جب میں تارپا بجاتا ہوں، تو اس کی ہوا ہمارے وارلی لوگوں کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے [اُن پر دیوی آ جاتی ہے]۔ ایک گھنٹہ تک ان کا بدن ویسے ہی ہلتا رہتا ہے، جیسے کوئی درخت ہوا کے ساتھ ہلتا ہے۔
تارپا بجاتے وقت، میں ساوری دیوی اور ان کے ساتھیوں کو آواز دیتا ہوں۔ اور جو میری درخواست سن لیتا ہے لوگ اس کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔
یہ سب عقیدت کی بات ہے۔ ’مانل تیچا دیو، ناہی تیچا ناہی‘ [مانو تو بھگوان، نہیں تو نہیں]۔ میرے لیے میرا تارپا ہی میرا بھگوان ہے۔ تو میں ہاتھ جوڑ کر اس کی پوجا کرتا ہوں۔
میرے پردادا نوَشیہ تارپا بجاتے تھے۔
ان کے بیٹے ڈھاکلیہ نے اسے بجایا۔
ڈھاکلیہ کے بیٹے لاڈکیہ نے بھی اسے بجایا۔
لاڈکیہ میرے والد تھے۔
انگریزوں کا دور تھا۔ ہمیں آزادی نہیں ملی تھی۔ ہمارے گاؤں وال ونڈے میں بڑے لوگوں (اونچی ذات) کے بچوں کے لیے صرف ایک اسکول ہوا کرتا تھا۔ غریبوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا۔ میں اس وقت ۱۲-۱۰ سال کا تھا۔ میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ میرے ماں باپ سوچتے تھے، ’گائیماگے گیلا تر روٹی میلل۔ شالیت گیلا تر اُپاشی رہل‘ [اگر میں نے مویشیوں کی دیکھ بھال کی، تو روٹی ملتی رہے گی، اگر اسکول گیا تو بھوکا رہوں گا]۔ میری ماں کو سات بچوں کی پرورش کرنی تھی۔
میرے والد کہتے، ’جب مویشی چر رہے ہوتے ہیں، تو تمہارے پاس کوئی کام نہیں ہوتا۔ تم تارپا کیوں نہیں بجاتے؟ یہ تمہارے جسم [صحت] کے لیے اچھا ہے اور اس سے تفریح بھی ہوگی۔‘ اس آواز کی وجہ سے کیڑے مویشیوں کے پاس نہیں آئیں گے۔
جب میں جنگل میں یا چراگاہوں میں ہوتا، تو اسے بجانے لگتا۔ لوگ شکایت کرتے، ’دھنڈیا کا بیٹا دن بھر کیاؤں کیاؤں کرتا رہتا ہے۔‘ ایک دن میرے والد نے کہا، ’جب تک میں زندہ ہوں، میں تمہارے لیے تارپا بناؤں گا۔ میرے جانے کے بعد کون بنائے گا؟‘ اس طرح میں نے یہ ہنر سیکھا۔
تارپا بنانے کے لیے آپ کو تین چیزیں چاہئیں۔ ماڑ کے پیڑ (تاڑ) کی پتیاں ’آواز‘ [سینگ کا گونجنے والا حصہ] بنانے کے لیے۔ بانس [بید] کے دو ٹکڑے لگتے تھے، ایک نر اور ایک مادہ۔ نر والے ٹکڑے کو آہنگ برقرار رکھنے کے لیے تھپتھپانا ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو آپ کو چاہیے وہ ہے ہوا کو بھرنے کے لیے دودھی [لوکی]۔ جب میں پھونک مارتا ہوں، تو دونوں نر مادہ ٹکڑے ایک ساتھ آ جاتے ہیں اور سب سے دلچسپ آواز پیدا ہوتی ہے۔
تارپا ایک فیملی کی طرح ہے۔ ایک نر ہوتا ہے اور دوسرا مادہ۔ جب میں کچھ ہوا پھونکتا ہوں، وہ ایک ہو جاتے ہیں اور تب جو آواز نکلتی ہے وہ جادوئی ہوتی ہے۔ وہ پتھر کی طرح بے جان ہوتا ہے۔ میری سانس سے وہ زندہ ہو جاتا ہے اور ایک آواز اور موسیقی کا سُر نکلتا ہے۔ اس کے لیے ہوا سے بھرا ہوا سینہ چاہیے۔ آدمی کو آلہ موسیقی میں پھونکنا ہوتا ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں سانس لینے کے لیے بھرپور ہوا ہو۔
یہ ایشور کا کمال ہی ہے کہ ہم ایسا آلہ موسیقی بنا سکتے ہیں۔ یہ غیبی ہے۔
میرے والد کہا کرتے تھے، ’جب مویشی چر رہے ہوتے ہیں، تو تمہارے پاس کوئی کام نہیں ہوتا۔ تم تارپا کیوں نہیں بجاتے؟ یہ تمہارے جسم [صحت] کے لیے اچھا ہے اور اس سے تفریح بھی ہوگی‘
*****
میرے ماں باپ اور بزرگ لوگ ہمیں کئی کہانیاں سناتے تھے۔ اگر میں انہیں آج بتاؤں، تو لوگ مجھے بے عزت کرنے لگیں گے۔ مگر وہ ہمیں ہمارے آباء و اجداد نے سنائی تھیں۔
کائنات کو بنانے کے بعد دیوتا چلے گئے۔ تو وارلی کہاں سے آئے؟
کندرام دیہلیا سے۔
دیوتاؤں نے کندرام دیہلیا کے لیے ان کی ماں کے پاس کچھ دہی رکھی تھی۔ اس نے دہی تو کھائی ہی، وہ بھینس بھی کھا گیا۔ اس کی ماں ناراض ہو گئی اور اسے گھر سے باہر نکال دیا۔
ہمارے آباء و اجداد بتاتے تھے کہ کیسے پہلا وارلی کندرام دیہلیا یہاں پہنچا۔
कंदराम देहल्यालहून
पळसोंड्याला परसंग झालानटवचोंडीला नटलं
खरवंड्याला खरं झालं
शिणगारपाड्याला शिणगारलं
आडखडकाला आड झालं
काटा खोचाय कासटवाडी झालं
कसेलीला येऊन हसलं
आन् वाळवंड्याला येऊन बसलं.
गोऱ्याला जान खरं जालं
गोऱ्याला रहला गोंद्या
चांद्या आलं, गंभीरगडा आलं.
Kandram Dehlyalahun
Palsondyala parsang jhala
Natavchondila Natala
Kharvandyala khara jhala
Shingarpadyala shingarala
Aadkhadakala aad jhala
Kata khochay Kasatwadi jhala
Kaselila yeun hasala
Aan Walwandyala yeun basala.
Goryala jaan khara jaala
Goryala rahala Gondya
Chandya aala, Gambhirgada aala
یہ شاعری پالگھر ضلع کے جوہار بلاک میں گاؤں بستیوں کے ناموں کے ساتھ تُک بندی والے الفاظ کے کھیل کی طرح ہے۔
وارلی خاندان کی طرح یہاں کئی برادریاں رہتی ہیں۔ راج کولی، کوکنا، کاتکری، ٹھاکر، مہار، چنبھار… مجھے یاد ہے کہ میں مہاراجہ [جوہار کے راجہ] کے دربار میں کام کرتا تھا۔ وہ اپنے دربار میں سبھی لوگوں کے ساتھ کروَل کے پتوں پر کھانا کھاتے تھے۔ میں وہاں کام کرتا تھا اور استعمال ہو چکے پتّوں کو پھینک دیتا تھا۔ سبھی برادریوں کے لوگ وہاں اکٹھا ہوتے تھے اور ایک صف میں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ کسی کو بھی دوسرے سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ میں نے وہاں سیکھا اور کاتکری یا مسلمانوں کے ہاتھوں پانی پینا شروع کیا۔ راج کولی وارلیوں کا چھوا پانی نہیں لیتے ہیں۔ ہمارے لوگ کاتکری، چنبھار یا ڈھور کولی کا چھوا پانی نہیں پیتے۔ اب بھی نہیں پیتے۔ مگر میرا کبھی بھی ایسی تفریق میں یقین نہیں رہا۔
دیکھئے، کوئی بھی آدمی جو ہروا دیو اور تارپا کی پوجا کرتا ہے، وارلی آدیواسی ہوتا ہے۔
ہم ساتھ ساتھ تہوار مناتے ہیں۔ جب نیا چاول آتا ہے، ہم اسے فیملی میں بانٹتے ہیں، پڑوسیوں کو دیتے ہیں اور اسے پہلے گاؤں کی دیوی کے پاس لے جاتے ہیں۔ پہلا نوالہ انہیں کھلانے کے بعد ہی ہم کھاتے ہیں۔ آپ اسے اندھی عقیدت کے طور پر دیکھیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ ہماری عقیدت ہے، ہماری عبادت ہے۔
نئی فصل آنے پر ہم اپنی مقامی دیوی، گاؤں دیوی کے مندر میں جاتے ہیں۔ ہم نے اس کے لیے مندر کیوں بنوایا اور اسے یہاں کیوں لائے؟ ہم ان سے پرارتھنا کرتے ہیں، ’ہمارے بچوں، رشتہ داروں، مویشیوں اور کارکنوں کو صحت مند اور اچھا رکھے۔ ہمارے کھیت اور باغیچے پھلیں پھولیں۔ جو لوگ نوکری میں ہیں انہیں کامیابی ملے۔ ہمارے گھروں اور ہماری زندگی میں اچھے دن آئیں۔‘ ہم آدیواسی مندر جاتے ہیں اور اپنے دیوتا سے پرارتھنا کرتے ہیں، اس کا نام لیتے ہیں اور اپنی مرادیں مانگتے ہیں۔
ہماری زندگی میں تارپا کی بڑی اہمیت ہے۔
واگھ بارس پر ہم ساوری دیوی کا تہوار مناتے ہیں۔ آپ انہیں شبری کے نام سے جانتے ہیں، جنہوں نے بھگوان رام کو آدھا کھائے ہوئے بیر دیے تھے۔ ہماری کہانی الگ ہے۔ ساوری دیوی جنگل میں رام کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ سیتا کے ساتھ وہاں آئے تھے۔ ساوری نے ان سے ملاقات کر کے انہیں بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ان کا انتظار کر رہی ہیں اور جب انہیں دیکھ لیا ہے، تو جینے کے لیے اور کچھ نہیں بچا ہے۔ انہوں نے اپنا جیوڑا [دل] نکالا اور ان کے ہاتھوں میں رکھ دیا اور پھر ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔
ان کی محبت اور وفاداری کا جشن منانے کے لیے ہم تارپا کو پہاڑیوں اور جنگل میں لے جاتے ہیں۔ وہاں جنگل میں کئی دیوتا رہتے ہیں۔ تنگڑا ساوری، گوہرا ساوری، پوپٹا ساوری، تُمبا ساوری اور گھونگا ساوری۔ یہ سبھی ساوری دیوی کے دوست ہیں۔ یہ فطرت کے دیوتا ہیں۔ یہ زندہ ہیں۔ اب بھی ہیں۔ ہم ان کی پوجا کرنے لگے۔ میں تارپا بجاتا ہوں اور انہیں تہوار میں بلاتا ہوں۔ جس طرح ہم کسی کو نام سے بلاتے ہیں، اسی طرح میں ہر ساوری کے لیے الگ الگ دھنیں بجاتا ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے دھنیں بدلتی رہتی ہیں۔
*****
سال ۲۰۲۲ کی بات ہے۔ میں سبھی جگہ کے آدیواسیوں کے ساتھ اسٹیج پر تھا – نندربار، دھولے، بڑودہ… میرے سامنے بیٹھے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میں ثابت کروں کہ میں آدیواسی ہوں۔
میں نے انہیں بتایا کہ اس کرہ زمین پر آ کر اس کی مٹی کا جائزہ لینے والا پہلا آدمی آدیواسی تھا اور وہ انسان میرا جدامجد تھا۔ میں نے کہا کہ ہماری ثقافت وہ آواز ہے جو ہم اپنی سانسوں سے پیدا کرتے ہیں۔ جو ہم اپنے ہاتھوں سے بجاتے ہیں اسی کو آپ مصوری میں دیکھتے ہیں۔ مصوری بعد میں آئی۔ سانس اور موسیقی ابدی ہیں۔ آوازیں کائنات کی تخلیق کے وقت سے ہی موجود ہیں۔
آخر میں، میں نے یہ کہا کہ یہ تارپا ایک جوڑے کی نمائندگی کرتا ہے، نر مادہ کا اور مادہ نر کی مدد کرتی ہے۔ تارپا ایسے ہی کام کرتا ہے۔ ایک سانس انہیں متحد کرتی ہے اور سب سے جادوئی آواز پیدا کرتی ہے۔
میرے جواب نے مجھے پہلا مقام دلایا۔ میری ریاست کو پہلا مقام ملا!
میں ہاتھ جوڑ کر اپنے تارپا سے کہا کرتا تھا، ’ہے دیوتا، میں آپ کی خدمت کرتا ہوں، آپ کی پوجا کرتا ہوں۔ بدلے میں تمہیں بھی میرا خیال رکھنا چاہیے۔ میں اڑنا چاہتا ہوں۔ مجھے ہوائی جہاز میں بیٹھا دو۔‘ اور آپ کو یقین نہیں آئے گا، میرا تارپا مجھے ہوائی جہاز پر لے گیا۔ بھکلیہ لاڈکیہ دھنڈا نے ہوائی جہاز میں سفر کیا۔ میں بہت سی جگہوں پر گیا۔ میں آلندی، جیجوری، بارامتی، سنیا [شنی] شنگناپور گیا… میں نے دور دراز کا سفر کیا۔ یہاں سے کوئی بھی ’گوما‘ [گوا] کی راجدھانی پنجی نہیں گیا ہے۔ لیکن میں وہاں گیا۔ مجھے وہاں سے سرٹیفکیٹ ملا ہے۔
بتانے کو میرے پاس بہت سی چیزیں ہیں، لیکن میں بتاتا نہیں۔ میں ۸۹ سال کا ہوں اور بہت ساری کہانیاں ہیں، لیکن میں انہیں کبھی نہیں بتاتا۔ میں نے انہیں دل میں چھپا رکھا ہے۔ کئی رپورٹر اور صحافی آتے ہیں اور میری کہانی لکھتے ہیں۔ وہ کتابیں شائع کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے مجھے مشہور کر دیا ہے۔ کئی موسیقار آتے ہیں اور میری موسیقی چُرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے میں ہر کسی سے نہیں ملتا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ مجھ سے ملے۔
مجھے سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ پروگرام دہلی میں تھا۔ جب مجھے ایوارڈ ملا، تو میری آنکھیں بھر آئیں۔ میرے والد نے مجھے کبھی اسکول نہیں بھیجا تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ اس تعلیم سے مجھے معلوم نہیں نوکری ملے گی یا نہیں۔ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’یہ ساز میرا دیوتا ہے۔‘ یہ واقعی ایک دیوتا ہے۔ اس نے مجھے سب کچھ دیا۔ اس نے مجھے انسانیت سکھائی۔ دنیا بھر میں لوگ میرا نام جانتے ہیں۔ میرا تارپا ایک ڈاک لفافہ پر چھپا ہے۔ اگر آپ اپنے فون پر میرے نام کا بٹن دبائیں گے، تو آپ کو میرا ویڈیو دکھائی دے گا… اور کیا چاہیے؟ کنویں کے مینڈک کو نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے باہر کیا ہے۔ لیکن میں اس کنویں سے باہر نکلا… میں نے دنیا دیکھی۔
آج کل نوجوان تارپا کی دھنوں پر نہیں ناچتے۔ انہیں ڈی جے مل گیا ہے۔ بجانے دو۔ لیکن مجھے ایک بات بتاؤ، جب ہم کھیت سے اپنی فصل کاٹتے ہیں، جب ہم گاؤں دیوی کو نئے چاول کا پرساد چڑھاتے ہیں، جب ہم اس کا نام لیتے ہیں اور اس سے پرارتھنا کرتے ہیں، تو کیا ہم ڈی جے بجائیں گے؟ ان لمحات میں وہاں صرف تارپا ہوتا ہے، اور کچھ نہیں۔
دستاویز بندی میں مدد کے لیے ’آروہن‘ کی مادھوری مُکنے کا تہ دل سے شکریہ۔
انٹرویو، ٹرانس کرپشن اور انگریزی ترجمہ:
میدھا کالے
فوٹو اور ویڈیو:
سدھیتا سوناونے
یہ اسٹوری پاری کے ’خطرے سے دوچار زبانوں کے پروجیکٹ‘ کا حصہ ہے جس کا مقصد ملک کی معدوم ہو رہی زبانوں کی دستاویز بندی کرنا ہے۔
وارلی ایک ہند آریائی زبان ہے جو ہندوستان میں گجرات، دمن اور دیپ، دادرا اور نگر حویلی، مہاراشٹر، کرناٹک اور گوا کے وارلی یا ورلی آدیواسی بولتے ہیں۔ یونیسکو کے ذریعہ شائع زبانوں کے ایٹلس میں ’وارلی‘ کو ہندوستان کی ممکنہ طور پر معدوم ہونے والی زبان کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
ہمارا مقصد مہاراشٹر میں بولی جانے والی وارلی زبان کی دستاویز بندی کرنا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز