’’عام لوگوں کے لیے کوئی سرکار اچھی نہیں ہے،‘‘ ۷۰ سالہ گرمیت کور کہتی ہیں۔ وہ چھپر کے نیچے ان عورتوں کے ساتھ بیٹھی ہیں، جو لدھیانہ کے بسیاں گاؤں سے کسان مزدور مہا پنچایت (کسانوں اور مزدوروں کی بڑی گرام سبھا) میں حصہ لینے جگراؤں آئی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’[وزیر اعظم] مودی نے نوکریاں دلانے کا وعدہ کیا تھا، مگر کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ [اس لیے اب] اینا دا کوئی حقّ نہیں ساڈے ایتھے آ کے ووٹاں مانگن دا [ان کو یہاں آ کر ووٹ مانگنے کا کوئی حق نہیں ہے]۔‘‘ گرمیت کور بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو ایکتا) دکوندا سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات میں انہوں نے مودی کو ووٹ دیا تھا۔
جگراؤں کی اناج منڈی میں ۲۱ مئی کو مہا پنچایت بیٹھی۔ اس میں پوری ریاست سے ۵۰ ہزار لوگ جمع ہوئے۔ یہ لوگ کسان یونین، ٹریڈ یونین، آنگن واڑی کارکنوں کی یونین اور طبی ملازمین کی یونین کے بینر تلے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اسٹیج پر لگا بینر کہہ رہا ہے، ’بی جے پی ہٹاؤ، کارپوریٹ بھگاؤ، ملک بچاؤ‘۔
ہرندر سنگھ لکھووال کہتے ہیں، ’’ہم پنجاب میں مودی کو کالے جھنڈے دکھائیں گے۔‘‘ وہ بی جے یو کے لکھووال ڈویژن کے صدر ہیں اور مہا پنچایت میں آئے ہیں۔
پنجاب میں یکم جون، ۲۰۲۴ کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور نریندر مودی ریاست میں اپنا پرچار شروع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں، جہاں کسان اپنے مطالبات کے ساتھ مرکز کی بے رخی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے رہے ہیں: سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کے مطابق، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی، مکمل قرض معافی، لکھیم پور کھیری قتل کے معاملہ میں انصاف، کسانوں اور مزدوروں کے لیے پنشن اسکیم اور ۲۱-۲۰۲۰ کے احتجاجی مظاہروں کے دوران مارے گئے لوگوں کو معاوضہ۔ پڑھیں: زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے: مکمل کوریج
کسان لیڈروں نے وہاں اکٹھا ہوئے لوگوں سے خطاب کرنے سے پہلے ان ۷۵۰ کسانوں کو خراج عقیدت پیش کیا جو ۲۱-۲۰۲۰ کے احتجاجی مظاہروں کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ کسان شبھ کرن سنگھ (۲۱) کو خاص طور پر یاد کیا گیا، جو اس سال فروری میں کسانوں اور پولیس کے درمیان ہوئی جھڑپ کے دوران سر پر گہری چوٹ لگنے سے مارے گئے۔ وہ سبھی کسان پٹیالہ کے ڈھابی گجراں سے دہلی کی طرف پرامن طریقے سے مارچ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے: پڑھیں: ’اگر ہم اپنی ریاست میں محفوظ نہیں، تو پھر کہاں ہوں گے؟‘
کچھ مہینے پہلے، فروری ۲۰۲۴ میں کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکا گیا۔ ان کا ارادہ دہلی میں جا کر اپنے پورے نہیں کیے گئے مطالبات کو اٹھانے کا تھا – پرامن احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں کو بیریکیڈز لگا کر روکا گیا، ان پر پانی کی بوچھار کی گئی اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔
اب کسان نہیں چاہتے کہ بی جے پی والے ان کے گاؤں میں پرچار کریں۔
بی کے یو شادی پور کے صدر بوٹا سنگھ نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’اب مودی پنجاب کیوں آ رہے ہیں؟ ہم انہیں پرچار نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
سنیُکت کسان مورچہ کی اپیل پر پنجاب میں بی جے پی کے لیڈروں اور امیدواروں کو ان کے گاؤں میں داخل ہونے اور پرچار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
جگراؤں میں کسان لیڈروں کی تقریروں کے دوران فرید کوٹ اور لدھیانہ سے کھڑے ہوئے بی جے پی کے امیدواروں ہنس راج ہنس اور رونیت بٹو کے نام لیے گئے۔
اپنی تقریر کے دوران لکھووال نے کہا، ’’نیتا لوگ ہم سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگتے ہیں۔ پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہمیں بعد میں دیکھ لیں گے۔ ہوتے کون ہیں وہ ہمیں دیکھ لینے والے؟‘‘ ہنس راج ہنس کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جو ان کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں وہ یکم جون کو الیکشن کے بعد دیکھ لیں گے۔ ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے ایس کے ایم کی شکایت پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے لیے ہنس راج ہنس کو نوٹس جاری کیا ہے۔
چیتن سنگھ چودھری (۷۴) لدھیانہ کے سنگت پورہ گاؤں سے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’پہلے ہم ان لوگوں کو ووٹ دیا کرتے تھے جنہیں ہمارے والدین اور دادا دادی ووٹ دیتے تھے۔ اب ایسا نہیں رہا۔ اب تو ہمارا مقصد مودی کو باہر کرنا ہے۔‘‘
وہ بی کے یو راجیوال کے رکن ہیں۔ حکومت پنجاب کے ذریعے دیا گیا کارڈ دکھاتے ہوئے وہ پاری کو بتاتے ہیں کہ ان کے والد بابو سنگھ ایک مجاہد آزادی تھے۔ بابو سنگھ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کے سپاہی تھے۔ بی جے پی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیتن کہتے ہیں، ’’وہ کسانوں کی فلاح کے بارے میں نہیں سوچتے۔‘‘
جیسے جیسے لیڈر تقریریں کرتے رہے، اناج منڈی میں چاروں طرف نعرے گونجتے رہے۔ ’’کسان مزدور ایکتا زندہ آباد‘‘ اور ’’نریندر مودی واپس جاؤ‘‘ نعروں سے آسمان گونجتا رہا۔
کسان مزدور مہا پنچایت کے مقام پر ارد گرد کے گاؤوں سے کسان یونینوں کی اکائیوں نے لنگروں (مفت کھانے کے اسٹال) کا انتظام کیا۔ طبی ملازمین کی یونین نے بھی وہاں میڈیکل کیمپ چلائے، جنہوں نے ۲۱-۲۰۲۰ کے احتجاجی مظاہروں کے دوران ٹیکری سرحد پر ۱۳ مہینے تک کسانوں کی مدد کی تھی۔ ’انقلابی کیندر‘ اور ’پنجاب جمہوری ادھیکار سبھا‘ کے ممبران انتخاب اور عام لوگوں سے جڑے تعلیم، روزگار، صحت اور مذہب، ذات اور صنف جیسے موضوعات پر پرچے بانٹ رہے ہیں۔
ایس کے ایم لوگوں سے بی جے پی کو ہرانے کو کہہ رہا ہے، لیکن وہ کسی خاص پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اپیل نہیں کر رہا۔ کیرتی کسان یونین کے لیڈر رجندر دیپ سنگھ والا کا کہنا ہے، ’’ووٹ اس کو دو، جو بی جے پی کے امیدوار کو ہرا سکے۔‘‘
اب جب مہا پنچایت ختم ہو رہی ہے، ان کا پیغام بالکل واضح ہے – چناؤ پرچار کے دوران بی جے پی کی مخالفت، انتخابات میں بی جے پی کو ہرانا۔ اس فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے لکھووال کہتے ہیں، ’’کوئی تشدد کا سہارا نہیں لے گا، ہم پرامن طریقے سے احتجاج کریں گے۔‘‘
مترجم: قمر صدیقی