رینو ٹھاکر کافی لگن سے کام کرتی ہیں، اپنے گاہک کے ابرو سنوارنے کے لیے باریک دھاگے کا استعمال بہت ہی صفائی سے کرتی ہیں۔ کملیہر گاؤں سے تعلق رکھنے والی بیوٹیشئن رینو کہتی ہیں، ’’یہاں کالج میں پڑھنے والی تقریباً تمام لڑکیاں اپنے ابرو مجھ سے ہی بنواتی ہیں۔‘‘

’’میک اپ کا یہ سب سے مشکل کام ہے۔‘‘ وہ اپنی گاہک جیوتی کے چہرے پر فاؤنڈیشن کی ایک پتلی پرت لگاتے ہوئے اور اس کی آنکھوں کے گرد برش پھیرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ۳۲ سالہ بیوٹیشیئن کہتی ہیں، ’’یہ کریم جِلد کو تروتازہ رکھے گی جس سے میک اپ میں اور زیادہ نکھار آئے گا۔‘‘

رینو گزشتہ ۱۱ سالوں سے بیوٹی انڈسٹری میں ہیں، انہوں نے ۲۱ سال کی عمر میں ہی یہ کام شروع کر دیا تھا۔ ’’میں نے بچپن سے ہی بیوٹی پارلر کا کام سیکھنے کے بارے میں سوچا تھا۔ مجھے یہ پیشہ واقعی میں بہت پسند ہے اور میں اس وقت سے ہی یہ سب سیکھنا چاہتی تھی، جب میں بہت چھوٹی تھی۔‘‘ جب وہ ۱۶ سال کی تھیں، تو چھٹیاں گزارنے دہلی گئیں، جہاں ان کے والد اس وقت کام کرتے تھے۔ وہاں، انہوں نے ۳۰۰۰  روپے فیس دے کر تقریباً چھ مہینے کا میک اپ کورس کیا۔ رینو کہتی ہیں، ’’میں نے یہ کورس کرنے کا فیصلہ کیا، کیوںکہ میرے گاؤں میں کسی نے یہ کورس نہیں کیا تھا۔‘‘

Renu Thakur (left) has been in the beauty business for 11 years, starting when she was 21. Applying a thin layer of foundation on her customer Jyoti’s face (right), Renu strokes the brush around her eyes. 'This cream will make the skin smooth so that the make-up has a better glow,'  she says
PHOTO • Aarti Saini
Renu Thakur (left) has been in the beauty business for 11 years, starting when she was 21. Applying a thin layer of foundation on her customer Jyoti’s face (right), Renu strokes the brush around her eyes. 'This cream will make the skin smooth so that the make-up has a better glow,'  she says
PHOTO • Aarti Saini

رینو ٹھاکر (بائیں) گزشتہ ۱۱ برسوں سے بیوٹی انڈسٹری میں ہیں، انہوں نے ۲۱ سال کی عمر میں یہ کام شروع کیا تھا۔ وہ اپنی گاہک جیوتی کے چہرے پر فاؤنڈیشن کی ایک پتلی پرت لگاتے ہوئے (دائیں) ان کی آنکھوں کے گرد برش پھیر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ کریم جِلد کو تروتازہ رکھے گی تاکہ میک اپ میں زیادہ نکھار آئے‘

اکیس سال کی عمر میں شادی کے بعد، رینو نے اپنے شوہر امِت ٹھاکر کو بیوٹی پارلر شروع کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کے بارے میں بتایا اور وہ فوراً راضی ہو گئے۔ لیکن ان کے سسرال والوں نے اس کی مخالفت کی۔ اُس روایت کے حوالے سے، جس میں نئی نویلی دلہنوں کو اپنا سر ڈھانپ کر رکھنا چاہیے اور لوگوں کی نظروں سے دور رہنا چاہیے، سسرال والوں کا کہنا تھا کہ ’’گاؤں میں تم اپنا پلّو (گھونگھٹ) سنبھالوگی یا اپنا کام کروگی؟‘‘ لیکن رینو کے لیے، سہولت کے مطابق اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنا ضروری تھا۔

اپنی دکان کھولنے کے لیے، انہوں نے نو سال پہلے کانگڑا ضلع کے درمن گاؤں میں واقع پنجاب نیشنل بینک سے ایک فیصد کی شرحِ سود پر ۴۵ ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’حالانکہ، اپنی ساری کوششوں کے باوجود میں قرض کی ادائیگی نہیں کر پائی اور وہ قرض اب بڑھ کر ۶۰ ہزار روپے ہوگیا ہے۔‘‘

رینو ہر روز ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے کما لیتی ہیں، لیکن یہ کمائی گاہکوں کی تعداد پر منحصر ہے۔ ’’میں ابرو کو خوشنما بنانے کے لیے ۳۰ روپے لیتی ہوں۔ ابرو کو خمیدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہونٹ کے اوپری حصے کے بالوں کو صاف کرنے کے عوض ۴۰ روپے لیتی ہوں۔‘‘ جب رینو کو دلہن کا میک اپ کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، تو اس موقع پر کمائی کافی بڑھ جاتی ہے – تب وہ ایک دن میں تقریباً تین ہزار روپے کما لیتی ہیں۔ اگر دلہن کے پاس میک اپ کی ضرورت کے سامان ہوتے ہیں، تب رینو صرف میک اپ کرنے کا چارج لیتی ہیں، جو ایک ہزار روپے ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے، جب ایک روپے کی بھی آمدنی نہیں ہو پاتی۔‘‘

Renu procures her make-up supplies from Palampur. 'It takes about half an hour to get there by bus,' she says
PHOTO • Aarti Saini
Renu procures her make-up supplies from Palampur. 'It takes about half an hour to get there by bus,' she says
PHOTO • Aarti Saini

رینو اپنے میک اپ کا سامان پالم پور سے خریدتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’بس سے وہاں جانے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے‘

The beauty entrepreneur has been carrying out work from her own home since the covid-19 lockdown. Hers is the only woman-run business in her neighbourhood
PHOTO • Aarti Saini
The beauty entrepreneur has been carrying out work from her own home since the covid-19 lockdown. Hers is the only woman-run business in her neighbourhood
PHOTO • Aarti Saini

بیوٹیشیئن رینو کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی اپنے گھر سے کام کر رہی ہیں۔ ان کے گاؤں میں یہ خاتون کے ذریعہ چلایا جانے والا واحد کاروبار ہے

اس ۳۹۳ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے گاؤں میں، ان کی دکان ہمیشہ گاہکوں سے بھری رہتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’کام اچھا چل رہا تھا،‘‘ جب تک کہ کووڈ۔۱۹ نہیں آیا اور ’’میرے شوہر نے میری دکان بند کر دی۔ انہیں خوف لاحق تھا کہ کہیں ہم وائرس سے متاثر نہ ہو جائیں۔‘‘ اس کے بعد سے، رینو اپنے گھر سے ہی اپنا کام کر رہی ہیں۔

آس پاس کئی پارلروں کے کھلنے سے، رینو کے گاہکوں میں کمی آئی ہے۔ آٹھ سال پہلے، جب رینو نے اپنا کاروبار شروع کیا تھا، تب کملیہر میں ایک بھی بیوٹی پارلر نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب گاؤں میں کئی بیوٹی پارلر کھل گئے ہیں۔‘‘

کملیہر کا علاقہ ایسی دکانوں سے بھرا پڑا ہے، جسے مرد چلاتے ہیں۔ لیکن رینو کی دکان واحد ایسی دکان ہے جسے کوئی خاتون چلاتی ہے۔ بال کٹوانے سے لے کر مہندی، ویکسنگ، فیشیئل اور میک اپ تک، ہر چیز کے لیے ضروری ساز و سامان سے یہ دکان لیس ہے۔ پارلر کے لیے میک اپ کا سامان خریدنے کے لیے، رینو بس سے پالم پور جاتی ہیں۔ سستی قیمت پر ملنے کی وجہ سے وہ ہول سیل کرنے والے دکانداروں سے وافر مقدار میں سامان خریدتی ہیں۔

Renu’s elder daughter Riddhima, 10, is in class 6. Her younger daughter Smaira is three and stays at home with her mother. With the income from her beauty parlour business, Renu pays Riddhima’s school fees
PHOTO • Aarti Saini
Renu’s elder daughter Riddhima, 10, is in class 6. Her younger daughter Smaira is three and stays at home with her mother. With the income from her beauty parlour business, Renu pays Riddhima’s school fees
PHOTO • Aarti Saini

رینو کی بڑی بیٹی رِدھیما (۱۰) کلاس ۶ میں ہے۔ ان کی چھوٹی بیٹی سمائرہ تین سال کی ہے اور اپنی ماں کے ساتھ گھر پر رہتی ہے۔ بیوٹی پارلر سے ہونے والی آمدنی سے رینو، رِدھیما کی اسکول کی فیس ادا کرتی ہیں

ہندی کے ساتھ ساتھ پہاڑی زبان (ارد گرد کے گاؤوں میں بولی جانے والی عام زبان) میں ماہر ہونے کی وجہ سے، رینو اپنے گاہکوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کر لیتی ہیں۔ بہت سے گاہک ان کے گاؤں سے ایک کلومیٹر دور واقع ننہار اور رچھیاڑہ گاؤں سے بھی ان کے پاس آتے ہیں۔

رینو کے شوہر امت چکن کی دکان چلاتے ہیں اور ڈرائیور بھی ہیں۔ رینو کی بڑی بیٹی ردھیما ۱۰ سال کی ہے اور کلاس ۶ میں پڑھتی ہے۔ چھوٹی بیٹی سمائرہ تین سال کی ہے اور اپنی ماں کے ساتھ گھر پر رہتی ہے۔ بیوٹی پارلر سے ہونے والی کمائی سے رینو، ردھیما کی اسکول کی فیس ادا کرتی ہیں۔

رینو یہ دیکھ کر خوش ہوتی ہیں کہ ان کے گاؤں کی خواتین گھریلو کام کاج تک ہی محدود نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں کی خواتین اپنی جگہ بنا رہی ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘‘ یہ وہ خواتین ہیں جو دو پیسے کی آمدنی کے لیے بُنائی-سلائی کرتی ہیں، کاشتکاری کرتی ہیں اور ان ہی کی طرح چھوٹے موٹے کاروبار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے امید ہے کہ مستقبل میں بھی مزید خواتین آگے آئیں گی اور ایسا کرتی رہیں گی۔‘‘

پاری کے ساتھ انٹرن شپ کر چکے – پروین کمار، امرتا راجپوت اور ناؤمی فارگوز کا ہم اس اسٹوری کو تیار کرنے میں مدد کرنے کے لیے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مترجم: سبطین کوثر

Student Reporter : Aarti Saini

Aarti Saini is from Alwar, Rajasthan and is pursuing a bachelor’s degree. She did this story while interning with non-governmental organisation, Sajhe Sapne and PARI Education in 2022.

Other stories by Aarti Saini
Editor : Aakanksha

ਆਕਾਂਕਸ਼ਾ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਰਿਪੋਰਟਰ ਅਤੇ ਫੋਟੋਗ੍ਰਾਫਰ ਹਨ। ਉਹ ਐਜੂਕੇਸ਼ਨ ਟੀਮ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਇੱਕ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਵਜੋਂ ਅਤੇ ਪੇਂਡੂ ਖੇਤਰਾਂ ਵਿੱਚ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਨੂੰ ਉਹਨਾਂ ਦੇ ਆਲ਼ੇ-ਦੁਆਲ਼ੇ ਦੀਆਂ ਚੀਜ਼ਾਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਲਈ ਸਿਖਲਾਈ ਦਿੰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Aakanksha
Editor : Siddhita Sonavane

ਸਿੱਧੀਤਾ ਸੋਨਾਵਨੇ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਇੱਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ 2022 ਵਿੱਚ ਐੱਸਐੱਨਡੀਟੀ ਮਹਿਲਾ ਯੂਨੀਵਰਸਿਟੀ, ਮੁੰਬਈ ਤੋਂ ਆਪਣੀ ਮਾਸਟਰ ਡਿਗਰੀ ਪੂਰੀ ਕੀਤੀ ਅਤੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੇ ਹੀ ਅੰਗਰੇਜ਼ੀ ਵਿਭਾਗ ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਵਿਜ਼ਿਟਿੰਗ ਫੈਕਲਟੀ ਹਨ।

Other stories by Siddhita Sonavane
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser