میں تمام عمر
روز و شب یہ چپو چلا
رہا ہوں
نگاہوں سے اوجھل ہے
ساحل یہاں پر۔
ایک بحر بیکراں ہے حد
نظر تک
اور پھر ایک طوفان
منتظر ہے؛
یہاں کوئی ایسا نہیں
جو مژدہ سنا دے
مجھے دوسری جانب
پہنچنے کا پتہ دے۔
مگر میں تھک نہیں
سکتا
ان چپوؤں کو ایسے ہی
رکھ نہیں سکتا۔
اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی ایسا نہیں کیا، اس وقت بھی نہیں جب وہ پھیپھڑوں کے کینسر سے ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے۔
وہ تکلیف میں تھے۔ انہیں اکثر سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ جوڑوں میں درد تھا۔ خون کی کمی تھی، وزن کم ہو رہا تھا اور کئی طرح کی دوسری پریشانیاں بھی لاحق تھیں۔ وہ بغیر اس احساس کے زیادہ دیر تک بیٹھ نہیں سکتے تھے کہ وہ بالکل بے جان ہو گئے ہیں۔ لیکن وجے سنگھ پارگی اپنے ہسپتال کے کمرے میں ہم سے ملنے اور اپنی زندگی اور شاعری سے متعلق بات کرنے کے لیے راضی ہو گئے۔
ان کے آدھار کارڈ کے مطابق، وہ ۱۹۶۳ میں داہود کے ایٹاوا گاؤں میں ایک غریب بھیل آدیواسی براداری میں پیدا ہوئے تھے۔ مگر زندگی کبھی بھی ان پر مہربان نہیں رہی۔
چِسکا بھائی اور چَتورا بین کے بڑے بیٹے کی حیثیت سے پرورش پانے کے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے وجے سِنگھ ٹیپ کے مصرعے کی طرح صرف ایک لفظ دہراتے ہیں: ’’غربت…غربت۔‘‘ پھر ایک مختصر وقفہ آتا ہے۔ وہ اندر دھنسی ہوئی اپنی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے چہرہ دوسری طرف موڑ لیتے ہیں۔ وہ اپنے بچپن کی ان تصویروں سے نجات حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، جو کسی ضدی بھنورے کی طرح ان کی نگاہوں کے آگے گھوم رہی ہیں۔ ’’کھانے کے لیے گھر میں کبھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔‘‘
زندگی
ختم ہو جائے گی
مگر
دستورِ زمانہ جاری رہے گا۔
روٹی کا
قُطر زمین کے قطر سے
بہت بڑا
ہے۔
اس حقیقت
کو ان کے سوا
کوئی جان
سکتا نہیں
بھوک کا
جس نے تجربہ کیا ہے،
وہی
جانتا ہے ایک روٹی کا مطلب
کہ وہ آپ
کو لے کر کہاں جائے گی۔
داہود کے کیزر میڈیکل نرسنگ ہوم میں اپنے بستر مرگ سے وجے سنگھ نے ہمیں اپنی نظمیں پڑھ کر سنائیں، جہاں اُن کا علاج چل رہا تھا
’’مجھے یہ کہنا تو نہیں چاہیے، لیکن ہمارے والدین ایسے نہیں تھے جن پر ہم فخر کرسکیں،‘‘ وجے سنگھ اعتراف کرتے ہیں۔ نقاہت اور شرمندگی سے ان کا پہلے سے ہی کمزور جسم اور بھی زیادہ سکڑ جاتا ہے، ’’مجھے معلوم ہے کہ مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، لیکن میرے خیال میں یہ ابھی زبان سے نکل گئیں۔‘‘ ان کی تقریباً ۸۵ سالہ بزرگ ماں داہود کے کیزر میڈیکل نرسنگ ہوم کے چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں ٹین کے ایک اسٹول پر بیٹھی ہیں۔ وہ اونچا سنتی ہیں۔ ’’میں نے صرف اپنے والدین کو جدوجہد کرتے دیکھا ہے۔ ماں اور باپ کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔‘‘ ان کی دو بہنیں، چار بھائی اور والدین گاؤں میں ایک چھوٹے سے کمرے والے اینٹوں کے کچے مکان میں رہتے تھے۔ یہی نہیں، جب وجے سنگھ ایٹاوا کو خیر باد کہہ کر روزگار کی تلاش میں احمد آباد آئے تو وہ تھلتیج چال کی ایک چھوٹی سی کرایے کے جگہ میں رہتے تھے۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں ان کے قریبی دوست بھی کم ہی جاتے تھے۔
اگر میں
کھڑا ہوتا ہوں
تو چھت
سے ٹکراتا ہوں۔
اگر
سیدھا ہوتا ہوں
تو دیوار
سامنے آ جاتی ہے۔
کسی صورت
میں نے یہاں زندگی گزاری ہے
یہیں،
محدود ہو کر۔
جس نے
مجھے زندہ رکھا،
وہ میری
ایک عادت تھی
شکم مادر
میں کروٹ لینے کی عادت۔
محرومی کی یہ کہانی صرف وجے سنگھ کی کہانی نہیں ہے۔ جس خطے میں اس شاعر کا خاندان رہتا ہے اس خطے کی یہ پرانی اور عام کہانی ہے۔ داہود ضلع کی تقریباً ۷۴ فیصد آبادی درج فہرست قبائل پر مشتمل ہے۔ اس آبادی کے ۹۰ فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ لیکن چھوٹے پلاٹوں اور زمین کی کم پیداواری صلاحیت، زیادہ تر خشک موسم اور خشک سالی کے حالات کی وجہ سے مناسب آمدنی نہیں ہو پاتی ہے۔ اور خطے میں غربت کی شرح تازہ ترین کثیر جہتی غربت سروے کے مطابق ریاست میں سب سے زیادہ، یعنی ۲۷ء۳۸ فیصد ہے۔
وجے سنگھ کی والدہ چتورا بین بحیثیت ماں اپنی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں، ’’گھنی تکلی کری نے موٹا کریا سے اے لوکونے دھندھا کری کرینے۔ مجھوری کرینے، گھرینو کرینے، بیجھانو کرینے کھواڈیو چھے۔ [میں نے کڑی محنت کی۔ گھر پر کام کیا، دوسروں کے یہاں کام کیا اور کسی طرح انہیں کچھ کھانے کے لیے لا کر دیا۔]‘‘ کبھی کبھی وہ صرف جوار کے دلیا پر گزارہ کرتے تھے، بھوکے اسکول جاتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کی پرورش کرنا کبھی آسان نہیں تھا۔
گجرات کی پسماندہ برادریوں کی ترجمانی کرنے والے رسالہ ’نِردھار‘ کے ۲۰۰۹ کے شمارہ میں لکھے گئے دو حصوں پر مشتمل اپنی یادداشت میں وجے سنگھ نے ایک وسیع القلب آدیواسی خاندان کی کہانی بیان کی ہے۔ جوکھو دامور اور ان کا کنبہ ان چھوٹے لڑکوں کو کھانا کھلانے کے لیے بھوکا رہتا ہے، جن کی وہ اس شام میزبانی کرنے والے تھے۔ یہ پانچ لڑکے اسکول سے واپسی کے دوران تیز بارش میں پھنس گئے تھے اور جوکھو کے گھر میں پناہ لی تھی۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وجے سنگھ کہتے ہیں، ’’بھادروو ہمارے لیے ہمیشہ فاقہ کشی کا مہینہ ہوتا تھا۔‘‘ بھادروو گجرات میں رائج ہندو وکرم سم وت کیلنڈر کا گیارہواں مہینہ ہے، جو عام طور پر گریگوریئن کیلنڈر کے ستمبر میں پڑتا ہے۔
’’گھر میں رکھا اناج ختم ہو جاتا تھا۔ کھیتوں کی فصل اب تک تیار نہیں ہوتی تھی، لہٰذا، کھیتوں میں ہریالی ہونے کے باوجود فاقہ کشی ہمارا مقدر تھی۔ ان مہینوں میں معدودے چند گھروں میں ہی آپ کو دن میں دو وقت چولہا جلتا ہوا نظر آتا تھا۔ اور اگر پچھلا سال خشک سالی کی نذر ہو جاتا، تو بہت سے کنبوں کو ابلے یا بھنے ہوئے مہوئے پر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ شدید غربت ایک ایسی لعنت تھی جس میں ہماری برادری پیدا ہوئی تھی۔‘‘
لیکن، وجے سنگھ کہتے ہیں کہ موجودہ نسل کے برعکس ان دنوں لوگ اپنے گھر اور گاؤں چھوڑ کر مزدوری کی تلاش میں کھیڑا، وڈودرا یا احمد آباد کی طرف ہجرت کرنے کی بجائے بھوک سے مر جانے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس معاشرے میں تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ’’خواہ ہم جانور چرانے جائیں یا اسکول جائیں، سب کچھ ایک جیسا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے والدین اور اساتذہ صرف یہ چاہتے تھے کہ بچے پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں، اور بس۔ یہاں کون زیادہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے اور دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے!‘‘
حالانکہ، وجے سنگھ کے کچھ خواب بھی تھے – درختوں کے ساتھ اچھل کود کرنے، پرندوں سے باتیں کرنے، پریوں کے پروں پر سوار ہو کر سمندر عبور کرنے کے خواب۔ ان کی کچھ امیدیں بھی تھیں – دیوتاؤں سے مصیبتوں سے نجات کی امید، سچ کی فتح اور جھوٹ کی شکست کا مشاہدہ کرنے کی امید، کمزورں کے ساتھ خدا کی حمایت کی امید، جیسے دادا جان کی کہانیوں میں ہوتی تھی۔ لیکن زندگی اس خیالی کہانی کے بالکل برعکس نکلی۔
اور
باوجود اس کے وہ تخم امید کہ
دادا نے
بچپن میں بویا تھا جس کو،
وہ چند
حیرت انگیز امکانات کے بیج –
وہ اب
بھی سخت ہیں۔
میرا
قابل برداشت وجود
اسی تخم
امید کی مرہون منت ہے۔
آج کے
روز، ہر روز،
اسی امید
میں کہ
کوئی
معجزہ ہونے والا ہے۔
یہی امید تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی تعلیم کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ ایک بار جب وہ تعلیم کی راہ پر گامزن ہوگئے (تقریباً اتفاق سے)، تو انہوں نے جوش و خروش کے ساتھ اسے حاصل کیا۔ ان حالات میں بھی جب انہیں اسکول پہنچنے کے لیے چھ سات کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا تھا، یا ہاسٹل میں رہنا پڑا تھا، یا خالی پیٹ سونا پڑا تھا، یا گھر گھر گھوم کر کھانا مانگنا پڑا تھا، یا پرنسپل کے لیے شراب کی بوتل خریدنی پڑی تھی۔ ان حالات میں بھی انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا یقین تھا، جب گاؤں میں کوئی ہائر سیکنڈری اسکول نہیں تھا، داہود جانے کے لیے آمد و رفت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، داہود میں کوئی ٹھکانہ کرایے پر لینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ انہوں نے اس وقت بھی تعلم حاصل کی، جب انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تعمیراتی مقام پر مزدوری کرنی پڑی، ریلوے پلیٹ فارم پر راتوں میں سونا اور خالی پیٹ جاگنا پڑا، بورڈ کے امتحانات میں شرکت سے پہلے تیار ہونے کے لیے پبلک باتھ روم کا استعمال کرنا پڑا۔
وجے سنگھ زندگی سے شکست نہ کھانے کا عزم کر چکے تھے:
زندہ
رہتے ہوئے اکثر
متزلزل
ہوا ہوں،
حرکت قلب
رک گئی ہے
اور میں
ڈھیر ہو گیا ہوں۔
مگر ہر
دفعہ
،
میرے
اندر اٹھ کھڑا ہوا ہے
نہ مرنے
کا زندہ عزم
اور خود
کو اپنے پیروں پر کھڑا پایا ہے
ہر بار
زندگی جینے کے لیے تیار۔
ان کی اصل تعلیم (تعلیم کا وہ حصہ جس سے وہ سب سے زیادہ لطف اندوز ہوئے) اس وقت شروع ہوئی، جب انہوں نے نوجیون آرٹس اینڈ کامرس کالج میں گجراتی میں بی اے کے لیے داخلہ لیا۔ انہوں نے اپنی بیچلر کی ڈگری مکمل کی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا۔ تاہم، ایم اے کے پہلے سال کے بعد وجے سنگھ نے بی ایڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں پیسوں کی ضرورت تھی اور وہ استاد بننا چاہتے تھے۔ جب وجے سنگھ نے اپنا بی ایڈ مکمل کیا، تو ایک جھگڑے کے دوران غیرمحتاط ہو گئے اور ایک گولی اس وقت کے اس نوجوان آدیواسی کے جبڑے اور گردن کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ یہ حادثہ زندگی بدلنے والا حادثہ ثابت ہوا، کیونکہ زخموں کے ساتھ ساتھ وجے سنگھ کی آواز بھی متاثر ہوئی تھی، جو کبھی ٹھیک نہیں ہوئی – سات سال کے علاج، ۱۴ سرجریوں اور ناقابل تسخیر قرض کے بعد بھی۔
یہ ان کے لیے دہرا جھٹکا تھا۔ ایک ایسی برادری میں پیدا ہونا جس کی آواز پہلے سے ہی کم سنائی دیتی تھی، اور جس کی آواز بننے کی خدا داد صلاحیت ان میں تھی اس آواز کو بھی اب شدید نقصان پہنچا تھا۔ ٹیچر بننے کے اپنے خواب کو انہیں ترک کرنا پڑا اور سردار پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ میں کنٹریکٹ پر مزدوری کرنی پڑی اور بعد میں پروف ریڈنگ کا کام کرنا پڑا۔ یہ پروف ریڈر کا ہی کام تھا جس نے وجے سنگھ کو اپنی پہلی محبت، یعنی اپنی زبان سے دوبارہ روبرو کروایا۔ اس دوران انہیں دو دہائیوں میں لکھا گیا بہت کچھ پڑھنے کو ملا۔
اور انہوں نے کیا پایا؟
وہ انتہائی جوش سے کہتے ہیں، ’’میں آپ کو کھلے دل سے بتاتا ہوں کہ میں زبان کے بارے میں کیا سوچتا ہوں۔ گجراتی ادیب زبان سے بالکل لاپرواہ ہیں۔ شعراء الفاظ کے استعمال میں کوئی حساسیت نہیں برتتے۔ ان میں سے اکثر صرف غزلیں کہتے ہیں اور انہیں صرف جذبات کی ترجمانی کرنی ہوتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہی اہم ہے۔ الفاظ کا کیا ہے، وہ تو وہیں ہیں۔‘‘ الفاظ کے در و بست اور بعض مشاہدات و تجربات کے اظہار کی یہی صلاحیت ہے جس کی فہم و ادراک کو وجے سنگھ نے اپنی نظموں میں برتا ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل ان کے ادبی سرمایہ کی مرکزی دھارے کے ادب میں قدر نہیں کی گئی اور وہ اب بھی غیر تسلیم شدہ رہے ہیں۔
’’میرا خیال ہے کہ آپ کو زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہے،‘‘ وہ اس بات پر استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کبھی شاعر کیوں نہیں سمجھا گیا۔ ’’اگر میں ایک یا دو نظم لکھوں تو کون پرواہ کرے گا؟ یہ دونوں مجموعے حالیہ دنوں میں سامنے آئے ہیں۔ میں نے شہرت کے لیے نہیں لکھا۔ میں باقاعدہ لکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے بہت سنجیدگی سے نہیں لکھا۔ بھوک ہماری زندگیوں میں پیوست تھی، اس لیے میں نے اس کے بارے میں لکھا۔ یہ صرف ایک فطری اظہار تھا۔‘‘ وہ ہماری پوری گفتگو میں خود کی تخفیف کرتے رہے۔ الزام تراشی کے لیے تیار نہیں تھے، پرانے زخموں کو کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے، اپنے حصے کی روشنی کا دعویٰ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن وہ ان حقائق سے مکمل طور پر واقف تھے کہ…
کوئی تو
ہے جو نگل گیا ہے
ہمارے
حصے کی روشنی کو،
کہ ہم
تمام عمر
سورج کے
ہمراہ
جلتے رہے
ہیں،
مگر پھر
بھی ہم سے
کچھ بھی
منور نہیں ہے۔
متعصب رویہ، صلاحیتوں کی بے قدری، اور امتیازی سلوک نے بحیثت ایک پروف ریڈر کے ان کی پیشہ ورانہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ایک بار ایک میڈیا ہاؤس میں ’اے‘ گریڈ کے ساتھ داخلہ جاتی امتحان پاس کرنے کے بعد بھی انہیں ’سی‘ گریڈ کے ساتھ پاس ہونے والوں کے مقابلے میں کافی کم تنخواہ پر نوکری کی پیشکش کی گئی تھی۔ وجے سنگھ پریشان ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس طرح کے فیصلے کے پیچھے اصولوں پر سوال اٹھایا تھا۔ اور آخر میں نوکری کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔
احمد آباد میں انہوں نے معمولی پیسوں کی خاطر مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ چھوٹے چھوٹے معاہدوں پر کام کیا۔ کریٹ پرمار جب ’ابھیان‘ کے لیے لکھ رہے تھے تو پہلی دفعہ وجے سنگھ سے ملے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۰۸ میں جب میں ابھیان سے منسلک ہوا تھا، تو وجے سنگھ سمبھو میڈیا میں کام کر رہے تھے۔ باضابطہ طور پر تو وہ پروف ریڈر تھے، لیکن ہم جانتے تھے کہ جب ہم انہیں کوئی مضمون دیں گے تو وہ اسے ایڈٹ کر دیں گے۔ انہوں نے مواد کو شکل اور ہیئت دینے کے لیے اس پر کام کیا۔ زبان کے ساتھ بھی وہ کمال کرتے تھے۔ لیکن اس شخص کو کبھی اس کا حق نہیں ملا، وہ موقع نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔‘‘
’سمبھو‘ سے انہیں صرف ۶۰۰۰ روپے ملتے تھے۔ ان کی جتنی کمائی تھی وہ کبھی بھی ان کی فیملی کی ضروریات، اپنے بھائی ہہنوں کی تعلیم اور احمد آباد میں زندگی گزارنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ انہوں نے امیج پبلیکیشنز سے فری لانس کام لینا کرنا شروع کیا اور دفتر کی لمبی ڈیوٹی کے بعد گھر پر بھی کام کیا۔
ان کے سب سے چھوٹے بھائی ۳۷ سالہ مکیش پارگی کہتے ہیں، ’’والد کی موت کے بعد وہ میرے باپ تھے، بھائی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ تھلتیج میں ایک ٹوٹے ہوئے چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔ ان کے کمرے کے ٹین کی چھت پر ہمیں رات بھر کتوں کی بھاگ دوڑ سنائی دیتی تھی۔ پانچ سے چھ ہزار روپے جو وہ کماتے تھے، وہ بمشکل ان کی ضروریات کو پورا کرتے تھے، لیکن انہوں نے دوسرے کام صرف اس لیے کیے کہ وہ ہماری تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں۔ میں اسے فراموش نہیں کر سکتا۔‘‘
پچھلے پانچ چھ سالوں سے وجے سنگھ نے احمد آباد میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کی، جو پروف ریڈنگ کی خدمات پیش کرتی تھی۔ ’’میں نے اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں کنٹریکٹ پر کام کیا۔ سب سے حالیہ کام ’سگنیٹ انفوٹیک‘ کے ساتھ ہے۔ گاندھی جی کے نوجیون پریس کا ان کے ساتھ معاہدہ تھا، جس کی وجہ سے میں ان کی شائع کردہ کتابوں پر کام کرسکا۔ نوجیون سے پہلے میں نے دوسری اشاعتوں کے ساتھ کام کیا تھا،‘‘ وجے سنگھ کہتے ہیں۔ ’’لیکن گجرات میں کسی پبلشر کے پاس پروف ریڈر کے لیے مستقل پوزیشن نہیں ہے۔‘‘
دوست اور ادیب کریٹ پرمار کے ساتھ بات چیت میں وہ کہتے ہیں، ’’گجراتی میں اچھے پروف ریڈرز کی کمی کی ایک وجہ کم معاوضہ ہے۔ پروف ریڈر زبان کا محافظ ہوتا ہے، وکیل ہوتا ہے۔ ہم ان کے کام کا احترام کیوں نہیں کرتے اور انہیں مناسب معاوضہ کیوں نہیں دیتے؟ ہم خطرے سے دوچار نسل بنتے جا رہے ہیں۔ اور گجراتی زبان کی بجائے یہ نقصان کس کا ہے۔‘‘ وجے سنگھ نے گجراتی میڈیا ہاؤسز کی افسوسناک صورتحال دیکھی تھی۔ وہ زبان کا احترام نہیں کرتے تھے اور جو بھی پڑھ لکھ سکتا تھا وہ پروف ریڈر بن سکتا تھا۔
وجے سنگھ کہتے ہیں، ’’ادبی دنیا میں ایک غلط نظریہ رائج ہے کہ پروف ریڈروں میں علمی اور تخلیقی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔‘‘ دوسری طرف وہ گجراتی زبان کے محافظ رہے ہیں۔ کریٹ بھائی یاد کرتے ہیں، ’’گجرات ودیاپیٹھ نے سارتھ جوڑنی کوش [ایک معروف لغت] میں شامل کیے جانے والے ۵۰۰۰ نئے الفاظ کے لیے لغت کا ایک ضمیمہ شائع کیا، اور اس میں نہ صرف املا کی بلکہ حقائق کی اور تفصیلات کی خوفناک غلطیاں تھیں۔ وجے سنگھ نے ان سب کو احتیاط سے نوٹ کیا اور جواب طلب کیا۔ مجھے آج گجرات میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو وجے سنگھ جیسا کام کرسکے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ان غلطیوں کے بارے میں بھی لکھا جو انہیں ریاستی بورڈ کی جماعت ۶، ۷، ۸ کی نصابی کتابوں میں ملیں۔‘‘
ان کی ذہانت اور تمام تر صلاحیتوں کے باوجود، دنیا وجے سنگھ کے لیے ایک مخالف جگہ بنی ہوئی تھی۔ پھر بھی انہوں نے امید اور جہد پیہم کے بارے میں لکھا۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں اپنے وسائل سے جینا ہے۔ ان کا بھگوان سے بہت پہلے ہی بھروسہ اٹھ چکا تھا۔
میں اپنے
ایک ہاتھ میں
بھوک لیے
پیدا ہوا
اور
دوسرے میں مزدوری،
تم ہی
کہو، میں تیسرا ہاتھ کہاں سے لاؤں
اور
تمہاری پوجا کروں، بھگوان؟
وجے سنگھ کی زندگی میں اکثر شاعری نے ایشور کی جگہ لے لی۔ انہوں نے ۲۰۱۹ میں نظموں کے دو مجموعے، آگیانوں اجوالوں (جگنو کی روشنی) اور ۲۰۲۲ میں جھاکل نا موتی (شبنم کی بوندوں کے موتی) اور اپنی مادری زبان پنچ مہالی بھیلی میں چند نظمیں شائع کیں۔
ناانصافی، استحصال، امتیازی سلوک اور محرومیوں سے بھری زندگی کے اختتام پر ان کی نظموں میں ناراضگی یا غصے کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے۔ کوئی شکایت نہیں ہے۔ ’’میں کہاں شکایت کرتا؟ معاشرے سے؟ ہم معاشرے سے شکایت نہیں کر سکتے۔ وہ ہماری گردنیں مروڑ دیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
شاعری کے ذریعے وجے سنگھ نے انفرادی حالات و واقعات سے آگے بڑھ کر انسانی زندگی کے بارے میں حقیقی سچائی سے جڑنے کا امکان پایا۔ موجودہ دور میں آدیواسی اور دلت ادب کی ناکامی کی وجہ، ان کے مطابق، ان میں وسعت کی کمی تھی۔ ’’میں نے کچھ دلت ادب پڑھا اور مجھے احساس ہوا کہ اس میں اہم انسانی حسیت کا فقدان ہے۔ ان میں ہم پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شکایت ہے۔ لیکن ہم وہاں سے کہاں جائیں؟ آدیواسیوں کی آوازیں اب اٹھنی شروع ہوئی ہیں۔ وہ بھی اپنی زندگی کے بارے میں بہت کچھ بولتے ہیں۔ لیکن بڑے سوالات کبھی نہیں اٹھائے جاتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
داہود کے ایک شاعر اور مصنف پروین بھائی جادَو کہتے ہیں، ’’بڑے ہوتے ہوئے نوعمری میں جب میں کتابیں پڑھتا تھا تو سوچتا تھا کہ ہماری برادری میں، ہمارے علاقے میں کوئی شاعر کیوں نہیں ہے۔ یہ صرف ۲۰۰۸ کا واقعہ ہے جب میں نے پہلی دفعہ وجے سنگھ کا نام ایک مجموعہ میں دیکھا۔ اس آدمی کو تلاش کرنے میں مجھے چار سال لگے! اور ان سے ملاقات میں کچھ اور وقت صرف ہوا۔ وہ مشاعروں کے شاعر نہیں تھے۔ ان کی نظمیں ہمارے درد کو اور پسماندہ لوگوں کی زندگیوں کو اجاگر کرتی تھیں۔‘‘
کالج کے زمانے میں وجے سنگھ کی زندگی میں شاعری کا عمل دخل شروع ہوا۔ ان کے پاس کسی سنجیدہ کوشش کے لیے یا تربیت کا وقت نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے ذہن میں دن بھر نظمیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ وہ میرے وجود کے خلفشار کا اظہار ہیں جو کبھی صفحہ قرطاس پر اجاگر ہو جاتی ہیں اور کبھی معدوم۔ ان میں سے بہت کچھ منصہ شہود میں آنے سے رہ جاتا ہے۔ میرا دماغ ایک لمبے عمل کو کافی دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے میں نے وہی ہیئت اختیار کی جسے میں برت سکتا تھا۔ اس کے باوجود بہت سی نظمیں تحریر میں آنے سے رہ گئیں۔‘‘
پھیپھڑوں کے کینسر کی جان لیوا بیماری نے پچھلے دو سالوں میں غیر تحریری نظموں کے ذخیرے میں مزید اضافہ کر دیا۔ جب کوئی شخص وجے سنگھ کی زندگی اور مصائب کے عالم میں ان کی کامیابیوں کو دیکھتا ہے، تو وہ اس احساس سے دو چار ہونے لگتا ہے کہ وہ کیا چیزیں ہیں، جو تحریر میں آنے سے رہ گئیں۔ وہ ’جگنوؤں کی ٹمٹماتی روشنی‘ جسے انہوں نے نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنی برادری کے لیے تھام رکھا تھا، تحریر میں نہیں آ سکی؟ وہ ’شبنم کی بوندوں کے موتی‘ جو ان کے ہاتھ میں سیپ کی حفاظتی آغوش کے بغیر کھلے تھے، تحریر میں نہیں آ سکے۔ ظالمانہ، بے رحم دنیا میں ہمدردی اور خدا ترسی کو برقرار رکھنے والی آواز کی معجزاتی خصوصیات تحریر میں نہیں آ سکی۔ ہماری زبان کے بہترین شاعروں کی فہرست میں وجے سنگھ پارگی کا نام نہیں لکھا جا سکا۔
لیکن وجے سنگھ کبھی بھی انقلاب کے شاعر نہیں تھے۔ ان کے لیے الفاظ چنگاری بھی نہیں تھے۔
میں یہاں
بیٹھا محو انتظار ہوں
ہوا کے
اس جھونکے کا
میں آگ
نہیں ہوں تو کیا ہوا
راکھ کا
ڈھیر تو ہوں
میں گھاس
کا تنکا جلا نہیں سکتا
میں ان
کی آنکھوں میں آ تو سکتا ہوں
آ کر
انہیں ستا تو سکتا ہوں،
ان میں
سے ایک کو پکڑ کر
اسے سرخ
کر سکتا ہوں رگڑ کر۔
اور اب وہ ہمیں اپنی تقریباً ۷۰ غیر مطبوعہ نظموں کے ساتھ چھوڑ کر جا چکے ہیں، جو ہماری آنکھوں میں گڑنے اور ضمیر کو ہلا کر رکھ دینے کی پوری طاقت رکھتی ہیں۔ ہم بھی ہوا کے اس جھونکے کا انتظار کر رہے ہیں۔
جھولڑی *
بچپن میں
باپا نے مجھ کو
دلائی دی
تھی ایک جھولڑی
سکڑ گئی
تھی وہ،
جھیل نہ
سکی تھی پہلی دھلائی،
اپنا رنگ
کھو دیا، کھسک گئی تھی سلائی۔
مجھے
نفرت ہے اس سے
غصے سے
پھٹ پڑا تھا میں،
نہیں
پہنوں گا میں یہ جھولڑی۔
ماں نے
سر کو سہلایا
بڑے پیار
سے مجھے منایا،
’’میرے لال! پہنو اسے جب تک یہ پھٹ نہ جائے،
پھر ہم
دلائیں گے ایک نئی جھولڑی۔‘‘
آج جھک
گیا ہے یہ جسم
ہو گیا
ہے جھولڑی، جس سے مجھے نفرت تھی۔
ہر طرف
جھریاں ہیں،
جوڑ پگھل
رہے ہیں،
سانس
لیتا ہوں تو کانپتا ہوں
اور میرے
دماغ کا غصہ پھوٹ پڑا ہے
نہیں
چاہیے مجھے اب یہ جسم!
جیسے ہی
اسے جھٹکنے کی کوشش کرتا ہوں
مجھے ماں
اور ان کی میٹھی باتیں یاد آ جاتی ہیں،
’’میرے لال! پہنو اسے جب تک یہ پھٹ نہ جائے،
جب تک کہ
یہ ختم نہ ہو جائے…
ان کی غیر مطبوعہ گجراتی نظم سے ترجمہ۔
* جھولڑی ایک روایتی کڑھائی والا اوپری لباس ہے جسے آدیواسی برادریوں کے بچے پہنتے ہیں۔
مضمون نگار، وجے سنگھ پارگی کی بے حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنے انتقال سے چند دن پہلے ہم سے بات کی۔ ہم مکیش پارگی، شاعر اور سماجی کارکن کانجی پٹیل، نردھار کے ایڈیٹر اُمیش سولنکی، وجے سنگھ کے دوست اور قلم کار کریٹ پرمار، اور گلالیاواڑ پرائمری اسکول کے استاد ستیش پرمار کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تحریر کو ممکن بنانے میں مدد بہم پہنچائی۔
اس مضمون کا حصہ بننے والی تمام نظمیں وجے سنگھ پارگی نے گجراتی میں لکھی ہیں اور پرتشٹھا پانڈیہ نے ان کا انگریزی میں، اور شفیق عالم نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
مترجم: شفیق عالم