ایک معمولی سی غلطی ہوگی، اور آپ ستّور کی جگہ کوئتا بنا دیں گے!‘‘ راجیش چافیکر کو ایک قصائی کے چاقو اور درانتی کے درمیان کا فرق واضح طور پر معلوم ہے۔ وہ ایک ماہر لوہار ہیں اور مہاراشٹر میں آکٹن گاؤں کی اپنی ورکشاپ میں اب تک ۱۰ ہزار سے بھی زیادہ لوہے کے ساز و سامان بنا چکے ہیں۔
راجیش (۵۲) نے یہ کام اپنے والد دتّاتریہ چافیکر سے سیکھا ہے۔ ان کا تعلق پانچال لوہاروں کی ایک لمبی خاندانی روایت سے ہے، جن پر زرعی برادری سے تعلق رکھنے والے ان کے گاہک پورا اعتماد کرتے ہیں۔ وسئی تعلقہ میں لوہاروں کی ساتویں نسل سے تعلق رکھنے والے راجیش کہتے ہیں، ’’لوگ کہتے تھے کہ ’آکٹن سے ہی اوزار لے کر آؤ‘۔‘‘ وہ ۲۵ سے بھی زیادہ قسم کے الگ الگ زرعی اوزار اور آلات بنا سکتے ہیں۔
ان کے صارفین بڑی تعداد میں تاسنی کا آرڈر دینے نوی ممبئی کے اُرَن جیسے دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں، جو تقریباً ۹۰ کلومیٹر دور ہے۔ تاسنی کشتی بنانے میں کام آنے والا ایک اہم اوزار ہے۔ ’’ گرہائیک ہمارے گھر میں چار دنوں تک ٹھہرتے تھے اور ہمیں اوزار بناتے ہوئے دیکھتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
آکٹن گاؤں کے تنگ راستے روایتی طور پر ذات پر مبنی پیشوں کے نام پر پہچانے جاتے ہیں: مثلاً سونار، لوہار، سُتار (بڑھئی)، چمبھار (موچی) اور کمبھار۔ گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ سب شروع سے ہی وشوکرما کے معتقد رہے ہیں۔ پانچال لوہار ۲۰۰۸ سے خانہ بدوش قبائل کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس سے پہلے وہ او بی سی (دیگر پس ماندہ طبقہ) کے طور پر درج تھے۔
راجیش بتاتے ہیں کہ ۱۹ سال کی عمر تک ان کا ارادہ لوہاری کے اپنے خاندانی پیشہ کو آگے بڑھانے کا قطعی نہیں تھا۔ وہ پہلے سے ہی ایک الیکٹرانکس کی دکان میں بطور اسٹور کیپر کام کر رہے تھے، جہاں سے انہیں ہر مہینے ۱۲۰۰ روپے مل جاتے تھے۔ ان کے بڑے مشترکہ خاندان میں ہوئی تقسیم کے سبب ان کے والد کو کام ملنا بند ہو گیا اور بے بس ہو کر خاندان کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے انہیں اپنے اس خاندانی پیشہ میں داخل ہونا پڑا۔
تقریباً تیس سال بعد اب وہ خود ایک ماہر لوہار ہیں۔ ان کے کام کی شروعات صبح ۷ بجے ہو جاتی ہے اور اگلے ۱۲ گھنٹے تک وہ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ درمیان میں وہ چائے پانی کے لیے تھوڑا وقت نکال لیتے ہیں۔ ایک دن میں وہ تین اوزاروں کی ڈھلائی کر لیتے ہیں۔ ان کے گاہکوں میں بینا پٹّی کے آدیواسی بھی شامل ہیں، جو وسئی میں بھوئی گاؤں کے قریب، اور ممبئی کے گورائی گاؤں میں رہتے ہیں۔
سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اوزاروں میں کوئتا (چھوٹی درانتی)، مورلی (سبزی اور گوشت کاٹنے والی چھری)، اوت (ہل کا دھاردار لوہے والا حصہ)، تاسنی (ادزے)، کاتی (مچھلی کاٹنے والا چاقو)، چمٹی اور ستّور (قصائی کا چاقو) اہم ہیں۔
راجیش آرڈر ملنے پر گاہک کی پسند کے اوزار بھی بناتے ہیں کیوں کہ ’’ہر گاؤں کے لوگوں کا ضرورت کے حساب سے اپنا اپنا ڈیزائن ہوتا ہے۔ تاڑی نکالنے والوں کو اپنا کوئتا (چھوٹی درانتی) پکڑنے کے لیے بڑی مونٹھ کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ وہ آرام سے درخت پر چڑھ سکیں۔‘‘ کیلے اور ناریل کے کاشتکار سال بھر اپنے اوزاروں کی دھار تیز کرانے اور مرمت کرانے کے لیے ان کے پاس بھیجتے رہتے ہیں۔
’’بدلے میں ہمیں تحفے بھی ملتے رہتے ہیں،‘‘ وہ ایک مقامی کسان کے ذریعہ بھیجے گئے تازہ ناریل کو دکھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہ تحفے ان کے کاموں کی تعریف کی علامت ہیں۔ ’’جب میں کسی کاتی کی مرمت کرتا ہوں، تو کولی بھائی کئی بار ہمیں تازہ مچھلیاں دے دیتے ہیں،‘‘ راجیش کہتے ہیں۔
انہیں پونے کے واگھولی جیسے دور دراز کے علاقوں سے بھی کئی آرڈر ملتے ہیں، کیوں کہ وہاں بہت کم لوہار ہیں۔ ’’تیانچے ستّور استات، بکرے کاپائلا [وہاں سے زیادہ تر قصائیوں کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے چاقو بنانے کے آرڈر ملتے ہیں]۔‘‘
نئے ڈیزائنوں کو آزمانے والے راجیش نے خاص قسم کی درانتی بنائی ہے، جس سے خشک اور سخت ناریل کو کاٹنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ’’میں نئی نئی چیزیں بناتا رہتا ہوں، لیکن میں آپ کو نہیں دکھاؤں گا۔ ان پر میرا پیٹنٹ ہے!‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، اور ہمیں کوئی تصویر کھینچنے کی بھی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اوزاروں میں ایک مورلی بھی ہے، جو سبزی کاٹنے کے لیے کارگر چاقو ہوتا ہے اور اسے باورچی خانہ کے چبوترے پر فکس کیا جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال، خاص کر زیادہ عمر کی عورتیں کرتی ہیں، جنہیں فرش پر بیٹھ کر نسبتاً بڑے اوزاروں سے سبزی کاٹنے میں دقت پیش آتی ہے۔
مانسون کے دوران جب کسان روزگار کی تلاش میں یومیہ اجرت پر کام کرنے شہر چلے جاتے ہیں، تب اوزاروں کی فروخت میں کمی آ جاتی ہے۔ ’’کسی دن میں دن میں ۱۰۰ روپے کماتا ہوں اور کسی دن صرف ۱۰ روپے۔ کسی کسی دن تو میں ۳۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے تک کما لیتا ہوں، لیکن اگلے دن پھر ایک پیسے کی بھی کمائی نہیں ہوتی۔ کچھ متعین نہیں ہوتا،‘‘ اپنی آمدنی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں۔ ’’گرہائیک آنی مرن کدھی یے ایل کائے سانگتا ییت کا؟ [کیا آپ کبھی بتا سکتے ہیں کہ گاہک یا موت آپ کا دروازہ کب کھٹکھٹائے گی؟ٗ]‘‘
*****
ہر صبح، یہاں تک کہ اتوار کے دن بھی راجیش اپنی بھٹی میں آگ جلا لیتے ہیں۔
پاری سے ملاقات کے دوران، وہ ہمیں بھٹی کے گرم ہونے کا انتظار کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ایک مقامی آدمی آلو لے کر ان کے پاس آتا ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوتی۔ راجیش آلو لے کر اسے بھٹی کے ایک کونے میں دبا دیتے ہیں۔ ’’اسے کوئلے میں سینکے ہوئے آلو بہت پسند ہیں۔ اب وہ ایک گھنٹہ بعد اسے لے جائے گا،‘‘ وہ ہم سے کہتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ہی پہلا گاہک آتا ہے اور انہیں دھار تیز کرنے کے لیے چار درانتیاں دیتا ہے۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں، ’’کیا اسے جلدی کر کے دینا ہے؟‘‘ گاہک ان سے کہتا ہے کہ درانتیوں کو فوراً دینا ضروری نہیں ہے اور وہ انہیں کچھ دنوں بعد آ کر لے جائے گا۔
’’کیا کروں، مجھے یہ سوال پوچھنا پڑتا ہے۔ میرے ساتھ کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے،‘‘ راجیش کہتے ہیں۔
جیسے جیسے اُس دن کا کام آتا رہتا ہے، ویسے ویسے وہ آرڈر کے مطابق ضروری کچے سامانوں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ پہلے سے انتظام کرنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ بھٹی گرم ہونے سے پہلے سبھی چیزیں ان کی دسترس میں رہیں۔ وہ بھٹی کے قریب ایک ٹوکری میں چھ سے آٹھ کلو کوئلہ رکھتے ہیں اور اپنے ننگے ہاتھوں سے پتھر کے ٹکڑوں کو چننے لگتے ہیں۔ ’’چھوٹے پتھر کوئلہ کو سُلگانے کی رفتار کو دھیما کر دیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، اس لیے انہیں بھٹی کو سُلگانے سے پہلے نکالنا پڑتا ہے۔
یہ ماہر لوہار اس کے بعد تیزی سے کوئلے پر لکڑی کے کچھ چھلکے ڈالتا ہے، تاکہ بھٹی کی آگ مدھم نہ ہو۔ ایک بھاتا جسے پہلے دھمنی بھی کہا جاتا تھا، بھٹی کی آگ کو جلائے رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ بھٹی کو گرم رکھنے کے لیے اضافی ہوا مہیا کرانے میں اس کی سمت کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
پہلے بھٹی میں پانچ سات منٹ تک کچی دھات کو گرم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گرم چمکتی ہوئی دھات کو ایرن (نہائی) پر رکھا جاتا ہے، جو لوہے کا ایک بڑا بلاک ہوتا ہے۔ پھر وہ دھات کو اوپر اور نیچے سے پکڑتے ہوئے گھن (ہتھوڑے) سے لگاتار پیٹتے ہیں، ’’دھات کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے یہ کام لگاتار کیا جاتا ہے، ورنہ اس کی شکل بگڑنے کا خدشہ رہتا ہے۔‘‘
راجیش ایک چھوٹی ہتھوڑی کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ ان کا بیٹا اوم ایک بڑے ہتھوڑے کا استعمال کرتا ہے۔ دونوں تقریباً ایک گھنٹہ تک ساتھ مل کر دھات کو گرم کرنے اور اسے پیٹنے کا محنت طلب کام کرتے ہیں۔ تب کہیں ان کو اپنی من چاہی شکل میں اوزار بنانے میں کامیابی ملتی ہے۔ ایک بار جب اوزار کی شکل تیار ہو جاتی ہے، تب اس پر ماندل (اسٹیل کا ایک گول دائرہ) کے سہارے لکڑی کی مونٹھ اور دھات سے بنے اوزار کو ایک دوسرے سے باندھ دیا جاتا ہے۔
راجیش ۸۰ سال پرانے گرائنڈ اسٹون (پیسنے والا پتھر) کا استعمال کر کے اوزار کی دھار کو تیز کرتے ہیں۔ اس کے بعد، راجیش موگری کی مدد سے اوزاروں کو آخری شکل دیتے ہیں۔ یہ ایک ریتی جیسا اوزار ہے، جسے انہیں ان کے والد نے دیا تھا۔
ان کی ورکشاپ میں تقریباً ہمیشہ دھواں بھرا رہتا ہے، لیکن انہیں گویا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ’’مجھے گرمی پسند ہے۔ مجّا آتا ہے میرے کو [مجھے مزہ آتا ہے]۔‘‘ چونکہ بھٹی کے پاس بیٹھنا ناقابل برداشت ہے، اس لیے وہ وقفہ وقفہ سے اپنے پیروں پر پانی چھڑکتے رہتے ہیں۔ اس سے انہیں تھوڑی راحت ملتی ہے۔
ایک مقامی یو ٹیوبر کے ذریعہ بنائی گئی ان کی ایک ویڈیو کے وائرل ہو جانے کے بعد سے انہیں بیرونی ممالک میں آباد ہندوستانیوں کے آرڈر ملنے لگے۔ لیکن وہ اوزاروں کو اس لیے بھیج نہیں سکے، کیوں کہ وہ ہتھیار کے زمرے میں آتے تھے۔ اب آسٹریلیا سے آئے گاہک خود ان کی ورکشاپ میں آتے ہیں اور ان سے قصائیوں کے چاقو لے جاتے ہیں۔
راجیش کے پاس خود اپنے گاہک ہیں، لیکن ان کے لیے ہر ایک کا آرڈر پورا کرنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ ان کے پاس کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ’’میں اپنے گاہکوں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کل آئیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
ان کی برادری کے بہت سے لوگ روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں اب تھانے اور ممبئی کے قریب آباد ہو گئے ہیں۔ ریلوے میں کام پانے یا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے سے انہیں بہتر آمدنی کے مواقع ملتے ہیں: ’’اب ہم کیا کریں جب کھیت ہی نہیں بچے۔‘‘ راجیش تیس سال پرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں، جب ان کی گلی میں لوہاروں کے ۱۰ سے ۱۲ کارخانے ہوا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ آتا دونچ راہیلے [اب صرف دو خاندان رہ گئے ہیں!]‘‘ راجیش کے علاوہ ان کے چچیرے بھائی ان کی برادری میں کام کرنے والے واحد لوہار ہیں۔
ان کی بیوی سونالی ایک ٹیچر ہیں، اور ان کو اس بات پر بہت فخر ہے کہ ان کے شوہر نے لوہاری کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ ’’آج ہر آدمی کو آرام سے کمایا ہوا پیسہ چاہیے۔ بھٹی کے پاس بیٹھ کر گھن کون پیٹنا چاہے گا؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔
ان کا بیس سال کا بیٹا اوم، انجینئرنگ کی پڑھائی کر رہا ہے۔ ’’میں ہمیشہ اس سے اختتام ہفتہ پر میری مدد کرنے کے لیے کہتا ہوں۔ یہ ہمارا کام ہے؛ یہ کل ختم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ راجیش یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے نہیں رہنے کے بعد بھی ان کا بیٹا ان کے اوزاروں کو سنبھال کر رکھے۔ ’’میرے پاس بھی میرے والد اور دادا کے اوزار محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ آپ پیٹنے کے طریقہ سے یہ پہچان سکتے ہیں کہ اوزار کس نے بنائے ہیں۔ ہر لوہار کا ہتھوڑا پیٹنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔‘‘
بھٹی کو جلائے رکھنے کے لیے کوئلہ خریدنا بہت خرچیلا ہو گیا ہے۔ کول انڈیا لمیٹڈ (سی آئی ایل) نے ۲۰۲۳ میں ہائی گریڈ کوئلے کی قیمت ۸ فیصد بڑھا دی ہے۔ ’’۳۲ سال پہلے جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا، تب یہ تقریباً ۳ روپے کلو تھا۔ آج اس کی قیمت بڑھ کر ۵۷ روپے فی کلو ہو گئی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
روزانہ استعمال ہونے والے کوئلے کی قیمت نکالنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وہ ایک درانتی ۷۵۰ روپے میں بیچتے ہیں۔ ایک درانتی بنانے میں انہیں تقریباً چھ کلو کوئلہ لگتا ہے اور دو سے تین کلو کچی دھات لگتی ہے، جس کی قیمت ۱۴۰-۱۲۰ روپے پڑتی ہے۔ لکڑی کی مونٹھ تھوک قیمت میں خریدنے پر ۱۵ روپے کی آتی ہے، ورنہ اس کی خوردہ قیمت ۶۰ روپے ہے۔
’’آپ خود حساب لگا کر دیکھ لیجئے کہ مجھے کیا بچتا ہوگا؟‘‘
کوئلے کی بڑھتی قیمتوں کے علاوہ، اس معاش سے جڑی دیگر برادریوں کا کم ہونا بھی ایک مسئلہ رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں بڑھئی اور لوہار لاگت کم رکھنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ ’’ہم کھیر کی لکڑی استعمال کرتے تھے، جو آج کے ببول سے بھی زیادہ مہنگی ہوتی تھی۔ بڑھئی جب جنگل جاتے تھے، تو ہمارے لیے لے کر آتے تھے۔ بدلے میں ہم ان کی بیل گاڑی کے پہیوں میں مضبوطی کے لیے دھات کے گول چکّے لگانے میں مدد کرتے تھے۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کے کام آ جاتے تھے۔‘‘
آگ اور دھات والے کام کرنے کے اپنے خطرے ہیں اور اکثر چوٹ لگتی رہتی ہے۔ بازار میں حفاظتی آلات فروخت ہوتے ہیں، لیکن راجیش بتاتے ہیں کہ گرم بھٹی کے سامنے انہیں پہن کر کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ان کی بیوی سونالی کو ان کے جلنے کی فکر رہتی ہے اور وہ کہتی ہیں، ’’اوزار بناتے ہوئے ان کے ہاتھ کئی بار زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک بار تو ان کا پیر بھی کٹ گیا تھا۔‘‘
حالانکہ، راجیش رکنے والے نہیں ہیں۔ ’’بیٹھنے سے مجھے کام نہیں ملنے والا ہے۔ مجھے بھٹی کے پاس بیٹھنا ہی پڑے گا۔ کوئلہ جلانا ہے میرے کو۔‘‘
برسوں سے لوہاری کے کام کے لیے وقف راجیش کا کہنا ہے، ’’گھر چلتا ہے اس سے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز