ہمارے گاؤں پلسُنڈے میں سات الگ الگ آدیواسی برادریوں کے لوگ رہتے ہیں، جن میں وارلی برادری سب سے بڑی ہے۔ میں نے ان ساتوں آدیواسی برادریوں کی زبانیں سیکھ رکھی ہیں – وارلی، کولی مہادیو، کاتکری، م ٹھاکر، ک ٹھاکر ڈھور کولی اور ملہار کولی۔ یہ کام زیادہ مشکل بھی نہیں تھا، کیوں کہ یہ گاؤں میرا آبائی وطن اور میدان عمل ہے۔ میری تعلیم و تربیت بھی یہیں ہوئی ہے۔
میرا نام بھال چندر دھنگرے ہے، اورمیں موکھاڈا میں ضلع پریشد پرائمری اسکول میں ایک ٹیچر ہوں۔
میرے دوست مجھے اکثر کہتے ہیں، ’’تم جس زبان کو سنتے ہو اسے بہت جلد سیکھ جاتے ہو۔‘‘ جب میں کسی برادری سے ملنے جاتا ہوں، تو لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کے درمیان کا آدمی ہوں، کیوں کہ میں ان کی ہی زبان میں ان سے بات چیت کرتا ہوں۔
ہمارے آدیواسی علاقوں کے بچوں سے بات چیت کرتے وقت میں نے یہ محسوس کیا کہ اپنی اسکولی تعلیم کے دوران وہ متعدد چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ مہاراشٹر حکومت نے ایک قانون کے تحت آدیواسی علاقوں میں پڑھانے والے ٹیچروں کو ایک خصوصی درجہ دیا ہے۔ یہ درجہ انہیں اس لیے دیا گیا ہے، کیوں کہ انہیں روز مرہ کے کاموں کو انجام دینے کے لیے مقامی زبان سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہاں موکھاڈا میں وارلی زبان سب سے زیادہ بولی جاتی ہے اور ایسے بچوں کی اکثریت ہے جو اسے اسکول میں بولتے ہیں۔ اگر ہمیں بچوں کو انگریزی پڑھانی ہو، تو پہلے انہیں مراٹھی کے الفاظ سے متعارف کرانا ہوتا ہے اور پھر اس لفظ کو وارلی میں سمجھانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ہم ان الفاظ کو انگریزی میں پڑھاتے ہیں۔
یہ کام تھوڑا مشکل ضرور ہے، لیکن یہاں کے بچے بہت ہونہار اور محنتی ہیں۔ جب وہ مراٹھی اپنا لیتے ہیں، تو ان کے ساتھ بات چیت کرنا بہت آسان اور مزیدار ہو جاتا ہے، کیوں کہ مراٹھی یہاں کی بول چال کی عام زبان ہے۔ حالانکہ، یہاں ٹیچر کا معیار ویسا نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہاں کی کل آبادی کا ۵۰ فیصد حصہ آج بھی ناخواندہ ہے اور اس علاقے میں ترقی کی رفتار بھی نسبتاً کم ہے۔
سال ۱۹۹۰ کی دہائی کے آس پاس تک اس علاقے میں ایسا ایک بھی آدمی نہیں تھا جس نے ۱۰ویں جماعت کے بعد پڑھائی کی ہو۔ نئی نسل نے رسمی تعلیم میں تھوڑی دلچسپی لینی شروع کی ہے۔ اگر پہلی کلاس میں وارلی کے ۲۵ طلباء نے داخلہ لیا ہے، تو ان میں سے صرف ۸ ہی ۱۰ویں جماعت تک پہنچتے ہیں۔ درمیان میں پڑھائی چھوڑ دینے والے طلباء کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان آٹھ میں سے بھی صرف ۶-۵ طلباء ہی امتحان پاس کر پاتے ہیں۔ ۱۲ویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے پڑھائی چھوڑنے والے طلباء کی تعداد اور زیادہ ہو جاتی ہے، اور آخر میں بس ۴-۳ طلباء ہی اسکولی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں۔
گریجویشن تک کی پڑھائی جاری رکھنے کی سہولت صرف تعلقہ ہیڈ کوارٹر میں دستیاب ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے ۱۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ، وہاں دوسری سہولیات نہیں کے برابر ہیں اور طلباء کو آگے کی پڑھائی کے لیے آخرکار تھانے، ناسک یا پالگھر جیسی جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، تعلقہ میں صرف تین فیصد لوگوں کے پاس ہی گریجویشن کی ڈگری ہے۔
خاص کر وارلی برادری میں شرح تعلیم بہت کم ہے، اور اسے بڑھانے کی کوشش مسلسل کی جا رہی ہے۔ ہم گاؤوں میں جا کر اور لوگوں سے بات چیت کر کے ان سے رابطہ کرنے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انٹرویو: میدھا کالے
یہ اسٹوری پاری کے معدوم ہوتی زبانوں کے پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کا مقصد ملک کی زوال آمادہ زبانوں کو دستاویزی شکل دینا ہے۔
وارلی ایک ہند آریائی زبان ہے جو ہندوستان میں گجرات، دمن اور دیو، دادرا اور نگر حویلی، مہاراشٹر، کرناٹک اور گوا کے وارلی یا ورلی آدیواسی بولتے ہیں۔ یونیسکو کے زبانوں کے ایٹلس نے وارلی کو ہندوستان میں ممکنہ طور پر معدوم ہوتی زبانوں میں سے ایک کے طور پر درج کیا ہے۔
ہمارا مقصد مہاراشٹر میں بولی جانے والی وارلی زبان کو دستاویزی شکل فراہم کرنا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز