جب بھگت رام یادو عوامی ملکیت والے ہریانہ روڈ ویز سے بطور کلرک ریٹائر ہوئے تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے۔ ’’لیکن میں نے اپنے اندر ایک جنون [جذبہ] محسوس کیا،‘‘ ۷۳ سالہ بزرگ، جو ایک مثالی اور انعام یافتہ ملازم تھے، کہتے ہیں۔

ان کے شوق نے انہیں اس ہنر – چارپائی اور پیڑھا بُننے – کی بازیافت پر مجبور کر دیا۔ اس ہنر کو ان کے والد گگن رام یادو نے انہیں بچپن میں سکھایا تھا۔

بھگت کی تعلیم نصف صدی قبل شروع ہوئی تھی جب وہ صرف ۱۵ سال کے تھے۔ وہ اپنے تین بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے والد کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ اپنے استعمال کے لیے چارپائیاں بنتے دیکھتے تھے۔ ان کے والد ۱۲۵ ایکڑ اراضی کے مالک تھے اور انہوں نے گرمیوں کے مہینوں – گندم کی کٹائی کے بعد – کو مضبوط چارپائیاں بننے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ وہ دستی طور پر تیار سن (کروٹالیریا جونسیا) کی ڈوریوں، سُوت (کپاس کی رسی) اور سال (شوریہ روبوسٹا) اور شیشم (شمالی ہندوستانی روز ووڈ) کے درختوں کی لکڑی کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے کام کا مقام ان کا بیٹھک تھا، جو ایک کھلا کمرہ ہوا کرتا تھا جہاں لوگ اور مویشی دونوں دن کا زیادہ تر وقت گزارتے تھے۔

بھگت رام اپنے والد کو ’’ایک نمبر کا آری‘‘ – ایک عظیم کاریگر – کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو اپنے اوزاروں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ’’میرے والد نے ہمیں چارپائی بنانے کا ہنر سیکھنے کی ترغیب دی۔ وہ کہتے تھے، ’آؤ، سیکھو؛ یہ بعد میں تمہاری مدد کرے گا‘،‘‘ بھگت رام یاد کرتے ہیں۔

لیکن کم عمر لڑکے اس بظاہر تھکا دینے والے کام کی بجائے فٹ بال، ہاکی یا کبڈی کھیلنے کے لیے نکل بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ ’’ہمارے والد ہمیں ڈانٹتے، تھپڑ بھی مارتے، لیکن ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم نوکری حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ ہم نے صرف اپنے والد کے خوف سے یہ ہنر سیکھا، جب ہم پھنس جاتے تھے تو اکثر ان سے پوچھتے تھے کہ ڈیزائن بنانے کے لیے رسیوں کو کیسے حرکت دیں۔‘‘

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: بھگت رام یادو اپنی بنائی ہوئی چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ دائیں: وہ اب بھی اپنی انگلی میں ہریانہ روڈ ویز ڈپارٹمنٹ سے ان کی برسوں کی خدمات کے اعتراف میں ملی انگوٹھیوں میں سے ایک پہنے ہوئے ہیں

جب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا وقت آیا تو بھگت رام نے پہلے راجستھان کے ایک پرائیویٹ بس سروس میں کنڈکٹر کے طور پر اور پھر ۱۹۸۲ میں ہریانہ روڈ ویز میں کلرک کے طور پر نوکری حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس اصول کو اپنایا کہ ’’کبھی کسی غلط کام میں شامل نہ ہوں۔‘‘ انہیں تین انعامات سے نوازا گیا، اور وہ اس وقت ملی انگوٹھیوں میں سے ایک فخر کے ساتھ پہنتے ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۹ میں، وہ ۵۸ سال کی عمر میں ریٹائر ہو گئے۔ اگرچہ انہوں نے مختصر وقت کے لیے اپنی ۱۰ ایکڑ پشتینی زمین پر کپاس کاشت کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کام ان کی عمر کے لیے بہت مشکل تھا۔ لہٰذا، سال ۲۰۱۲ میں وہ اس ہنر کی جانب متوجہ ہوئے جسے انہوں نے نوعمری میں سیکھا تھا۔

اہیر (ریاست میں دیگر پسماندہ طبقات کے طور پر درج) برادری سے تعلق رکھنے والے بھگت رام، آج گاؤں میں چارپائی بنانے والے واحد کاریگر ہیں۔

*****

ہریانہ کے حصار ضلع کے دھانا خورد گاؤں کے رہنے والے بھگت رام کا اپنا ایک نظام الوقت ہے۔ وہ ہر صبح ۶ بجے کے قریب اٹھتے ہیں اور ایک تھیلے میں باجرہ اور دوسرے میں  چپاتی بھر کر اپنے کھیتوں کی طرف نکل جاتے ہیں اور کبوتروں کو دانہ اور چیونٹیوں، کتوں اور بلیوں کو چپاتیاں ڈالتے ہیں۔

’’اس کے بعد، میں اپنا حقہ تیار کرتا ہوں اور صبح ۹ بجے کے قریب کام پر جا بیٹھتا ہوں۔‘‘ بھگت کہتے ہیں۔ جب تک کوئی فوری آرڈر نہ ہو وہ دوپہر تک کام کرتے ہیں۔ ’’پھر میں شام ۵ بجے تک مزید ایک گھنٹہ کے لیے دوبارہ کام پر واپس آتا ہوں۔‘‘ وہ اپنے کمرے میں خود تیار کردہ ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ کھڑکیوں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور ان کا حقہ پاس ہی رکھا ہوا ہے۔ وقفہ وقفہ پر وہ حقے کے ہلکے پھلکے کش لے لیتے ہیں۔

جب جولائی کی ایک خوشنما اور تازگی بھری صبح کو پاری کی ملاقات بھگت رام سے ہوئی، تو وہ اپنی گود میں رکھ کر بڑے انہماک کے ساتھ ایک پیڑھا تیار کر رہے تھے۔ ’’میں اسے ایک دن میں مکمل کر سکتا ہوں،‘‘ وہ پرسکون اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں۔ ان کے ہاتھ مشاقی کے ساتھ حرکت کرتے ہیں، اور شیشم سے بنے لکڑی کے فریم پر رسی کے تانے اور بانے سے محتاط انداز میں نقش ابھارتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود محسوس کیا ہے کہ عمر کے ساتھ ان کی رفتار سست پڑنے لگی ہے۔ ’’جب میں پہلی بار چارپائی بننے واپس آیا تو میرے ہاتھ اور جسم مؤثر طریقے سے کام کر رہے تھے۔ اب میں ایک وقت میں دو تین گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا۔‘‘

ایک طرف کی بنائی مکمل کرنے کے بعد وہ اس عمل کو دہرانے کے لیے اسٹول کو گھماتے ہیں، اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دونوں طرف کے نمونے یکساں رہیں۔ ’’پیڑھے میں دونوں طرف بھرائی ہوتی ہے۔ یہی چیز اسے مضبوط اور پائیدار بناتی ہے۔ لیکن زیادہ تر کاریگر ایسا نہیں کرتے،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہیں۔

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: ہر پیڑھا کم از کم دو متحرک رنگ کی رسیوں کے امتزاج سے تیار کیا جاتا ہے۔ بھگت رام نے پاری کو بتایا، ’آپ کو بازار میں ایسے رنگ برنگے پیڑھے نہیں ملیں گے۔‘ دائیں: بھگت رام کا شمار ان معدودے چند کاریگروں میں ہوتا ہے جو زیادہ مضبوطی کے لیے پیڑھے کے دونوں طرف بھرائی کرتے ہیں

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: بھگت رام پیڑھا  بنا رہے ہیں اور شیشم کی لکڑی سے بنے فریم پر لپٹے رسیوں کے تانے بانے سے رسوں کو گزار رہے ہیں۔ دائیں: ایک طرف کی بنائی مکمل کرنے کے بعد، وہ اس عمل کو دہرانے کے لیے اسے پلٹتے ہیں

ہر بار جب بھگت ایک طرف کے تانے کو مکمل کرتے ہیں، تو رسی کو سیدھ میں لانے کے لیے کھوتی یا ٹھوکنا – ہاتھ کی شکل کا ایک اوزار – استعمال کرتے ہیں۔ ٹھوکنا کی ٹھک ٹھک ٹھک کی تال، اس میں جڑے گھنگروؤں کے چھن چھن چھن کے ساتھ مل کر آوازوں کی ایک سمفنی پیدا کرتی ہے۔

انہوں نے دو دہائی قبل اپنے گاؤں کے ایک کاریگر سے ٹھوکنا بنوایا تھا۔ اس میں لگے تراشے ہوئے پھول اور گھنگرو ان کا اپنا اضافہ تھے۔ وہ ہمیں دکھانے کے لیے اپنے اسکول جانے والے دو پوتوں سے مزید اسٹول لانے کے لیے کہتے ہیں اور اپنا راز ظاہر کرنے کے لیے ان پر جھک جاتے ہیں: اپنے بنائے ہوئے ہر پیڑھے میں تقریباً پانچ گھنگرو جڑتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر چاندی یا پیتل سے بنے ہوتے ہیں۔ بھگت رام کہتے ہیں، ’’مجھے بچپن سے ہی گھنگرو کی آواز پسند ہے۔‘‘

ہر اسٹول کو کم از کم دو متحرک رنگ کی رسیوں کے امتزاج سے تیار کیا جاتا ہے۔ ’’آپ کو بازار میں ایسے رنگ برنگے پیڑھے نہیں ملیں گے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

بھگت اپنی رسیاں گجرات کے بھاو نگر ضلع کے مہووا قصبے کے ایک سپلائر سے منگواتے ہیں۔ ایک کلوگرام رسی کی قیمت ۳۳۰ روپے ہوتی ہے، جس میں بھیجنے کا خرچ شامل ہوتا ہے۔ عموماً وہ ایک کھیپ میں مختلف رنگوں کی تقریباً پانچ سے سات کوئنٹل رسیاں منگواتے ہیں۔

رسی کے کچھ بنڈل ان کے پیچھے میز پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب وہ کھڑے ہوتے ہیں، تو رسیوں کا اپنا اصلی مجموعہ – رنگین رسیوں سے بھری الماری – دکھاتے ہیں۔

رسی کا ایک ٹکڑا ہمارے حوالے کرکے اسے محسوس کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ کتنی ’’ملائم‘‘ ہے۔ اگرچہ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ رسی کس مواد سے بنی ہے، لیکن انہیں یقین ہے کہ یہ مضبوط ہے۔ اور اس کے ثبوت ان کے پاس موجود ہیں۔ ایک دفعہ ایک گاہک نے رسیوں سے بنے ان کے اسٹول اور چارپائیوں کے معیار پر شک کا اظہار کیا۔ چنانچہ بھگت نے اسے چیلنچ دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ان رسیوں کو توڑ دے۔ بھگت ایک بار نہیں دو بار درست ثابت ہوئے۔ نہ صرف وہ گاہک بلکہ سونو پہلوان نامی ایک پولیس اہلکار بھی آگے آیا اور ناکام رہا۔

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

کھوٹی (بائیں) اور ٹھوکنا (دائیں) بھگت رام کے دو اوزار ہیں۔ ٹھوکنا پر گھنٹیاں بھگت رام نے جڑی ہیں

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں اور دائیں: بھگت رام یادو اپنی رنگین رسیاں دکھا رہے ہیں

چارپائی بنانے میں رسی کی پائیداری سب سے اہم ہوتی ہے۔ یہ بستر کو بنیاد فراہم کرتی ہے، اسے سہارا دیتی ہےاور پائیداری کو یقینی بناتی ہے۔ اس کی مضبوطی میں کوئی سمجھوتہ تکلیف یا ٹوٹ پھوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔

بھگت رام کا چیلنج صرف رسی کی مضبوطی تک محدود نہیں تھا، یہ ان کی عمدہ فنکارانہ کاریگری کی تصدیق بھی تھا۔ جب پولیس افسر نے بھگت سے پوچھا کہ وہ شرط جیتنے کے لیے کیا چاہتے ہیں، تو بھگت نے جواب دیا، ’’یہ کافی ہے کہ آپ نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا۔‘‘ لیکن افسر نے گوہانہ سے ان کے لیے دو بڑی جلیبیاں خریدیں، بھگت یاد کرکے ہنستے ہوئے اور اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ کتنی بڑی تھیں۔

اس دن نہ صرف پولیس اہلکار نے ہی کچھ نیا نہیں سیکھا، بلکہ بھگت رام نے بھی سیکھا۔ دستکاری میلہ کا دورہ کرنے والی ایک بزرگ خاتون کو معلوم ہوا کہ کم اونچائی والے پیڑھوں پر بیٹھنا تکلیف دہ ہے اور ان کے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے۔ ’’انہوں نے مجھ سے تقریباً ۵ء۱ فٹ اونچے پیڑھے بنانے کو کہا،‘‘ بھگت رام یاد کرتے ہیں اور وہ اب اسٹیل کے فریم کا استعمال کرتے ہوئے اونچے پیڑھے بنا رہے ہیں۔

بارش شروع ہو چکی ہے اور ان کی بیوی کرشنا دیوی صحن میں پڑے پیڑھے جلدی جلدی اٹھا کر اندر لاتی ہیں۔ یہ ۷۰ سالہ بزرگ ڈھوریاں (چٹائیاں) بُنا کرتی تھیں، لیکن انہوں نے تقریباً پانچ سال پہلے یہ کام بند کردیا۔ وہ اپنا دن گھر میں کام کرنے اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں گزارتی ہیں۔

بھگت رام کے بیٹے جسونت کمار اور سنہرا سنگھ ان کے نقش قدم پر نہیں چلتے۔ سنہرا حصار ڈسٹرکٹ کورٹ میں ٹائپسٹ کے عہدے پر فائز ہیں، جب کہ جسونت خاندانی زمین پر کاشتکاری کا انتظام دیکھتے ہیں، جہاں وہ گندم اور سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ ’’کوئی بھی صرف اس فن پر انحصار کرتے ہوئے گزارہ نہیں کرسکتا۔ چونکہ مجھے ۲۵ ہزار روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے، اس لیے یہ میرے لیے مشکل نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں اور دائیں: بھگت رام کے بنائے ہوئے پیڑھے

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: بھگت رام یادو اپنی بیوی کرشنا دیوی، اپنے چھوٹے بیٹے سنہرا سنگھ اور پوتے مَنیت اور ایشان کے ساتھ۔ دائیں: سنہرا ایک  پیڑھے کو حتمی شکل دے رہے ہیں

*****

بھگت رام نے پیڑھوں کی قیمت ۲۵۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے کے درمیان رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تفصیل پر توجہ کی وجہ سے قیمت زیادہ ہے۔ ’’بشمول پائی [پیروں] کے، جسے ہم آٹھ کلومیٹر دور ہانسی سے خریدتے ہیں، اس میں شامل ہر چیز کو احتیاط سے منتخب کیا جاتا ہے۔ ہم اسے پائیڈی ، موٹا پیڈ یا دَت کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اسے تراشتے ہیں اور اپنے صارفین کو دکھاتے ہیں۔ ایک بار جب وہ اپنی رضامندی ظاہر کر دیتے ہیں، تو میں اسے پالش کرتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

چارپائی بناتے وقت ایسی ہی درستگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یکرنگی چارپائی کو مکمل ہونے میں تین سے چار دن لگتے ہیں، جبکہ ڈیزائن والی چارپائی کو تیار کرنے میں ۱۵ دن لگ سکتے ہیں۔

چارپائی بنانے کے لیے لکڑی کے فریم کے اندر ایک فٹ جگہ چھوڑ کر بھگت رام رسیوں کو دونوں طرف افقی طور پر باندھنا شروع کرتے ہیں اور ان میں مضبوطی کے لیے دونوں طرف دو سے تین گانٹھ لگاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ رسیوں کو عمودی طور پر باندھنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، اور بانا بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کُنڈا نامی ایک اوزار کا استعمال کرتے ہوئے، وہ چارپائی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے رسی باندھنے کی ایک مخصوص تکنیک کا استعمال کرتے ہیں جسے گُنڈی کہتے ہیں۔

’’چارپائی بناتے وقت گنڈی ضروری ہے کیونکہ یہ رسیوں کو ڈھیلا ہونے سے روکتی ہے،‘‘ بھگت رام وضاحت کرتے ہیں۔

تانے کی رسیوں کو درست کرنے کے بعد، وہ ڈیزائن بنانے کے لیے رنگ برنگی رسیوں کو آڑے طور پر بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ رسیاں بھی گنڈی کے ذریعہ اطراف میں باندھی جاتی ہیں۔ ایک چارپائی بنانے میں تقریباً ۱۰ سے ۱۵ کلوگرام رسیاں استعمال ہوتی ہیں۔

وہ جب بھی الگ رنگ کی رسی جوڑتے ہیں، تو بر دفعہ دونوں کے سروں کو جوڑتے ہیں اور سوئی اور دھاگے کی مدد سے جوڑتے ہیں۔ جہاں کوئی رسی ختم ہو رہی ہوتی ہے، وہ اسی رنگ کے دھاگے کا استعمال کرتے ہوئے اسے اگلی رسی سے جوڑتے ہیں۔ ’’اگر میں صرف گرہ لگا دوں تو یہ چنے کی طرح چبھ جائے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: چارپائی بناتے وقت بھگت رام رسیوں کی ایک خاص تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔ دائیں: جب بھی وہ دو رسیوں کے سروں کو جوڑتے ہیں، تو انہیں سوئی اور دھاگے کی مدد سے جوڑتے ہیں

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: گنڈی رسی باندھنے کی ایک خاص تکنیک ہے جو چارپائی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کنڈا کا استعمال کرتے ہوئے باندھی جاتی ہے۔ دائیں: بھگت رام کے اوزار

چارپائیوں کے ڈیزائن کی ان کی زیادہ تر ترغیب گاؤں میں پرانے مکانات اور دیواروں کی نقاشی اور ان پر کی گئی پینٹنگز سے ملتی ہے یا جب وہ ہریانہ کے دوسرے حصوں میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں وہاں ملتی ہیں۔ ’’میں اپنے فون میں تصویریں اتار لیتا ہوں اور انہیں اپنی چارپائیوں میں نقل کرتا ہوں،‘‘ بھگت رام اپنے فون پر ایک چارپائی کی تصویر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں، جس میں سواستیکا اور چوپر بورڈ گیم کے ڈیزائن بنے ہوئے ہیں۔ جب چارپائی یا اسٹول کی بنائی کا کام مکمل ہو جاتا ہے، تو سال کے درخت کی لکڑیوں سے بنے اس کے بیا (کنارے کی لمبی پاٹی) اور شیرو (کنارے کی چوڑی پاٹی) اور شیشم کی لکڑی سے بنے پیے (پیروں) کو پیتل کے چھوٹے چھوٹے کیلوں سے مزین کیا جاتا ہے۔

بھگت رام جو چارپائیاں بناتے ہیں ان کی قیمت سائز کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔ ۸ ضرب ۶ فٹ، ۱۰ ضرب ۸ فٹ، یا ۱۰ ضرب ۱۰ فٹ کی ہوتی ہیں جن کی قیمتیں عموماً ۲۵ ہزار اور روپے ۳۰ ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہیں۔ ہر چارپائی یا پیڑھے پر وہ ۵۰۰ روپے یومیہ اجرت رکھتے ہیں، جس سے انہیں ۵۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ روپے تک کی ماہانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ ’’یہ سرکار کا مول تو ہے نہیں، صرف من کا مول ہے، [یہ حکومت کی قیمت نہیں ہے، یہ میری اپنی قیمت ہے۔]‘‘ بھگت رام کہتے ہیں۔

چارپائیوں کو حکومت کی دستکاری کی فہرست میں شامل کروانا ان کا مشن ہے۔ ’’یہ ایک اپیل ہے جو میں نے ایک مقامی نیوز چینل پر جاری ایک ویڈیو میں وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی کی ہے،‘‘ اپنے موبائل فون پر پاری کو وہ کلپ دکھاتے ہوئے وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں۔

وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کےلیے اپنے گاؤں سے ۲۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کر کے فرید آباد میں منعقد ہونے والے سورج کنڈ کے سالانہ دستکاری میلہ میں دو بار گئے ہیں۔ سال ۲۰۱۸ میں جب وہ پہلی بار وہاں گیے تھے تو ان کے پاس دستکاری کارڈ تک نہیں تھا اور پولیس نے انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہا تھا۔ لیکن قسمت ان کے ساتھ تھی۔ ایک سب انسپکٹر نے ان سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے لیے دو چارپائیاں مانگیں۔ اس کے بعد کسی نے انہیں پریشان نہیں کیا۔ ’’سب نے کہا، ’تاوُ تو ڈی ایس پی صاحب کا بوہت تگڑا جانکار ہے‘ [تاؤ کی ڈی ایس پی سے اچھی جان پہچان ہے]،‘‘ بھگت مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔

دستکاری کارڈ کے لیے درخواست دیتے وقت انہیں معلوم ہوا کہ وزارت ٹیکسٹائل کی طرف سے چارپائیوں کو دستکاری کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ریواڑی کے مقامی عہدیداروں نے مشورہ دیا کہ وہ کارڈ کی تصویر کے لیے دھورّی بنکر کے طور پر خود کو ظاہر کریں۔

یہ وہ کارڈ تھا جسے وہ ۲۰۱۹ میں اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ میلہ میں ہر ایک نے ان کی چارپائیوں کی تعریف کی، لیکن وہ وہاں منعقد ہونے والے مقابلے میں حصہ لینے یا اپنے دستکاری کے لیے کوئی انعام جیتنے کے اہل نہیں تھے۔ بھگت رام کہتے ہیں، ’’مجھے برا لگا، کیونکہ میں بھی اپنی فنکاری دکھا کر انعام جیتنا چاہتا تھا۔‘‘

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں اور دائیں: پیڑھے کی سجاوٹ

PHOTO • Naveen Macro
PHOTO • Naveen Macro

بائیں: ایک چارپائی بنانے میں بھگت رام کو تقریباً ۱۵ دن لگتے ہیں۔ دائیں: ان کی قیمت سائز کے لحاظ سے عام طور پر ۲۵ سے ۳۰ ہزار روپے کے درمیان رہتی ہے

*****

وہ ایک خاص آرڈر کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہ ایک بہت بڑی چارپائی کا آرڈر تھا، جس کی پیمائش ۵ء۶ ضرب ۱۲ فٹ تھی اور جسے ۲۰۲۱ میں سال بھر چلنے والے کسان احتجاج کے لیے اپنی مرضی کے مطابق بنایا گیا تھا۔ (پاری کی مکمل کوریج یہاں پڑھیں)۔ بھگت کو لفظ کسان آندولن (کسان احتجاج) میں چارپائی بُننے کو کہا گیا تھا۔

انہیں پیمائش سے باہر ۵۰۰ کلوگرام کی چارپائی بننے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے۔ بھگت کہتے ہیں، ’’مجھے اسے صحن میں رکھ کر اس پر کام کرنا پڑا کیونکہ وہ میرے کمرے میں فٹ نہیں ہوتی تھی۔ اس چارپائی کا آرڈر تصویر سنگھ اہلاوت نے دیا تھا، جسے اہلاوت گروپ ہریانہ کے دیگھل ٹول پلازہ تک لے جایا گیا تھا۔ یہ پلازہ بھگت کے گاؤں سے ۷۶‌ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

ان کی دستکاری دہلی، اتر پردیش، پنجاب، راجستھان اور کرناٹک کے صارفین تک بھی پہنچتی ہے۔

’’یہ ایک شوق ہے، جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا،‘‘ بھگت رام یہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کس طرح ہریانہ کے ایک مویشی پالنے والے کسان نے ۳۵ ہزار روپے کی چارپائی خریدی تھی۔ ’’جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ صرف مویشی پالنے والا کسان ہے، تو میں نے اس کے پیسے واپس کرنے کی پیشکش کی، لیکن اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر چارپائی پر ایک لاکھ لاگت آتی تو بھی وہ اسے خرید لیتا۔‘‘

دریں اثنا بھگت رام نے ۲۰۱۹ میں اپنے دوسرے دورے کے بعد سالانہ دستکاری میلہ میں شرکت کرنا ترک کر دیا، کیونکہ اس سے زیادہ آمدنی نہیں ہوتی ہے۔ گھر پر ہی کافی کام دستیاب ہوجاتا ہے، اور ان کا فون مسلسل نئے آرڈرز سے گونجتا رہتا ہے۔ ’’ہر وقت کوئی نہ کوئی فون کرتا ہے، اور چارپائی یا پیڑھا مانگتا ہے،‘‘ بھگت رام فخر یہ لہجے میں کہتے ہیں۔

اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Sanskriti Talwar

ਸੰਸਕ੍ਰਿਤੀ ਤਲਵਾਰ, ਨਵੀਂ ਦਿੱਲੀ ਅਧਾਰਤ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ ਅਤੇ ਸਾਲ 2023 ਦੀ ਪਾਰੀ ਐੱਮਐੱਮਐੱਫ ਫੈਲੋ ਵੀ ਹਨ।

Other stories by Sanskriti Talwar
Photographs : Naveen Macro

ਨਵੀਨ ਮੈਕਰੋ, ਦਿੱਲੀ ਅਧਾਰਤ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਫ਼ੋਟੋ-ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਡਾਕਿਊਮੈਂਟਰੀ ਫ਼ਿਲਮ ਮੇਕਰ ਵੀ ਹਨ। ਉਹ ਸਾਲ 2023 ਦੇ ਪਾਰੀ ਐੱਮਐੱਮਐੱਫ ਫੈਲੋ ਵੀ ਹਨ।

Other stories by Naveen Macro
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

ਸਰਬਜਯਾ ਭੱਟਾਚਾਰਿਆ, ਪਾਰੀ ਦੀ ਸੀਨੀਅਰ ਸਹਾਇਕ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਬੰਗਾਲੀ ਭਾਸ਼ਾ ਦੀ ਮਾਹਰ ਅਨੁਵਾਦਕ ਵੀ ਹਨ। ਕੋਲਕਾਤਾ ਵਿਖੇ ਰਹਿੰਦਿਆਂ ਉਹਨਾਂ ਨੂੰ ਸ਼ਹਿਰ ਦੇ ਇਤਿਹਾਸ ਤੇ ਘੁਮੱਕੜ ਸਾਹਿਤ ਬਾਰੇ ਜਾਣਨ 'ਚ ਰੁਚੀ ਹੈ।

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam