میرا گھر اندرا کالونی نام کے ایک آدیواسی گاؤں میں ہے۔ یہاں الگ الگ آدیواسی برادریوں کے کل ۲۵ کنبے رہتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں پانی کی ایک ٹنکی اور ایک بیت الخلاء بنا ہوا ہے، اور پینے کے پانی کے لیے ایک کنواں ہے۔

گاؤں کے کچھ لوگوں کے پاس کھیتی لائق زمین ہے۔ اس پر وہ دھان، بینگن، مکئی، جُھلنا، بھنڈی، کریلا، کدّو کے علاوہ کولتھا [کالا چنا]، کنڈولا [تور دال]، مونگ جیسی کئی قسم کی دالیں اُگاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنی ضرورت کے مطابق دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔ دھان کی کھیتی برسات کے موسم میں ہوتی ہے۔

فصل کٹنے کے وقت ہم اپنی کھپت کے حساب سے دھان رکھ کر، باقی دھان کو بازار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ اسے بیچنے کے بعد ہمیں جو بھی پیسہ ملتا ہے، اس کا استعمال کھاد اور روزمرہ کے دیگر اخراجات کے لیے کرتے ہیں۔

ہمارے گاؤں کے کچھ گھر پھوس کے بنے ہوئے ہیں۔ اس سے دھوپ، بارش اور سردی سے ہماری حفاظت ہوتی ہے۔ ہر سال یا دو سال میں ایک بار پھوس کو بدلنا پڑتا ہے۔ گھر کی مرمت کے لیے ہم بگولی گھاس، سالوا، بانس، لاہی اور جنگل کی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔

Left: Madhab in front of his house in Indira Colony.
PHOTO • Santosh Gouda
Right: Cattle grazing in the village
PHOTO • Madhab Nayak

بائیں: اندرا کالونی میں اپنے گھر کے سامنے مادھب۔ دائیں: گاؤں میں مویشی چرانے میں مصروف ہیں

Left: Goats, along with hens, cows and bullocks that belong to people in the village.
PHOTO • Santosh Gouda
Right: Dried kendu leaves which are ready to be collected
PHOTO • Santosh Gouda

بائیں: مرغیوں، گائے اور بیلوں کے علاوہ گاؤں کے لوگ بکریاں پالتے ہیں۔ دائیں: کیندو کے خشک پتّے، جنہیں اکٹھا کیا جانا ہے

پھوس کے گھر بنانے کے لیے بگولی گھاس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس گھاس کو ہم جنگل سے کاٹتے ہیں اور دو تین مہینے کے لیے دھوپ میں سُکھاتے ہیں۔ اس کے بعد، ہمیں اسے کچھ اور وقت تک سوکھا رکھنا ہوتا ہے اور بارش سے بچانا ہوتا ہے، تاکہ یہ خراب نہ ہو جائے۔ گھر کی چھت ڈالنے کے لیے ہم مٹی کی کھپریلوں کا استعمال کرتے ہیں، جنہیں ہم گاؤں میں ہی بناتے ہیں۔

ہماری بیل گاڑی میں پہیے کو چھوڑ کر باقی سارا حصہ لکڑی یا بانس کا بنا ہوتا ہے۔ اس کا استعمال ہم کھیتوں سے دھان اور جنگل سے لکڑی لانے کے لیے کرتے ہیں۔ اس کا استعمال ہم کھیت میں کھاد پہنچانے کے لیے بھی کرتے ہیں۔ لیکن، گزرتے وقت کے ساتھ اب بیل گاڑی کا استعمال دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے۔

میرے گاؤں کے زیادہ تر لوگ گائے، بیل، بکری اور مرغیاں پالتے ہیں۔ دن میں ہم مویشیوں کو کھانے میں پکے چاول کا پانی، چوکر اور مونگ دیتے ہیں، اور رات کو سوکھا چارہ دیتے ہیں۔ گایوں اور بیلوں کو چرانے کے لیے ہم جنگل یا کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔ بارش کے موسم میں میدانوں میں ہری گھاس اُگ آتی ہے اور گرمی کے دنوں میں سوکھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے گائیں اور بیلوں کو مناسب چارہ نہیں ملتا۔

Left: Ranjan Kumar Nayak is a contractor who buys kendu leaves from people in the village.
PHOTO • Santosh Gouda
Right: A thatched house in the village
PHOTO • Madhab Nayak

بائیں: رنجن کمار نائک ایک ٹھیکہ دار ہیں، جو گاؤں کے لوگوں سے کیندو کے پتّے خریدتے ہیں۔ دائیں: گاؤں میں ایک پھوس کا گھر

مویشیوں کے گوبر کا استعمال ہم اپنے کھیتوں میں کرتے ہیں اور بوائی سے پہلے گوبر کی کھاد کو پورے کھیت میں چھینٹتے ہیں۔ گاؤں کے لوگ گائے اور بیل بیچ کر کمائی کرتے ہیں۔ عام طور پر، ایک گائے کی قیمت تقریباً ۱۰ ہزار روپے ہوتی ہے۔

گاؤں کی کچھ عورتیں اضافی کمائی کے لیے کیندو کے پتّے، سال کے پتّے اور مہوا توڑنے کا کام کرتی ہیں۔

یہ مہوا سوکھا پھول ہے۔ گاؤں کی عورتیں صبح کے وقت جنگل جاتی ہیں اور ۱۱ بجے تک انہیں توڑ کر گھر آ جاتی ہیں۔ اس کے بعد، اکٹھا کیے گئے پھولوں کو چھ دنوں تک دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے۔ پھر انہیں دو یا تین مہینے تک بورے میں سوکھنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ہم مہوا کا جوس ۶۰ روپے فی مگ کے حساب سے بیچتے ہیں اور مہوا کا پھول ۵۰ روپے فی مگ کی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ حالانکہ، مہوا کے پھولوں کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ہماری برادری کے لوگ ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

پاری ایجوکیشن کی ٹیم، اس اسٹوری میں مدد کے لیے گرام وکاس رہائشی اسکول کی انوویشن اور اسٹریٹجی مینیجر، شربانی چٹوراج اور سنتوش گوڑا کا شکریہ ادا کرتی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Madhab Nayak

ਮਾਧਬ ਨਾਇਕ ਓੜੀਸ਼ਾ ਦੇ ਗੰਜਮ ਵਿਖੇ ਗ੍ਰਾਮ ਵਿਕਾਸ ਵਿਦਿਆ ਵਿਹਾਰ ਦੇ ਵਿਦਿਆਰਥੀ ਹਨ।

Other stories by Madhab Nayak
Editor : Sanviti Iyer

ਸੰਵਿਤੀ ਅਈਅਰ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਕੰਟੈਂਟ ਕੋਆਰਡੀਨੇਟਰ ਹਨ। ਉਹ ਉਹਨਾਂ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਦੀ ਵੀ ਮਦਦ ਕਰਦੀ ਹਨ ਜੋ ਪੇਂਡੂ ਭਾਰਤ ਦੇ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਲੈ ਰਿਪੋਰਟ ਕਰਦੇ ਹਨ ਜਾਂ ਉਹਨਾਂ ਦਾ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਕਰਦੇ ਹਨ।

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique