ہندوستان کے بیشتر لوگوں کے لیے، ۱۴ انچ کا بلیک اینڈ وائٹ ’’پورٹیبل‘‘ ٹی وی پرانے دور کی ایک یادگار ہے۔ راؤجی نروٹی اور ان کے چھوٹے بیٹے تلسی رام کے لیے، یہ ایک قابل فخر نیا اثاثہ ہے جو ان کے اینٹ گارے سے بنے کچے مکان کے ایک کونے میں شمسی لیمپ کے ساتھ ایک نمایاں مقام پر رکھا ہے۔

ٹی وی رکھنے کا یہ ان کا پہلا تجربہ ہے، جس کی قیمت ۴۰۰۰ روپے ہے۔ پچھلے ماہ گھر میں ٹی وی آنے کے بعد نروٹی فیملی نے پہلی بار الیکٹرانکس کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کے نوجوان پڑوسی سادھو اچامی نے بھی قریبی شہر سے ایسا ہی ایک ٹیلی ویژن خریدا ہے۔

ملک کی آزادی کے چھ دہائیوں بعد، ۱۴ جولائی کو نروٹی کا گاؤں گرنجی پہلی بار بجلی سے روشن ہوا۔

اڑتالیس (۴۸) گونڈ قبائلی خاندانوں اور دو بنگلہ دیشی پناہ گزین خاندانوں پر مشتمل یہ گاؤں ضلعی ہیڈکوارٹر سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور، مہاراشٹر میں ماؤنوازوں کے مضبوط علاقہ، گڑھ چرولی ضلع کے جنگلات کے اندر واقع ہے۔

جیسے ہی پہلی اسٹریٹ لائٹ روشن ہوئی، سرسبز و شاداب دھان کے کھیتوں سے جھونپڑیوں کی ایک قطار کو الگ کرنے والی کیچڑوں سے بھری سڑک جگمگ کرنے لگی، گاؤں والوں نے جشن منانا شروع کردیا۔ انہوں نے اجتماعی دعوت کے لیے بھیڑ کے بچے کو ذبح کیا، اپنے گھروں کو سجایا اور ’’ریلا‘‘ لوک رقص سے وہاں آنے والے سرکاری افسران کا پرتپاک استقبال کیا۔

افسوس کہ یہ خوشی قلیل مدتی تھی! لیکن، روشنیوں سے بھری زندگی کی امید اب بھی برقرار ہے۔

گرنجی سے ۴۵ کلومیٹر دور، بلاک ہیڈ کوارٹر چمورشی میں مہاراشٹر اسٹیٹ الیکٹریسٹی ڈسٹری بیوشن کمپنی لمیٹڈ (ایم ایس ای ڈی سی ایل) کے اسسٹنٹ انجینئر دلیپ کمبھارے نے بتایا کہ موسلادھار بارش کی وجہ سے ۱۶ جولائی کو نئی بچھائی گئی سنگل فیز ۱۱ کے وی کی لائن تباہ ہوگئی تھی۔ تاروں پر درخت گرنے سے بجلی کے کچھ کھمبے گر گئے تھے۔

چمورشی کے سب ڈویژنل افسر دلیپ ساورکر نے بتایا، ’’۹ جون سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔‘‘

کمبھارے نے کہا، بارش کم ہونے کے بعد لائن کی مرمت کر دی جائے گی۔ ’’مجھے مرمت کے لیے خشک موسم درکار ہے۔‘‘

گاؤں والے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ وہ ٹیلی ویژن دیکھنا چاہتے ہیں اور فلمیں دیکھنے کے لیے وی سی ڈی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

نروٹی اور ایچامی خاندانوں نے شروعات کر دی ہے۔ دوسرے لوگ قطار میں ہیں۔ کم از کم ۳۶ خاندانوں نے بجلی کے کنکشن کے لیے درخواستیں دی ہیں اور ایم ایس ای ڈی سی ایل کو جمع کی جانے والے رقم کی ادائیگی بھی کردی ہے۔

’’گاؤں والوں کی طرف سے بہت اچھا ردعمل مل رہا ہے،‘‘ کمبھارے نے کہا۔ ’’ہم ایک ہفتہ کے اندر میٹر لگا دیں گے۔‘‘

گاؤں کے نوجوان تُکارام کنگالی نے کہا، ’’اگلے سال تک، آپ کو یہاں کے ہر گھر میں ٹی وی سیٹ نظر آئے گا۔‘‘

یہ کوئی آسان کام نہیں ہے

چھتیس گڑھ کے گڑھ چرولی اور ملحقہ بستر علاقے کے سینکڑوں آدیواسی گاؤوں اب بھی بجلی سے محروم ہیں، جو ہندوستان کے اس حصہ کے ساتھ حکومت کی غلط ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے؛ اس حکومت کی، جس کی سیکورٹی فورسز سیٹلائٹ کی تصویروں کا استعمال کر رہی ہیں اور بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیاں ماؤنوازوں کی جاسوسی کے لیے بھیج رہی ہیں۔

اب ضلعی انتظامیہ اور ایم ایس ای ڈی سی ایل نے گاؤں کو روشن کرنے کے لیے ہاتھ ملایا ہے۔ لیکن مشکلات اب بھی موجود ہیں۔

اول: زیادہ تر گاؤوں بکھرے ہوئے ہیں اور محفوظ جنگلات کے اندر واقع ہیں۔ ان کی آبادی بہت کم ہے اور وہ اتنے غریب ہیں کہ بجلی کے بل کی بھی ادائیگی نہیں کرسکتے۔ انہیں نرخوں میں اضافہ کے وقت سستی بجلی فراہم کرائی جانی چاہیے۔

دوم: جنگلات اور بعض اوقات دشوار گزار علاقوں میں بجلی کی لائنیں بچھانے کے لیے نہ صرف بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ تاروں کو (انفراسٹرکچر) بچھانے کے لیے متعدد اجازت ناموں اور محکمہ جنگلات کی منظوری کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو ہمیشہ آسانی سے نہیں مل پاتی ہے۔

تین: بجلی سے محروم زیادہ تر گاؤوں تقریباً ناقابل تسخیر ماؤنوازوں کے گڑھ میں واقع ہیں، جہاں پچھلے چند برسوں سے باغیوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں تیز ہو گئی ہیں۔

چار: ایم ایس ای ڈی سی ایل کے پاس گڑھ چرولی میں عملہ کی شدید کمی ہے (یہاں پچھلے کئی سالوں میں کوئی تقرری نہیں ہوئی ہے اور اس کا موجودہ عملہ اس پسماندہ ضلع میں خدمات انجام دینے سے گریز کرتا ہے)۔ بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو برقرار رکھنا یہاں کے عمر رسیدہ عملہ کی جسمانی صلاحیتوں کو جانچنے کا یہ ایک پیمانہ بھی ہے۔

رکاوٹوں کے باوجود انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جسے پورا کرنا ضروری ہے۔

کلکٹر ابھیشیک کرشنا نے کہا، ’’یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کو بجلی فراہم نہیں کر پا رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی، کیونکہ ہم کبھی ان تک پہنچے ہی نہیں۔‘‘

سال ۲۰۱۲ کے وسط میں، ضلعی انتظامیہ اور ایم ایس ای ڈی سی ایل نے ایک مشترکہ سروے کیا اور بجلی سے محروم گاؤوں کی دو طرح سے درجہ بندی کی: ایسے گاؤوں جہاں پر ابھی تک بجلی نہیں پہنچ سکی ہے اور ایسے گاؤوں جہاں پر تقریباً دو دہائی قبل بجلی پہنچ گئی تھی، لیکن ان کی سپلائی بند کر دی گئی تھی کیونکہ انہوں نے بجلی کے بل ادا نہیں کیے تھے۔

کرشنا نے کہا، ’’ہم نے پایا کہ گڑھ چرولی ضلع کے ۱۶۰۰ گاؤوں میں سے ۳۰۰ میں بجلی کی کمی ہے۔ ان میں سے کئی گاؤوں میں تو آمدورفت کے لیے سڑکیں بھی نہیں ہیں۔

گاؤوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ۱۱ کروڑ روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔ اس سال کے پہلے سات مہینوں میں، تقریباً ۱۰۰ گاؤوں کو بجلی فراہم کی گئی ہے اور اب یہ انفرادی طور پر ان گھرانوں پر منحصر ہے (جنہیں بجلی کی ضرورت ہے) کہ وہ کنکشن حاصل کریں، اگر ان کی مالی حالت اس کی اجازت دیتی ہے۔

چھوٹے چھوٹے قدم

بجلی کی لائنوں سے جڑنے والے نئے گاؤں بجلی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے ہیں۔ کچھ نے آٹے کی چکیاں لگا لی ہیں۔ کچھ لوگ نئے ٹی وی سیٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کچھ زرعی پمپ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بہت سے دوسرے چھوٹے برقی آلات خرید رہے ہیں۔

کرشنا نے کہا، ’’ہم یہاں بہت سی بیکار کی افواہوں کو بھی کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں: جیسے کہ قبائلیوں کو بجلی کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنے کھیتوں میں الیکٹرک پمپ استعمال نہیں کرنا چاہتے، اور وہ جدید آلات استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘

پچھلے ۲۰ برسوں میں، ایم ایس ای ڈی سی ایل نے ضلع میں صرف ۴۰۰۰ زرعی پمپ چالو کیے ہیں، جن میں سے بیشتر اور نسبتاً پرسکون علاقے شمال مشرق میں واقع ہیں۔

کرشنا نے بتایا، ’’پچھلے چھ مہینوں میں، ہماری خصوصی مہم کے دوران، ہمیں زرعی پمپوں کے لیے تقریباً ۶۶۰۰ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں زیادہ تر حساس علاقوں میں قبائلی کسانوں کی تھیں۔ ایم ایس ای ڈی سی ایل تقریباً ۵۰۰۰ درخواستوں کو منظور کرے گا۔‘‘ اس سے کسانوں کو ایک سال میں دو فصلیں اگانے میں مدد ملے گی۔

چیلنجز

گرنجی کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ۲۴ لاکھ روپے کی لاگت سے بنگلہ دیشی تارکین وطن کی کالونی وکاس پلی سے ۱۰ کلومیٹر لمبی لائن بچھائی جانی تھی۔ مقامی آدیواسیوں نے ٹھیکہ دار کو کھمبے لگانے میں مدد کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔

چونکہ بجلی کی لائنیں اور کھمبے جنگل کی زمین سے گزرتے ہیں، اس لیے اس کے لیے محکمہ جنگلات سے کئی طرح کی اجازتیں لینی ہوتی ہیں۔ بیس سال قبل اس علاقے میں بجلی کی لائنیں بچھانے کی پہلی کوشش بڑی حد تک صرف اس لیے ناکام ہوگئی تھی کیونکہ زیادہ تر لائنوں کی اجازت ہی نہیں مل پائی تھی اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر کھمبے یوں ہی بیکار پڑے ہیں۔

اس بار، قبائلیوں، ضلعی انتظامیہ اور ایم ایس ای ڈی سی ایل نے سال ۲۰۰۶ کے جنگلات کے حقوق کے قانون کی ایک شق کا استعمال کیا، جس کے مطابق، مقامی سطح کے جنگلات کے حکام کی اجازت سے ایک ہیکٹیئر تک کی جنگلاتی زمین کو گاؤں کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کرشنا نے اس تعلق سے بتایا، ’’بجلی کے کھمبے ایک ہی قطار میں ہیں۔ چوڑائی کم ہے؛ تو ایک ہیکٹیئر کافی ہے۔‘‘

شمالی گڑھ چرولی کے گٹا سب اسٹیشن پر مامور ایم ایس ای ڈی سی ایل کے نوجوان سب انجینئر امول پاٹل نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو برقرار رکھنا تھا۔

بجلی سے روشن کیے گئے ۱۰۰ نئے گاؤوں میں سے کچھ پاٹل کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، جو ۳۰۰۰ مربع کلومیٹر میں پھیلے ہوئے ۶۵ گاؤوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہر روز، پاٹل اور ان کے چار لائن مین خرابیوں کو تلاش کرنے اور انہیں ٹھیک کرنے کے لیے کئی کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں – اگر بارش کی وجہ سے آمدورفت میں رکاوٹیں پیدا نہ ہوں نیز سڑکیں اور پل- پلیاں پانی کے زور سے بہہ نہ جائیں تو وہ ان علاقوں میں بجلی کی صورتحال کو بہتر کر دیں گے۔

بعض اوقات، جب ٹیم کے دو پرانے لائن مین، جن کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہے، گٹا اور پسٹولہ کے درمیان خرابی کا پتہ لگا لیتے ہیں، تو ان کے لیے بارش میں کھمبے پر چڑھنا اور اسے درست کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

پاٹل کے تعلق سے ان کے سینئر افسروں نے بتایا کہ ایم ایس ای ڈی سی ایل میں مامور انجینئروں میں وہ سب سے زیادہ فرض شناس ہیں۔ دور دراز کے گاؤوں سے آنے والی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔

گرنجی میں رہنے والے لوگ اب آہستہ آہستہ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ انہیں بھی الیکٹریشن کی کچھ بنیادی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت ہے جیسے کہ وائرنگ کیسے کی جاتی ہے یا فیوز کو کیسے ٹھیک کرنا ہے۔

ٹیلی ویژن کا شوق رکھنے والے کسان نروٹی نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اب ہمیں ٹی وی ٹھیک کرنا بھی سیکھنا پڑے گا۔‘‘ کیونکہ سب سے قریب ترین جو الیکٹریشن ہے وہ ۲۵ کلومیٹر دور رہتا ہے۔

یہ مضمون سب سے پہلے ۱۱ اگست، ۲۰۱۳ کو دی ٹیلی گراف، کلکتہ میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: سبطین کوثر

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser