’’جہنم ہے یہ۔‘‘

کشمیرہ بائی صنعتی کچروں سے آلودہ ہوئے آبی ذخیرہ بڈھے نالے کے بارے میں بتا رہی ہیں، جو ان کے گاؤں سے ہو کر گزرتا ہے اور اس کا پانی ان کے گھر سے سو میٹر دور ستلج ندی میں جا کر گرتا ہے۔

کشمیرہ بائی کی عمر تقریباً پچاس سال کے آس پاس ہے۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کسی زمانے میں ندی صاف ہوا کرتی تھی اور لوگ بغیر کسی پریشانی کے اس کا پانی پیتے تھے۔ بڈھا نالہ، لدھیانہ کے کوم کلاں گاؤں سے شروع ہو کر ۱۴ کلومیٹر تک بہتا ہے اور کشمیرہ بائی کے گاؤں ولی پور کلاں کے پاس ستلج میں مل جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’ہم دوزخ میں بیٹھے ہیں۔ جب بھی سیلاب آتا ہے، گندا کالا پانی ہمارے گھروں میں گھس جاتا ہے۔ برتن میں رکھنے پر پانی رات بھر میں پیلا پڑ جاتا ہے۔‘‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: بڈھا نالہ، لدھیانہ کے کوم کلاں گاؤں سے شروع ہو کر ۱۴ کلومیٹر تک بہتا ہے اور ولی پور کلاں گاؤں کے پاس ستلج میں مل جاتا ہے۔ دائیں: ولی پور کلاں کی کشمیرہ بائی کہتی ہیں، ’جب سیلاب آتا ہے تو اس کا گندا کالا پانی ہمارے گھروں میں گھس جاتا ہے‘

آلودہ پانی سے بدحال لوگوں کو حکومت کے ذریعہ نظر انداز کیے جانے کے خلاف پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے سینکڑوں لوگوں نے ۲۴ اگست، ۲۰۲۴ کو لدھیانہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ’کالے پانی دا مورچہ‘ (آبی آلودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ) کے بینر تلے، اس مظاہرہ میں ستلج کے کنارے کے علاقوں میں متاثر لوگ شامل تھے۔

’اب بڈھے نالے کو بخش دو، ستلج کو سانس لینے دو۔‘

بڈھا نالہ میں آلودگی کے خلاف احتجاج نیا نہیں ہے اور نہ ہی اس کی صفائی کے لیے چلائے جانے والے منصوبے۔ یہ دونوں چیزیں گزشتہ تین دہائیوں سے چلتی آ رہی ہیں، لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ پہلا منصوبہ – ستلج کی صفائی کے لیے ایکشن پلان – ۱۹۹۶ میں شروع کیا گیا تھا۔ جمال پور، بھٹیاں اور بلّوکے گاؤوں میں تین سیویج مشینیں (ایس ٹی پی) لگائی گئی تھیں۔

سال ۲۰۲۰ میں، حکومت پنجاب نے بڈھا نالہ کے لیے ۶۵۰ کروڑ روپے کا دو سالہ باز احیا منصوبہ شروع کیا تھا۔ وزیر اعلی بھگونت مان نے پچھلی سرکار پر الزام لگاتے ہوئے، جمال پور میں ریاست کے سب سے بڑے ایس ٹی پی اور بڈھا نالہ کے احیا کے لیے ۳۱۵ کروڑ روپے کے دیگر منصوبوں کا آغاز کیا۔

سیاسی پارٹیوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی جاری ہے۔ کشمیرہ کہتی ہیں کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لدھیانہ میں سماجی کارکن حکومت پنجاب کے سامنے بار بار اس مسئلہ کو اٹھاتے رہے ہیں، لیکن کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی نالہ آلودہ ہی ہے، جس سے لوگوں کو بار بار سڑکوں پر اترنا پڑتا ہے۔

مَلکیت کور (۶۰)، مانسا ضلع کے احمد پور سے اس احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے آئی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’صنعتوں کے ذریعہ نالے میں جانے والے آلودہ پانی سے ہمیں کئی قسم کی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور ہمیں صاف پانی ملنا ہی چاہیے۔‘‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: ۲۴ اگست، ۲۰۲۴ کو کالے پانی دا مورچہ (آبی آلودگی کے خلاف مارچ) نکالا گیا۔ بڈھا نالہ موسمی آبی ذخیرہ ہے، جو لدھیانہ سے گزرنے کے بعد ستلج ندی میں جا کر مل جاتا ہے۔ دائیں: احتجاجی مارچ میں راجستھان کے لوگوں نے بھی حصہ لیا

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: ایک سماجی کارکن کے پوسٹر پر لکھا ہے ’نل ہے لیکن جل (پانی) نہیں‘۔ دائیں: مَلکیت کور (بائیں سے چوتھی) مانسا ضلع کے احمد پور سے احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ صنعتوں کے ذریعہ نالے میں جانے والے آلودہ پانی سے ہمیں کئی قسم کی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور ہمیں صاف پانی ملنا ہی چاہیے‘

کشمیرہ بائی کہتی ہیں کہ ان کا گاؤں ولی پور کلاں زیر زمین پانی پر منحصر ہے۔ بورویل کو ۳۰۰ فٹ تک نیچے کھودنا پڑتا ہے، جس میں ۳۵ سے ۴۰ ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی صاف پانی ملے، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ان گاؤوں کے خوشحال گھروں میں پینے کے پانی کے لیے واٹر فلٹر لگے ہوئے ہیں، جن کی لگاتار سروسنگ کرانی پڑتی ہے۔

اسی گاؤں کی ۵۰ سالہ بلجیت کور نے ہیپے ٹائٹس کے سبب اپنا بیٹا کھو دیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے دونوں بیٹے ہیپے ٹائٹس سی سے متاثر تھے اور ان میں سے ایک کی اس وجہ سے موت ہو گئی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اس گاؤں اور ارد گرد کے گاؤوں میں اس بیماری سے کئی لوگ متاثر ہیں۔

راجوندر کور (۴۵) بھٹنڈا کے گونیان منڈی سے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم احتجاجی مارچ کر رہے ہیں، کیوں کہ اگر آج ہم نہیں جاگے، تو ہماری آنے والی نسل کبھی اچھی زندگی نہیں بسر کر پائے گی۔ ماحولیاتی آلودگی کے سبب اب ہر گھر میں کینسر کا ایک مریض ہے۔ ستلج کے پانی کو آلودہ کرنے والی ان فیکٹریوں کو بند کر دینا چاہیے۔ ہماری اگلی نسلیں تبھی بچ پائیں گی، جب یہ کارخانے بند ہو جائیں گے۔‘‘

لدھیانہ میں کالے پانی دا مورچہ میں حصہ لینے والی ایک دوسری کارکن بی بی جیون جوت کور کہتی ہیں، ’’یہ ہمارے وجود کی لڑائی ہے۔ یہ اگلی نسل کو بچانے کی لڑائی ہے۔‘‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: بلجیت کور کے ایک بیٹے کی موت ہیپے ٹائٹس سی سے ہو گئی تھی۔ دائیں: بھٹنڈا کے گونیانا منڈی کی راجوندر کور (گلابی دوپٹہ میں) بتاتی ہیں، ’اگر آج ہم احتجاج نہیں کریں گے، تو ہماری آنے والی نسل کبھی بہتر زندگی نہیں دیکھ پائے گی‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: مظاہرہ میں حصہ لینے والے ایک کارکن کے بینر پر لکھا تھا، ’آئیے ہم پنجاب کی ندیوں کی زہریلی آلودگی کو روکیں۔‘ دائیں: زرعی ماہر دیوندر شرما نے احتجاجی مظاہرہ کے دوران کہا، ’گزشتہ ۴۰ برسوں سے یہ کارخانے ہماری ندیوں کو آلودہ کر رہے ہیں اور کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے‘

امن دیپ سنگھ بینس اس مورچہ کی قیادت کرنے والے کارکنوں میں سے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مسئلہ کی جڑ پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ حکومت اگر واقعی میں منصوبوں کے تحت اسے صاف کرنا چاہتی ہے، تو پھر ان صنعتوں کو ندیوں میں اپنا کچرا بہانے کی اجازت کیوں دیتی ہے؟ آلودہ مادوں کو دریا میں بالکل بھی بہانا نہیں چاہیے۔‘‘

لدھیانہ کے ایک وکیل کہتے ہیں، ’’رنگ کے کارخانوں کو بند کر دینا چاہیے۔‘‘

لدھیانہ میں تقریباً ۲۰۰۰ صنعتی الیکٹرو پلیٹنگ کارخانے اور ۳۰۰ رنگائی کارخانے ہیں۔ اور بڈھا نالہ کو آلودہ کرنے کے لیے دونوں ہی ایک دوسرے پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ لدھیانہ کے صنعت کار بدیش جندل نے پاری سے بات چیت میں کہا، ’’پنجاب پوائزن پزیشن اینڈ سیلز قانون، ۲۰۱۴ کے مطابق، انتظامیہ کو کسی بھی زہریلے کیمیا کی فروخت اور خرید کا ریکارڈ رکھنا ہوگا۔ لیکن انتظامیہ کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ صنعتوں کو زیرو لیکوئڈ ڈسچارج (زیڈ ایل ڈی) واٹر ٹریٹمنٹ پروسیس اپنانا ہوگا۔ کارخانوں کا کوئی بھی کچرا – ٹریٹیڈ یا اَن ٹریٹیڈ – بڈھا نالے میں نہیں جانا چاہیے۔‘‘

زرعی ماہر دیوندر شرما نے آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو پوری طرح سے بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ پاری سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ صنعتیں ۴۰ سالوں سے ہماری ندیوں کو آلودہ کر رہی ہیں اور کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ ہم گندگی پھیلانے والی صنعتوں کو فروغ کیوں دے رہے ہیں؟ صرف سرمایہ کاری کے لیے؟ حکومتوں کو ماحولیاتی تحفظ اور صحت عامہ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔‘‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

آلودہ پانی (دائیں) سے متاثرہ گاؤں ولی پور کلاں کے (بائیں سے دائیں) نارنگ سنگھ، دوندر سنگھ، جگ جیون سنگھ، وشاکھا سنگھ گریوال

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

لدھیانہ میں تقریباً ۲۰۰۰ صنعتی الیکٹرو پلیٹنگ کارخانے اور ۳۰۰ رنگوں کے کارخانے ہیں۔ دونوں آلودگی پھیلانے کے لیے ایک دوسرے پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ لدھیانہ ضلع کے غوث پور گاؤں (دائیں) کے پاس سے گزرتا بڈھا نالہ

کارکنوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ رنگائی کارخانوں کو واضح طور پر ہدایت دی گئی تھی کہ کسی بھی سیال مادّہ، یہاں تک کہ ٹریٹیڈ کچرے/پانی کو بڈھا نالے میں نہیں بہایا جائے گا۔ حال ہی میں، این جی ٹی کی سماعت کے دوران دستاویزوں سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ کارکن سوال کرتے ہیں کہ پنجاب آلودگی کنٹرول بورڈ (پی پی سی بی) ۱۱-۱۰ سال تک اس مسئلہ پر خاموش کیوں رہی؟

پنجاب کے کارکن سوال کرتے ہیں، ’’اگر تریپورہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں پر پابندی لگا سکتا ہے، تو پنجاب کیوں نہیں؟‘‘

*****

جب بڈھا نالہ کا پانی لدھیانہ اور نیچے کی طرف گاؤوں سے ہو کر بہتا ہے، تو نالے کا صاف پانی کالا ہو جاتا ہے۔ یہ آگے جا کر ستلج میں ملتا ہے۔ یہ چکنا سیال مادّہ راجستھان سے ہو کر پاکستان جاتا ہے اور پھر بحیرہ عرب میں جا کر مل جاتا ہے۔ سیٹلائٹ کی تصویریں بھی ہریکے پتّن میں بیاس اور ستلج ندی کے پانی کے درمیان کے فرق کو دکھاتی ہیں، جہاں دونوں ندیاں ملتی ہیں۔

PHOTO • Courtesy: Trolley Times
PHOTO • Courtesy: Trolley Times

مظاہرین بتاتے ہیں کہ مسئلہ کی بنیادی وجہ پر کسی کی توجہ نہیں ہے اور حکومت صفائی کے لیے منصوبے تو چلاتی ہے، لیکن کسی بھی کارخانے کو پانی میں کچرا بہانے سے نہیں روکتی۔ دائیں: ستلج میں داخل ہوتا ہوا بڈھا نالہ (سال ۲۰۲۲ کی تصویر)

اس سال، ۱۳ اگست ۲۰۲۴ کو ایک ردعمل میں (جس کی ایک کاپی پاری کے پاس ہے)، مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ (س پی سی بی) نے بڈھا نالہ میں آلودگی کی حالت پر نیشنل گرین ٹربیونل (این جی ٹی) کو جواب دیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ شہر میں تین سی ای ٹی پی ’’ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کے ذریعہ جاری ماحولیاتی منظوری میں متعینہ نمٹان شرائط کی تعمیل نہیں کرتے پائے گئے ہیں۔‘‘

سی پی سی بی نے پچھلی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ بڈھا نالہ کا پانی سینچائی کے لیے صحیح نہیں ہے۔ کارکنوں نے کہا کہ ’’اگر یہ پانی کھیتی کے لیے صحیح نہیں ہے، تو اس پانی کو پیا جا سکتا ہے؟‘‘

احتجاجی مارچ کے منتظمین نے ایک مشترکہ بیان میں ۱۵ ستمبر کو بڈھا نالہ کو بند کرنے کا اعلان کیا اور پھر بعد میں اسے بڑھا کر یکم اکتوبر کر دیا۔ اس اعلان کے بعد، ۲۵ ستمبر کو پی پی سی بی نے تین سی ای ٹی پی سے بڈھے نالے میں گرنے والے کچرے کو فوراً بند کرنے کا حکم دیا۔ حالانکہ، رپورٹ کے مطابق ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

کچرے کے بہاؤ کو فوراً روکنے کے لیے، کارکنوں نے یکم اکتوبر کو لدھیانہ کے فیروز پور روڈ پر دھرنا دیا اور حکومت کو ۳ دسمبر، ۲۰۲۴ تک کارروائی کرنے کو کہا۔

سرکاری سروے اور وعدوں سے پریشان بلجیت کور نے کہا، ’’وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی آتا رہتا ہے اور بڈھے نالے سے نمونہ لے جاتا ہے، لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ یا تو اس آلودگی کو روکا جانا چاہیے یا ہمیں صاف پانی مہیا کرایا جانا چاہیے، تاکہ ہمارے بال بچے ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Arshdeep Arshi

ਅਰਸ਼ਦੀਪ, ਚੰਡੀਗੜ੍ਹ ਵਿੱਚ ਰਹਿੰਦਿਆਂ ਪਿਛਲੇ ਪੰਜ ਸਾਲਾਂ ਤੋਂ ਪੱਤਕਾਰੀ ਦੀ ਦੁਨੀਆ ਵਿੱਚ ਹਨ ਤੇ ਨਾਲ਼ੋਂ-ਨਾਲ਼ ਅਨੁਵਾਦ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਪੰਜਾਬੀ ਯੂਨੀਵਰਸਿਟੀ, ਪਟਿਆਲਾ ਤੋਂ ਅੰਗਰੇਜੀ ਸਾਹਿਤ (ਐੱਮ. ਫਿਲ) ਦੀ ਪੜ੍ਹਾਈ ਕੀਤੀ ਹੋਈ ਹੈ।

Other stories by Arshdeep Arshi
Editor : Priti David

ਪ੍ਰੀਤੀ ਡੇਵਿਡ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਇਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਐਜੁਕੇਸ਼ਨ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੇਂਡੂ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਕਲਾਸਰੂਮ ਅਤੇ ਪਾਠਕ੍ਰਮ ਵਿੱਚ ਲਿਆਉਣ ਲਈ ਸਿੱਖਿਅਕਾਂ ਨਾਲ ਅਤੇ ਸਮਕਾਲੀ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜਾ ਦੇ ਰੂਪ ’ਚ ਦਰਸਾਉਣ ਲਈ ਨੌਜਵਾਨਾਂ ਨਾਲ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹਨ ।

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique