پاری کی شروعات ۲۰ دسمبر ۲۰۱۴ کو باقاعدہ طور پر ہوئی تھی، یعنی اس سفر کے دس سال مکمل ہو چکے ہیں۔

کوئی پوچھے کہ ان سالوں میں ہماری سب سے بڑی حصولیابی کیا ہے؟ ہم ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ بطور آزاد صحافتی ویب سائٹ، ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور ایک ایسے ماحول میں پھل پھول رہے ہیں، جہاں طاقتور کارپوریٹ کمپنیوں کا راج ہے۔ پاری اب روزانہ ۱۵ زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ یہ اُس ٹرسٹ کی سرگرمی ہے جو بغیر کسی رقم کے بنایا گیا تھا، اور حکومت سے ہم نے نہ تو کوئی مالی مدد مانگی، نہ ہی دی۔ ہم نے سیدھے طور پر کوئی کارپوریٹ گرانٹ یا سرمایہ بھی نہیں لیا، نہ ہی اشتہار قبول کیے۔ ہم نے ممبرشپ کے لیے بھی کوئی فیس نہیں رکھی، جو عام لوگوں کی اس بڑی آبادی کو ہم سے دور کر دیتا جنہیں ہم بطور قاری، سامعین اور ناظرین پاری سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ اس ٹرسٹ کا قیام پر عزم رضاکاروں کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعہ کیا گیا، جس میں صحافی، تکنیکی ماہرین، فنکار، ماہرین تعلیم اور تمام دیگر لوگ شامل رہے۔ ان رضاکاروں (والنٹیئرز) نے بغیر کسی اعزازیہ کے اپنے ہنر کو پاری کو کھڑا کرنے میں لگا دیا۔ عام لوگ، ٹرسٹ کے ارکان اور کئی انجمنوں کے مالی تعاون نے اسے مضبوطی فراہم کی۔ انہوں نے کبھی پاری پر شکنجہ کسنے کی کوشش نہیں کی۔

ایماندار اور بیحد محنتی ساتھیوں کی ٹیم کے ذریعہ چلائے جانے والے پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی ویب سائٹ اب ہندوستان کے تقریباً ۹۵ قدرتی-طبعی یا تاریخی طور پر وجود میں آنے والے علاقوں سے منظم طریقے سے رپورٹنگ کی کوشش کرتی ہے۔ یہ صحافتی ویب سائٹ مکمل طور پر دیہی ہندوستان، تقریباً ۹۰ کروڑ دیہی باشندوں، ان کی زندگی اور معاش، ان کی ثقافت، ان کی تقریباً ۸۰۰ زبانوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کام کرتی ہے۔ اور، عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی سے متعلق کہانیاں کہنے کے لیے وقف ہے۔ تقریباً ایک ارب انسانوں کی کہانیوں کا ہم احاطہ کرتے ہیں، جس میں مہاجرت کی وجہ سے شہری علاقوں میں آئے دیہی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

شروعات سے ہی، بانیوں کی واضح رائے تھی کہ ہم پاری کو صحافتی ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ ایک زندہ مجموعہ کی شکل بھی دیں۔ ہم ایک ایسی سائٹ بنانا چاہتے تھے جو کارپوریٹ کے ذریعہ متعارف ’پیشہ ور‘ میڈیا کے فرسودہ اصولوں کی بنیاد پر نہ چلے، بلکہ اس میں انسانیت، سائنس اور خاص کر سماجیات کی پختگی، علم اور طاقت کا امتزاج ہو۔ پہلے دن سے، ہم نے صرف تجربہ کار صحافیوں کو ہی نہیں جوڑا، بلکہ دوسرے شعبوں کے جانکاروں کو بھی ساتھ لائے، جو صحافت کی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

یہ نسخہ تمام قسم کے بھرم، جدوجہد، غلط فہمیوں، دلیلوں (کبھی کبھی تو بیحد تلخ دلیل) سے مل کر تیار ہوا تھا؛ اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہماری نظر میں یہ ایک غیر معمولی حصولیابی ہے۔ ہر کوئی اس ایک اصول کو سمجھتا ہے اور اتفاق کرتا ہے: ہمارے ذریعہ شائع کردہ اسٹوری میں ہماری آواز حاوی نہیں ہوگی۔ عام ہندوستانیوں کی آواز کو ہی ہم آگے رکھیں گے۔ ہم تمام نامہ نگاروں کو یہ یقینی بنانے کی ہدایت دیتے ہیں کہ اسٹوری میں لوگوں کی آواز کو مرکزیت حاصل ہو، نہ کہ ان کی اپنی موجودگی اسٹوری پر حاوی ہو۔ ہمارا کام کہانیوں کو درج کرنا ہے، کوئی بلیٹن یا اکیڈمک یا سرکاری رپورٹ شائع کرنا نہیں۔ جہاں تک ممکن ہو پاتا ہے، ہم کسانوں، آدیواسیوں، مزدوروں، بُنکروں، ماہی گیروں اور تمام دیگر معاش سے وابستہ لوگوں کو اپنی کہانی کہنے، اور یہاں تک کہ لکھنے کے لیے بھی آمادہ کرتے ہیں۔ انہیں گانے کے لیے بھی کہتے ہیں۔

PHOTO • Jayamma Belliah
PHOTO • Jayamma Belliah

پاری واحد صحافتی ویب سائٹ ہے، جو پوری طرح سے دیہی ہندوستان اور وہاں کے لوگوں کے لیے وقف ہے، جو اکثر اپنی کہانیاں کہتے ہیں۔ باندی پور نیشنل پارک کے کنارے آباد اننجی ہنڈی گاؤں کی رہنے والی اور جینو کروبا آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والی جیَمّا بیلیا کی تصویر، جو اپنی روزمرہ کی زندگی کو تصویروں میں اتارتی ہیں۔ انہوں نے آرام فرماتے ہوئے تیندے کی تصویر بھی کھینچی تھی

PHOTO • P. Indra
PHOTO • Suganthi Manickavel

پاری دیہی ہندوستان کے صفائی ملازمین اور ماہی گیروں جیسی متعدد برادریوں کے معاش کا احاطہ کرتا ہے۔ بائیں: پی اندر اپنے والد کی تصویر لے رہے ہیں، جو ایک صفائی ملازم ہیں اور مدورئی میں بغیر کسی حفاظتی آلہ کے کچرا صاف کرتے ہیں۔ دائیں: سوگنتی مانک ویل اپنی برادری کے ماہی گیر شکتی ویل اور وجے کی تصویر کھینچتے ہیں، جو تمل ناڈو کے ناگ پٹینم ساحل پر جھینگا پھنسانے کے لیے ڈالے گئے جال کو کھینچ رہے ہیں

آج ہماری سائٹ پر دو ہزار سے زیادہ صرف ٹیکسٹ اسٹوریز شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں سے کئی انعام یافتہ اسٹوریز کی سیریز کا حصہ ہیں۔ یہ سبھی ۱۵ زبانوں میں قارئین کے لیے دستیاب ہیں۔ ان میں سینکڑوں الگ الگ معاش (جن میں سے کچھ خاتمہ کے دہانے پر ہیں)، کسان آندولن، ماحولیاتی تبدیلی، صنف اور ذات پر مبنی تفریق اور تشدد سے جڑی کہانیاں، گیت و موسیقی کے مجموعے، احتجاجی شاعری اور فوٹوگرافی شامل ہے۔

ہم پاری ایجوکیشن کا ایک سیکشن بھی چلاتے ہیں، جس کے تحت صحافی طلباء کی تقریباً ۲۳۰ کہانیاں شائع کی گئی ہیں۔ سینکڑوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں، طلباء اور اساتذہ کے درمیان پاری ایجوکیشن بہت کامیاب رہا ہے اور اس کی کافی مانگ ہے۔ اس کے تحت، تعلیمی اداروں میں بے شمار ورکشاپ، ٹریننگ سیشن اور مذاکرے بھی منعقد کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، پاری کے سوشل میڈیا پیج نئی نسل کے درمیان اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں۔ ہمیں انسٹاگرام پر ایک لاکھ ۲۰ ہزار لوگ فالو کرتے ہیں، جو اپنے آپ میں شاندار حصولیابی ہے۔

ہم تخلیقی تحریر اور فن پر مرکوز سیکشن بھی چلاتے ہیں، جس نے لوگوں کا دل جیتا ہے۔ ہم نے کئی غیر معمولی صلاحیتوں کو جگہ دی ہے۔ عوامی شاعروں اور گلوکاروں سے لے کر با صلاحیت مصوروں اور آدیواسی بچوں کے آرٹ کا انوکھا (اور پہلا) مجموعہ شائع کیا ہے۔

پاری نے ملک کے الگ الگ علاقوں کے لوک گیتوں کو جگہ دی ہے – جس میں گرائنڈ مل سانگز پروجیکٹ جیسا بے مثال مجموعہ بھی شامل ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی ہے۔ ہمارے پاس شاید فوک میوزک پر مرکوز کسی بھی دیگر ہندوستانی ویب سائٹ سے بڑا مجموعہ موجود ہے۔

ان دس سالوں میں، پاری نے کووڈ۔۱۹ وبائی مرض، طبی خدمات، مہاجرت، خاتمہ کے دہانے پر پہنچ چکی دستکاری اور معاش پر مرکوز کہانیوں اور ویڈیو اسٹوری کی ایک حیرت انگیز سیریز شائع کی ہے۔ اس فہرست کا کوئی آخری سرا نہیں ہے۔

ان دس سالوں میں پاری نے ۸۰ ایوارڈ، انعام، اعزاز جیتے ہیں۔ ان میں ۲۲ بین الاقوامی ایوارڈ شامل ہیں۔ فی الحال، ان ۸۰ انعامات میں سے صرف ۷۷ کا ذکر ہماری ویب سائٹ پر ملتا ہے – کیوں کہ تین کا اعلان تبھی کیا جا سکتا ہے، جب آرگنائزر ہمیں اس کی اجازت دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں ہم نے تقریباً ہر ۴۵ دن میں ایک انعام جیتا ہے۔ کوئی بھی بڑا اور نام نہاد ’مین اسٹریم‘ کا پبلی کیشن اس حصولیابی کے قریب بھی نہیں پہنچتا۔

PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Rahul M.

ویب سائٹ نے کسان آندولن اور زرعی بحران کا احاطہ بڑے پیمانے پر کیا ہے۔ بائیں: سال ۲۰۱۸ میں مدھیہ پردیش کے کسان کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) اور پارلیمنٹ میں زرعی بحران پر مرکوز خصوصی اجلاس کے مطالبہ پر، دہلی کے رام لیلا میدان کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ دائیں: بیس سال پہلے، پجاری لنگنّا کو آندھرا پردیش کے رائل سیما خطہ میں ایک فلم کی شوٹنگ کی وجہ سے نباتات اور پیڑ پودے اکھاڑنے پڑے تھے۔ آج، وقت کے ساتھ انسانی مداخلت نے یہاں ریگستان کو مزید پھیلا دیا ہے

PHOTO • Labani Jangi

تخلیقی تحریر اور آرٹ سے جڑے سیکشن میں ’آدیواسی بچوں کے آرٹ کے مجموعہ‘ میں اوڈیشہ کے آدیواسی بچوں کی پینٹنگز بھی شامل ہیں۔ بائیں: کلاس ۶ کے طلباء آرٹسٹ انکُر نائک اپنی پینٹنگ کے بارے میں کہتے ہیں: ’ایک بار ہمارے گاؤں میں ہاتھی اور بندر لائے گئے تھے۔ انہیں کو دیکھ کر میں نے یہ تصویر بنائی ہے۔‘ دائیں: کئی مصور اپنے ہنر سے ہمارے صفحات میں رنگ بھرتے ہیں۔ لابنی جنگی کا ایک خاکہ: لاک ڈاؤن کے وقت ہائی وے پر بوڑی عورت اور بچہ

’عوام کے مجموعہ‘ (پیپلز آرکائیو) کی ضرورت کیوں پڑی؟

تاریخی طور پر – تعلیم یافتہ طبقوں کے رومانوی خیالات کے برعکس – آرکائیوز اور قدیم لائبریریاں عام عوام کے لیے نہیں تھیں۔ وہ امراء کے لیے تھیں (اور اکثر تو اب بھی ہیں) اور وہاں بقیہ لوگوں کے لیے جگہ نہیں تھی۔ (مزیدار بات یہ ہے کہ ’گیم آف تھرونز‘ نے بھی اس بات کو دکھایا تھا۔ سیمویل ٹارلی کو ایک دور افتادہ کمرے میں قید کتابوں تک پہنچنے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ ان کتابوں نے ہی ’آرمی آف دی ڈیڈ‘ کے خلاف جیت دلانے میں مدد کی تھی)۔

اسکندریہ، نالندہ کی قدیم لائبریری اور علم کے دیگر وسیع ذخائر کبھی بھی عام لوگوں کے لیے نہیں تھے۔

دوسرے لفظوں میں، آرکائیوز پر اکثر سرکاروں کا کنٹرول رہا ہے اور حساس معلومات کو عام لوگوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے۔ آج سے ۶۲ سال قبل، ۱۹۶۲ میں ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ ہوئی۔ آج تک اس جنگ سے متعلق اہم دستاویز دستیاب نہیں ہیں۔ ناگا ساکی پر ہوئی بمباری کے بعد کے حالات پر فلم بنانے والے صحافیوں کو امریکی فوج سے اپنا فوٹیج حاصل کرنے کے لیے دہائیوں تک لڑنا پڑا۔ پنٹاگن نے فوٹیج کو قبضے میں لے لیا تھا اور ان پر پابندی لگا دی تھی۔ انہوں نے مستقبل میں ہونے والی جوہری جنگوں میں لڑنے کے لیے امریکی فوجیوں کو ٹریننگ فراہم کرنے کے لیے اسے استعمال کیا تھا۔

اس کے علاوہ، ایسے کئی آرکائیو ہیں جو ’ذاتی مجموعہ‘ کی طرح موجود ہیں اور آن لائن لائبریری/آرکائیو بھی ذاتی ملکیت والے ہیں جو عام عوام کے لیے دستیاب نہیں ہیں، خواہ وہاں موجود مواد لوگوں کے لیے اہم اور معنی خیز کیوں نہ ہوں۔

اسی لیے، عوام کے اس آرکائیو کی ضرورت ہے، جسے سرکاروں یا کارپوریٹ کمپنیوں کے ذریعہ کنٹرول نہیں کیا جاتا یا ان کے تئیں جوابدہی نہیں رکھتا۔ جو ذاتی منافع سے آزاد صحافت ہے۔ جو ان لوگوں کے تئیں جوابدہی ہے جن کا ہم احاطہ کرتے ہیں – معاشرہ اور میڈیا، دونوں میں ہی حاشیہ پر پڑے لوگوں کے تئیں۔

دیکھیں: ’میرے شوہر کام کی تلاش میں دور گاؤں چلے گئے ہیں…‘

آج کے میڈیا کی دنیا میں اصل میں ڈٹے رہنا آسان نہیں ہے۔ پاری کی اپنی برادری ہمیشہ نئے، منفرد خیالوں کے ساتھ سامنے آتی ہے، جسے ہمیں انجام دینا ہوتا ہے۔ ہم ان کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں؛ اور اکثر بہت کم تیاری کے ساتھ۔ زبانوں کی فیملی (پاری بھاشا) میں ایک اور زبان کو جوڑنا۔ ہندوستان کے تنوع کو چہروں کے ذریعہ دکھانا – اس کے لیے، ملک کے ہر ضلع (اب تک تقریباً ۸۰۰) سے عام ہندوستانیوں کی تصویریں لانا۔ ارے، اتنا کافی نہیں ہے – ہر ضلع کے ہر بلاک کو اس میں شامل کرنا چاہیے!

اب ہماری سائٹ پر ملک کے سینکڑوں بلاک اور ضلعوں سے ۳۲۳۵ چہروں کی تصویریں موجود ہیں اور ہم مسلسل نئی تصویریں جوڑتے رہتے ہیں۔ پاری ویب سائٹ پر تقریباً ۵۲۶ ویڈیو بھی شائع کیے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ، پاری نے ۲۰ ہزار سے زیادہ انوکھی تصویریں شائع کی ہیں (جس کی اصل تعداد زیادہ ہو سکتی ہے)۔ ہمیں ویژوئل میڈیم کی ویب سائٹ ہونے پر فخر ہے۔ اور ہم فخر کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم نے ہندوستان کے کچھ سب سے بہترین فوٹوگرافروں اور مصوروں کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔

آئیے، ساتھ مل کر پاری کی ہماری بہترین لائبریری کو وسعت بخشیں – جو آپ کو پیسوں کے عوض کتابیں پڑھنے کو نہیں دیتی، بلکہ مفت مہیا کراتی ہے۔ آپ ہماری لائبریری میں موجود کسی بھی کتاب یا دستاویز کو ڈاؤن لوڈ اور پرنٹ کر سکتے ہیں۔

آئیے، ساتھ مل کر ملک کے ہر علاقہ کے بُنکروں کی کہانیوں کا بہترین مجموعہ تیار کریں۔ آئیے، ماحولیاتی تبدیلی کی کہانیاں درج کریں جو اصل میں کہانیاں ہیں۔ جو اس کا سب سے زیادہ اثر برداشت کرتے لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی-تجربات کو سامنے لاتی ہیں۔ نہ کہ سائنسی اور تکنیکی رپورٹوں کا بوجھ ڈھوتی ہوں، جنہیں پڑھ کر قارئین کو یہ لگے کہ اس موضوع کو وہ سمجھ نہیں سکتے۔ ہم ان سائنسی و تکنیکی رپورٹوں کو پاری لائبریری میں رکھتے ہیں – ان کی تلخیص اور حقائق کے ساتھ، جس سے کسی کو بھی یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ ان میں کیا کہا گیا ہے۔ ہماری لائبریری میں تقریباً ۹۰۰ رپورٹ موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک کے ساتھ ان کی تلخیص اور تمام حقائق دیے گئے ہیں۔ اسے انجام دینے میں جتنی محنت لگتی ہے وہ تصور سے پرے ہے۔

بائیں: پاری لائبریری اپنے قارئین کو سبھی مواد مفت مہیا کراتی ہے۔ دائیں: ’چہرے‘ سیکشن میں، پاری نے ہندوستان کے تنوع کو چہروں کی تصویروں کے ذریعہ نمایاں کیا ہے

ایک دہائی تک اپنی کوشش کے ساتھ ڈٹے رہنے کے علاوہ، ہماری سب سے بڑی حصولیابی ہمارا کثیر لسانی ہونا ہے۔ دنیا میں ایسی کوئی صحافتی ویب سائٹ ہمارے علم میں نہیں ہے جو اپنی ہر ٹیکسٹ اسٹوری کو ۱۵ زبانوں میں شائع کرتی ہو۔ بی بی سی جیسے ادارے ہیں، جو تقریباً ۴۰ زبانوں میں کام کرتے ہیں، لیکن وہاں زبانوں کے درمیان یکسانیت نظر نہیں آتی ہے۔ مثلاً، ان کی تمل سروس ان کی انگریزی اشاعت کے صرف ایک حصہ کو ہی شائع کرتی ہے۔ پاری میں، اگر کوئی ایک تحریر ایک زبان میں شائع ہوتی ہے، تو اسے تمام ۱۵ زبانوں میں شائع کیا جاتا ہے۔ اور ہم زیادہ سے زیادہ صحافیوں کو ان کی مادری زبان میں لکھنے کے لیے مدعو کرتے ہیں، اور ہمارے کثیر لسانی ایڈیٹر ان کی تحریر کو پہلے ان کی ہی زبان میں ایڈٹ کرتے ہیں۔

ترجمہ نگاروں کی اپنی بڑی ٹیم، ہندوستانی زبانوں کی فیملی کے معاونین، اپنی ’پاری بھاشا‘ ٹیم پر ہمیں واقعی میں فخر ہے۔ وہ جو کرتے ہیں اور اس میں جتنی محنت لگتی ہے وہ دماغ کو خیرہ کر دینے والا ہے۔ ان کے کام کی پیچیدگی تصور سے باہر ہے۔ اور، اس ٹیم نے گزرتے سالوں میں تقریباً ۱۶ ہزار ترجمے کیے ہیں۔

پھر، پاری کے ’خطرے سے دوچار زبانوں کے پروجیکٹ‘ کا نمبر آتا ہے، جو سب سے چنوتی بھرے کاموں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ ۵۰ برسوں میں تقریباً ۲۲۵ ہندوستانی زبانیں ختم ہو چکی ہیں۔ ایسے میں، خاتمہ کے دہانے پر موجود تمام دیگر زبانوں کی دستاویز کاری اور انہیں محفوظ کرنے میں مدد کرنا ہمارے سب سے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔

گزشتہ دس سالوں میں، ہم نے ۳۳ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ۳۸۱ ضلعوں کا احاطہ کیا ہے۔ اور اس کام کو ۱۴۰۰ سے زیادہ صحافیوں، قلم کاروں، شاعروں، فوٹوگرافروں، فلم سازوں، ترجمہ نگاروں، خاکہ نگاروں، ایڈیٹروں اور پاری کے ساتھ انٹرن شپ کر رہے سینکڑوں لوگوں نے انجام دیا ہے۔

PHOTO • Labani Jangi

بائیں: پاری زیادہ سے زیادہ عام قارئین تک پہنچنے اور ہندوستان کے لسانی تنوع کو قائم رکھنے کے لیے ۱۵ زبانوں میں اشاعت کا کام کرتا ہے۔ دائیں: ہم بنیادی طور پر ویژوئل میڈیم کی ویب سائٹ ہیں اور ہم نے ۲۰ ہزار سے زیادہ تصویریں شائع کی ہیں

افسوس کی بات ہے کہ جتنا پیسہ ہمارے پاس ہوتا ہے، ان تمام سرگرمیوں کو انجام دینے میں کئی گنا زیادہ پیسے خرچ ہوتے ہیں، جن کا میں نے سرسری طور پر ذکر کیا ہے۔ لیکن ہم اس کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھروسہ ہے کہ اگر ہمارا کام اچھا ہے – اور ہم جانتے ہیں کہ یہ اچھا ہے – تو ہماری کوششوں کو کم از کم کچھ مالی مدد مل جائے گی، جس کی اسے ضرورت ہے۔ جس سال ہم وجود میں آئے، پاری کا سالانہ خرچ ۱۲ لاکھ روپے تھا۔ اب، یہ رقم ۳ کروڑ کی حد کو چھونے لگی ہے۔ لیکن ہم جو کام کرتے ہیں اس کا خرچ اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ملک کے لیے اس آرکائیو کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اتنی بے مثال کوشش ملنی مشکل ہے۔

ان دس سالوں میں خود کو چلا پانا ایک بڑی حصولیابی تھی۔ لیکن اگر ہمیں آئندہ بھی پچھلی دہائی کی طرح اسی تیزی سے کام کرنا ہے اور مضبوطی حاصل کرنی ہے، تو ہمیں آپ کی مدد کی بہت ضرورت ہے۔ ہر وہ انسان جو ہمارے اصولوں اور رہنما خطوط پر عمل کرتا ہے وہ پاری کے لیے لکھ سکتا ہے، فلمیں بنا سکتا ہے، تصویریں لے سکتا ہے، موسیقی ریکارڈ کر سکتا ہے۔

شاید ۲۵ سال بعد – اور ۵۰ سال تو یقینی طور پر – اگر کوئی یہ جاننا چاہے گا کہ عام ہندوستانی کیسے رہتے تھے، کیا کام کرتے تھے، کیا بناتے تھے، کس چیز کی پیداوار کرتے تھے، کیا کھاتے تھے، کیا گاتے تھے، کون سا رقص کرتے تھے…پاری واحد ایسی جگہ ہوگی جہاں انہیں یہ سب درج ملے گا۔ سال ۲۰۲۱ میں، یو ایس لائبریری آف کانگریس نے پاری کو ایک اہم ذریعہ کے طور پر منظوری دی تھی اور ہم سے اسے جمع کرنے کی اجازت مانگی – جس کی اجازت ہم نے خوشی خوشی دے دی۔

پاری – جو پوری طرح مفت ہے، جو ہر کسی کے لیے دستیاب ملٹی میڈیا ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے، جو ہمارے دور کے ہر چھوٹے بڑے واقعات کا گواہ بنتا ہے اور ان پر مبنی کہانیوں کو درج کرتا ہے – قومی اہمیت کا ذریعہ ہے۔ اسے ملک کا خزانہ بنانے میں ہماری مدد کریں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique