جنگم دھن لکشمی کہتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں یا آس پاس کے گاؤوں میں شاید ہی کسی طرح کا کوئی کام بچا ہو۔ تمام زرعی زمینوں کو مچھلی کے تالابوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘‘

چالیس سالہ دھن لکشمی (کَوَر پیج، اوپر کی تصویر میں)، آندھرا پردیش کے کرشنا ضلع میں واقع تامیریسا گاؤں میں تقریباً ۴۵۰ لوگوں کی آبادی والی دلت بستی انکینا گوڈیم میں رہتی ہیں۔ وہ اپنی ۲۰۰ روپے کی یومیہ اجرت کا ایک چوتھائی حصہ روزانہ آٹو رکشا سے ۶۰ کیلو میٹر کا سفر کرکے زرعی کام کی جگہ تک پہنچنے کے لیے کرایہ پر خرچ کر دیتی ہیں۔

دھن لکشمی کی پڑوسن گنتا سروج (۶۰) کہتی ہیں، ’’اتنا سفر کرنے کے بعد بھی، ہمیں سال میں محض ۳۰ دن ہی کام ملتا ہے – اپریل میں ۱۰ دن، اگست میں ۱۰ دن اور کھیتی باڑی کے اصل موسم دسمبر میں بھی ۱۰ ہی دن۔‘‘ چونکہ بستی کے لوگ زرعی کام سے سالانہ محض ۶-۵ ہزار روپے ہی کما پاتے ہیں، اسی لیے بہت سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ’’تقریبا ۱۰ سال پہلے، اس گاؤں میں ۱۵۰ خاندان آباد تھے۔ اب، بمشکل ۶۰ خاندان ہی یہاں بچے ہیں،‘‘ سروج اندازہ لگاتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’کچھ لوگ گُڈی واڑہ، وجئے واڑہ اور حیدرآباد چلے گئے ہیں، بقیہ لوگ کام کی تلاش میں اپنے سسرال کے گاؤں چلے گئے ہیں۔‘‘

انکینا گوڈیم، نندی واڑہ منڈل میں ہے جس کی آبادی تقریباً ۳۶۰۰۰ ہے۔ مچھلی کے تالابوں سے اچھی کمائی اور زیادہ منافع ہونے کی وجہ سے نندی واڑہ کی فی کس آمدنی آندھرا پردیش میں (ضلع وشاکھاپٹنم کے اچوتا پورم منڈل کے بعد) دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں کی مچھلیاں ایکوا پروسیسنگ یونٹس میں استعمال ہوتی ہیں اور پھر بنیادی طور پر مشرقی ایشیائی اور یورپی ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔ ریاست کی کیپٹل ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق، سال ۱۵-۲۰۱۴ میں نندی واڑہ کی سالانہ فی کس آمدنی ۳۰۸۳۷۱ روپے تھی – جب کہ اسی سال کرشنا ضلع کی مجموعی آمدنی ۱۴۰۶۲۸ روپے تھی۔

PHOTO • Rahul Maganti

نندی واڑہ منڈل میں، ۲۰۰۰ کی دہائی سے ماہی پروری میں اضافہ ہونے کی وجہ سے زرعی زمینوں کا استعمال ماہی پروری کے لیے کیا جانے لگا۔ اب یہاں برآمدات کے لیے جھینگے اور دیگر مچھلیوں کی افزائش کی جاتی ہے

لیکن ۲۰۰۱ اور ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ریاست بھر میں واحد منڈل ہے، جہاں ۲۰۰۰ کی دہائی کے اوائل سے آبادی ہر سال کم ہو رہی ہے۔ پچھلے ۱۰ سالوں میں، چونکہ آبادی میں کمی آئی ہے، منڈل پریشد علاقائی حلقہ انتخاب کی نشستیں (جو آبادی کی تعداد کو ظاہر کرتی ہیں) بھی ۱۲ سے کم ہو کر ۱۱ ہو گئی ہیں۔

دھن لکشمی کے بھائی جنگم یہوشوا (یہ بھی زرعی مزدوری کرتے ہیں) بتاتے ہیں، ’’تقریباً ۱۵ سال پہلے، ہماری بستی میں تقریباً ۳۷۰ ایکڑ زرعی زمین تھی۔ زیادہ تر زمینیں آس پاس کی بستیوں کے کمّا اور یادو زمینداروں کی تھیں، جب کہ دلتوں کے پاس صرف ۵۰ ایکڑ زمین تھی۔ جب زمینداروں نے فوری آمدنی کے لالچ میں اپنی زرعی زمینوں کو مچھلی کے تالابوں میں تبدیل کرنا شروع کیا، تو ہم بھی زمین کی زرخیزی میں کمی اور پانی کے آلودہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘

گاؤں میں دلتوں کی ملکیت والی ۵۰ ایکڑ زمین میں سے زیادہ تر اراضی کو ان زمینداروں نے سستے داموں میں خرید لیا، کیونکہ دلت خاندانوں کو فوری رقم کی ضرورت تھی۔ یہوشوا کہتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ہماری بستی میں کاشتکاری کے لیے ایک ایکڑ زمین بھی نہیں بچی ہے۔ اس سے کام کا بحران پیدا ہوگیا اور ہمیں روزی روٹی کی تلاش میں باہر نکلنا پڑا۔ چونکہ آس پاس کے تقریباً تمام گاؤوں اسی طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں، خطے میں کام ملنے کے امکانات کافی حد تک کم ہوگئے، جس کی وجہ سے نقل مکانی شروع ہو گئی۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti

ایکوا تالابوں میں کرشنا ندی کی ایک چھوٹی معاون ندی، بوڈامیرو کا پانی استعمال ہوتا ہے، جس سے مقامی آبی وسائل مزید کم ہوتے جا رہے ہیں

کام کا نقصان تو بہت زیادہ ہوا ہے، اس کی کوئی حد نہیں ہے: ۱۰۰ ایکڑ زرعی زمین سے ہر سال تقریبا ۱۲-۱۱ ہزار کام کے ایام بنتے ہیں – جبکہ ۱۰۰ ایکڑ کے مچھلی کے تالاب سے ہر سال صرف ۱۰۰۰ کام کے دن بن پاتے ہیں۔ (کام کے دن ان لوگوں کی تعداد ہے جنہیں کام ملنے والے دنوں کی تعداد سے ضرب کیا جاتا ہے)۔

انکینا گوڈیم ایسی کوئی اکیلی دلت بستی نہیں ہے جو اس طرح کی پریشانی سے دوچار ہو۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) سے منسلک آندھرا پردیش زرعی ورکرز یونین کے ۲۸ سالہ کارکن، مُرلا راجیش کہتے ہیں، ’’ہمارا اندازہ ہے کہ نندی واڑہ منڈل میں کل ۳۲۰۰۰ ایکڑ میں سے ۲۸۰۰۰ ایکڑ اراضی میں مچھلی کے تالاب ہیں، جن میں سے بیشتر تالاب ضلعی حکام سے اجازت لیے بغیر بنائے گئے ہیں۔‘‘ خطے کی زیادہ تر زمین کمّا برادری کی ملکیت ہے، جو آندھرا پردیش میں سیاسی اور سماجی طور پر اثر و رسوخ رکھنے والی برادری ہے۔ اس کے بعد ریڈی، کاپو، راجک اور یادو برادریوں کا نمبر آتا ہے۔ اب ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ یہی مچھلی کے تالاب ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti

ہنومان پُڈی کے وسنت راؤ (یہاں اپنے پوتے مہیش کے ساتھ)، اب گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے بیٹوں (جو گڈی واڑہ اور حیدرآباد میں کام کرتے ہیں) پر منحصر ہیں

دھن لکشمی کا بیٹا اجے (۲۰)، کمّا برادری کی ملکیت والے مچھلی کے ایک تالاب میں کام کرتا ہے، جسے ایک یادو نے لیز پر لے رکھا ہے۔ وہ تالاب میں صبح ۷ بجے سے دوپہر ایک بجے تک کام کرتا ہے، جس کے عوض اسے ہر مہینے ۷۵۰۰ روپے ملتے ہیں۔ اس تنخواہ سے وہ پانچ افراد پر مشتمل اپنی فیملی کی کسی حد تک کفالت میں مدد کرتا ہے۔ دھن لکشمی کہتی ہیں، ’’دس سال پہلے ہم سب دن میں تین بار کھانا کھاتے تھے۔ اب، ہمارے پاس دو وقت کے کھانے کے لیے بھی مشکل سے ہی پیسے بچتے ہیں۔‘‘

نندی واڑہ کے دلت خاندانوں میں بیشتر بزرگوں کی یہی کہانی ہے، جہاں ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں آبی زراعت شروع ہوئی تھی – پھر ۲۰۰۰ کی دہائی تک اس میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد یہ پھیلتا ہی چلا گیا۔ ہنومان پڈی بستی کی ایک دلت بیوہ کنتمّا (۵۵)، ۲۰۰۰ کی دہائی کے اوائل تک ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں ایک دن میں ۱۰۰ روپے کماتی تھی اور سال میں تقریباً ۲۰۰ دن کام کرتی تھی۔ مچھلی کے تالابوں کی تعداد بڑھنے سے کام کے مواقع کم ہوتے چلے گئے اور مجھے کام کی تلاش میں باہر نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن میری صحت نے میرا ساتھ نہیں دیا…‘‘

اب، کنتمّا کی دیکھ بھال ان کا بیٹا چندو (۲۵) کرتا ہے۔ وہ حیدرآباد میں ایک ویلڈنگ کمپنی میں کام کرتا ہے۔ چندو نے اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ساتویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ دی تھی اور زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے لگا تھا۔ لیکن جب وہ کام تقریباً ختم ہو گیا، تو وہ چار سال قبل حیدرآباد چلا گیا۔ چندو نے بتایا، ’’میں اب ۱۲ ہزار روپے کماتا ہوں اور اس میں سے آدھی رقم اپنی ماں کو بھیج دیتا ہوں۔‘‘

ہنومان پڈی بستی کے وسنت راؤ، جو کچھ سال پہلے تک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے، وہ بھی گھریلو اخراجات پورا کرنے کے لیے اب اپنے بیٹوں پر منحصر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’دو بیٹے گڈی واڑہ [قریب ترین شہر، جو سات کلومیٹر دور ہے] میں کام کرتے ہیں، جب کہ تیسرا بیٹا حیدرآباد میں ہے۔‘‘ وسنت کا اندازہ ہے کہ ان کے گاؤں کے ۵۰ دلت خاندانوں میں سے کم از کم ۳۰ گھرانوں کے بیٹے ان ہی دو شہروں میں ہجرت کر گئے ہیں۔

زیادہ فی کس آمدنی ہونے کے باوجود منڈل کی گھٹتی ہوئی آبادی پر چندو کو ذرہ برابر بھی حیرانی نہیں ہے۔ ’’خواتین گھروں میں ہی رہتی ہیں [اور گھر کے کام کاج دیکھتی ہیں، کیونکہ آس پاس مزدوری کے لیے کوئی کام دستیاب نہیں ہے]۔ مردوں کو کبھی کبھار کام مل جاتا ہے اگر وہ اتنے تندرست ہوں کہ دوسرے قریبی گاؤں کا سفر کر سکیں۔ بیٹیوں کی شادی کر کے انہیں سسرال بھیج دیا جاتا ہے۔ بیٹے گڈی واڑہ اور حیدرآباد چلے جاتے ہیں، جہاں وہ چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں، جیسے آٹو رکشا چلانا، تعمیراتی مقامات پر مزدور اور پینٹر کے طور پر کام کرنا – وہ وہاں خود تو تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں، لیکن اپنے والدین کو پیسے بھیجتے رہتے ہیں۔ تو ایسے حالات میں منڈل کی آبادی کم کیوں نہیں ہوگی؟‘‘ وہ سوالیہ لہجے میں پوچھتے ہیں؟

PHOTO • Rahul Maganti

انکینا گوڈیم میں دلت اب آلودہ ہو چکے پینے کے پانی کے تالاب (بائیں) کا استعمال نہیں کرسکتے۔ تامیریسا کا تالاب (دائیں)، جو اعلیٰ ذاتوں کے استعمال میں ہے، نسبتاً بہتر حالت میں ہے

چندو کے دوست متوپلّی جوزف کام دستیاب ہونے پر مچھلی کے تالاب میں کام کر لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کے لیے گاؤں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ جوزف کہتے ہیں، ’’اگر ایم جی نریگا [مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون] کو نافذ نہیں کیا جا رہا ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ ہم نے کئی بار افسران سے گزارش کی کہ وہ ہمیں منریگا کے ذریعے کچھ کام دیں، لیکن جب سے یہ قانون پاس ہوا [۲۰۰۵ میں] ہے، ہمیں ایک بھی کام نہیں ملا ہے۔ ایک دن، میں بھی اپنے بوڑھے والدین کو گاؤں میں ہی چھوڑ کر کسی شہر جانے اور وہاں مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘ جوزف جب یہ باتیں کہہ رہے تھے اس وقت ان کے چہرے پر درد اور غصہ صاف طور پر نمایاں تھا۔

دریں اثنا، آبی زراعت نے بستی میں زیر زمین پانی اور پینے کے پانی کے تالابوں کو آلودہ کر دیا ہے، اور آبپاشی کے نہروں اور ندی نالوں جیسے دیگر ذیلی آبی وسائل کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ ’’پنچایت کے نل سے نکلنے والا پینے کا پانی سبز نظر آتا ہے۔ ہم [تامیریسا میں پنچایت دفتر کے قریب کی دکانوں سے] ۲۰ لیٹر پینے کے پانی کا ڈبہ ۱۵ روپے میں خریدتے ہیں۔ اور ہمیں مہینہ میں کم از کم ۲۰ ڈبّے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں کے دلت نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، لیکن کیا زمیندار لوگ فطرت کے قہر سے بچ پائیں گے؟‘‘ سروج یہ چبھتا ہوا سوال پوچھتی ہیں ۔

مترجم: سبطین کوثر

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser