’’پٹنہ کبھی ہفتہ بھر چلنے والے تلنگی [پتنگ] مقابلوں کی میزبانی کیا کرتا تھا۔ یہاں لکھنؤ، دہلی اور حیدرآباد کے پتنگ باز مدعو کیے جاتے تھے۔ یہ ایک تہوار کی طرح تھا،‘‘ سید فیضان رضا بتاتے ہیں۔ گنگا کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے وہ ہم سے بات کر رہے ہیں۔ سامنے ندی کی وسعت میں کھلے آسمان کا عکس ابھر رہا ہے۔ یہ وہ آسمان ہے جہاں ان کے مطابق کسی زمانے میں ہزاروں پتنگیں اڑا کرتی تھیں۔
پٹنہ میں ندی کے کنارے آباد ڈولی گھاٹ سے تعلق رکھنے والے اس تجربہ کار بزرگ کا کہنا ہے کہ اشراف سے لے کر طوائفیں تک تمام سماجی طبقوں کے لوگ اس کھیل کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ وہ نام لینا شروع کرتے ہیں: ’’بسم اللہ جان [طوائف] سرپرستی فراہم کرتی تھیں، اور میر علی ضامن اور میر کفایت علی پتنگ سازی اور پتنگ بازی کے مشہور استادوں میں شامل تھے۔‘‘
اس کھیل کے ساز و سامان کی فراہمی کے لیے، پٹنہ کے گروہٹہ اور اشوک راج پتھ پر واقع خواجہ کلاں کے درمیان (تقریباً ۷۰۰ سے ۸۰۰ میٹر کا فاصلہ) کا علاقہ کبھی پتنگوں کے تاجروں سے بھرا رہتا تھا۔ ان کی دکانوں کے آگے لہراتے ہوئے رنگ برنگے ساز و سامان دعوت نظارہ دیتے تھے۔ ’’پٹنہ کی پتنگوں میں استعمال ہونے والے دھاگے عام دھاگوں سے زیادہ موٹے ہوا کرتے تھے۔ سوتی اور ریشم کے مرکب سے بنے یہ دھاگے نکھ کہلاتے تھے،‘‘ رضا مزید کہتے ہیں۔
بلو منتھلی میگزین کے ۱۸۶۸ کے ایک شمارہ میں پٹنہ کا ذکر پتنگوں کے لیے مشہور شہر کے طور پر کیا گیا ہے۔ ’’اس علاقہ میں جو شخص بہت جلد امیر بننا چاہتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ پٹنہ کی پتنگوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے۔ بازاروں میں ہر دس میں سے ایک دکان پتنگ کی ہے۔ یہ دیکھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ پوری آبادی پتنگ اڑاتی ہے۔ بغیر دم والی ہیرے کی شکل کی پتنگیں پرندوں کے پر کی طرح ہلکی ہوتی ہیں اور ریشم کی سب سے ہلکی ڈور کے ساتھ اڑائی جاتی ہے۔
سو سال بعد بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں، لیکن پٹنہ کی تلنگیاں اپنی غیرمعمولی خصوصیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں: وہ آج بھی بغیر دم کی ہیں۔ ’’دم تو کتے کا نہ ہوتا ہے جی، تلنگی کا تھوڑے،‘‘ پتنگ ساز شبینہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ عمر کی ۷۰ویں منزل عبور کر چکیں شبینہ نے بینائی کی کمزوری کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل تلنگیاں بنانا چھوڑ دیا تھا۔
پٹنہ آج بھی پتنگ سازی اور اس کی فراہمی کا ایک اہم مرکز ہے۔ یہاں کی پتنگیں اور ان سے متعلق چیزیں پورے بہار اور پڑوسی ریاستوں میں سپلائی کی جاتی ہیں۔ یہاں کی پریتیاں اور تلنگیاں سلی گڑی، کولکاتا، مالدہ، رانچی، ہزاری باغ، جون پور، کھٹمنڈو، اناؤ، جھانسی، بھوپال اور یہاں تک کہ پونے اور ناگپور تک کا سفر کرتی ہیں۔
*****
اشوک شرما اپنے مرحوم والد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’تلنگی بنانے کے لیے بھی وقت چاہیے اور اڑانے کے لیے بھی۔ آج اس شہر میں وقت نایاب ترین چیز بن گیا ہے۔‘‘
شرما تیسری نسل کے تلنگی (پتنگ) ساز اور تلنگی فروش ہیں۔ مٹی کی دیواروں اور مٹی کے کھپڑوں کی چھت والی ان کی دکان ایک صدی پرانی ہے۔ یہ دکان پٹنہ شہر کے مرکز میں بہار کے قدیم ترین گرجا گھر (اشوک راج پتھ پر واقع پادری کی حویلی) سے ۱۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وہ پریتیاں (بانس کی پھرکی جن میں پتنگوں سے جڑے ڈور کو باندھا جاتا ہے) بنانے والے چند ماہرین میں سے ایک ہیں۔ مانجھا یا نکھ (پتنگوں کی ڈوریں) اب چین سے آتی ہیں اور فیکٹری میں تیار کی جاتی ہیں، جو پہلے سے زیادہ باریک اور ہلکی ہوتی ہیں۔
سامنے بیٹھے شرما جی کے ہاتھ کام میں مصروف ہیں۔ انہیں ایک گاؤں سے ۱۵۰ پریتیوں کا آرڈر ملا ہے، جنہیں مکمل کرنے کی انہیں جلدی ہے۔ ایک گھنٹے کے اندر اس آرڈر کو ڈیلیور کرنا ہے۔
پریتی بنانے کے لیے لکڑی کی سخت قمچیوں کو موڑنا اور باندھنا پتنگ سازی سے بالکل مختلف ہنر ہے۔ یہ ایک ایسا ہنر ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ شرما اس میں مہارت رکھتے ہیں۔ دیگر تلنگی سازوں کے برعکس، وہ پتنگوں یا پھرکیوں کی تیاری کا کام دوسروں سے نہیں لیتے، وہ اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو فروخت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تلنگیوں اور پریتیوں سے بھرا ہوا چھوٹا سا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، صرف پشت سے ایک چھوٹی سی کھلی جگہ سے روشنی پھوٹ رہی ہے جہاں ان کا ۳۰ سالہ پوتا کوٹیلیہ کمار شرما کھاتہ بہی پر کام کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ دستکاری کئی نسلوں سے اس خاندان کا حصہ رہی ہے، لیکن شرما کا کہنا ہے کہ اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ ان کے بیٹے اور پوتے اسے جاری رکھیں گے۔
بارہ سال کی چھوٹی عمر سے ہی انہوں نے تلنگیاں اور پریتیاں بنانا سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ’’دکان پہ آ کر بیٹھ گئے، پھر کیسا بچپن کیسی جوانی؟ سب یہیں بیت گیا۔ تلنگی بنائی بہت مگر اڑائی نہیں،’’ تجربہ کار پتنگ ساز شرما کہتے ہیں۔
’’پتنگ سازی شہر کے رئیسوں اور اشراف کی نگرانی میں ہوا کرتی تھی۔ ان کی سرپرستی پتنگ سازوں کے لیے ایک نعمت کی طرح تھی،‘‘ اشوک شرما یاد کرتے ہیں۔ ’’پٹنہ میں پتنگ بازی کا موسم مہاشیو راتری تک اپنے عروج پر رہتا تھا۔ لیکن آج کل سنکرانتی [فصل کی کٹائی کا تہوار جب روایتی طور پر پتنگیں اڑائی جاتی ہیں] کے موقع پر گاہک تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
*****
تلنگی کی شکل ایک معین نما یا ہیرے کی طرح ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسے کاغذ سے بنایا جاتا تھا، لیکن اب اس کے لیے مکمل طور پر پلاسٹک کا استعمال ہوتا ہے، اور قیمت بھی آدھی رہ گئی ہے۔ کاغذ کی تلنگیاں زیادہ آسانی سے پھٹ جاتی ہیں اور انہیں بنانا زیادہ مہنگا ہوتا ہے، کیونکہ کاغذ کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ کاغذ کی ایک عام پتنگ ۵ روپے میں فروخت ہوتی ہے، جبکہ پلاسٹک کی پتنگ کی قیمت ۳ روپے ہے۔
پتنگون کا عمومی سائز ۱۲ × ۱۲ انچ اور ۱۰ × ۱۰ انچ ہوتا ہے، لیکن ۱۸ × ۱۸ انچ اور ۲۰ × ۲۰ انچ کی پتنگیں بھی بنائی جاتی ہیں۔ سائز میں اضافہ اور ڈیزائن کی پیچیدگی کے ساتھ قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ خصوصی کارٹون یا فلمی کردار یا ڈائیلاگ والی پتنگوں کی قیمت ۲۵ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن خاص طور پر ڈیزائن کیے گیے شیٹوں اور تیلیوں، کھڈوں اور لیئی (پکے ہوئے چاولوں سے بنایا گیا گوند) کے معیار میں بہتری کے ساتھ ریاست سے باہر کے آرڈر کے لیے یہ قیمتیں ۸۰ سے ۱۰۰ روپے تک جا سکتی ہیں۔
سنجے جیسوال کی تلنگی کی ورکشاپ میں لکڑی کاٹنے والی ایک مشین، بانس کی ایک سے زیادہ بلیاں، اور تلنگی سازی میں کام آنے والی دیگر چیزیں بغیر کھڑکیوں والے ۸ مربع فٹ کے کمرے میں بکھری پڑی ہیں۔
’’ہماری اس ورکشاپ کا کوئی نام نہیں ہے،‘‘ سنجے کہتے ہیں۔ وہ منان کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو انہیں پریشان کرے، کیونکہ وہ شاید شہر میں پتنگوں کے سب سے بڑے سپلائر ہیں۔ ’’بے نام ہیں، گمنام تھوڑی ہیں،‘‘ وہ اپنے آس پاس موجود کاریگروں کے ساتھ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
محلہ دیوان کے گورہٹہ علاقے میں واقع منان کی ورکشاپ بنیادی طور پر ایک کھلی جگہ ہے جس میں بانس کے کھمبوں کی مدد سے ایسبیسٹوس کا شیڈ ڈالا گیا ہے، اور اس سے ملحق ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ ان کے یہاں تقریباً ۱۱ کاریگر کام کرتے ہیں اور کچھ کچھ کام وہ خواتین کاریگروں کو دیتے ہیں، ’’جو ضرورت کے مطابق اپنے گھروں سے کام کرتی ہیں۔‘‘
پچپن سالہ محمد شمیم یہاں سب سے بزرگ کاریگر ہیں۔ ان کا تعلق پٹنہ کے چھوٹی بازار علاقے سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پتنگ سازی کا فن کولکاتا کے ایک استاد سے سیکھا تھا۔ وہ کولکاتا، الہ آباد، ممبئی اور بنارس میں کام کر چکے ہیں اور کام کی مستقل جگہ کی تلاش میں اپنے شہر واپس آئے ہیں۔
ہماری بات چیت کے دوران تیلیوں کو چسپاں کرنا جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں پچھلے ۲۲ سالوں سے ہیں۔ وہ بانس کی سخت قمچیوں کو موڑنے اور ان پر گوند لگا کر چسپاں کرنے کے ماہر خیال کیے جاتے ہیں۔ شمیم ایک دن میں تقریباً ۱،۵۰۰ پتنگیں بنا لیتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک طرح کی دوڑ ہے۔
"کوشش ہوتی ہے کہ دن میں ۲۰۰ روپے تک کما لیں، تو مہینے کا ۶۰۰۰ بن جائے گا،‘‘ شمیم کہتے ہیں۔ شام تک وہ ۱۵۰۰ پتنگوں پر تیلیوں کو چسپاں کرتے ہیں اور پھر انہیں ٹیپ کی مدد سے محفوظ کر تے ہیں۔ ’’اس حساب سے ۲۰۰ سے ۲۱۰ روپے تک بن جاتا ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
اس سال مئی میں جب پاری نے وہاں کا دورہ کیا، تو باہر کا درجہ حرارت ۴۰ ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود پتنگ میں استعمال ہونے والی باریک شیٹ کو اڑنے سے بچانے کے لیے پنکھا بند کر دیا گیا تھا۔
سنیل کمار مشرا رومال سے پسینہ بونچھتے ہوئے پلاسٹک کی شیٹ کو مربع شکل کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ رہے ہیں۔ ’’آپ پتنگیں بنا کر جو کماتے ہیں اس سے اپنے کنبے کی کفالت نہیں کر سکتے۔ یہاں کا کوئی بھی کاریگر ایسا نہیں ہے جو مہینہ میں ۱۰ ہزار روپے سے زیادہ کما رہا ہو،‘‘ وہ ہمیں بتاتے ہیں۔
حاجی گنج محلہ کے رہائشی سنیل پتنگ سازی کا کام دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ کبھی شہر کی پتنگ ساز برادری کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں پتنگیں دیکھنا اور بنانا اس وقت مفید ثابت ہوا جب کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران پھولوں کا کاروبار بند ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پتنگ سازی کا کام شروع کر دیا۔
اگرچہ سنیل ایک باقاعدہ ملازم ہیں، لیکن انہیں بھی پتنگوں کی تعداد کے لحاظ سے تنخواہ ملتی ہے۔ ’’صبح ۹ بجے سے رات ۸ بجے تک کام کے اوقات میں ہر شخص ہزاروں ہزار پتنگیں بنانے کی پوری کوشش کر رہا ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
*****
مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے گھروں میں یا تو پوری پتنگ یا اس کا کچھ حصہ بناتی ہے۔ عائشہ پروین نے اپنے چار افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کے لیے تلنگی بنانے کا فن سیکھا تھا۔ پچھلے ۱۶ سالوں سے عائشہ اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ ایک کمرہ اور کچن والے گھر سے پتنگیں بنا رہی ہیں۔ ’’کچھ عرصہ قبل تک میں ہفتے میں ۹۰۰۰ سے زیادہ تلنگیاں بناتی تھی،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’اب ۲۰۰۰ پتنگوں کا آرڈر ملنا ایک بڑی بات ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
عائشہ کہتی ہیں، ’’ایک تلنگی کو سات حصوں میں بنایا جاتا ہے اور ہر حصے کو ایک الگ کاریگر مکمل کرتا ہے۔ ایک کاریگر پلاسٹک شیٹ کو مطلوبہ سائز کے مطابق متعدد چوکور حصوں میں کاٹتا ہے۔ اس دوران دو کاریگر بانس کی چھوٹی چھوٹی تیلیاں اور کھڈوں کو کاٹ رہے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک لمبا اور باریک ہوتا ہے جبکہ دوسرا نسبتاً موٹا اور چھوٹا ہوتا ہے۔ ایک دوسرا کاریگر کھڈوں کو پلاسٹک کے مربع نما کٹے ہوئے ٹکڑوں پر چسپاں کرتا ہے اور اسے ایک دوسرے کاریگر کو بڑھا دیتا ہے جو ان پر خمیدہ تیلیوں کو چسپاں کرتا ہے۔
پتنگ کو مکمل کرنے والے آخری دو کاریگر اس کی جانچ کرتے ہیں اور اس میں سوراخ کرنے اور ڈور (جسے کنن کہتے ہیں) باندھنے کے لیے آخری کاریگر کو دینے سے پہلے ٹیپ کی ایک تہہ لگاتے ہیں۔
پلاسٹک کاٹنے والوں کو ۱۰۰۰ پتنگوں کے لیے ۸۰ روپے ملتے ہیں، جبکہ بانس کاٹنے والے ۱۰۰ روپے کماتے ہیں۔ دیگر کاریگروں کو اسی کام کے لیے تقریباً ۵۰ روپے ملتے ہیں۔ کاریگروں کا ایک گروپ صبح ۹ بجے سے چند چھوٹے چھوٹے وقفوں کے ساتھ ۱۲ گھنٹے تک کام کرکے روزانہ ۱۰۰۰ پتنگیں بنا سکتا ہے۔
عائشہ کہتی ہیں، ’’کل سات لوگ ایک تلنگی بناتے ہیں جو بازار میں دو سے تین روپے میں فروخت ہوتی ہے۔‘‘ ۱۰۰۰ پتنگوں کو بنانے میں ۴۱۰ روپے کی لاگت آتی ہے، جسے سات افراد کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ ’’میں نہیں چاہتی کہ رخسانہ [ان کی بیٹی] پتنگ سازی کے کاروبار میں شامل ہو،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
بہرحال، بہت سی دوسری خواتین کاریگروں کی طرح وہ گھر سے باہر نکلے بغیر کچھ آمدنی حاصل کرنے لینے پر خوش ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ کمائی بہت کم ہے: ’’کم از کم شروع میں کام تو باقاعدہ تھا۔‘‘ عائشہ کو ۲۰۰۰ پتنگوں میں کھڈا چسپاں کرنے اور کنا باندھنے کے لیے ۱۸۰ روپے ادا کیے جاتے تھے۔ ۱۰۰ پتنگوں کے لیے ان دونوں مرحلوں کو مکمل کرنے میں انہیں تقریباً ۴ سے ۵ گھنٹے کا وقت لگتا تھا۔
تمنا دیوان محلہ کے اسی علاقے میں رہتی ہیں اور تلنگیاں بناتی ہیں۔ اس ۲۵ سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ ’’یہ کام [عموماً] خواتین اس لیے کرتی ہیں کیونکہ کہ پتنگ سازی کی صنعت میں یہ سب سے کم اجرت والا کام ہے۔ ’’کھڈا یا تیلی چسپاں کرنے میں کوئی خاص بات نہیں ہے، لیکن ایک عورت کو ۱۰۰۰ کھڈوں کو چسپاں کرنے کے لیے ۵۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ ایک مرد کو ۱۰۰۰ تیلیوں کے لیے ۱۰۰روپے ادا کیے جاتے ہیں۔‘‘
پٹنہ پتنگ سازی اور پتنگ سپلائی کا ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے۔ پتنگیں اور اس سے متعلق چیزیں یہاں سے پورے بہار اور پڑوسی مقامات جیسے سلی گوڑی، کولکاتا، مالدہ، کھٹمنڈو، رانچی، جھانسی، بھوپال، پونے اور ناگپور تک جاتی ہیں
عائشہ کی ۱۷سالہ بیٹی رخسانہ ایک کھڈا ماسٹر ہیں۔ وہ چکنی اور باریک پلاسٹک کی شیٹوں پر بانس کی باریک تیلیاں چسپاں کرتی ہیں۔ اسکول میں ۱۱ویں جماعت میں پڑھنے والی کامرس کی یہ طالبہ پتنگ سازی میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے لیے پڑھائی کے درمیان سے کچھ وقت نکال لیتی ہے۔
رخسانہ نے ۱۲ سال کی عمر میں اپنی والدہ سے یہ فن سیکھا تھا۔ ’’وہ جب چھوٹی تھی تو پتنگوں سے کھیلتی تھی اور اچھی پتنگ باز تھی،‘‘ یہ کہتے ہوئے عائشہ اضافہ کرتی ہیں کہ اب وہ پتنگ اڑانے سے اپنی بیٹی کو یہ کہتے ہوئے روکتی ہیں کہ یہ ایک مردانہ کھیل ہے۔
عائشہ محلہ دیوان کے علاقے شیش محل میں اپنے کرایے کے کمرے کے دروازے کے قریب تازہ بنی تلنگیاں جمع کر رہی ہیں۔ رخسانہ پتنگوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ انہیں ٹھیکیدار شفیق کے آنے کا انتظار ہے، جو پتنگوں کو لے جائیں گے۔
عائشہ کہتی ہیں، ’’ہمیں ۲۰۰۰ پتنگوں کا آرڈر ملا تھا، لیکن میں اپنی بیٹی کو بتانا بھول گئی اور اس نے باقی ماندہ مواد سے ۳۰۰ اضافی پتنگیں بنا لیے۔‘‘
’’لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، ہم اسے اگلے آرڈر میں استعمال کر لیں گے،‘‘ ان کی بیٹی رخسانہ ہماری گفتگو سن کر کہتی ہیں۔
’’صرف اسی صورت میں جب کوئی دوسرا آرڈر ملے گا،‘‘ عائشہ کہتی ہیں۔
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم