بجٹ پر میرے ذریعہ بار بار پوچھے گئے سوالوں کو خارج کرتے ہوئے بابا صاحب پوار کہتے ہیں، ’’ہمیں یہ سب نہیں معلوم۔‘‘

ان کی بیوی مندا سوال کرتی ہیں، ’’سرکار نے کبھی ہم سے پوچھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ بغیر جانے وہ ہمارے لیے فیصلے کیسے لے سکتے ہیں؟ ہم مہینہ کے تیسوں دن کام چاہتے ہیں۔‘‘

پونہ ضلع کے شیرور تعلقہ کے کرولی گاؤں کے کنارے ٹین کا بنا ان کا ایک کمرے کا گھر آج صبح سرگرمیوں سے کچھ زیادہ ہی بھرا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ’’ہم ۲۰۰۴ میں جالنہ سے یہاں آئے تھے۔ ہمارا اپنا گاؤں کبھی نہیں رہا۔ ہمارے لوگ ہمیشہ گاؤوں کے باہر رہا کرتے تھے، کیوں کہ ہم مہاجرت کرتے رہتے ہیں،‘‘ بابا صاحب بتاتے ہیں۔

حالانکہ، وہ یہ بات نہیں بتاتے کہ انگریزوں کے زمانے میں ’جرائم پیشہ‘ قرار دیے گئے بھیل پاردھی قبیلہ کو اس بدنامی سے آزاد ہونے کے ۷۰ سال بعد بھی سماجی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں تمام چیزوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ مہاراشٹر میں درج فہرست قبائل کے زمرہ میں شامل ہونے کے بعد بھی انہیں اکثر جبرواستحصال کی وجہ سے مہاجرت کرنی پڑتی ہے۔

ظاہر ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کو بجٹ پیش ہونے کے دوران اپنی تقریر میں مہاجرت کے سوال پر بولتے نہیں سنا ہے۔ اگر انہوں نے سنا ہوتا، تو بھی برادری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ’’ہمارا مقصد دیہی علاقوں میں مناسب مواقع دستیاب کرانا ہے، تاکہ مہاجرت متبادل ہو، ضرورت نہیں،‘‘ نرملا سیتا رمن نے ۲۶-۲۰۲۵ کی اپنی بجٹ کی تقریر میں کہا۔

PHOTO • Jyoti

اس چار رکنی بھیل پاردھی فیملی – بابا صاحب، ۵۷ (سب سے بائیں)، مندا، ۵۵ (لال اور نیلے کپڑوں میں)، بیٹا آکاش (۲۳) اور بہو سواتی (۲۲) – کو مہینہ میں ۱۵ دن سے زیادہ کام نہیں مل پاتا ہے۔ انہیں ہمیشہ جبرواستحصال کی وجہ سے مہاجرت کرنی پڑی ہے، نہ کہ اپنی مرضی سے

جن عمارتوں میں پالیسیاں بنائی جاتی ہیں وہاں سے تقریباً ۱۴۰۰ کلومیٹر دور رہنے والے بھیل پاردھی بابا صاحب اور ان کی فیملی کے پاس زندگی میں صرف دو چار ہی متبادل موجود رہے ہیں اور موقع اس سے بھی کم۔ وہ ہندوستان کی ۴ء۱۴ کروڑ بے زمین آبادی کا حصہ ہیں، جن کے لیے کام تلاش کر پانا بڑا چیلنج رہا ہے۔

باب صاحب کے بیٹے آکاش کہتے ہیں، ’’مہینہ میں زیادہ سے زیادہ ۱۵ دن کام ملتا ہے۔ باقی دن ہم بیکار پڑے رہتے ہیں۔‘‘ لیکن آج ایسا نہیں ہے، اور فیملی کے چاروں ممبران – آکاش (۲۳)، ان کی بیوی سواتی (۲۲)، مندا (۵۵)، اور بابا صاحب (۵۷) – کو قریب کے ایک گاؤں میں پیاز کے کھیتوں میں کام ملا ہوا ہے۔

اس بستی کے ۵۰ آدیواسی خاندان بجلی، پینے کے پانی اور بیت الخلاء کے بغیر ہی گزارہ کر رہے ہیں۔ ’’ہم حوائج ضروریہ کے لیے جنگل جاتے ہیں۔ کوئی آرام نہیں ملتا، نہ کوئی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ پاس کے گاؤں کے باغایت دار [باغبانی فصلوں کی کھیتی کرنے والے کسان] ہماری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے،‘‘ سواتی سب کے لیے کھانا پیک کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

بابا صاحب بتاتے ہیں، ’’ہمیں دن بھر پیاز اکھاڑنے کے بعد ۳۰۰ روپے ملتے ہیں۔ گزر بسر کے لیے ہر دن ضروری ہوتا ہے۔‘‘ ان کی فیملی پورے سال میں مل جل کر بمشکل ایک لاکھ ۶۰ ہزار روپے کماتی ہے، جو اس بات پر منحصر ہے کہ انہیں کتنے دن کام مل سکا۔ اس لحاظ سے ۱۲ لاکھ کی کمائی پر ٹیکس کی رعایت ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ’’کبھی ہم چھ کلومیٹر پیدل چلتے ہیں، کبھی اس سے بھی زیادہ۔ جہاں بھی کام ملتا ہے، ہم وہاں جاتے ہیں،‘‘ آکاش کہتے ہیں۔

ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز

ਜਯੋਤੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਸੀਨੀਅਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ; ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਪਹਿਲਾਂ 'Mi Marathi' ਅਤੇ 'Maharashtra1' ਜਿਹੇ ਨਿਊਜ ਚੈਨਲਾਂ ਵਿੱਚ ਵੀ ਕੰਮ ਕੀਤਾ ਹੋਇਆ ਹੈ।

Other stories by Jyoti
Editor : Pratishtha Pandya

ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਪਾਂਡਿਆ PARI ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਸੀਨੀਅਰ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਜਿੱਥੇ ਉਹ PARI ਦੇ ਰਚਨਾਤਮਕ ਲੇਖਣ ਭਾਗ ਦੀ ਅਗਵਾਈ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਉਹ ਪਾਰੀਭਾਸ਼ਾ ਟੀਮ ਦੀ ਮੈਂਬਰ ਵੀ ਹਨ ਅਤੇ ਗੁਜਰਾਤੀ ਵਿੱਚ ਕਹਾਣੀਆਂ ਦਾ ਅਨੁਵਾਦ ਅਤੇ ਸੰਪਾਦਨ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਦੀਆਂ ਕਵਿਤਾਵਾਂ ਗੁਜਰਾਤੀ ਅਤੇ ਅੰਗਰੇਜ਼ੀ ਵਿੱਚ ਪ੍ਰਕਾਸ਼ਿਤ ਹੋ ਚੁੱਕਿਆਂ ਹਨ।

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique