اگست کے مہینہ میں پنّا ضلع میں بارش ہوتی رہی اور کیتھا بارو باندھ اپنی پوری گنجائش تک بھر گیا۔ یہاں قریبی پنّا ٹائیگر ریزرو (پی ٹی آر) میں واقع پہاڑیوں کا گریزی آب (رن آف) آ کر گرتا ہے۔

سورین آدیواسی ہتھوڑے کے ساتھ باندھ پر پہنچتے ہیں۔ وہ تیزی سے بہتے پانی کا بغور معائنہ کرتے ہیں، اور یہ جانچ کرتے ہیں کہ کوئی نیا پتھر یا ملبہ پانی کے بہاؤ کو روک تو نہیں رہا ہے۔ پانی کے بہاؤ کو بہتر بنانے کے لیے وہ ہتھوڑے کے استعمال سے دو چار پتھروں کو ادھر ادھر منتقل کرتے ہیں۔

’’میں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ پانی اچھی طرح بہہ رہا ہے یا نہیں،‘‘ وہ پاری کو بتاتے ہیں۔ ’’ہاں، بہاؤ ٹھیک ہے،‘‘ بل پورہ گاؤں کا یہ چھوٹا کسان اثبات میں سر ہلاتا ہے۔ انہیں اس بات سے راحت محسوس ہوئی کہ ان کی دھان کی فصل، جو بہاؤ سے چند میٹر نیچے کی جانب ہے، نہیں سوکھے گی۔

چھوٹے سے باندھ کو نظر بھر کر دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اب ہم چاول اور گندم اُگا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے میں یہاں موجود اپنی ایک ایکڑ زمین کو نہ تو سیراب کر سکتا تھا اور نہ کاشت کرسکتا تھا۔‘‘

بِل پورہ کے لوگوں نے باندھ کی تعمیر میں مدد بہم پہنچا کر یہ نعمت خود حاصل کی ہے۔

تقریباً ایک ہزار کی آبادی والے بِل پورہ گاؤں میں زیادہ تر گونڈ آدیواسی (درج فہرست قبائل) کسان آباد ہیں، جن میں سے ہر ایک کے پاس چند مویشی بھی ہیں۔ مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق گاؤں میں صرف ایک ہینڈ پمپ اور ایک کنواں تھا۔ ریاست نے علاقہ میں اور اس کے آس پاس کئی تالاب بنوائے ہیں، جنہیں پتھروں سے گھیر دیا گیا ہے، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں کوئی آبگیرہ (کیچمنٹ) نہیں ہے اور، ’’پانی رکتا نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: سُرین آدیواسی ہتھوڑے کے ساتھ باندھ پر پہنچتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پانی کا بہاؤ کھیتوں کی طرف رہے۔ دائیں: مہاراج سنگھ آدیواسی کہتے ہیں، ’پہلے یہاں کوئی کھیتی نہیں ہوتی تھی۔ میں تعمیراتی مقامات پر یومیہ اجرت پر کام کرنے کے لیے دہلی اور ممبئی جایا کرتا تھا‘

گاؤں کے لوگوں کی ملکیت میں تقریباً ۸۰ ایکڑ اراضی ہے، جو باندھ اور ان کے گاؤں کے درمیان واقع ہے۔ مہاراج سنگھ کہتے ہیں، ’’پہلے یہاں ایک چھوٹا نالہ ہوا کرتا تھا اور اس کا پانی چند ایکڑ زمین میں ہی استعمال ہو جاتا تھا۔ باندھ بننے کے بعد اب ہم سب اپنے کھیتوں میں فصلیں لگا سکتے ہیں۔‘‘

مہاراج بھی باندھ کے مقام پر آئے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اپنے استعمال کے لیے انہوں نے جس پانچ ایکڑ زمین پر  گندم، چنا، چاول اور مکئی کی فصل لگائی ہے وہ محفوظ ہے۔ اچھی فصل والے سال میں وہ کچھ اضافی پیداوار فروخت بھی کرلیتے ہیں۔

’’یہ پانی میرے کھیت میں جاتا ہے،‘‘ وہ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’پہلے یہاں کوئی کاشت کاری نہیں ہوتی تھی۔ میں تعمیراتی مقام پر یومیہ اجرت پر کا کام کرنے کے لیے دہلی اور ممبئی جایا کرتا تھا۔‘‘ انہوں نے ایک پلاسٹک اور پھر دھاگے کی کمپنی میں بھی کام کیا تھا۔

سال ۲۰۱۶ میں جب سے باندھ کی دوبارہ تعمیر ہوئی ہے، انہیں باہر نہیں جانا پڑا ہے – کاشت کاری سے ہونے والی آمدنی سے وہ اپنی اور اپنے کنبے کی کفالت کر رہے ہیں۔ باندھ کا پانی اب سال بھر رہتا ہے اور یہ مویشیوں کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔

باندھ کی تعمیر نو کا اقدام ایک غیرسرکاری تنظیم پیپلز سائنس انسٹی ٹیوٹ (پی ایس آئی) کی جانب سے منعقدہ ایک عوامی اجلاس کا نتیجہ تھا۔ پی ایس آئی کے کلسٹر کوآرڈینیٹر شرد یادو کہتے ہیں، ’’مقامی لوگوں سے بات کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ان سب کے پاس زمینیں ہیں، لیکن باقاعدہ آبپاشی نہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں استعمال کرنے سے قاصر تھے۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: مہاراج سنگھ آدیواسی کہتے ہیں، ’پہلے یہاں ایک چھوٹا نالہ ہوا کرتا تھا اور اس کا پانی چند ایکڑ زمین کے لیے ہی استعمال ہو جاتا تھا۔ باندھ کی تعمیر کے بعد ہی ہم سب اپنے کھیتوں میں فصلیں لگانے کے قابل ہوئے ہیں۔‘ دائیں: مہاراج پانی کے بہاؤ اور ان کھیتوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جنہیں یہ سیراب کرتا ہے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: شرد یادو کہتے ہیں کہ ریاست نے قریب ہی اسی طرز کا دوسرا باندھ تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہاں پانی نہیں ٹھہرا۔ دائیں: مقامی لوگ اکثر باندھ دیکھنے کے لیے آتے ہیں

ریاست نے کیتھا (بِیل) کے درختوں کے ایک باغ کے قریب ایک تالاب پر ڈیم بنایا تھا۔ اسے ایک بار نہیں بلکہ ۱۰ سالوں میں تین بار بنایا گیا تھا۔ آخری بار جب مانسون کے دوران زمیں دوز ہوگیا، تو ریاستی حکام نے فیصلہ کیا کہ اب بہت ہوا اور باندھ کا سائز کم کر دیا۔

چھوٹا باندھ کافی نہیں تھا: ’’پانی بمشکل کھیتوں تک پہنچتا تھا، اور یہ گرمیوں کی آمد سے پہلے مکمل طور پر سوکھ جاتا تھا، اس لیے ہماری آبپاشی کی ضروریات کے لیے مفید نہیں تھا،‘‘ مہاراج کہتے ہیں۔ ’’صرف ۱۵ایکڑ پر کاشت کی جاسکتی تھی اور وہ بھی صرف ایک فصل۔‘‘

سال ۲۰۱۶ میں گاؤں کے لوگوں نے معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کیا اور اس کی تعمیرنو کے لیے اپنے شرم دان (مزدوری کا عطیہ) کی پیشکش کی۔ ’’ہم نے مٹی اٹھائی، زمین کھودا، پتھر توڑے اور ان کی چنائی کی اور ایک مہینے میں باندھ مکمل کر لیا۔ تمام لوگ ہمارے گاؤں سے تھے، زیادہ تر آدیواسی تھے اور کچھ کا تعلق دیگر پسماندہ طبقے سے تھا،‘‘ مہاراج کہتے ہیں؛ انہوں نے بھی اس کام میں حصہ لیا تھا۔

نیا باندھ حجم میں بڑا ہے اور اس میں ایک نہیں بلکہ دو باندھ بنائے گئے ہیں جو پانی کو یکساں طور پر بہنے دیتے ہیں اور اسے دوبارہ ٹوٹنے سے بچاتے ہیں۔ یہ یقین کرلینے کے بعد کہ ڈیم کو کوئی خطرہ نہیں ہے، مہاراج اور سورین نے راحت محسوس کی اور تھوڑی دیر تک ہونے والی تیز بارش سے پہلے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Priti David

ਪ੍ਰੀਤੀ ਡੇਵਿਡ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਇਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਐਜੁਕੇਸ਼ਨ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੇਂਡੂ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਕਲਾਸਰੂਮ ਅਤੇ ਪਾਠਕ੍ਰਮ ਵਿੱਚ ਲਿਆਉਣ ਲਈ ਸਿੱਖਿਅਕਾਂ ਨਾਲ ਅਤੇ ਸਮਕਾਲੀ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜਾ ਦੇ ਰੂਪ ’ਚ ਦਰਸਾਉਣ ਲਈ ਨੌਜਵਾਨਾਂ ਨਾਲ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹਨ ।

Other stories by Priti David
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

ਸਰਬਜਯਾ ਭੱਟਾਚਾਰਿਆ, ਪਾਰੀ ਦੀ ਸੀਨੀਅਰ ਸਹਾਇਕ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਬੰਗਾਲੀ ਭਾਸ਼ਾ ਦੀ ਮਾਹਰ ਅਨੁਵਾਦਕ ਵੀ ਹਨ। ਕੋਲਕਾਤਾ ਵਿਖੇ ਰਹਿੰਦਿਆਂ ਉਹਨਾਂ ਨੂੰ ਸ਼ਹਿਰ ਦੇ ਇਤਿਹਾਸ ਤੇ ਘੁਮੱਕੜ ਸਾਹਿਤ ਬਾਰੇ ਜਾਣਨ 'ਚ ਰੁਚੀ ਹੈ।

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam