’’کسان تو میں ہوں، وہ کھیتی نہیں کرتے۔ انہیں تو صرف اپنے مویشیوں کی فکر رہتی ہے، انہیں یہ گائیں پسند ہیں (خواہ وہ کتنا ہی کم دودھ کیوں نہ دیں)۔ مرد گاؤں میں ادھر ادھر گھومتے ہیں، جب کہ عورتیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔‘‘ لیلا بائی، یوتمال کے سب سے مشہور کسان آشنّا ٹوٹواڑ کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ وہ یہاں کے ایک لیجنڈ ہیں، جنہوں نے یوتمال میں بڑے پیمانے پر فصلوں کے خراب ہونے کے سالوں میں بھی کپاس اور سویابین کی سب سے زیادہ پیداوار کا ریکارڈ بنایا تھا۔ آشنّا ایک شریف اور تجربہ کار آدمی ہیں، جنہوں نے ودربھ کے علاقے میں ۵۰ سالوں تک کھیتی کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے۔ وہ لیلا بائی کے شوہر ہیں۔ دونوں میاں بیوی مہاراشٹر کے یوتمال ضلع میں کپاس کے ایک بڑے بازار، پنڈرکوڑا شہر کے قریب پمپری گاؤں میں رہتے ہیں۔

لیلا بائی اپنے شوہر کی کافی عزت کرتی ہیں۔ وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہیں، لیکن اپنے تجربے سے انہوں نے کافی مہارت اور ٹریننگ حاصل کی ہے۔ کھیتی کے بارے میں وہ حقیقت بیان کر رہی ہیں۔ خاص کر اس سوال پر کہ اصل میں کھیتی کون کرتا ہے۔ ’’بائی (عورتیں)،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اور وہ اسے بہتر طریقے سے کرتی ہیں۔‘‘

کسان کے طور پر کئی دہائیوں سے ایک بڑے رقبہ پر کامیابی سے کھیتی کرنے کی وجہ سے وہ اس کے بارے میں گہرا علم رکھتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کھیتی باڑی اور خرچ اخراجات سے متعلق زیادہ تر فیصلے وہی کرتی تھیں۔

لیلا بائی سے ہماری ملاقات للتا آنند راؤ گندھیواڑ کے گھر پر ہوئی۔ للتا کے شوہر، نام دیو نے اسی سال ۲۰ مئی کو خودکشی کر لی تھی، جو کہ مہاراشٹر میں کسانوں کی خوفناک خودکشی کے واقعات میں ایک اور اضافہ ہے (نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق، پچھلے سال یہ تعداد ۳۷۸۶ تھی)۔ گندھیواڑ کے گھر پر اس وقت آشنّا بھی موجود تھے۔

للتا سے نام دیو کی خودکشی کی وجہ پوچھنے کے بعد، ہم نے لیجنڈری کسان آشنّا سے بات کی۔ لیلا بائی اُس اندھیرے گھر میں بغل کے ایک کمرے میں فرش پر بیٹھی ہوئی تھیں، اس لیے ہم انہیں ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ لیکن اپنی اونچی آواز سے انہوں نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیا اور کھل کر سب کچھ بتانے لگیں۔

کھیت میں

’’ہمیں ایک بار پھر مزید حساس طریقے سے کھیتی کرنی چاہیے۔ فصل کی لاگت بڑھنے اور پیداوار کی مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے ہمارا جینا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘

بعد میں، لیلا بائی نے اپنے گھر میں خود اپنی کہانی سنائی۔

’’ہم نے جب کھیتی شروع کی تھی، تب ۱۰ ہزار روپے میں ۴۰ ایکڑ زمین آسانی سے مل جاتی تھی۔ لیکن آج، آپ ۴۰ ہزار روپے میں ایک ایکڑ بھی نہیں خرید سکتے۔

’’آج کل ہم کھیتی میں جو کچھ استعمال کر رہے ہیں، اس سے مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، گھاس پھوس کو ختم کرنے والی دوا استعمال کرنے سے گھاس ختم نہیں ہو رہی ہے، بلکہ اس سے پودوں اور مٹی کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سے اور دیگر کیمیکلز سے مٹی کی زرخیزی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم مٹی کی جان لے رہے ہیں۔

’’دس سال پہلے، ہم حشرہ کش کا استعمال کم کرتے تھے۔ اب، جب کہ پیداوار بڑھنے لگی ہے، منافع اتنا ہی کم ہو گیا ہے۔

’’ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسے یا تو ہمیں چھوڑنا پڑے گا، ورنہ ہم زراعت کو پوری طرح تباہ کر دیں گے۔‘‘

PHOTO • P. Sainath

سال ۱۹۶۵ میں جب ان کی شادی ہوئی، تب وہ ابھی بچے ہی تھے۔ آشنّا ایک یتیم تھے، جن کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں تھا، لیکن لیلا بائی کی فیملی کا رشتہ دار ہونے کے ناطے دادا دادی نے انہیں لیلا بائی کے شوہر کے طور پر منتخب کر لیا۔ شادی سے پہلے، لیلا بائی نے چوتھی کلاس میں ہی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ آج، وہ ۶۳ سال کی ہیں اور آشنا ۶۷ سال کے، ایسا لیلا بائی کا ماننا ہے، حالانکہ دونوں کی عمر اس سے کہیں زیادہ لگتی ہے۔ لیکن کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ اُن دنوں کچھ ہی لوگ اس کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ دونوں میں سے کسی کے بھی نام ایک انچ زمین تک نہیں تھی۔ لیکن شادی کے بعد لیلا بائی نے اپنی محنت سے سب کچھ بدل دیا۔ انہوں نے کھیتوں میں مزدوری کرکے پیسہ کمایا اور اعلیٰ درجے کی زمین بھی خریدی۔

کام زیادہ، نام کچھ نہیں

ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کو ہمیشہ کسان اور ’’گھر کا مالک‘‘ سمجھا جاتا ہو، ظاہر ہے اس کا سارا کریڈٹ آشنّا کو ہی ملنا تھا (اور اب بھی ملتا ہے)۔ ہندوستان کے زیادہ تر علاقوں میں کھیتی کرنے والی عورتوں کی طرح، لیلا بائی کو بھی کسان نہیں، بلکہ ’’کسان کی بیوی‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں کی عورتیں بھی کھیتی کا زیادہ تر کام کرتی ہیں، لیکن ان کا کہیں بھی نام نہیں لیا جاتا۔ ودربھ کے ان علاقوں میں آشنّا کو زراعت میں کامیابی کی ایک عمدہ مثال تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن، اس کامیابی کے پیچھے اصل ہاتھ لیلا بائی کا ہے۔ اپنی اس تعریف کو وہ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن لیلا بائی کو کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔

’’میں ہمیشہ سے کسان تھی۔ آشنّا ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتے تھے اور لمبے عرصے تک ہر مہینے ۷۰ روپے کماتے تھے۔‘‘ (آشنّا بھی یہ مانتے ہیں کہ انہوں نے تقریباً ۱۵ سال پہلے وہ نوکری چھوڑی تھی۔ تب تک ان کی بیوی ایک لہلہاتا کھیت تیار کر چکی تھیں۔)

’’سب سے پہلے، میں نے مختلف قسم کے کام سے جو پیسے بچائے تھے، اس سے چار ایکڑ زمین خریدی۔ تب ہر ایکڑ زمین کی قیمت ۱۰۰۰ روپے تھی۔ یہ ۱۹۶۹ کی بات ہے۔‘‘

اور وہ کوئی معمولی زمین نہیں تھی، بلکہ انہوں نے کپاس کی کالی مٹی والی شاندار زمین خریدی تھی۔

’’اب اس چار ایکڑ زمین کی قیمت ۵۰ لاکھ روپے ہے۔ (یہ زمین شاہراہ کے کنارے ہے، جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔) پھر ۱۹۷۱ میں، میں نے ۹۰۰۰ روپے میں ۲۰ ایکڑ زمین خریدی۔‘‘

یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ سال ۱۹۷۳ میں انہوں نے ۲۵ ہزار روپے میں ۱۵ ایکڑ اور ۱۹۸۵ میں ۳۵ ہزار روپے میں مزید چار ایکڑ زمین خریدی۔ اور آخر میں، ۱۹۹۱ میں انہوں نے ۷۰ ہزار روپے میں ۱۰ ایکڑ زمین اور خریدی۔

’’اس دوران میں نے کچھ ایکڑ بیچے بھی۔ آج ہمارے پاس ۴۰ ایکڑ زمین ہے۔‘‘

’’ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ سب ہمارے اپنے ہی کھیتوں سے آتا ہے۔ میں ایک ایکڑ میں دھان، دو ایکڑ میں گیہوں، اور ۱۰ ایکڑ میں جوار اُگاتی ہوں۔ (۱۰ ایکڑ میں جوار اُگانا یہاں کوئی عام بات نہیں ہے۔) بقیہ زمین کو کپاس اور سویابین کے لیے برابر برابر تقسیم کر دیا گیا ہے۔‘‘ کھیت پر کہاں اور کب، کیا اُگانا ہے اس کا فیصلہ لیلا بائی ہی کرتی ہیں۔ اور وہ اکثر اپنے کھیت پر ہی رہتی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ کام کرتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کپاس اور سویابین، دونوں کے معاملے میں ہر ایکڑ سے ۱۰ کوئنٹل فصل باقاعدگی سے حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ، اس خطہ میں ان فصلوں کی اوسط پیداوار کافی کم ہے۔

انہوں نے ایک خوبصورت گھر بنایا ہے – اور اس کے چاروں طرف بڑے احتیاط سے فصلوں کو ذخیرہ کرنے کی اچھی خاصی جگہ بھی تعمیر کی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ دوسرے کسانوں کے مقابلے اپنی کپاس کو زیادہ دنوں تک حفاظت کے ساتھ رکھ پاتی ہیں، اور تاجروں سے بہتر قیمت حاصل کرتی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر کسانوں نے ۲۰۱۲ کے آخر میں اپنی کپاس ۳۸۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے بیچی تھی، جب کہ لیلا بائی کی فیملی اُس سال فروری تک کپاس کو اپنے پاس محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی۔ آخر میں انہوں نے اپنی کپاس ۴۲۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے بیچی۔

’’ہمارے پاس ۱۴ مویشی بھی ہیں۔ ان میں چھ بیل، پانچ گائے اور تین بچھڑے ہیں۔

’’وہی ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں،‘‘ وہ اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہیں۔ ’’وہ ان سے بہت پیار کرتے ہیں (حالانکہ ان مویشیوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے)۔ ہمیں کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑتا ہے کیوں کہ ہم صرف یہی دودھ پیتے ہیں اور اپنی زمین پر اگائے گئے اناج و سبزیاں کھاتے ہیں۔‘‘

لیکن جہاں تک زراعت کی بات ہے: ’’کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے۔ آج کل جس طرح سے کھیتی کی جا رہی ہے، ویسے آگے جاری نہیں رہ سکتی۔ فصلوں کی اتنی لاگت کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمیں سستا اِن پٹ چاہیے۔ اور ہمیں کپاس اور سویابین کی اچھی قیمت ملنی چاہیے۔ اگر کچھ نہیں کیا گیا، تو ہم تمام لوگ نام دیو گندھیواڑ کی ہی صف میں کھڑے ہوئے ملیں گے (یعنی ہمیں بھی خودکشی کے لیے مجبور ہونا پڑے گا)۔‘‘

یہ مضمون سب سے پہلے دا ہندو میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique