’’مجھے بچپن سے ہی تصویریں بنانا پسند تھا۔ جب میں اسکول میں ’کو شرینی ‘ (پہلی جماعت) میں پڑھتا تھا، تو ہمارے ٹیچر ہم سے سنگترے یا لوکی کی تصویر بنانے کے لیے کہتے تھے، اور میں فوراً تصویر بنا دیتا تھا،‘‘ اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ رمیش دتّہ بتاتے ہیں۔ ’’میری زندگی میں مصوری کی شروعات اسی طرح ہوئی۔‘‘
آج وہ ماجولی کے گرمور سارو سترا – جو آسام کے ویشنو مٹھوں (عبادت گاہوں) میں سے ایک ہے، کی تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں میں مرکزی سیٹ ڈیزائنر ہیں۔ اپنی برادری اور جان پہچان کے لوگوں میں عزت و احترام اور پیار سے ’رمیش دا‘ بلائے جانے والے یہ ۵۲ سالہ فنکار صلاحیت کے لحاظ سے جتنے ہنرمند ہیں، گفتار کے معاملے میں بھی اتنے ہی با کمال ہیں۔ برہم پتر ندی کے سب سے بڑے جزیرہ ماجولی میں مقامی تھیٹر، فنون لطیفہ اور موسیقی کو زندہ رکھنے میں ان کا مرکزی کردار رہتا ہے۔
’’ایک بچہ کے طور پر کٹھ پتلی کا تماشہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میں دوسرے لوگوں کو کٹھ پتلیاں بناتے ہوئے بہت غور سے دیکھا کرتا تھا اور یہ ہنر بھی میں نے اسی طرح سیکھا۔ اُس وقت میں مشکل سے دوسری جماعت میں رہا ہوں گا۔ میں کٹھ پتلیاں بناتا تھا اور انہیں دکھانے اسکول لے جاتا تھا۔‘‘
آج کل وہ جو بھی خاکے یا مجسمے وغیرہ بناتے ہیں ان کی پیشکش اگر اسٹیج پر یا ماجولی کے آس پاس کہیں نہیں ہو رہی ہوتی ہے، تو ان کے گھر کے ٹھیک بغل میں ایک کھلے شیڈ میں ترتیب سے رکھ دیے جاتے ہیں۔ جب ہم ان سے ملنے جاتے ہیں، تب ہمیں وہاں ایک اوندھی پڑی کشتی دیکھنے کو ملتی ہے، جو ایک چبوترے کے سہارے رکھی ہوئی ہے۔ برش اور رنگوں کے ڈبے ان مکھوٹوں کے بغل میں رکھے ہیں جنہیں رمیش دا نے بنائے ہیں۔ ان میں راس مہوتسو کے لیے خاص طور پر تیار کردہ سارس کا مکھوٹا بھی رکھا ہے۔ (پڑھیں: ماجولی کے رنگ برنگے مکھوٹے )
حالانکہ، ابھی رمیش دا زیادہ تعداد میں مکھوٹے نہیں بناتے ہیں، لیکن وہ اس فن کے تئیں وقف اور پدم شری سے نوازے گئے ہیم چندر گوسوامی جیسے فنکاروں کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ ’’ان کے ذریعہ بنائے گئے مکھوٹے اپنی پلکیں جھپکا سکتے ہیں اور ہونٹ ہلا سکتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’انہوں نے مکھوٹے بنانے کے ہنر کو مقبول اور عالمی شہرت دلانے کا کام کیا ہے۔ ان کے شاگردوں کی آج بڑی تعداد ہے۔‘‘
راس اُتسو کے وقت گرمور سارو سترا میں ہونے والی پیشکش کے لیے سیٹ بنانے اور تھیٹر کے لیے دیگر چیزیں بنانے کے ساتھ ساتھ دتّہ مکھوٹوں کی مرمت کا کام بھی کرتے ہیں۔ وہ پختہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’مان لیجئے کہ اگر کل راس ہوتا ہے، تو میں آج ہی اس کے لیے سیٹ تیار کر دوں گا۔‘‘ (پڑھیں: ماجولی کا راس مہوتسو اور سترا )
دتّہ، سترا کے دوران ہونے والی کئی ویشنو ستریا پرفارمنس – جیسے گاین - واین اور بھاؤنا میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ گاین – واین میں گلوکاروں (گاین) اور آلات موسیقی بجانے والے فنکاروں (واین) کی پیشکش ہوتی ہے، جب کہ بھاؤنا ایک قسم کی ڈرامائی پیشکش ہے۔ ستریا ثقافت کے اٹوٹ حصہ کے طور پر، پندرہویں صدی کے سماجی مصلح اور سنت شریمنت شنکر دیو نے ان پیشکش کی شروعات کی تھی۔ گاینوں اور واینوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سترا میں ہونے والی پیشکش میں ساز و موسیقی کے ساتھ اپنا تعاون دیں۔
’’میں نے ۱۹۸۴ میں پیتامبر دیو سانسکرتک ودیالیہ میں گاین – واین سیکھنا شروع کیا۔ اس وقت میں صرف ۱۳ سال کا تھا،‘‘ وہ ہمیں بتاتے ہیں۔ ’’میں نے شروع میں گاین اور واین دونوں سیکھے، لیکن تب میرے گرو (استاد) نے مجھے صرف گاین میں ہاتھ آزمانے کی صلاح دی۔ اس لیے میں نے اسی شعبہ میں اپنے مطالعہ کو جاری رکھا۔‘‘
*****
جس کمرے میں ہم بیٹھے ہیں اس میں مدھم روشنی ہے۔ ریت اور سیمنٹ سے پلستر کی ہوئی دیواروں کو ہرے رنگ سے رنگا گیا ہے۔ رمیش دا کے ٹھیک پیچھے ایک تصویر ٹنگی ہے جس میں قدرتی نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کی چھ سال کی بیٹی انوشکا ہمیں تصویر میں دکھائے گئے منظر کے بارے میں بتانے کے سلسلے میں یہ بھی بتاتی ہے کہ اس تصویر کو ان کے والد نے بنایا ہے۔
گھر میں ان کی گئو شالہ کا ایک حصہ ان کے اسٹوڈیو کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ہم انہیں پورا دن ان دو مورتیوں کو تیار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جنہیں وہ آرڈر پر بنا رہے ہیں۔ یہ جے بِجے کی مورتیاں ہیں جو نامگھر [پرارتھنا گھر] کے داخلی دروازہ پر نصب کیے جانے کے لیے بنائی جا رہی ہیں۔ رمیش دا اس قسم کی مورتیاں گزشتہ ۲۰ برسوں سے بنا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایسی ایک مورتی بنانے میں انہیں تقریباً ۲۰ دن لگ جاتے ہیں۔
’’سب سے پہلے میں لکڑی کا استعمال کرتے ہوئے ایک فریم بناتا ہوں۔ اس کے بعد فریم میں ریت اور سیمنٹ کا آمیزہ انڈیلا جاتا ہے اور اسے سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے،‘‘ وجے بِجے کی مورتیوں کے دھڑ کو کرنی کی مدد سے شکل دیتے ہوئے وہ تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ’’کچھ دن بعد میں مورتیوں کو شکل دینے کا کام کرتا ہوں۔ مورتیوں کے باریک کام سب سے آخر میں کیے جاتے ہیں۔‘‘
مورتیوں کے کچھ خاص حصے مثلاً ان کے اعضاء کو درخت کے تنے کے ٹکڑوں سے بنے سانچوں کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔ ’’مورتی بنانے کے لیے ضروری سامان میں مقامی دکانوں سے خریدتا ہوں،‘‘ رمیش دا بتاتے جاتے ہیں۔ ’’اِن دنوں ہم عموماً پلاسٹک پینٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ پہلے ہم ڈسپینسر کا استعمال کرتے تھے، لیکن وہ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔‘‘
مورتیوں کے اعضاء کے تناسب کی جانچ کرنے کے لیے وہ انہیں دور سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد کنکریٹ کے آمیزہ کی ایک نئی ڈھیر تیار کرکے کام پر دوبارہ لوٹتے ہیں۔ ’’جب وہ کام کر رہے ہوتے ہیں، تب بات چیت نہیں کرتے ہیں۔ انہیں یہ بالکل پسند نہیں کہ کام کرنے کے وقت کوئی اس میں رکاوٹ ڈالے،‘‘ کام میں مدد کرنے والی ان کی بیوی نیتا مسکراتے ہوئی کہتی ہیں۔ ’’جب وہ کام میں ڈوبے ہوتے ہیں، تب ان کا مزاج الگ ہوتا ہے۔‘‘
دتہ کو خاص طور پر اپنے ذریعہ بنائے گئے گرو آکھن [استاد کی نشست] پر فخر ہوتا ہے، جسے انہوں نے گرمور کے قریب واقع کھرجن پار علاقے نامگھر کے لیے بنایا ہے۔ اس مستطیل نشست کو پرارتھنا گھر کے سب سے اندرونی خانہ میں رکھا گیا ہے۔ ’’میں نے گرو کے آسن (نشست) کو کنکریٹ سے بنایا ہے اور اسے اس رنگ میں رنگا ہے کہ وہ لکڑی کا بنا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آسن کو شُدّھ (پاک) کرنے اور افتتاح کرنے کا کام سترادھیکار [سترا کے سربراہ] نے کیا ہے۔ ان کو بھی یہی لگا کہ یہ لکڑی کا بنا ہوا ہے،‘‘ یہ بتاتے ہوئے دتّہ کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔
وہ اپنی فیملی کے لیے ایک گھر بنانے میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ ’’چونکہ یہ برسات کا موسم ہے، اس لیے اسے پورا ہونے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے،‘‘ نیتا بتاتی ہیں۔
دتّہ چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ اپنی فیملی میں اکیلے شخص ہیں، جس نے اس فن کو اپنے معاش کے ذریعہ کے طور پر اپنایا ہے۔ جب وہ آٹھویں جماعت میں تھے تب سے مجسمہ سازی ان کا پیشہ ہے۔ ’’یہی میرا روزگار ہے۔ میرے پاس کھیتی کرنے کے لیے زمین نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’جب ہمارے پاس کام نہیں ہوتا، تب ہمیں اپنی بچت پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ زندگی اسی طرح چلتی ہے۔ کبھی کبھی لوگ مجھے بھاؤنا [روایتی ناٹک] کرنے کے لیے مدعو کرتے ہیں۔ انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور میں ان کی مدد کرتا ہوں۔
’’بدلے میں کوئی مجھے ۱۰۰۰ روپے دیتا ہے، اور کوئی ۱۵۰۰ روپے۔ کچھ لوگ صرف ۳۰۰ روپے ہی دے پاتے ہیں۔ آپ کیا کہہ سکتے ہیں؟ یہ ایک راجہوا کام [عوامی خدمت] ہے۔ میں انہیں اپنی اجرت بتا دیتا ہوں، لیکن لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ادائیگی کرتے ہیں۔‘‘
اپنی حدود کو بخوبی سمجھتے ہوئے دتّہ کہتے ہیں، ’’بغیر ارتھ [پیسے] کے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے، اور کئی بار پیسوں کا انتظام کرنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔‘‘
ان مسائل سے نمٹنے کا ان کے پاس ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ۲۰۱۴ میں اپنے ہاتھ سے بنائے گئے وشنو کے مچھلی اوتار – متسیو – جیسے دوسرے مکھوٹے اور مجسمے کرایے پر دینے کا کام کرتے ہیں۔ ’’کئی بار انہیں بنانے میں لگنے والا سامان خریدنے کے لیے مجھے ۴۰۰ روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور کئی بار ان ۴۰۰ روپیوں کا انتظام کرنا بھی بھاری پڑتا ہے۔‘‘ بہرحال، اس مکھوٹے کو بنائے ہوئے انہیں چھ سال گزر چکے ہیں، اور اسے کرایے پر دے کر وہ اب تک تقریباً ۵۰ ہزار روپے کما چکے ہیں۔
دتّہ جو بھی کام کرتے ہیں اس کی کوئی متعینہ قیمت نہیں ہوتی ہے۔ کئی بار مورتی سائز میں چھوٹی ہوتی ہے لیکن اسے بنانے میں کھٹنی [جسمانی محنت] زیادہ ہوتی ہے۔ ’’کئی بار ہاجیرا [محنتانہ] کافی نہیں ہوتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
’’یہ تاش کے کھیل کی طرح ہے۔ آپ کو ناامیدی میں بھی امید بنائے رکھنی ہوتی ہے۔‘‘
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت کی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز