جسپال، رمن دیپ اور ان کی سہیلیاں ایک آواز میں اپنے کوچ سے شکایت کرتی ہیں، ’’ایہہ کسی ہور نوں جیتا رہے نے، ساڈے اگّے کوئی ہور کوڑی نہیں سی [یہ کسی اور کو جیتنے میں مدد کر رہے ہیں، ہم سے آگے دوسری کوئی لڑکی نہیں تھی]۔‘‘ امرتسر سے آئیں تقریباً درجن بھر ایتھلیٹ، جو میراتھن میں حصہ لینے کے لیے ۲۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے چنڈی گڑھ آئی تھیں، صاف طور پر غصے میں دکھائی دے رہی تھیں، جب کہ سامنے اسٹیج سے ۵ کلومیٹر کی اس دوڑ میں دوسرا انعام حاصل کرنے والی جسپال کور کے نام کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ جسپال دوڑ ختم ہونے تک سب سے آگے تھیں، پھر بھی ۵۰۰۰ روپے کے پہلے نقد انعام کا اعلان کسی اور کے لیے کیا گیا۔

جسپال نے اسٹیج پر جا کر دوسرے مقام کا انعام لینے سے انکار کر دیا۔ اس کی بجائے وہ اور ان کے کوچ اسٹیج اور اسٹیج سے باہر کھڑے ہر شخص کے پاس گئے، منتظمین کے فیصلے پر سوال اٹھایا اور ان سے اپنی بات کہی۔ انہوں نے ان سے ویڈیو فوٹیج کی مدد سے صحیح فاتح کا پتہ لگانے اور ناانصافی ختم کرنے کی درخواست کی۔ آخر میں اپنے کوچ کے کہنے پر جسپال نے دوسرے مقام والا انعام قبول کر لیا، جو فوم بورڈ کا بنا ہوا ایک بڑا سا چیک تھا جس پر ۳۱۰۰ روپے کی رقم لکھی ہوئی تھی۔

ایک مہینہ کے بعد، اپریل ۲۰۲۳ میں وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے اکاؤنٹ میں ۵۰۰۰ روپے جمع کیے گئے ہیں۔ حالانکہ، جسپال کو اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا، اور کسی مقامی اخبار میں اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی تھی۔ رنی جین کے نتائج کی ویب سائٹ پر ۵ کلومیٹر کی دوڑ کے فاتح کے طور پر ان کا نام دکھائی دیتا ہے، جنہوں نے اپنی دوڑ ۰۷ء۲۳ منٹ میں مکمل کی۔ وہ اس سال کی انعامی تقسیم کی تقریب کی تصویر میں نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن جسپال کے پاس اپنے کئی میڈلز کے ساتھ وہ بڑا سا چیک اب بھی پڑا ہوا ہے۔

سال ۲۰۲۴ میں، اگلے میراتھن میں لڑکیوں کے ساتھ جاتے وقت اس رپورٹر کو منتظمین سے پتہ چلا کہ انہوں نے ویڈیو کی فوٹیج کی جانچ کرنے کے بعد اس سال کی دوڑ میں جسپال کی مد مقابل کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ لڑکیاں صحیح کہہ رہی تھیں۔ مقابلہ کے دوران نمبر ٹیگ کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ یہ بات معلوم ہونے پر سمجھ میں آیا کہ کیوں جسپال کو پہلی فاتح کے انعام کی رقم بھیجی گئی تھی۔

جسپال کے لیے نقد انعام بہت ضروری ہیں۔ اگر انہوں نے مناسب پیسے بچا لیے، تو وہ دوبارہ کالج جا سکیں گی۔ دو سال پہلے، جسپال نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے آن لائن بی اے (آرٹس) میں داخلہ لیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’لیکن میں اب تک ایک سیمسٹر سے آگے نہیں بڑھ پائی ہوں۔ مجھے امتحان میں بیٹھنے کے لیے ہر سیمسٹر میں تقریباً ۱۵ ہزار روپے جمع کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے سیمسٹر میں، میں نے نقد انعام [گاؤں کے نمائندوں اور اسکول نے قومی سطح پر مقابلہ جیتنے پر جو نقد انعام دیے تھے] سے ملے پیسے کا استعمال فیس بھرنے کے لیے کیا۔ لیکن اس کے بعد دوسرا سیمسٹر پورا نہیں کر پائی، کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘

جسپال (۲۲) اپنی فیملی میں کالج جانے والی پہلی نسل ہیں اور اپنے گاؤں میں مذہبی سکھ برادری کی ان چند خواتین میں سے ایک ہیں، جو کالج کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ مذہبی سکھ برادری پنجاب کی درج فہرست ذاتوں میں سب سے زیادہ حاشیہ پر ہیں۔ جسپال کی ماں، بلجندر کور (۴۷) نے پانچویں تک کی تعلیم حاصل کی ہے، وہیں ان کے والد بلکار سنگھ (۵۰) کبھی اسکول ہی نہیں جا پائے۔ ان کے بڑے بھائی امرت پال سنگھ (۲۴) کو بارہویں کے بعد اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی تھی، تاکہ وہ اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹا سکیں۔ وہ فی الحال اپنے گاؤں کوہالی میں تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جسپال کے چھوٹے بھائی آکاش دیپ سنگھ (۱۷) نے ۱۲ویں جماعت تک کی تعلیم مکمل کر لی ہے۔

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

جسپال (بائیں) اپنے انعاموں کو لوہے کی الماری میں محفوظ کر کے رکھتی ہیں۔ دائیں تصویر میں اپنی فیملی کے ساتھ ہیں

فیملی کی آمدنی اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں مردوں کو کب اور کتنا کام مل پا رہا ہے، جس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، جب کہ اسی درمیان ان کی فیملی میں دو اور ممبران شامل ہو گئے ہیں: بڑے بھائی کی بیوی اور ان کا بچہ۔ جب ان کے پاس کام ہوتا ہے، تو چیزیں تھوڑی بہتر نظر آتی ہیں اور وہ مہینہ میں ۹-۱۰ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

جسپال کو ملنے والے نقد انعام سے اکثر ان کے کچھ اخراجات پورے ہو جاتے ہیں، جیسے کھیل کے مقابلوں کی فیس، سفر کے اخراجات اور کالج کی فیس۔ وہ کھیل کے کپڑے پہن کر میدان میں ورزش کرنے کے لیے نکل رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب ہم مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں، تو ہمیں ٹی شرٹ دیا جاتا ہے، لیکن شارٹس، ٹریک سوٹ، پینٹ اور جوتوں کے لیے ہمیں اپنے ماں باپ سے پیسے مانگنے پڑتے ہیں۔‘‘

ہم اپنے آس پاس نوجوان ایتھلیٹوں کو دیکھتے ہیں، جن میں سے کچھ ورزش کر رہی ہیں، کچھ آہستہ آہستہ میدان کا چکر لگا رہی ہیں اور باقی اپنے کوچ راجندر سنگھ کے ارد گرد یومیہ پریکٹس کے لیے جمع ہوئی ہیں۔ سبھی الگ الگ گاؤوں سے آئی ہیں۔ جسپال گزشتہ سات برسوں سے ۴۰۰ میٹر، ۸۰۰ میٹر اور ۵ کلومیٹر کے دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں اور کئی انعام اور میڈل جیت چکی ہیں۔ جسپال اپنے گاؤں میں کئی لوگوں کے لیے حوصلے کا ذریعہ ہیں۔ ان کے تمغوں، سرٹیفکٹ اور نقد انعامات سے ترغیب حاصل کر کے غریب خاندانوں کے کئی لوگ اپنے بچوں کو ٹریننگ کے لیے بھیج رہے ہیں۔

حالانکہ، جہاں تک جسپال کا سوال ہے، تو انہوں نے اب تک جتنی بھی کامیابی حاصل کی ہے، وہ ان کی فیملی کی اقتصادی حالت میں تعاون کے لحاظ سے کافی نہیں ہے۔ فروری ۲۰۲۴ سے جسپال امرتسر کے پاس ایک گئوشالہ میں حساب کتاب رکھنے (منشی) کا کام کر رہی ہیں۔ انہیں ۸۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے اپنی فیملی کی آمدنی میں مدد کرنے کے لیے یہ نوکری کی تھی۔ لیکن اب مجھے پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا ہے۔‘‘

وہ جانتی ہیں کہ گھر کی ذمہ داریوں کے سبب نئی نوکری سے ملنے والی تنخواہ بھی سیمسٹر کی فیس بھرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

مارچ ۲۰۲۴ میں انہوں نے ایک بار پھر چنڈی گڑھ میں ۱۰ کلومیٹر کی دوڑ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس بار وہ تیسرے نمبر پر آئیں اور ۱۱ ہزار روپے کا نقد انعام جیتنے میں کامیاب رہیں، جو ابھی تک ان کے اکاؤنٹ میں جمع نہیں ہوا ہے۔

*****

جسپال یقینی طور پر اُن ۷۰ ایتھلیٹوں کے گروپ میں ’’اسٹار‘‘ ہیں، جنہیں راجندر سنگھ چھینا (۶۰) ہرشے چھینا گاؤں میں مفت ٹریننگ دے رہے ہیں۔ وہ خود ۱۵۰۰ میٹر کی دوڑ میں بین الاقوامی سطح کے ایتھلیٹ رہ چکے ہیں اور اب ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے حاشیہ پر زندگی گزارنے والی برادریوں کے لڑکے اور لڑکیوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

جسپال (بائیں) اور من پریت (دائیں) پنجاب کے امرتسر کے ہرشے چھینا گاؤں میں واقع ٹریننگ کے میدان میں ہیں

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

کوچ راجندر سنگھ چھینا اپنے ایتھلیٹوں (بائیں) کی ٹیم کے ساتھ۔ کوچ اپنی آیورویدک دواؤں کی دکان پر ہیں، جہاں وہ دن میں کچھ گھنٹوں کے لیے مریضوں کا علاج کرتے ہیں

راجندر سنگھ چھینا نے ایک بار چنڈی گڑھ میں ایک سینئر اہلکار کو پنجاب کے دیہی علاقوں میں نوجوانوں میں نشہ کے مسئلہ کی تنقید کرتے ہوئے سنا تھا۔ اس واقعہ نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ وہ ۲۰۰۳ سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹریننگ دینے لگے۔ امرتسر کے ہرشے چھینا گاؤں میں کامریڈ اچھر سنگھ چھینا سرکاری سینئر سیکنڈری اسمارٹ اسکول کے کھیل کے میدان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’میں شروع میں ان بچوں کو یہاں اس میدان میں لے کر آیا۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ بچے اسکولوں میں نہیں تھے۔ یہ مزدوروں اور حاشیہ پر پڑے لوگوں کے بچے تھے۔ میں نے ان کا نام اسکول میں لکھوایا اور انہیں ٹریننگ دینے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھنے لگا۔‘‘

راجندر کہتے ہیں، ’’سرکاری اسکولوں میں اب پس ماندہ ذات کے کئی بچے ہیں۔ وہ محنتی اور مضبوط ہیں۔ میں یہ سوچ کر ان کی ٹیم بنانے لگا کہ کم از کم انہیں ریاستی سطح تک تو پہنچنا چاہیے۔ میرے پاس گرودوارے میں خدمت کرنے کا وقت نہیں تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی کے پاس استعداد ہو، تو اسے بچوں کی پڑھائی میں مدد ضرور کرنا چاہیے۔‘‘

چھینا فخر سے بتاتے ہیں، ’’میرے پاس کم از کم ۷۰ ایتھلیٹ ہیں، جنہیں میں ٹریننگ دیتا ہوں۔ میرے کچھ ایتھلیٹوں نے کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اچھی نوکریاں کر رہے ہیں۔ کچھ پرو کبڈی لیگ میں کھیل رہے ہیں۔ ہمیں کسی سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ لوگ آتے ہیں، بچوں کو عزت دیتے ہیں، مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ ہم سے جتنا ہو پاتا ہے، ہم اُتنا کرتے ہیں۔‘‘

ان کے پاس بی اے ایم ایس کی ڈگری ہے اور وہ امرتسر کے پاس رام تیرتھ میں اپنا کلینک چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ہونے والی آمدنی ان کے گھر اور ٹریننگ سے متعلق اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ’’میں کھیل کے سامانوں پر ہر مہینے ۷ سے ۸ ہزار روپے خرچ کرتا ہوں – جیسے ہرڈلز (رکاوٹیں)، وزن کے سامان، میدان میں نشان لگانے کے لیے چونا وغیرہ۔‘‘ ان کے تین بچے ہیں، جو اب بڑے ہو چکے ہیں اور روزگار میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے بچے بھی وقتاً فوقتاً ان کی مدد کرتے ہیں۔

’’میں نہیں چاہتا کہ کوئی بچہ نشہ کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ میدان پر آئیں، تاکہ وہ کچھ بن سکیں۔‘‘

پنجاب کی نوجوان خواتین ایتھلیٹوں کے کوچ راجندر سنگھ اور ان کی ٹیم ٹریننگ سے متعلق اپنے سفر کے بارے میں بتا رہے ہیں

ویڈیو دیکھیں: ’پنجاب کے گاؤوں کی خواتین ایتھلیٹوں کی جدوجہد‘

*****

حالانکہ، جسپال کے لیے میدان تک آنا بڑی ہمت کی بات ہے، کیوں کہ ان کا گاؤں کوہالی وہاں سے ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ جسپال کا گھر گاؤں کے باہری علاقے میں ہے جو اینٹ سے بنا دو کمروں کا گھر ہے۔ جسپال اپنے گھر کے سامنے بیٹھی ہیں اور ہم سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے فاصلہ کے سبب مسئلہ ہوتا ہے۔ ہمارا گاؤں کھیل کے میدان سے بہت دور ہے۔ مجھے کھیل کے میدان تک پہنچنے میں ۴۵ منٹ لگتے ہیں۔ میں روزانہ صبح کو ساڑھے تین بجے اٹھتی ہوں۔ ساڑھے چار بجے تک میدان پہنچ جاتی ہوں۔ میرے ماں باپ مجھے محتاط رہنے کے لیے کہتے ہیں، مگر مجھے یہاں کبھی ڈر نہیں لگا۔ یہاں پاس ہی میں ایک اکھاڑہ ہے، جہاں لڑکے پہلوانی کی مشق کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے سڑک کافی خالی نہیں رہتی۔ ہم دو گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں اور پھر ساڑھے سات بجے تک گھر لوٹ آتے ہیں۔‘‘

دو سال پہلے، انہوں نے اپنے والد کی سیکنڈ ہینڈ بائک چلانا سیکھا تھا۔ تبھی سے وہ کبھی کبھی موٹر بائک لے کر ٹریننگ گراؤنڈ تک آتی ہیں، جس سے وہاں پہنچنے میں انہیں صرف ۱۰ منٹ لگتے ہیں۔ لیکن کئی بار، ان خوش قسمتی کے دنوں میں، جسپال کو ٹریننگ درمیان میں ہی چھوڑ کر گھر واپس لوٹنا پڑتا ہے، کیوں کہ گھر کے لوگوں کو بائک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے انہیں کچھ ٹریننگ سیشن چھوڑنے پڑے ہیں۔

کوچ کہتے ہیں، ’’ابھی بھی کچھ گاؤوں ایسے ہیں، جہاں سرکاری یا پرائیویٹ بس سروس نہیں پہنچ پائی ہے۔ نوجوان ایتھلیٹوں کو نہ صرف میدان تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، بلکہ ان میں سے کئی کو اس وجہ سے پڑھائی میں بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ آس پاس کوئی کالج نہ ہونا بھی اس بات کی ایک بڑی وجہ ہے کہ ان گاؤوں کی کئی لڑکیاں ۱۲ویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔ جسپال کے گاؤں سے سب سے نزدیک کا بس اسٹیشن ان کے گاؤں کے دوسرے سرے پر ہے۔ اور جس وقت انہیں میدان پر پہنچنا ہوتا ہے، اس وقت بس ملنا ایک الگ مسئلہ ہے۔

اسی گاؤں کی ایک اور ایتھلیٹ رمن دیپ کور بھی ٹریننگ میں حصہ لینے کے لیے روزانہ دس کلومیٹر پیدل چلتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کبھی کبھی میں پانچ کلومیٹر پیدل چلتی ہوں اور پھر کومل پریت کے ساتھ اسکوٹی پر بیٹھ کر میدان پہنچتی ہوں، جو چین پور گاؤں میں رہتی ہے۔ ٹریننگ کے بعد میں واپس پانچ کلومیٹر پیدل چلتی ہوں۔‘‘

رمن دیپ کہتی ہیں، ’’مجھے اکیلے ادھر ادھر جانے میں ڈر لگتا ہے، خاص کر اندھیرے میں، لیکن فیملی میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ روزانہ میرے ساتھ چل سکے۔‘‘ ٹریننگ اور پھر اس کے بعد روزانہ ۲۰ کلومیٹر پیدل چلنے سے ان کی صحت پر اثر پڑا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں ہمیشہ تھکی ہوئی رہتی ہوں۔‘‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: جسپال نے دو سال پہلے موٹر سائیکل چلانا سیکھا تھا اور کبھی کبھی انہیں ٹریننگ گراؤنڈ تک آنے کے لیے بائک چلانے کو مل جاتی ہے۔ دائیں: رمن دیپ کور (کالی ٹی شرٹ میں) گھر میں اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ ہیں، اور گزشتہ برسوں میں جیتی ہوئی ٹرافیاں نظر آ رہی ہیں

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

رمن دیپ نے اپنے انعام کی رقم کی مدد سے دوڑتے وقت پہننے والے جوتے خریدے تھے

اس کے علاوہ، ٹریننگ کے ساتھ ہی ان کا کام ختم نہیں ہوتا۔ رمن دیپ (۲۱) گھریلو کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی ہیں، فیملی کی ایک گائے اور ایک بھینس کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ گھر کے ٹھیک سامنے ۴-۳ فٹ چوڑی اینٹ کی سڑک کے اُس پار ایک چھوٹی سی جگہ ہے، جہاں یہ لوگ اپنے مویشی رکھتے ہیں۔

رمن دیپ کا تعلق بھی مذہبی سکھ برادری سے ہے۔ ان کی فیملی میں کل دس ارکان ہیں اور گھر چلانے کی ذمہ داری دو بھائیوں پر ہے، جو مزدوری کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’وہ دونوں زیادہ تر بڑھئی کا کام کرتے ہیں یا پھر جو کام انہیں ملتا ہے اسے کرتے ہیں۔ جب انہیں کام مل جاتا ہے، تو دونوں ہی روزانہ کم از کم ۳۵۰ روپے کما لیتے ہیں۔‘‘

سال ۲۰۲۲ میں انہیں ۱۲ویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑنی پڑی، کیوں کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ افسوس کے ساتھ بتاتی ہیں، ’’ہم پڑھائی کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے۔‘‘ ان کا گھر گاؤں کے دوسرے سرے پر ہے، جو دو کمرے کا ایک مکان ہے، جس کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ رمن دیپ کہتی ہیں، ’’میری ماں کو ۱۵۰۰ روپے بیوہ پنشن کے طور پر ملتے ہیں، جن سے وہ میرے کھیل کود کے کپڑے خریدتی ہیں۔‘‘

رمن دیپ کے جوتے گھس چکے ہیں، جن کا وہ ابھی بھی استعمال کر رہی ہیں۔ اپنے جوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ جوتے میں نے تب خریدے تھے، جب میں نے ایک دوڑ میں ۳۱۰۰ روپے کا نقد انعام جیتا تھا۔ یہ اب پھٹ گئے ہیں۔ میں پھر سے دوڑ جیتوں گی اور نئے جوتے خریدوں گی۔‘‘ رمن دیپ کے پاس جوتے ہوں یا نہ ہوں، لیکن وہ اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے دوڑ میں حصہ لیتی ہیں۔

رمن دیپ کہتی ہیں، ’’میں پولیس سروس میں ایک محفوظ نوکری حاصل کرنے کے لیے دوڑ رہی ہوں۔‘‘

اور یہی خواب چین پور گاؤں کی کومل پریت (۱۵)، کوہالی گاؤں کے گُر کرپال سنگھ (۱۵)، رانے والی گاؤں کی من پریت کور (۲۰) اور سینسرا کلاں گاؤں کی ممتا (۲۰) بھی دیکھ رہی ہیں۔ ان میں سے سبھی کوچ چھینا سے ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نوجوان ایتھلیٹ سماجی حالت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری کے ذریعے اپنی پوری فیملی کی مالی حفاظت بھی چاہتی ہیں۔ لیکن ان نوکریوں کے امتحان کو پاس کرنا ایک اور ریلے دوڑ ہے۔

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

میدان میں ٹریننگ سیشن کے دوران کومل پریت اور من پریت

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: نوجوان ایتھلیٹ گُر کرپال سنگھ اپنے جیتے ہوئے انعام دکھا رہے ہیں۔ دائیں: کوچ چھینا نوجوان ایتھلیٹوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں

کھلاڑیوں کے لیے مخصوص ۳ فیصد کوٹہ اسکیم کے تحت ریاستی اور قومی سطح پر چیمپئن شپ ٹرافی جیتنا لازمی ہے، جس کے لیے مختلف قسم کے وسائل تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں کڑی محنت کرتی ہیں اور پوری ریاست میں ہونے والے سبھی میراتھنوں میں ۵ کلومیٹر اور ۱۰ کلومیٹر کی دوڑ میں حصہ لیتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ جو انعام اور میڈل حاصل کریں گی اس سے انہیں پولیس فورس میں نوکری کے لیے جسمانی فٹنس ٹیسٹ کو پاس کرنے میں مدد ملے گی، جس کا وہ خواب دیکھ رہی ہیں۔

ان نوکریوں میں مذہبی سکھوں کو ریزرویشن بھی دیا جاتا ہے۔ سال ۲۰۲۴ کی ریاستی تقرری مہم میں پنجاب پولیس میں کانسٹیبلوں کے لیے ۱۷۴۶ عہدوں پر تقرری کا اشتہار آیا ہے، جس میں سے ۱۸۰ عہدے درج فہرست ذاتوں کے لیے محفوظ ہیں۔ اور ۱۸۰ میں سے ۷۲ سیٹیں اس برادری کی خواتین کے لیے ریزرو ہیں۔

سال ۲۰۲۲ کی انڈیا جسٹس رپورٹ ، جو پولیس، عدلیہ، جیل اور قانونی مدد جیسے انصاف فراہم کرنے والے بنیادی اداروں کو بہتر بنانے میں ہر ریاست کی پیش رفت کا جائزہ لیتی ہے، اس کی درجہ بندی سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۲ کے درمیان چوتھے سے بارہویں مقام پر آ گیا ہے، یعنی کہ اس دوران پنجاب میں انصاف کے نظام کی حالت میں گراوٹ آئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’خواہ ذات ہو یا صنف، ہر سطح پر شمولیت کی کمی ہے اور اصلاح کی رفتار کافی دھیمی ہے۔ بھلے ہی کئی دہائیوں سے ان ایشوز پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے، لیکن الگ الگ ریاستیں چاہے ایک یا دوسرے زمرہ میں مقررہ ریزرویشن کو پورا کرتی ہوں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ریاست ایسی نہیں ہے جو سبھی تین سطحوں پر ریزرو عہدوں کو پُر کر پائی ہوں۔ نہ ہی خواتین کہیں بھی برابری کے قریب ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ سے لے کر جنوری ۲۰۲۲ تک، پولیس میں خواتین ملازمین کی حصہ داری ۳ء۳ فیصد سے بڑھ کر ۸ء۱۱ فیصد ہونے میں پندرہ سال لگ گئے ہیں۔‘‘ سال ۲۰۲۲ میں پنجاب میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد محض ۹ء۹ فیصد ہے۔

جسپال اور رمن دیپ دونوں ہی پچھلے سال سے پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کے عہدہ کے لیے درخواست بھر رہی ہیں۔ سال ۲۰۲۳ میں وہ دونوں پنجابی میں تحریری امتحان میں شامل ہوئیں، لیکن کامیاب نہیں ہو پائیں۔ رمن دیپ کہتی ہیں، ’’میں گھر پر ہی تحریری امتحان کی تیاری کرتی ہوں۔‘‘

تقرری مہم کے لیے ۲۰۲۴ کے اشتہار میں تین مراحل والے انتخابی عمل میں پہلے مرحلہ کے طور پر کمپیوٹر پر مبنی امتحان کا ذکر کیا گیا ہے۔ درج فہرست ذات اور پس ماندہ طبقہ کے امیدواروں کو اس امتحان میں کم از کم ۳۵ فیصد نمبر حاصل کرنے ہوں گے، تبھی وہ دوسرے مرحلہ تک پہنچ پائیں گے، جہاں انہیں جسمانی جانچ کے امتحان اور جسمانی پیمائش کے امتحان سے گزرنا ہوگا۔ جسمانی امتحانوں میں دوڑ، لمبی چھلانگ، اونچی چھلانگ، وزن اور لمبائی شامل ہیں۔

PHOTO • Courtesy: NMIMS, Chandigarh
PHOTO • Courtesy: NMIMS, Chandigarh

این ایم آئی ایم ایس، چنڈی گڑھ کے ذریعے منعقد میراتھن میں رمن دیپ (بائیں) اور جسپال (دائیں)

رمن دیپ کی ماں اپنی بیٹی کی کارکردگی کے لیے فکرمند ہیں، کیوں کہ ان کے مطابق ان کی بیٹی کی خوراک ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ہندوستانی ایتھلیٹک فیڈریشن کے غذائیت سے متعلق رہنما خطوط کے بارے میں بہت کم جانتی ہیں، جو نوجوان ایتھلیٹوں کی غذائیت اور توانائی سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہیں سبزیاں، پھل، اناج، کم پروٹین والے گوشت، مچھلی، پھلیاں، اور دودھ، دہی وغیرہ جیسی خوراک لینے کی سفارش کرتے ہیں۔ وہ ان سب کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ گوشت مہینہ میں ایک بار آتا ہے۔ رمن دیپ کہتی ہیں، ’’ہمیں مناسب خوراک نہیں ملتی۔ بس روٹی یا جو بھی گھر میں پکا ہو بس وہی ملتا ہے۔‘‘ جسپال کہتی ہیں، ’’گھر میں جو بھی بنتا ہے، وہی کھاتے ہیں، اور ساتھ میں بھیگے چنے کھا لیتے ہیں۔‘‘

دونوں لڑکیوں کو اس سال اشتہار میں بتائے گئے کمپیوٹر پر مبنی امتحان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ جسپال اپنے پچھلے تجربہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’پچھلے سال پنجابی میں تحریری امتحان ہوا تھا، کمپیوٹر پر مبنی نہیں۔ ہمارے پاس کمپیوٹر نہیں ہے۔‘‘ پچھلے سال جسپال نے تحریری امتحان پاس کرنے کے لیے دو مہینے کی کوچنگ کی تھی، جس پر انہوں نے ۳۰۰۰ روپے خرچ کیے تھے۔

اس سال کے امتحان کے پروگرام کے مطابق، پہلے مرحلہ میں پنجابی زبان کے کوالیفائنگ پیپر کے علاوہ ایک اور پیپر دینا ہوگا۔ یہ دوسرا پیپر امیدواروں کی عام بیداری، ذہنی صلاحیت، لاجیک ریزننگ، انگریزی اور پنجابی زبان کی مہارت، ڈیجیٹل خواندگی اور بیداری کا امتحان لیا جائے گا۔

جسپال کہتی ہیں، ’’جسمانی امتحان تحریری امتحان پاس کرنے کے بعد ہوگا۔ لیکن جب آپ تحریری امتحان پاس ہی نہیں کر پاؤگے، تو جسمانی امتحان کی تیاری کرنے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟‘‘

رمن دیپ کہتی ہیں، ’’میرے پاس پچھلے سال کی کتابیں ہیں۔ اس سال بھی میں نے پولیس تقرری کے لیے فارم بھرا ہے۔‘‘ وہ امید اور فکرمندی کے لہجے میں کہتی ہیں، ’’دیکھتے ہیں۔‘‘

مترجم: قمر صدیقی

Arshdeep Arshi

ਅਰਸ਼ਦੀਪ, ਚੰਡੀਗੜ੍ਹ ਵਿੱਚ ਰਹਿੰਦਿਆਂ ਪਿਛਲੇ ਪੰਜ ਸਾਲਾਂ ਤੋਂ ਪੱਤਕਾਰੀ ਦੀ ਦੁਨੀਆ ਵਿੱਚ ਹਨ ਤੇ ਨਾਲ਼ੋਂ-ਨਾਲ਼ ਅਨੁਵਾਦ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਪੰਜਾਬੀ ਯੂਨੀਵਰਸਿਟੀ, ਪਟਿਆਲਾ ਤੋਂ ਅੰਗਰੇਜੀ ਸਾਹਿਤ (ਐੱਮ. ਫਿਲ) ਦੀ ਪੜ੍ਹਾਈ ਕੀਤੀ ਹੋਈ ਹੈ।

Other stories by Arshdeep Arshi
Editor : Pratishtha Pandya

ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਪਾਂਡਿਆ PARI ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਸੀਨੀਅਰ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਜਿੱਥੇ ਉਹ PARI ਦੇ ਰਚਨਾਤਮਕ ਲੇਖਣ ਭਾਗ ਦੀ ਅਗਵਾਈ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਉਹ ਪਾਰੀਭਾਸ਼ਾ ਟੀਮ ਦੀ ਮੈਂਬਰ ਵੀ ਹਨ ਅਤੇ ਗੁਜਰਾਤੀ ਵਿੱਚ ਕਹਾਣੀਆਂ ਦਾ ਅਨੁਵਾਦ ਅਤੇ ਸੰਪਾਦਨ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਦੀਆਂ ਕਵਿਤਾਵਾਂ ਗੁਜਰਾਤੀ ਅਤੇ ਅੰਗਰੇਜ਼ੀ ਵਿੱਚ ਪ੍ਰਕਾਸ਼ਿਤ ਹੋ ਚੁੱਕਿਆਂ ਹਨ।

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique