی دہائی میں عالمکاری کی آمد کے ساتھ، زیادہ سے زیادہ لوگوں نے کالی مرچ جیسی نقدی فصلوں پر پوری طرح سے انحصار کرنا شروع کر دیا۔
’پیداوار میں گراوٹ اس لیے آئی ہے کیوں کہ ماحولیاتی تبدیلی وایناڈ میں کافی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوئی ہے‘ – پورے ضلع میں ہم جتنے بھی کسانوں سے ملے، اُن سبھی نے اس خطرناک تبدیلی کی بات کہی
’’آج، کسان ایک کلو دھان سے ۱۲ روپے اور کافی سے ۶۷ روپے کما رہے ہیں۔ حالانکہ، کالی مرچ سے انھیں فی کلو ۳۶۰ روپے سے ۳۶۵ روپے ملتے ہیں،‘‘ WSSS کے ایک سابق پروجیکٹ افسر، اور مننتھ واڈی شہر کے ایک آرگینک کسان، ای جے جوز کہتے ہیں۔ قیمت میں اتنے بڑے فرق نے کئی اور کسانوں کو دھان کی کھیتی چھوڑ کالی مرچ یا کافی کا متبادل چُننے پر مجبور کیا۔ ’’اب ہر کوئی وہی اُگا رہا ہے جو سب سے زیادہ منافع بخش ہو، نہ کہ جس کی ضرورت ہے۔ ہم دھان بھی کھو رہے ہیں، جو کہ ایک ایسی فصل ہے جو بارش ہونے پر پانی کو جذب کرنے میں مدد کرتی ہے، اور پانی کی سطح کو دوبارہ قائم کرتی ہے۔‘‘
ریاست میں دھان کے کئی کھیتوں کو بھی بڑے ریئل اسٹیٹ ٹکڑوں میں بدل دیا گیا ہے، جو اس فصل کی کھیتی میں ماہر کسانوں کے کام کے دن کو کم کر رہا ہے۔
’’ان سبھی تبدیلیوں کا وایناڈ کے منظرنامہ پر مسلسل اثر پڑ رہا ہے،‘‘ سُما کہتی ہیں۔ ’’ایک فصلی کھیتی کے ذریعے مٹی کو برباد کیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی [۱۹۳۱ کی مردم شماری کے وقت جہاں ایک لاکھ سے کم تھی، وہیں ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے وقت ۸ لاکھ ۱۷ ہزار ۴۲۰ تک پہنچ گئی] اور زمین کی تقسیم اس کے ساتھ آتی ہے، اس لیے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ وایناڈ کا موسم گرم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
جوز بھی یہ مانتے ہیں کہ زراعت کے ان بدلتے طریقوں کا درجۂ حرارت میں اضافہ سے قریبی رشتہ ہے۔ ’’کاشت کاری کے طریقوں میں تبدیلی نے بارش میں تبدیلی کو متاثر کیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
پاس کی تھوَن ہل پنچایت میں، اپنے ۱۲ ایکڑ کے کھیت میں ہمارے ساتھ گھومتے ہوئے، ۷۰ سالہ ایم جے جارج کہتے ہیں، ’’یہ کھیت کسی زمانے میں کالی مرچ سے اتنے بھرے ہوتے تھے کہ سورج کی کرنوں کا درختوں سے ہو کر گزرنا مشکل ہوتا تھا۔ پچھلے کچھ برسوں میں ہم نے کئی ٹن کالی مرچ کھو دی ہے۔ ماحولیات کے بدلتے حالات کے سبب پودوں کے تیزی سے مرجھانے جیسی بیماریاں ہو رہی ہیں۔‘‘
پھپھوند فائیٹوفتھورا کے سبب، تیزی سے مرجھانے کی بیماری نے ضلع بھر کے ہزاروں لوگوں کے ذریعہ معاش کو ختم کر دیا ہے۔ یہ اعلیٰ نمی کے حالات میں پنپتا ہے، ’’اس میں گزشتہ ۱۰ برسوں میں وایناڈ میں کافی اضافہ ہوا ہے،‘‘ جوز کہتے ہیں۔ ’’بارش اب بے ترتیب ہوتی ہے۔ کیمیاوی کھادوں کے بڑھتے استعمال نے بھی اس بیماری کو پھیلنے میں مدد کی ہے، جس سے ٹرائیکوڈرما نامی اچھے بیکٹیریا دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہیں، حالانکہ یہ بیکٹیریا پھپھوند سے لڑنے میں مدد کرتا تھا۔‘‘
’’پہلے ہمارے پاس وایناڈ میں ایئرکنڈیشنڈ آب و ہوا تھی، لیکن اب نہیں ہے،‘‘ جارج کہتے ہیں۔ ’’بارش، جو پہلے کے موسموں میں لگاتار ہوتی تھی، اب گزشتہ ۱۵ برسوں کے دوران اس میں کافی کمی آئی ہے۔ ہم اپنی بارش کے لیے مشہور تھے...‘‘
ہندوستانی محکمہ موسمیات، ترواننت پورم کا کہنا ہے کہ یکم جون سے ۲۸ جولائی، ۲۰۱۹ کے درمیان وایناڈ میں بارش عام اوسط سے ۵۴ فیصد کم تھی۔
عام طور پر زیادہ بارش والا علاقہ ہونے کی وجہ سے، وایناڈ کے کچھ حصوں میں کئی بار ۴۰۰۰ ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ لیکن کچھ سالوں سے ضلع کے اوسط میں بے تحاشہ اتار چڑھاؤ ہوا ہے۔ یہ ۲۰۱۴ میں ۳۲۶۰ ملی میٹر تھا، لیکن اس کے بعد اگلے دو برسوں میں بھاری گراوٹ کے ساتھ یہ ۲۲۸۳ ملی میٹر اور ۱۲۸ ملی میٹر پر پہنچ گیا۔ پھر، ۲۰۱۷ میں یہ ۲۱۲۵ ملی میٹر تھا اور ۲۰۱۸ میں، جب کیرالہ میں سیلاب آیا تھا، یہ ۳۸۳۲ ملی میٹر کی اونچائی پر پہنچ گیا۔
حالیہ دہائیوں میں بارش کی سال در سال تبدیلی میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور سے ۱۹۸۰ کی دہائی سے، اور ۹۰ کی دہائی میں اس میں تیزی آئی،‘‘ ڈاکٹر گوپا کمار چولائل کہتے ہیں، جو کیرالہ ایگریکلچر یونیورسٹی، تریشور کی ماحولیاتی تبدیلی کی تعلیم و تحقیق اکادمی میں سائنس داں افسر ہیں۔ ’’اور مانسون اور مانسون کے بعد کی مدت میں پورے کیرالہ میں زیادہ بارش کے واقعات بڑھے ہیں۔ وایناڈ اس معاملے میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔‘‘
یہ، درحقیقت، وَڈکِل، جارج اور دیگر کسانوں کے گمان کی تصدیق کرتا ہے۔ وہ بھلے ہی ’کمی‘ کا ماتم کر رہے ہوں – اور طویل مدتی اوسط گراوٹ کا اشارہ دے رہے ہیں – لیکن ان کے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ جن موسموں اور دنوں میں انھیں بارش کی ضرورت اور امید ہوتی ہے ان میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ یہ زیادہ بارش کے ساتھ ساتھ کم بارش کے سالوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ جتنے دنوں تک بارش کا موسم رہتا تھا اب اُن دنوں میں بھی کمی آ گئی ہے، جب کہ اس کی شدت بڑھ گئی ہے۔ وایناڈ میں ابھی بھی اگست-ستمبر میں بارش ہو سکتی ہے، حالانکہ یہاں مانسون کا اہم مہینہ جولائی ہے۔ (اور ۲۹ جولائی کو، محکمہ موسمیات نے اس ضلع کے ساتھ کئی دیگر ضلعوں میں ’بھاری‘ سے ’بہت بھاری‘ بارش کا ’آرینج الرٹ‘ جاری کیا تھا۔‘‘
’’فصل کے طور طریقوں میں تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، زمین کے استعمال کی شکلیں... ان سب کا نباتاتی نظام پر سنگین اثر پڑا ہے،‘‘ ڈاکٹر چولائل کہتے ہیں۔
’’پچھلے سال کے سیلاب میں میری کافی کی سبھی فصل برباد ہو گئی تھی،‘‘ سبھدرا کہتی ہیں جنہیں مننتھ واڈی میں لوگ پیار سے ’ٹیچر‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ۷۵ سالہ کسان (سبھدرا بال کرشنن) کہتی ہیں، ’’اس سال وایناڈ میں کافی کی پیداوار سب سے کم ہوئی۔‘‘ وہ ایڈواک پنچایت میں اپنی فیملی کی ۲۴ ایکڑ زمین پر کھیتی کی نگرانی کرتی ہیں اور دیگر فصلوں کے علاوہ، کافی، دھان اور ناریل اُگاتی ہیں۔ ’’وایناڈ میں [کافی کے] کئی کسان [آمدنی کے لیے] اب تیزی سے اپنے مویشیوں پر منحصر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
ہو سکتا ہے کہ وہ ’موسمیاتی تبدیلی‘ لفظ کا استعمال نہ کریں، لیکن ہم جتنے بھی کسانوں سے ملے وہ سبھی اس کے اثرات سے فکرمند ہیں۔
اپنے آخری پڑاؤ پر - سلطان باتھیری تعلقہ کی پوٹھاڈی پنچایت میں ۸۰ ایکڑ میں پھیلی ایڈن وادی – ہم گزشتہ ۴۰ برسوں سے زرعی مزدور، گریجن گوپی سے ملے جب وہ اپنی آدھی پاری ختم کرنے والے تھے۔ ’’رات میں بہت ٹھنڈ ہوتی ہے اور دن میں بہت گرمی۔ کون جانتا ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے،‘‘ اپنے دوپہر کے کھانے کے لیے جانے سے پہلے انھوں نے کہا، اور بڑبڑاتے ہوئے خود سے بولے: ’’دیوتاؤں کو ہونا چاہیے۔ ورنہ ہم یہ سب کیسے سمجھ پائیں گے؟‘‘
کور فوٹو: وِشاکا جارج
مصنفہ اس اسٹوری کو کرتے وقت اپنا وقت اور تعاون فراہم کرنے کے لیے محقق، نوئل بینو کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمر قمر تبریز)
#deforestation #quick-wilt #rising-temperature #wayanad #erratic-rainfall #changes-in-cropping-patterns #pepper #robusta-coffee