سرو تائی اپنے گھر کے باہر ایک آم کے درخت کے نیچے بیٹھی ہیں اور اداس نظر آ رہی ہیں۔ گود میں بیٹھا ان کا چھوٹا بیٹا بے چین ہو کر غوں غوں کر رہا ہے۔ ’’ایک دو دن میں میرا حیض (پیریڈ) شروع ہو جائے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’تب مجھے کُرما گھر جانا پڑے گا۔‘‘ حیض کے دوران وہ ۵-۴ دن اسی ’کُرما گھر‘ (جس کا لغوی معنی ہے ’حیض والی جھونپڑی‘) میں گزاریں گی۔

اس ناگزیر معمول کے بارے میں سوچ کر سرو تائی (بدلا ہوا نام) کافی پریشان ہیں۔ ’’کُرما گھر میں دم گُھٹتا ہے۔ بچوں سے دور رہنے کی وجہ سے مجھے وہاں نیند بالکل نہیں آتی،‘‘ اپنے نو مہینے کے بیٹے کو چُپ کرانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی بھی ہے، کومل (بدلا ہوا نام)، جو ساڑھے تین سال کی ہے اور نرسری اسکول میں پڑھتی ہے۔ ’’اس کی پالی [حیض] بھی ایک نہ ایک دن شروع ہوگی؛ جس کے بارے میں سوچ کر مجھے ڈر لگتا ہے،‘‘ ۳۰ سالہ سرو تائی کہتی ہیں، جو اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ ان کی بیٹی کو بھی ماڈیا آدیواسیوں کی اس روایت پر عمل کرنا ہوگا۔

سرو تائی کے گاؤں میں کل چار ’کُرما گھر‘ ہیں۔ ان میں سے ایک جھونپڑی اُن کے گھر سے ۱۰۰ میٹر سے بھی کم فاصلہ پر ہے۔ ان تمام جھونپڑیوں کو فی الحال گاؤں کی ۲۷ بالغ لڑکیاں اور عورتیں استعمال کرتی ہیں۔ ’’میری ماں اور نانی بھی کُرما گھر جاتی تھیں۔ اور، اب میں اسے استعمال کر رہی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ کومل کو یہ پریشانی اٹھانی پڑے،‘‘ سرو تائی کہتی ہیں۔

ماڈیا آدیواسی قبیلہ کے لوگ یہ مانتے ہیں کہ حائضہ عورتیں ناپاک اور اچھوت ہوتی ہیں، اسی لیے حیض آنے پر وہ انہیں گھر سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ ’’میں ۱۳ سال کی عمر سے کُرما گھر جا رہی ہوں،‘‘ سرو تائی کہتی ہیں۔ تب وہ اپنے میکے میں تھیں، جو مہاراشٹر کے گڑھ چرولی کے مشرقی حصہ میں ان کے حالیہ گھر سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور کا ایک گاؤں ہے۔

گزشتہ ۱۸ سالوں میں سرو تائی نے اپنی زندگی کے تقریباً ۱۰۰۰ دن (ہر مہینے تقریباً پانچ دن) ایک ایسی جھونپڑی (کرما گھر) میں گزارے ہیں، جہاں نہ تو کوئی باتھ روم ہے، نہ پانی، نہ بجلی اور نہ ہی کوئی بستر یا پنکھا ہے۔ ’’اندر ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے اور رات میں بہت ڈر لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اندھیرا مجھے کھا جائے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’جی چاہتا ہے کہ تیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگوں اور اپنے بچوں کو پکڑ کر سینے سے جکڑ لوں…لیکن ایسا میں کر نہیں سکتی۔‘‘

Saru tries to calm her restless son (under the yellow cloth) outside their home in east Gadchiroli, while she worries about having to go to the kurma ghar soon.
PHOTO • Jyoti Shinoli

مشرقی گڑھ چرولی میں گھر کے باہر اپنے بے چین بیٹے (زرد کپڑے میں ڈھکے) کو چُپ کرانے کی کوشش کرتیں سرو تائی، جو یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ جلد ہی انہیں کُرما گھر جانا پڑے گا

سرو تائی چاہتی ہیں کہ کُرما گھر (جسے گاؤں کی دیگر عورتیں بھی استعمال کرتی ہیں) کے اندر ایک صاف کمرہ ہو، بدن درد سے راحت کے لیے ایک نرم بستر ہو، اور ایک ایسا کمبل ہو جو اپنے عزیزوں کی گرمجوشی کا احساس کرا سکے۔ لیکن مٹی کی دیواروں اور بانس کی مدد سے بنائی گئی کھپریل کی چھتوں پر مبنی یہ خستہ حال جھونپڑی تمام خواہشوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا فرش بھی اوبڑھ کھابڑ ہے، جس پر انہیں سونا پڑتا ہے۔ ’’میں چادر بچھا کر سوتی ہوں جسے انہوں نے [شوہر یا ساس نے] بھیجا تھا۔ مجھے بدن درد، سر درد اور اینٹھن ہوتی ہے۔ پتلی چادر پر سونے سے آرام بالکل بھی نہیں ملتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

اکیلاپن اور بچوں سے دوری، سرو تائی کی پریشانی اور درد کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’دکھ یہ ہے کہ میرے قریبی بھی میری تکلیف نہیں سمجھتے۔‘‘

ممبئی کی ایک ماہر نفسیات، ڈاکٹر سواتی دیپک کا کہنا ہے کہ عورتوں میں حیض سے پہلے اور حیض کے دوران بے چینی، تناؤ اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی علامتیں لگاتار دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ’’اس کی شدت الگ الگ عورتوں میں الگ الگ ہوتی ہے۔ اگر صحیح سے دیکھ بھال نہیں کی گئی، تو یہ حالت مزید خراب ہو سکتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ڈاکٹردیپک کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن دنوں میں عورتوں کو اپنی فیملی کی طرف سے پیار اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ امتیازی سلوک اور علیحدگی کی وجہ سے انہیں کافی صدمہ پہنچ سکتا ہے۔

ماڈیا خواتین کو اپنے گھر پر حیض کے دوران استعمال کرنے کے لیے پرانے کپڑے کے پیڈ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ’’ہم لوگ اسے جھونپڑی میں ہی چھوڑ آتے ہیں،‘‘ سرو تائی بتاتی ہیں۔ پرانے پیٹی کوٹ سے بنائے گئے کپڑے کے ان ٹکڑوں سے بھرے پلاسٹک بیگ کُرما گھر میں ہی چھوڑ دیے جاتے ہیں – جہاں انہیں دیوار کی سوراخوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے یا پھر بانس کی شہتیر سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ ’’چھپکلی اور چوہے چاروں طرف گھومتے رہتے ہیں، جو انہی پیڈز پر آ کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ اس کی وجہ سے پیڈز استعمال کرنے پر خارش اور انفیکشن ہونے لگتا ہے۔

جھونپڑی میں کوئی کھڑکی نہیں ہے، لہٰذا ہوا پاس نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے کے ان پیڈز میں بدبو آنے لگتی ہے۔ ’’بارش کے دنوں میں تو حالت اور بھی خراب ہو جاتی ہے،‘‘ سرو تائی کہتی ہیں۔ ’’مانسون کے دوران میں [سینیٹری] پیڈز استعمال کرتی ہوں کیوں کہ بارش کے دنوں میں کپڑے ٹھیک سے سوکھتے نہیں ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ سرو تائی ۹۰ روپے میں ۲۰ پیڈز کا ایک پیک خریدتی ہیں، جو دو مہینے تک چلتا ہے۔

وہ جس کُرما گھر میں جاتی ہیں، وہ کم از کم ۲۰ سال پرانا ہے۔ لیکن اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بانس سے بنا ڈھانچہ ٹوٹ رہا ہے اور مٹی کی دیواروں میں دراڑ پڑنے لگی ہے۔ ’’اسے دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتی ہیں کہ یہ کتنا پرانا ہوگا۔ کوئی بھی مرد اس کی مرمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیوں کہ حائضہ عورتوں کی وجہ سے یہ ناپاک ہو چکا ہے،‘‘ سرو تائی کہتی ہیں۔ ایسے میں مرمت کا کوئی بھی کام خود انہی عورتوں کو کرنا ہوگا۔

Left: The kurma ghar in Saru’s village where she spends her period days every month.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: Saru and the others who use the hut leave their cloth pads there as they are not allowed to store those at home
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: سرو تائی کے گاؤں کا کُرما گھر، جہاں وہ ہر مہینے حیض کی مدت گزارتی ہیں۔ دائیں: سرو تائی اور دیگر عورتیں اپنے کپڑے کے پیڈ اسی جھونپڑی میں چھوڑ آتی ہیں کیوں کہ ان کپڑوں کو انہیں اپنے گھر پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے

Left: A bag at the kurma ghar containing a woman’s cloth pads, to be used during her next stay there.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: The hut in this village is over 20 years old and in a state of disrepair. It has no running water or a toilet
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: کُرما گھر میں ایک عورت کا پرانے کپڑے کے پیڈز سے بھرا ہوا بیگ، جسے وہ یہاں اپنے اگلے قیام کے دوران استعمال کرے گی۔ دائیں: اس گاؤں کی یہ جھونپڑی تقریباً ۲۰ سال پرانی ہے اور اب کافی خستہ حالت میں ہے۔ اس میں نہ تو کوئی بیت الخلاء ہے اور نہ ہی پانی کا انتظام

*****

سرو تائی حالانکہ گزشتہ چار برسوں سے ایک پبلک ہیلتھ ورکر – منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا) – ہیں، پھر بھی حیض کے دوران انہیں کوئی چھوٹ نہیں ہے۔ ’’میں ایک آشا کارکن ہوں، لیکن اتنے برسوں میں یہاں کی عورتوں اور مردوں کی سوچ کو میں بھی تبدیل نہیں کر پائی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ سرو تائی بتاتی ہیں کہ اس رسم کو ماننے کی بنیادی وجہ حیض کے بارے میں لوگوں کی توہم پرستی ہے۔ ’’بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے [حائضہ عورتوں کے گھر پر رہنے سے] گرام دیوی ناراض ہو جائیں گی، اور پورے گاؤں کو اس کا خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔‘‘ ان کے شوہر ایک کالج گریجویٹ ہیں، ’’لیکن وہ بھی کُرما سسٹم کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

کُرما کی رسم کو نہ ماننے پر مرغ یا بکرے کی شکل میں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، جسے گاؤں کی دیوی کو چڑھایا جاتا ہے۔ سرو تائی بتاتی ہیں کہ ایک بکرا ۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے میں ملتا ہے، جس کی قیمت اس کے سائز پر منحصر ہوتی ہے۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ حیض کے دوران سرو تائی کو گھر پر رہنے کی تو اجازت نہیں ہے، لیکن ان سے اپنی فیملی کے کھیت پر کام کرنے اور مویشیوں کو چرانے کی توقع ضرور کی جاتی ہے۔ ان کی فیملی کے پاس دو ایکڑ زمین ہے جو بارش کے پانی پر منحصر ہے، جہاں یہ لوگ دھان کی کھیتی کرتے ہیں جو اس ضلع کی بنیادی فصل ہے۔ ’’ایسا نہیں ہے کہ مجھے کوئی آرام مل جاتا ہے۔ میں گھر کے باہر کام کرتی ہوں؛ اس سے تکلیف ہوتی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کی نظر میں یہ منافقت ہے، ’’لیکن اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔‘‘

آشا کارکن کے طور پر سرو تائی ہر مہینے ۲۵۰۰-۲۰۰۰ روپے کماتی ہیں۔ لیکن، ملک کی دیگر آشا کارکنوں کی طرح ہی انہیں بھی وقت پر پیسہ نہیں ملتا۔ پڑھیں: بیماری اور صحت میں گاؤں کی دیکھ بھال ۔ ’’میرے اکاؤنٹ میں ۴-۳ مہینے کے بعد پیسہ آتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

سرو تائی اور دیگر عورتوں کے لیے یہ رسم انتہائی پریشان کن ہے۔ ملک کے سب سے کم ترقی یافتہ ضلعوں میں شمار ہونے والے گڑھ چرولی کے زیادہ تر گاؤوں میں صدیوں پرانی کُرما روایت آج بھی جاری ہے۔ ماڈیا سمیت دوسرے آدیواسی قبیلے آبادی کا ۳۹ فیصد حصہ ہیں۔ ضلع کی تقریباً ۷۶ فیصد زمین جنگلات سے گھری ہوئی ہے اور انتظامی نقطہ نظر سے ضلع کو ’پس ماندہ‘ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ سیکورٹی دستے پہاڑی علاقوں میں گشت لگاتے رہتے ہیں، کیوں کہ یہاں ممنوعہ ماؤ نواز گروپوں کے کیڈر سرگرم رہتے ہیں۔

Left: In blistering summer heat, Saru carries lunch to her parents-in-law and husband working at the family farm. When she has her period, she is required to continue with her other tasks such as grazing the livestock.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: A meeting organised by NGO Samajbandh in a village in Bhamragad taluka to create awareness about menstruation and hygiene care among the men and women
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: شدید گرمی میں سرو تائی کھیت میں کام کر رہے اپنے ساس سسر اور شوہر کے لیے دوپہر کا کھانا لاتی ہیں۔ حیض کے دوران انہیں مویشی چرانے اور اپنے دوسرے کام کرتے رہنا ہوتا ہے۔ دائیں: مردوں اور عورتوں کے درمیان حیض اور صاف صفائی سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے بھامرا گڑھ تعلقہ کے ایک گاؤں میں غیر سرکاری تنظیم، سماج بندھ نے میٹنگ بلائی ہے

گڑھ چرولی کے کسی بھی موجودہ مطالعے میں، ضلع میں کُرما سسٹم چلانے والے گاؤوں کی تعداد کا ذکر نہیں ملتا۔ پونے کی ایک غیر منافع بخش تنظیم، سماج بندھ کے بانی سچن آشا سبھاش کہتے ہیں، ’’ہم ۲۰ گاؤوں کا احاطہ کر پائے ہیں، جہاں یہ رسم چل رہی ہے۔‘‘ یہ تنظیم ۲۰۱۶ سے گڑھ چرولی کے بھامرا گڑھ تعلقہ میں کام کر رہی ہے۔ ’سماج بندھ‘ کے کارکن آدیواسی خواتین میں حیض کے سائنس، اور صاف صفائی سے متعلق بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کُرما جھونپڑیوں سے عورتوں کی صحت کے لیے ممکنہ خطرات کے بارے میں مردوں اور عورتوں کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔

سچن مانتے ہیں کہ یہ چنوتی بھرا کام ہے۔ انہیں بیداری مہم اور ورکشاپ کا اہتمام کرنے پر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سچن بتاتے ہیں، ’’انہیں اچانک کُرما رسم بند کرنے کو کہنا آسان نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی ثقافت کا حصہ ہے اور باہری لوگوں کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔‘‘ ٹیم کو بھومیا (مکھیا) اور پیرما (خاندانی پجاری) جیسے گاؤوں کے رسوخ دار لوگ وارننگ اور دھمکی دے چکے ہیں۔ سچن کہتے ہیں، ’’ہم انہیں اس بارے میں حساس بنانے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ عورتوں کو کوئی فیصلہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔‘‘

وقت کے ساتھ سچن اور ان کے ساتھی رضاکاروں نے کچھ بھومیا کو کُرما جھونپڑیوں میں بجلی، پانی، ٹیبل پنکھے اور بستر رکھنے کے لیے راضی کیا ہے۔ انہوں نے عورتوں سے اپنے کپڑے کے پیڈ گھر پر سیل بند ٹرنک میں رکھنے کی بھی منظوری لی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کچھ بھومیا نے تحریری طور پر اپنی رضامندی دی ہے۔ مگر انہیں اُن خواتین کو علیحدگی میں نہ بھیجنے کے لیے منانے میں کافی وقت لگے گا جو کُرما گھر نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

*****

بیجور گاؤں میں پاروتی ۱۰ ضرب ۱۰ فٹ کی کُرما جھونپڑی میں اپنا بستر تیار کر رہی ہیں۔ محض ۱۷ سال کی پاروَتی گھبرا کر کہتی ہیں، ’’مجھے یہاں رہنا پسند نہیں ہے۔‘‘ بھامرا گڑھ تعلقہ کا بیجور ۳۵ گھروں اور ۲۰۰ سے کچھ کم لوگوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ حالانکہ، اس گاؤں میں حائضہ عورتوں کے لیے نو کُرما جھونپڑیاں ہیں۔

رات میں کُرما گھر میں رہنے کے دوران، دیوار کی دراڑ سے چھن کر آتی چاند کی ہلکی سی روشنی ہی پاروتی کے لیے واحد سہارا ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں آدھی رات کو اچانک جاگ جاتی ہوں۔ جنگل سے آتی جانوروں کی آوازوں سے مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘

بجلی کی موجودگی کے ساتھ اچھی طرح بنا ان کا ایک منزلہ گھر جھونپڑی سے ۲۰۰ میٹر سے بھی کم دور ہے۔ پاروتی لمبی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے یہاں نہیں، بلکہ اپنے گھر میں تحفظ کا احساس ہوتا ہے، مگر میرے والدین ضابطہ ٹوٹنے سے ڈرتے ہیں۔ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ گاؤں کے آدمی ان ضابطوں کے بارے میں سخت ہیں۔‘‘

Left: The kurma ghar in Bejur village where Parvati spends her period days feels spooky at night.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: The 10 x 10 foot hut, which has no electricity, is only lit by a beam of moonlight sometimes.
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: بیجور گاؤں کا کُرما گھر، جہاں پاروتی حیض کے دن گزارتی ہیں۔ رات میں انہیں وہاں ڈر لگتا ہے۔ دائیں: اس ۱۰ ضرب ۱۰ فٹ کی جھونپڑی میں بجلی نہیں ہے، کبھی کبھی صرف چاند کی روشنی سے ہی تھوڑا اجالا ہوتا ہے

پاروتی، بیجور سے ۵۰ کلومیٹر دور گڑھ چرولی کے ایٹا پلّی تعلقہ میں بھگونت راؤ آرٹ اینڈ سائنس کالج میں ۱۱ویں کلاس کی طالبہ ہیں۔ وہ وہاں ایک ہاسٹل میں رہتی ہیں اور چھٹیوں میں گھر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے گھر لوٹنے کا من نہیں کرتا۔ گرمیوں میں بہت گرمی ہوتی ہے اور مجھے اس چھوٹی سی جھونپڑی میں پوری رات پسینہ آتا ہے۔‘‘

کُرما گھر میں عورتوں کو جو اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں ان میں بیت الخلاء اور پانی کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاروتی کو رفع حاجت کے لیے جھونپڑی کے پیچھے جھاڑیوں میں جانا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’رات کو پوری طرح اندھیرا ہوتا ہے اور اکیلا جانا محفوظ نہیں لگتا۔ دن کے دوران ہمیں راہگیروں پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔‘‘ پاروتی کے گھر سے کوئی آدمی صفائی اور دھلائی کے لیے پانی کی بالٹی چھوڑ جاتا ہے۔ پینے کا پانی ایک اسٹیل کے گھڑے یا صراحی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مگر میں غسل نہیں کر سکتی۔‘‘

وہ جھونپڑی کے باہر مٹی کے چولہے پر اپنا کھانا پکاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اندھیرے میں کھانا بنانا آسان نہیں ہوتا۔ ’’گھر پر ہم زیادہ تر لال مرچ پاؤڈر اور نمک والے چاول کھاتے ہیں۔ یا بکرے کا گوشت، چکن، ندی کی مچھلی…‘‘ پاروتی کھانے کی فہرست بتاتی ہیں، جو ان کے حیض کے دنوں میں بھی برقرار رہتی ہے، لیکن اس دوران انہیں خود پکانا ہوتا ہے۔ پاروتی کہتی ہیں، ’’اُن دنوں گھر سے بھیجے گئے الگ الگ برتنوں کا استعمال ہوتا ہے۔‘‘

کُرما گھر میں رہتے ہوئے دوستوں، پڑوسیوں یا گھر کے لوگوں سے بات چیت کی اجازت نہیں ہوتی۔ پابندیوں کی فہرست کا ذکر کرتے ہوئے پاروتی کہتی ہیں، ’’میں دن میں جھونپڑی سے باہر نہیں نکل سکتی، نہ گاؤں میں گھوم سکتی ہوں، نہ کسی سے بات کر سکتی ہوں۔‘‘

*****

بھامرا گڑھ میں حائضہ عورتوں کو ناپاک ماننے اور انہیں علیحدگی میں رکھنے کی روایت کے سبب کئی بار حادثات اور اموات ہو چکی ہیں۔ بھامرا گڑھ کے چائلڈ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ آفیسر (سی ڈی پی او) آر ایس چوہان کہتے ہیں، ’’پچھلے پانچ سال میں کُرما گھر میں رہنے کے دوران سانپ اور بچھو کے کاٹنے سے چار عورتوں کی موت ہو چکی ہے۔‘‘ چوہان ریاست کے محکمہ برائے ترقی خواتین و اطفال کے نمائندے ہیں۔

Left: A government-built period hut near Kumarguda village in Bhamragad taluka
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: The circular shaped building is not inhabitable for women currently
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: بھامرا گڑھ تعلقہ میں کمار گُڈا گاؤں کے پاس حکومت کے ذریعہ تعمیر کردہ ایک جھونپڑی۔ دائیں: یہ گول عمارت فی الحال خواتین کے رہنے لائق نہیں ہے

Left: Unlike community-built kurma ghars , the government huts are fitted with windows and ceiling fans.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: A half-finished government kurma ghar in Krishnar village.
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: کمیونٹی کے ذریعے بنائے گئے کُرما گھروں کے برعکس سرکاری جھونپڑیوں میں کھڑکیاں اور چھت کے پنکھے لگے ہوئے ہیں۔ دائیں: کرشنار گاؤں میں ادھورا بنا سرکاری کُرما گھر

چوہان بتاتے ہیں کہ بوسیدہ ہوتے کُرما گھروں کے متبادل کے طور پر ۲۰۱۹ میں ضلع انتظامیہ نے سات ایسے ’گھر‘ بنائے تھے۔ ہر جھونپڑی میں ایک وقت میں ۱۰ حائضہ عورتوں کے رہنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ان دائرہ کار عمارتوں میں ہوا پاس ہونے کے لیے کھڑکیاں ہیں۔ ان میں بیت الخلاء اور بستر، پانی کے لیے نل (پائپ) اور بجلی کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

جون ۲۰۲۲ میں ایک سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ گڑھ چرولی میں کُرما گھروں کی جگہ ۲۳ ’مہیلا وساوا کیندر‘ (عورتوں کی قیام گاہ) بنائے گئے تھے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مرکز کی مدد سے اور یونیسیف مہاراشٹر کے تکنیکی تعاون سے اگلے دو سال میں ضلع انتظامیہ ایسے ۴۰۰ مراکز کی تعمیر کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

جب پاری نے مئی ۲۰۲۳ میں بھامرا گڑھ میں حکومت کے ذریعے کرشنار، کیار اور کمار گُڈا گاؤوں میں تعمیر کردہ تین کُرما گھروں کا دورہ کیا، تو وہ آدھے ادھورے ملے اور رہنے لائق نہیں تھے۔ سی ڈی پی او چوہان اس کی تصدیق نہیں کر سکے کہ ان سات کُرما گھروں میں سے کوئی چل رہا تھا یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ٹھیک ٹھیک کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہاں، بندوبست کا انتظام خراب ہے۔ میں نے ان میں سے کچھ کو بری حالت میں دیکھا ہے۔ کچھ جگہوں پر، پیسے کی کمی کے سبب یہ ادھورے چھوٹ گئے ہیں۔‘‘

سوال یہ ہے کہ اس متبادل سے کُرما روایت ختم کرنے میں مدد کیسے ہوگی؟ سماج بندھ کے سچن آشا سبھاش کہتے ہیں، ’’اسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ سرکاری کُرما گھر کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے حوصلہ افزائی ہے۔‘‘

حیض کے سبب عورتوں کو علیحدہ کر دینا، ہندوستانی آئین کی دفعہ ۱۷ کی خلاف ورزی ہے، جو کسی بھی طرح چھوا چھوت پر روک لگاتی ہے۔ انڈین ینگ لایرز ایسو سی ایشن بنام ریاست کیرالہ کے معاملے میں اپنے فیصلہ میں، ۲۰۱۸ میں سپریم کورٹ نے کہا تھا: ’’حیض کی بنیاد پر عورتوں کا سماجی بائیکاٹ، چھوا چھوت کی ہی ایک شکل ہے، جو آئینی اقدار کے لیے لعنت ہے۔ ’پاکی اور آلودگی‘ کے تصورات جو لوگوں کو رسوا کرتے ہیں، ان کی آئینی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

Left: An informative poster on menstrual hygiene care.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: The team from Pune-based Samajbandh promoting healthy menstrual practices in Gadchiroli district.
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: حیض کے دوران صاف صفائی کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ایک پوسٹر۔ دائیں: پونے کی ’سماج بندھ‘ ٹیم گڑھ چرولی ضلع میں حیض کے صحت مند طور طریقوں کو فروغ دے رہی ہے

Ashwini Velanje has been fighting the traditional discriminatory practice by refusing to go to the kurma ghar
PHOTO • Jyoti Shinoli

اشونی ویلنجے، کُرما گھر جانے سے انکار کر کے اس امتیازی روایت کے خلاف لڑ رہی ہیں

حالانکہ، یہ امتیازی روایت پدرانہ نظام کے سائے میں سانس لے رہی ہی۔

بھامرا گڑھ تعلقہ کے گولا گُڈا گاؤں کے پیرما (خاندانی پجاری) لکشمن ہویامی کہتے ہیں، ’’یہ بھگوان سے جڑی چیز ہے۔ ہمارے بھگوان چاہتے ہیں کہ ہم اس [رسم] کی تعمیل کریں، اور اگر ہم نہیں مانیں گے، تو ہمیں نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ہمیں کئی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا اور لوگوں کو نقصان ہوگا۔ بیماریاں بڑھیں گی۔ ہماری بھیڑیں اور مرغیاں مر جائیں گی…یہ ہماری روایت ہے۔ ہم اسے ماننا نہیں بند کر سکتے اور قحط، سیلاب یا کسی دوسری قدرتی آفت میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ روایت ہمیشہ چلتی رہے گی…‘‘ وہ پرعزم لہجے میں کہتے ہیں۔

ہویامی جیسے کئی لوگ کُرما رسم جاری رکھنے پر بضد ہیں، تو کچھ نوجوان عورتیں اس کے جال میں نہ پھنسنے کے لیے پر عزم ہیں – کرشنار گاؤں کی ۲۰ سالہ اشونی ویلنجے کی طرح۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے اس شرط پر شادی کی تھی کہ میں کُرما کی تعمیل نہیں کروں گی۔ اسے بند ہونا چاہیے۔‘‘ اشونی نے ۲۰۲۱ میں ۱۲ویں جماعت کی تعلیم مکمل کی۔ اس سال مارچ میں انہوں نے ۲۲ سالہ اشوک کے شرط ماننے کے بعد ہی شادی کی تھی۔

اشونی جب ۱۴ سال کی تھیں، تب سے وہ کُرما روایت پر عمل کر رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنے والدین سے بحث کرتی تھی، لیکن سماجی دباؤ کے سبب وہ لاچار تھے۔‘‘ شادی کے بعد سے اشونی اپنے حیض کی مدت گھر کے برآمدے میں گزارتی ہیں۔ وہ اپنی فیملی پر لگنے والے تمام الزامات کو نظر انداز کرتے ہوئے نظام سے لڑنا جاری رکھے ہوئی ہیں۔ اشونی کہتی ہیں، ’’میں نے کُرما گھر سے برآمدے تک کا فاصلہ طے کر لیا ہے۔ جلد ہی میں حیض کے دوران گھر کے اندر رہوں گی۔ میں یقیناً اپنے گھر میں تبدیلی لاؤں گی۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

ਜਯੋਤੀ ਸ਼ਿਨੋਲੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਸੀਨੀਅਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ; ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਪਹਿਲਾਂ 'Mi Marathi' ਅਤੇ 'Maharashtra1' ਜਿਹੇ ਨਿਊਜ ਚੈਨਲਾਂ ਵਿੱਚ ਵੀ ਕੰਮ ਕੀਤਾ ਹੋਇਆ ਹੈ।

Other stories by Jyoti Shinoli
Editor : Vinutha Mallya

ਵਿਨੂਤਾ ਮਾਲਿਆ ਪੱਤਰਕਾਰ ਤੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਸੰਪਾਦਕੀ ਪ੍ਰਮੁੱਖ ਸਨ।

Other stories by Vinutha Mallya
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique