تمل ناڈو کے وَڈنمیلی گاؤں میں شام ڈھل چکی ہے۔ شری پونّی یمّن تیروکوتو منڈرم کے ممبران کاریہ کوتو کی پیشکش کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح یہ شو شام سے صبح تک چلے گا، جس میں بہت سے کردار ہوں گے، جو کئی دفعہ اپنے لباس تبدیل کریں گے۔

اسٹیج کے پیچھے۳۳ سالہ شَرمی نے میک اپ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب وہ اپنی لپ اسٹک بنانے کے لیے تیل میں سرخ پاؤڈر ملاتی ہیں، تو وہ اَریتارَم (میک اپ) کے کچھ بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کرتی جاتی ہیں: ’’مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ اریتارم ہوتے ہیں۔ یہ کردار اور کردار کی طوالت کے لحاظ سے بھی طے ہوتا ہے۔‘‘

شرمی ان چار ٹرانس جینڈر فنکاروں میں سے ایک ہیں جو شری پونّی یمّن تیروکوتو منڈرم ڈرامہ کمپنی کی ۱۷ رکنی ٹیم کا میک اپ کرتی ہیں۔ یہ کمپنی تمل ناڈو کی سب سے قدیم پرفارمنگ آرٹ کی صنف میں سے ایک تصور کی جانے والی صنف کے لیے مخصوص ہے۔ شَرمی کہتی ہیں، ’’میری نسل سے پہلے کے لوگ بھی تیروکوتو کی پیشکش کیا کرتے تھے۔ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی  کہ یہ کتنی قدیم ہے۔‘‘

تیروکوتو ایک طرح کا اسٹریٹ تھیٹر ہوتا ہے۔ اس میں رزمیہ نظموں، عام طور پر مہابھارت اور رامائن کی کہانیوں، کی پیشکش ہوتی ہے، اور اسے پوری رات پرفارم کیا جاتا ہے۔ تیروکوتو کا موسم عام طور پر پنگونی (اپریل) اور پورٹّاسّی (ستمبر) کے مہینوں کے درمیان آتا ہے۔ اس عرصے میں شَرمی اور ان کا گروپ تقریباً ہر ہفتے کے دن اپنا ڈرامہ اسٹیج کرتے ہیں۔ اس حساب سے مہینہ میں تقریباً ۱۵ سے ۲۰  پرفارمنس ہو جاتے ہیں۔ انہیں ہر پرفارمنس کے لیے ۷۰۰ سے ۸۰۰ روپے ملتے ہیں، یعنی ان کی آمدنی فی فنکار آمدنی تقریباً ۱۰ ہزار سے ۱۵ ہزار روپے ہوتی ہے۔

تاہم، موسم ختم ہونے کے بعد فنکاروں کو مجبوراً آمدنی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ ان ذرائع میں کاریہ کوتو بھی شامل ہے۔ یہ رسم پر مبنی تیروکوتو کی ایک شکل ہے، جسے کسی کی آخری رسومات کے دوران پرفارم کیا جاتا ہے۔ ’’کسی کی موت پر ہمیں ہفتے میں کاریہ کوتو پرفارم کرنے کے ایک یا دو مواقع مل جاتے ہیں،‘‘ وڈنمیلی میں کاریہ کوتو کی پیشکش کی تیاری کرتے ہوئے شرمی کہتی ہیں۔ وہ ابھی تروولّور ضلع کے پَٹّرئی پیرمبدور میں اپنی ڈرامہ کمپنی کے دفتر سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور ہیں۔

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

شرمی وڈنمیلی گاؤں میں تیروکّوتو کی اپنی پیشکش کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ انہوں نے چار سال پہلے تیروکوتو پرفارم کرنا شروع کیا تھا۔ یہ اسٹریٹ تھیٹر کی ایک شکل ہے، جس کی پیشکش رزمیہ نظموں، عموماً مہابھارت اور رامائن پر مبنی ہوتی ہے

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

جب وہ اپنی لپ اسٹک بنانے کے لیے تیل میں سرخ پاؤڈر ملاتی ہیں، تو اَریتارم (میک اپ) کے کچھ بنیادی اصول بتاتی ہیں: ’مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ اریتارم ہوتے ہیں۔ یہ کردار اور کردار کی طوالت کے لحاظ سے بھی طے ہوتا ہے

کُوتُو کے لیے ’اسٹیج‘ تیار ہو چکا ہے۔ متوفی کے گھر کے باہر کپڑے کا خیمہ نصب کر دیا گیا ہے اور سڑک پر کالی چادر بچھا دی گئی ہے۔ گھر کے سامنے رکھی جانے والی مرحوم کی تصویر اپنے ارد گرد رکھے چھوٹے چھوٹے لیمپوں کی روشنی کو منعکس کر رہی  ہے۔ سڑک کے کنارے لگائے گئے بینچ، برتن اور میزیں یہ احساس دلا رہی ہیں کہ یہاں کھانے کا بھی انتظام ہے۔

شرمی مزید بتاتی ہیں، ’’جب پورے گاؤں میں خاموشی چھا جاتی ہے، تو اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہمارے ساز صحیح ڈھنگ سے کَسے ہوئے ہیں اور قابل سماعت ہیں، تو ہم انہیں درست کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم میک اپ بھی لگانا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ کُوتُو رات ۱۰ بجے مُوڈی (تاج، پرفارمینس کے دوران پہنے جانے والا زیور) کی پوسئی (چڑھاوے) کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ ’’ پوسئی ڈرامے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ڈرامہ کامیاب ہو اور فنکار بحفاظت اپنے گھروں کو لوٹ جائیں،‘‘ وہ وضاحت کرتی ہیں۔

آج کی شام کا ڈرامہ، مِنّ لولی شیو پوجا ہے، جو مہابھارت کی ایک کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں پانڈو شہزادے ارجنن اور ان کی آٹھ بیویوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ’’میں سبھی آٹھ کردار ادا کر سکتی ہوں [لیکن] آج میں بوگاوتی کا کردار ادا کر رہی ہوں،‘‘ اس رزمیہ کے ناموں اور کرداروں کی پرتوں کو کھولتے ہوئے شرمی کہتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ مِنّ لولی (برق) ارجنن کی آٹھ بیویوں میں سے ایک تھیں۔ وہ راجا میگراسن (بادلوں کے راجا) اور رانی کوڈیکّلا دیوی کی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی ارجنن سے اس وقت ہوئی جب وہ پانچ سال کی تھیں۔ سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد جب انہوں نے اپنے والدین سے اپنے شوہر کے بارے میں دریافت کیا، تو ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے شوہر سے ملنے سے پہلے ۴۸ دن تک شیو پوسئی (بھگوان شیو کو چڑھاوا) پیش کریں۔ مِنّ لولی نے ۴۷ دنوں تک اس رسم کو تندہی سے انجام دیا۔ ۴۸ویں دن ارجنن پوسئی کرنے سے پہلے ان سے ملنے پہنچ گئے۔ انہوں نے ارجنن سے ملنے سے گریز کیا، ان سے پوسائی ختم ہونے تک انتظار کرنے کی درخواست کی۔ ارجنن نے سننے سے انکار کر دیا۔ یہ ڈرامہ اسی واقعہ کے گرد گھومتا ہے اور بھگوان کرشن کے پہنچنے سے پہلے اس میں کئی موڑ آتے ہیں۔ کرشن کی آمد کہانی کے خوشگوار انجام کو یقینی بناتی ہے اور مِنّ لولی اور ارجنن دوبارہ مل جاتے ہیں۔

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

بائیں: رات ۱۰ بجے ڈرامے میں پہنے جانے والے ایک زیور موڈی (تاج) پر چڑھاوے کے ساتھ پرفارمنس شروع ہوتی ہے۔ دائیں: تِیروکوتو کے لیے اسٹیج تیار ہے

شرمی اپنے ہونٹوں پر مئی (کالی سیاہی) لگانے لگتی ہیں۔ ’’مجھے ہونٹوں پر مئی لگاتے دیکھ کر بہت سے لوگوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میری کایا کلپ (میک اور) کی وجہ سے لوگ اب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں عورت ہوں؟ [میں چاہتی ہوں کہ] جب میں میک اوور کرکے باہر جاؤں تو مرد مجھ سے نظریں نہ ہٹائیں۔‘‘

شرمی کو ’’میک اپ کا اس قدر شوق ہے‘‘ کہ انہوں نے کچھ سال پہلے بیوٹیشن کا چھ ماہ کا کورس بھی مکمل کر رکھا ہے۔ ’’لیکن [جنسی منتقلی] سے پہلے مجھے خواتین کی طرح میک اپ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘

شرمی کو اپنا اَریتارم کرنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ وہ ساڑی پہن کر بوگاوتی کا ’روپ‘ اختیار کرتی ہیں۔ ’’مجھے کسی نے ساڑی پہننے کا طریقہ نہیں سکھایا۔ میں نے خود سیکھ لیا۔ میں نے خود اپنی ناک اور کان میں سوراخ کیے۔ میں نے یہ سب خود ہی سیکھا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

’’صرف آپریشن ایک ڈاکٹر نے کیا تھا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپریشن کیسے کرتے ہیں، تو میں نے آپریشن بھی کر لیا ہوتا۔ لیکن مجھے ہسپتال میں اس کے لیے ۵۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے،‘‘ وہ ۲۳ سال کی عمر میں صنفی تصدیق کی سرجری کے بارے میں بتاتی ہیں۔

’’کسی ٹرانس عورت کا ساڑی پہننا ابھی تک نارمل نہیں ہوا ہے۔ ہم ساڑی پہن کر سڑکوں پر اتنی آسانی سے نہیں چل سکتے جتنی آسانی سے دوسری خواتین چلتی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ تاہم، ان کا پیشہ انہیں غنڈہ گردی اور ہراسانی سے کچھ تحفظ فراہم کرتا ہے، جس کا سامنا خواتین کو اکثر کرنا پڑتا ہے۔ ’’لوگ میری عزت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ میں تھیٹر کی فنکار ہوں۔‘‘

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

شرمی کو اپنا میک اپ (بائیں) کرنے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے لگتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے ہونٹوں پر مئی [کالی سیاہی] لگاتے دیکھ کر بہت سے لوگوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ دوسرے کردار ادا کرنے والے فنکاروں کے میک اپ میں بھی مدد کرتی ہیں

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

پرفارمنس کی تیاری میں مرد فنکار میک اپ لگا رہے ہیں

*****

’’میرا تعلق ضلع تروولور [تامل ناڈو] کے ایکاڈو گاؤں سے ہے،‘‘ شرمی اپنی ٹوپا (وگ) میں کنگھی کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ انہیں یاد ہے کہ وہ بچپن میں بھی گانے اور ڈائیلاگ کی ادائیگی کا فطری مزاج رکھتی تھیں۔ ’’مجھے بچپن میں ہی تھیٹر سے محبت ہو گئی تھی۔ خواہ میک اپ ہوں یا ملبوسات، مجھے اس کی ہر چیز پسند تھی۔ لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک دن تھیٹر آرٹسٹ بن جاؤں گی۔‘‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے ان کے تھیٹر کا سفر ’راجا رانی ڈانس‘ سے شروع ہوا تھا، جو رقص اور تال (پرکشن) کا امتزاج ہوتا ہے اور اسے سڑکوں پر پرفارم کیا جاتا ہے۔ ’’اس کے بعد تقریباً دس سال تک میں نے عصری کہانیوں کے ساتھ تیروکوتو کے اسٹیج ایڈپٹیشن میں کام کیا۔ اور تیرکوتو پرفارم کرنا شروع کیے تقریباً چار سال ہو چکے ہیں۔‘‘

اسٹیج کے پیچھے کردار ادا کرنے والے فنکاروں نے اریتارم لگانا شروع کر دیا ہے۔ شرمی اپنی باتیں جاری رکھتی ہیں۔ ’’میری فیملی نے میری پرورش ایک لڑکی کے طور پر کی تھی۔ وہ مجھے بہت فطری محسوس ہوتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں. وہ چوتھی جماعت میں تھیں جب انہیں اپنی ٹرانس جینڈر شناخت کا علم ہوا۔ ’’لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ دوسروں کو کیسے بتایا جائے۔‘‘

ان کا سفر آسان نہیں ہونے والا تھا، جیسا کہ انہیں بعد میں احساس ہوا۔ اسکول میں ہونے والی بدمعاشی کو وہ برداشت نہ کرسکیں، اور انہوں نے دسویں جماعت کے بعد اپنی تعلیم ترک کر دی۔ ’’تیروڈا تیروڈی نامی ایک فلم اسی وقت ریلیز ہوئی تھی۔ جماعت کے لڑکے میرے اردگرد جمع ہو جاتے اور ونڈارکوڈلی گیت [ایک مقبول گانا جس میں خواجہ سراؤں کا بیہودہ حوالہ دیا جاتا ہے] گانے لگتے۔ اس کے بعد میں اسکول نہیں گئی۔‘‘

’’میں اپنے والدین کو نہیں بتا سکی [کہ میں نے اسکول جانا کیوں چھوڑ دیا]۔ وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھے۔ اس لیے میں نے کچھ نہیں کہا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اپنی نوعمری میں گھر سے بھاگ کھڑی ہوئی اور ۱۵ سال بعد واپس آئی تھی۔‘‘

گھر واپسی کا سفر بھی آسان نہیں تھا۔ جب وہ گھر سے دور تھیں، تو ان کے بچپن کے گھر کو شدید نقصان پہنچا تھا اور وہ ناقابل رہائش ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں کرایے پر مکان تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ شرمی کہتی ہیں، ’’میں اس گاؤں میں پلی بڑھی، لیکن مجھے یہاں کرایے پر مکان نہیں ملا، کیونکہ میں ایک ٹرانس جینڈر ہوں۔ وہ [مکان مالکان] سوچتے ہیں کہ ہم گھر میں جسم فروشی کرتے ہیں۔‘‘ بالآخر وہ گاؤں سے بہت دور کرایے کے ایک مکان میں منتقل ہو گئیں۔

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

’مجھے بچپن میں ہی تھیٹر سے عشق ہوگیا تھا۔ خواہ میک اپ ہو یا ملبوسات، مجھے ہر چیز پسند تھی۔ لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک دن تھیٹر آرٹسٹ بن جاؤں گی،‘ شرمی کہتی ہیں

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

’میری فیملی نے میری پرورش ایک لڑکی کے طور پر کی تھی۔ وہ بہت فطری محسوس ہوتا تھا،‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ وہ اسکول میں غنڈہ گردی برداشت نہ کر سکیں، اور ۱۰ویں جماعت کے بعد تعلیم بند کر دی۔ شرمی اب اپنی ۵۷ سالہ ماں (دائیں) اور ۱۰ بکریوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ بکریاں ان مہینوں میں آمدنی کا ذریعہ بنتی ہیں جب کوئی تیروکوتو نہیں ہوتا ہے

شرمی، جن کا تعلق آدی دراوڈار برادری [درج فہرست ذات کے طور پر درج] سے ہے، اب اپنی ۵۷ سالہ ماں اور اپنی ۱۰ بکریوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ بکریاں ان مہینوں میں ان کی آمدنی کا ذریعہ بنتی ہیں جب کوئی تیروکوتو نہیں ہوتا ہے۔

’’تِیروکّوتو میرا واحد پیشہ ہے۔ یہ ایک قابل احترام پیشہ بھی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں لوگوں کے درمیان باوقار محسوس کرتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’جب [اکتوبر اور مارچ کے درمیان] کوئی تیروکوتو نہیں ہوتا ہے تو ہم زندہ رہنے کے لیے اپنی بکریاں بیچ دیتے ہیں۔ میں پیچئی [بھیک مانگنے] یا جسم فروشی کے دھندے میں نہیں جانا چاہتی۔‘‘

شرمی کو نرسنگ میں بھی گہری دلچسپی ہے۔ ’’میں اپنی بکریوں کے بیمار ہونے پر ان کا علاج خود کرتی ہوں۔ حتی کہ میں ان کی دائی بھی بن جاتی ہوں جب وہ بچے جنتی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن میں ایک پیشہ ور نرس نہیں بن سکتی۔‘‘

*****

ناظرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے پرفارمنس کی شروعات مسخرے کے گانے اور لطیفوں سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد، مرکزی کردار ادا کرنے والا مرد فنکار اسٹیج پر آتا ہے۔ میگراسن اور کوڈیکلا دیوی اپنے اپنے تعارفی گیت پیش کرتے ہیں اور ڈرامے کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

یہاں پیش کیا جانے والا ڈرامہ، منّ لولی شیوا پوجا، مہابھارت کی ایک کہانی پر مبنی ہے جو پانڈو  شہزادے ارجنن اور ان کی آٹھ بیویوں کے بارے میں ہے۔ شرمی بوگاوتی کا کردار ادا کر رہی ہیں

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

شرمی اور دیگر فنکاروں نے ڈرامے کے دوران تقریباً ۱۰ بار لباس تبدیل کیے، یہ دیکھ کر ناظرین حیران رہ گئے

لطیفوں، گیتوں اور نوحہ خوانی کے ساتھ کہانی تیز رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔ مونوسامی، مسخرہ، اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیت لیتا ہے اور لوگوں کو اتنا ہنساتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ شرمی اور دیگر فنکار ڈرامے کے دوران تقریباً ۱۰ بار لباس تبدیل کرتے ہیں، یہ دیکھ کر ناظرین حیران رہ جاتے ہیں۔ پورے ڈرامے کے دوران وقفے وقفے سے چابک کی آواز نکالی جاتی ہے، جو اسٹیج پر چل رہے عمل میں تھوڑی ڈرامائیت شامل کرنے کے ساتھ ساتھ سامعین کی نیندیں اڑا دینے کا کام بھی کرتی ہے۔

تقریباً ساڑھے تین بجے صبح مِنّ لولی، جسے ارجنن نے ایک بیوہ کی طرح زندگی گزارنے کی بد دعا دی ہے، اسٹیج پر نمودار ہوتی ہے۔ ڈرامہ نگار روبن یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی اوپّاری (نوحہ خوانی) سن کر ناظرین میں سے کئی رونے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ گیت گاتے روبن کے ہاتھ میں نقدی بھی رکھ دیتے ہیں۔ منظر کے اختتام پر ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے مسخرہ اسٹیج پر واپس آتا ہے۔

اب سورج طلوع ہونے والا ہے۔ مِنّ لولی کا حال ہی میں ارجنن کے ساتھ دوبارہ ملاپ ہوا ہے۔ روبن مرحومین کا نام لے کر ان سے دعائے خیر کی درخواست کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ڈرامے کے اختتام کا اعلان کر دیتے ہیں۔ صبح کے ۶ بج چکے ہیں اور اب پیک اپ کا وقت ہے۔

فنکار گھر جانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس وقت تھکے ہوئے ہیں لیکن خوش ہیں، کیونکہ پرفارمنس کامیاب رہی اور کوئی غیرمعمولی واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔ ’’بعض اوقات، لوگ ہمیں [شو کے دوران] تنگ کرتے ہیں۔ دراصل، ایک بار ایک آدمی نے مجھ پر چاقو سے حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، کیونکہ میں نے اسے اپنا فون نمبر دینے سے انکار کر دیا تھا،‘‘ شرمی بتاتی ہیں۔ ’’جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم ٹرانس عورتیں ہیں، تو مرد بعض اوقات ہمارے ساتھ بدتمیزی پر اتر آتے ہیں اور یہاں تک کہ جنسی تعلقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم بھی انسان ہیں۔ اگر وہ ایک لمحہ کے لیے بھی رک کر یہ سوچیں کہ ہمیں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے، تو وہ یہ سب نہیں کریں گے۔‘‘

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

ڈرامے میں لطیفے اور نوحہ خوانی بھی شامل ہے۔ شرمی کرشنا کا کردار ادا کرنے والی گوبی (دائیں) کے ساتھ پرفارم کر رہی ہیں

PHOTO • Akshara Sanal
PHOTO • Akshara Sanal

روبن (بائیں)، جو منّ لولی اور اَپّون کا کردار ادا کرتے ہیں، کلائمکس کے دوران ارجنن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شرمی (دائیں) ڈرامے کے بعد تیل سے اپنا میک اپ ہٹا رہی ہیں

اریتارم آسانی سے صاف نہیں ہوتا، لہٰذا فنکار اپنے چہرے پر تیل لگا کر تولیہ سے صاف کرتے ہیں۔ ’’جب ہم گھر پہنچیں گے، تو (فاصلہ کے لحاظ سے) صبح کے ۹ یا ۱۰ بج چکے ہوں گے۔ گھر پہنچ کر میں کھانا پکاؤں گی، کھاؤں گی اور سو جاؤں گی۔ ہوسکتا ہے کہ میں دوپہر میں اٹھنے کے بعد کھانا کھاؤں، یا میں شام تک سوتی رہوں،‘‘ شرمی کہتی ہیں۔ ’’جب آپ [کُوتو سیزن کے دوران] مسلسل پرفارم کرتے ہیں تو آپ کبھی نہیں تھکتے ہیں۔ لیکن جب سیزن نہیں ہوتا، تو پرفارمنس کے درمیان طویل وقفے کی وجہ سے پرفارم کرنا زیادہ تھکا دینے والا ہوتا ہے۔‘‘

شرمی بتاتی ہیں کہ وہ آرام کرنے یا اپنی پرفارمنس کی تعداد کم کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ تیروکوتو فنکار کے لیے عمر ایک اہم عنصر ہوتا ہے: فنکار جتنا کم عمر اور صحت مند ہوگا، اس کے لیے روزگار حاصل کرنے اور ۷۰۰ سے ۸۰۰ روپے فی پرفارمنس کمانے کے اتنے ہی بہترمواقع ہوں گے۔ جیسے ہی عمر بڑھنے لگتی ہے، ان کے پرفارمنس کے مواقع کم ہو جاتے ہیں اور ان کی کمائی بھی گھٹ کر تقریباً ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے فی شو ہو جاتی ہے۔

شرمی کہتی ہیں، ’’بطور تھیٹر آرٹسٹ، ہمیں صرف اسی وقت تک روزگار ملتا ہے جب تک ہمارے چہرے خوبصورت ہیں اور ہمارے جسموں میں طاقت ہے۔ اس سے پہلے کہ میں انہیں [چہرہ، عزت، اور روزگار] کھو دوں، مجھے اتنا کما لینا ہے کہ ایک گھر بنوا سکوں اور اپنا پیٹ پالنے کے لیے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کر سکوں۔ تب ہی بڑھاپے میں ہمارا گزر ہو سکے گا!‘‘

اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Poongodi Mathiarasu

ਪੂਨਗੋਡੀ ਮਟੀਆਰਾਸੂ ਤਾਮਿਲਨਾਡੂ ਦੇ ਇੱਕ ਲੋਕ ਕਲਾਕਾਰ ਹਨ ਅਤੇ ਪੇਂਡੂ ਲੋਕ ਕਲਾਕਾਰਾਂ ਅਤੇ ਐਲਜੀਬੀਟੀਕਿਊਆਈਏ + ਭਾਈਚਾਰੇ ਨਾਲ਼ ਮਿਲ਼ ਕੇ ਕੰਮ ਕਰਦੇ ਹਨ।

Other stories by Poongodi Mathiarasu
Photographs : Akshara Sanal

ਅਕਸ਼ਰਾ ਸਨਲ ਚੇਨਈ ਅਧਾਰਤ ਫ੍ਰੀਲਾਂਸ ਫੋਟੋ ਜਰਨਲਿਸਟ ਹਨ। ਉਹ ਜਨਤਾ ਨਾਲ਼ ਜੁੜੀਆਂ ਕਹਾਣੀਆਂ 'ਤੇ ਕੰਮ ਕਰਨਾ ਪਸੰਦ ਕਰਦੇ ਹਨ।

Other stories by Akshara Sanal
Editor : Sangeeta Menon

ਸੰਗੀਤਾ ਮੈਨਨ ਮੁੰਬਈ-ਅਧਾਰਤ ਲੇਖਿਕਾ, ਸੰਪਾਦਕ ਤੇ ਕਮਿਊਨੀਕੇਸ਼ਨ ਕੰਸਲਟੈਂਟ ਹਨ।

Other stories by Sangeeta Menon
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam