کپاس کی کھیتی کرنے والی کسان سنیتا بُھرکُٹے کی مادری زبان کولامی ہے، لیکن وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ مراٹھی بول کر گزارتی ہیں۔ ’’اپنا کپاس بیچنے کے لیے بازار کی زبان جاننا ضروری ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

مہاراشٹر کے یوَتمال ضلع میں پلی بڑھیں سنیتا کی کولام آدیواسی فیملی گھروں میں اپنی زبان، یعنی کولامی بولتی تھی۔ سنیتا یاد کرتی ہیں کہ کس طرح ان کے ماہیر (میکے) سُر دیوی پوڑ (بستی) میں ان کے دادا دادی کو مقامی زبان مراٹھی بولنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’وہ کبھی اسکول نہیں گئے، وہ ہکلاتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں [مراٹھی] بولتے تھے۔‘‘

لیکن جیسے جیسے فیملی کے زیادہ تر افراد مقامی منڈیوں میں کپاس فروخت کرنے کے لیے جانے لگے، انہوں نے یہ زبان سیکھ لی۔ آج بھولگڑ گاؤں کی ان کی بستی میں موجود سبھی لوگ، جو کولام آدیواسی ہیں، کثیر لسانی ہیں۔ وہ مراٹھی بولتے ہیں، ہندی کے چند جملے ادا کرلیتے ہیں، اور کولامی تو بولتے ہی ہیں۔

کولامی ایک دراوڑی زبان ہے جو زیادہ تر مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور چھتیس گڑھ میں بولی جاتی ہے۔ یونیسکو کے ایٹلس آف دی ورلڈ لینگویجز ان ڈینجرز (خطرے سے دوچار عالمی زبانوں کا ایٹلس) کے مطابق، اسے ’یقینی طور پر معدومیت کے خطرے سے دوچار‘ زبان کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے۔ اس درجہ بندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچے اب اسے مادری زبان کے طور پر نہیں سیکھ رہے ہیں۔

’’پن آمچی بھاشا کمی ہوت ناہیں۔ امہی واپرت [لیکن ہماری زبان معدوم نہیں ہو رہی ہے، ہم اسے استعمال کر رہے ہیں]!‘‘ ۴۰ سالہ سنیتا کہتی ہیں۔

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

کپاس کی کھیتی کرنے والی کولام آدیواسی کسان سنیتا بُھرکُٹے (بائیں)۔ پریرنا گرام وکاس (دائیں) ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو مہاراشٹر کے یوَتمال کے بُھولگڑ گاؤں میں کولام آدیواسیوں کی کمیونٹی رجسٹر کے اندراجات کا حساب رکھتی ہے

مہاراشٹر میں کولام آدیواسیوں کی آبادی ۱۹۴۶۷۱ ہے (ہندوستان میں درج فہرست قبائل کا شماریاتی پروفائل، ۲۰۱۳ )، لیکن ان میں سے ادھے سے بھی کم نے مردم شماری کے اعداد و شمار میں کولامی کو اپنی مادری زبان کے طور پر درج کرایا ہے۔

سنیتا کہتی ہیں، ’’ہمارے بچے اسکول میں مراٹھی سیکھتے ہیں۔ یہ کوئی مشکل زبان نہیں ہے، لیکن کولامی مشکل ہے۔ اسکولوں میں ایسے ماسٹر [اساتذہ] نہیں ہیں، جو ہماری زبان بول سکیں۔‘‘ اپنے والد کی موت کے بعد اسکول چھوڑنے سے پہلے انہوں نے بھی دوسری کلاس تک مراٹھی میں ہی تعلیم حاصل کی تھی۔

پاری نے سنیتا سے جب ملاقات کی، تو وہ اپنے تین ایکڑ کھیت میں کپاس چننے میں مصروف تھیں۔ ’’مجھے سیزن ختم ہونے سے پہلے انہیں چننا ہوگا،‘‘ انہوں نے ہمیں بتایا تھا۔ جب وہ کپاس کے خولوں سے سفید روئی چن رہی تھیں تو ان کے ہاتھ ہم آہنگی کے ساتھ حرکت کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ منٹوں میں ان کی اوڈی آدھی بھر چکی تھی۔

سنیتا کہتی ہیں، ’’یہ کاپس [کپاس کے لیے مراٹھی لفظ] کی آخری دو باقی ماندہ تاس [قطار کے لیے مراٹھی اور کولامی میں استعمال کیا جانے والا لفظ] ہیں۔ انہوں نے اپنے کپڑوں کے اوپر ایک قمیض پہن رکھی ہے، کیونکہ ’’خشک ریکا [پھول کی ڈنٹھل یا کیلکس کے لیے کولامی میں استعمال ہونے والا لفظ] اور گڈّی [کولامی میں گھاس پھوس کے لیے لفظ] اکثر میری ساڑی سے الجھ کر اسے پھاڑ دیتے ہیں۔‘‘ کیلکس کپاس کا سب سے باہری غلاف ہوتا ہے جو پھول کو سنبھال کر رکھتا ہے، اور گڈی کپاس کے کھیتوں میں اگنے والی ناپسندیدہ گھاس کی ایک عام قسم ہے۔

دوپہر کو جیسے ہی درجہ حرارت بڑھتا ہے، وہ ایک سیلانگا نکال کر اپنے سر پر باندھتی ہیں۔ سیلانگا سوتی کا ایک چھوٹا کپڑا ہوتا ہے، جسے سورج کی تپش سے بچنے کے لیے پگڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کھیت میں کام کرنے والے کپڑوں میں سب سے اہم اوڈی ہوتی ہے، جو کہ ایک لمبا سا کپڑا ہوتا ہے، عموماً ایک سوتی ساڑی، جسے کندھوں اور کولہوں پر باندھا جاتا ہے تاکہ وہ دن بھر کپاس چن کر اس میں جمع کر سکیں۔ وہ ایک مختصر وقفے کے ساتھ سات گھنٹے تک کام کرتی ہیں اور کبھی کبھی ایر (کولامی میں پانی کے لیے لفظ)  پینے کے لیے قریبی کنویں کی طرف چلی جاتی ہیں۔

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

سنیتا تین ایکڑ زمین پر کپاس اگاتی ہیں۔ ’مجھے سیزن ختم ہونے سے پہلے انہیں چن لینا ہوگا۔‘ وہ دن بھر روئی چنتی رہتی ہیں، اور کبھی کبھی قریب کے کنویں کی طرف اِیر (کولامی میں پانی) پینے چلی جاتی ہیں

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

سنیتا نے پودوں سے الجھ کر اپنے کپڑے کو پھٹنے سے بچانے کے لیے اوپر سے ایک قمیض پہن رکھی ہے۔ جیسے ہی دوپہر کا درجہ حرارت بڑھتا ہے، وہ ایک سیلانگا نکالتی ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا سوتی کپڑا ہوتا ہے جسے سورج کی تپش سے بچنے کے لیے پگڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ روئی جمع کرنے کے لیے اپنے کولہوں کے گرد اوڈی بھی باندھتی ہیں

اکتوبر ۲۰۲۳ سے شروع کرکے سیزن کے اختتام (جنوری ۲۰۲۴) تک، سنیتا نے ۱۵۰۰ کلو کپاس چنے تھے: ’’دراصل کپاس کی چنائی کبھی بھی میرے لیے چیلنج نہیں تھی۔ میرا تعلق ایک کسان گھرانے سے ہے۔‘‘

ان کی شادی تقریباً ۲۰ سال کی عمر میں ہو گئی تھی، لیکن ۲۰۱۴ میں شادی کے ۱۵ سال بعد ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ ’’انہیں تین دنوں تک بخار رہا۔‘‘ جب ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی، تو سنیتا انہیں یوَتمال کے ضلع اسپتال لے کر گئیں۔ ’’سب کچھ اچانک ہو گیا تھا۔ آج تک مجھے ان کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔‘‘

سنیتا اپنے دو بچوں کے ساتھ تنہا رہ گئیں: ’’ارپیتا اور آکاش بمشکل ۱۰ سال کے تھے، جب مانوش [شوہر] کی موت ہوئی تھی۔ ایسے وقت بھی آئے جب مجھے تنہا کھیتوں پر جانے سے ڈر لگتا تھا۔ ’’انہیں لگتا ہے کہ ان کی مراٹھی بولنے کی صلاحیت نے پڑوسی کھیتوں کے کسان دوستوں کا اعتماد جیتنے میں ان کی مدد کی تھی۔ ’’جب ہم کھیت میں یا بازار میں ہوتے ہیں، تو ہمیں ان کی زبان بولنی پڑتی ہے، ہے نا؟ کیا وہ ہماری بولی سمجھیں گے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔

اگرچہ انہوں نے کاشتکاری جاری رکھی، لیکن وہ بتاتی ہیں کہ کئی لوگ ان کے بازار جانے کے خلاف تھے، کیوں کہ کپاس کے بازار میں مردوں کی اکثریت ہے۔ ’’میں صرف فصل چنتی ہوں، آکاش [بیٹا] اسے بیچتا ہے۔‘‘

کپاس چُنتے وقت سنیتا بُھرکُٹے اپنی بات رکھتی ہیں

سنیتا بُھرکُٹے کی مادری زبان کولامی ہے، لیکن وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ مراٹھی بول کر گزارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’اپنا کپاس بیچنے کے لیے ہمیں بازار کی زبان سیکھنی پڑتی ہے،‘

*****

کولام آدیواسی برادری کو خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروپ (پی وی ٹی جی) کے طور پر درج کیا گیا ہے، جو مہاراشٹر کے تین پی وی ٹی جی میں سے ایک ہے۔ یہ لوگ آندھرا پردیش، تلنگانہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی رہتے ہیں۔

مہاراشٹر میں یہ برادری خود کو ’کولاور‘ یا ’کولا‘ کہتی ہے، موٹے طور پر جس کے معنی بانس یا لکڑی کی چھڑی کے ہیں۔ ان کا روایتی پیشہ بانس کی ٹوکری، چٹائی، باڑ اور پنکھے بنانا تھا۔

سنیتا یاد کرتی ہیں، ’’جب میں چھوٹی تھی، تو میں نے اپنے دادا دادی کو اپنے استعمال کے لیے ویدور [بانس] سے مختلف چیزیں بناتے دیکھا تھا۔‘‘ جب وہ جنگلوں سے باہر نکل کر میدانی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے، تو جنگل اور گھر کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا اور، ’’میرے والدین نے کبھی وہ ہنر نہیں سیکھا،‘‘ اور نہ ہی سنیتا نے سیکھا۔

کاشتکاری ان کا ذریعہ معاش ہے اور ’’اگرچہ میرے پاس میری زیر کاشت زمینیں ہیں، لیکن آج بھی اگر فصل ناکام ہو جاتی ہے، تو مجھے کام کے لیے کسی اور کے کھیت میں جانا پڑے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان جذبات کی ترجمانی کولام قبیلہ کے دوسرے کسان بھی کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتی ہے اور اپنے زرعی اور دیگرقرضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ سنیتا نے گزشتہ جون ۲۰۲۳ میں بوائی کے موسم کے دوران ۴۰ ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں، ’’کپاس بیچنے کے بعد، جون تک کوئی کام نہیں ہوتا۔ مئی سب سے مشکل مہینہ ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے تقریباً ۱۵۰۰ کلو گرام کپاس کی پیداوار حاصل کی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ انہیں فی کلوگرام  ۶۲-۶۵ روپے ملتے ہیں، ’’یعنی کل ملاکر تقریباً ۹۳۰۰۰ روپے۔ ساہوکار کو سود کے ساتھ ۲۰ ہزار روپے کا قرض ادا کرنے کے بعد، میرے پاس پورے سال کے لیے بمشکل ۳۵ ہزار روپے باقی بچتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

سنیتا کہتی ہیں کہ اگر فصل خراب ہو جاتی ہے، تو دوسرے کولام آدیواسیوں (خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروپ) کی طرح ’مجھے بھی کام کے لیے کسی اور کے کھیت میں جانا پڑے گا۔‘ بہت سے کولام زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنے زرعی اور دیگر قرضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

بائیں: گُھبڈ ہیٹی گاؤں کی خواتین کسان مکر سنکرانتی (فصل کی کٹائی کا تہوار) منا رہی ہیں، دائیں: بیجوں کو ایک کمیونٹی سیڈ بینک میں محفوظ کیا جا رہا ہے

مقامی دکاندار انہیں چھوٹی سی رقم ادھار دیتے ہیں، لیکن انہیں ہر سال مانسون سے پہلے اس رقم کو واپس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ’’اس کا ۵۰۰ دو، اس کا ۵۰۰ دو۔ یہ سب کرتے کرتے سب ختم! کچھ بھی نہیں ملتا… سارے دن کام کرو اور مرو!‘‘ وہ جھینپتی ہوئی ہنسی ہنستے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگتی ہیں۔

تین سال پہلے سنیتا نے کیمیکل سے آرگینک کھیتی کی طرف رخ کر لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے مشرا پیک شیتی [بین فصلی/ملی جلی فصل] کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے مونگ، اُڑد، جوار، باجرہ، تل، سویٹ کارن اور تور (ارہر) کے بیج گاؤں کی خواتین کسانوں کے ذریعہ قائم کردہ بیج بینک سے حاصل کیے۔ درحقیقت، تور اور مونگ کی کاشت نے پچھلے سال مئی اور جون کے مہینوں میں جب ان کے پاس کام نہیں تھا تو ان کی کافی مدد کی تھی۔

لیکن جیسے ہی ایک مسئلہ حل ہوا، دوسرا آن کھڑا ہوا۔ حالانکہ تور کی فصل اچھی نکلی، لیکن دوسری فصلوں کے اچھے نتائج نہیں آئے: ’’جنگلی سؤروں نے ساری فصل برباد کر دی،‘‘ سنیتا کہتی ہیں۔

*****

اب سورج غروب ہونے والا ہے، سنیتا نے اپنی چنی ہوئی روئی کو مُڈی (گول بنڈل) میں لپیٹنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے آج کے دن کا اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ آخری باقی ماندہ قطاروں سے انہوں نے تقریباً چھ کلو کپاس حاصل کیا ہے۔

لیکن ان کے پاس کل کے لیے پہلے سے ہی ایک ہدف مقرر ہے: وہ جمع کیے گئے کپاس سے کیسرا (کولامی میں فضلہ) اور خشک ریکا نکالنے کا کام کریں گی۔ اور پھر اگلے دن اسے بازار کے لیے تیار کریں گی۔

PHOTO • Ritu Sharma
PHOTO • Ritu Sharma

کپاس کو گھر میں ذخیرہ کرنے کے لیے ایک مُڈی (گول بنڈل) میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے

’’[اپنے کھیتوں کے علاوہ] کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے،‘‘ معدومیت کے خطرے سے دوچار زبان کی کولامی کی حیثیت کے بارے میں وہ کہتی ہیں۔ جب سنیتا اور ان کی برادری کے لوگوں کو روانی سے مراٹھی بولنا نہیں آتی تھی، تو ’’ہر کوئی کہتا تھا ’مراٹھی میں بات کرو! مراٹھی میں بات کرو‘!‘‘ اور اب جب زبان خطرے میں پڑ گئی ہے، تو ’’ہر کوئی چاہتا ہے کہ ہم کولامی میں بات کریں،‘‘ وہ ہنستی ہیں۔

’’ہم اپنی زبان بولتے ہیں۔ ہمارے بچے بھی بولتے ہیں،‘‘ وہ زور دے کر کہتی ہیں۔ ’’جب ہم باہر جاتے ہیں تبھی مراٹھی میں بات کرتے ہیں۔ جب گھر واپس آتے ہیں تو ہم اپنی زبان بولتے ہیں۔‘‘

’’آپلی بھاشا آپلیچ رہیلی پاہیجے [ہماری زبان پر ہمارا ہی حق ہونا چاہیے]۔ کولامی کو کولامی اور مراٹھی کو مراٹھی ہی رہنا چاہیے۔ یہی بات معنی رکھتی ہے۔‘‘

رپورٹر، پریرنا گرام وکاس سنستھا کی مادھوری کھڈسے اور آشا کریوا، اور کولامی کو سمجھنے میں مدد کرنے کے لیے سائی کرن ٹیکام کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہیں۔

پاری کے معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کے پروجیکٹ (ای ایل پی) کا مقصد ہندوستان کی کمزور زبانوں کی ان کے بولنے والے لوگوں کی آوازوں اور ان کے تجربات کے ذریعے دستاویز سازی کرنا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Ritu Sharma

ਰਿਤੂ ਸ਼ਰਮਾ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਖ਼ਤਰੇ ਵਿੱਚ ਪਈਆਂ ਭਾਸ਼ਾਵਾਂ ਦੀ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਭਾਸ਼ਾ ਵਿਗਿਆਨ ਵਿੱਚ ਐਮ.ਏ. ਕੀਤੀ ਹੈ ਅਤੇ ਭਾਰਤ ਦੀਆਂ ਬੋਲੀਆਂ ਜਾਣ ਵਾਲ਼ੀਆਂ ਭਾਸ਼ਾਵਾਂ ਨੂੰ ਸੁਰੱਖਿਅਤ ਅਤੇ ਮੁੜ ਸੁਰਜੀਤ ਕਰਨ ਦੀ ਦਿਸ਼ਾ ਵਿੱਚ ਕੰਮ ਕਰਨਾ ਚਾਹੁੰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Ritu Sharma
Editor : Sanviti Iyer

ਸੰਵਿਤੀ ਅਈਅਰ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਕੰਟੈਂਟ ਕੋਆਰਡੀਨੇਟਰ ਹਨ। ਉਹ ਉਹਨਾਂ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਦੀ ਵੀ ਮਦਦ ਕਰਦੀ ਹਨ ਜੋ ਪੇਂਡੂ ਭਾਰਤ ਦੇ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਲੈ ਰਿਪੋਰਟ ਕਰਦੇ ਹਨ ਜਾਂ ਉਹਨਾਂ ਦਾ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਕਰਦੇ ਹਨ।

Other stories by Sanviti Iyer
Editor : Priti David

ਪ੍ਰੀਤੀ ਡੇਵਿਡ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਇਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਐਜੁਕੇਸ਼ਨ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੇਂਡੂ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਕਲਾਸਰੂਮ ਅਤੇ ਪਾਠਕ੍ਰਮ ਵਿੱਚ ਲਿਆਉਣ ਲਈ ਸਿੱਖਿਅਕਾਂ ਨਾਲ ਅਤੇ ਸਮਕਾਲੀ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜਾ ਦੇ ਰੂਪ ’ਚ ਦਰਸਾਉਣ ਲਈ ਨੌਜਵਾਨਾਂ ਨਾਲ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹਨ ।

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam