ہندوستان کے کسانوں کو اگر انگریزی کے چند الفاظ معلوم ہوں گے، تو وہ الفاظ ’سوامی ناتھن رپورٹ‘ یا ’سوامی ناتھن کمیشن رپورٹ‘ ہو سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس رپورٹ میں ان کے لیے کیا سفارش کی گئی ہے: کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) = پیداوار کی مجموعی لاگت + ۵۰ فیصد (جسے سی ۲ + ۵۰ فیصد بھی کہا جاتا ہے)۔

پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کو صرف سرکار اور نوکرشاہی کی محفلوں، یا سائنسی اداروں میں ہی یاد نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں ملک کے وہ لاکھوں کاشتکار بھی ہمیشہ یاد رکھیں گے جو کسانوں کے لیے بنائے گئے قومی کمیشن (این سی ایف) کی رپورٹ کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔

ہندوستانی کسان اسے ’سوامی ناتھن رپورٹ‘ کہتے ہیں، کیوں کہ پروفیسر سوامی ناتھن این سی ایف کے چیئرمین تھے، اور اس کمیشن کے ذریعے پیش کی گئی رپورٹوں میں ان کا بیش بہا تعاون شامل ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یو پی اے (متحدہ ترقی پسند اتحاد) اور این ڈی اے (قومی جمہوری اتحاد) دونوں حکومتوں نے نہ صرف ان کے ساتھ دھوکہ کیا، بلکہ اپنی طرف سے ان رپورٹوں کو دبانے کی پوری کوشش بھی کی ہے۔ کسانوں کے لیے بنائے گئے اس قومی کمیشن نے حکومت کو اپنی پہلی رپورٹ دسمبر ۲۰۰۴ میں جمع کی تھی، جب کہ پانچویں اور آخری رپورٹ اکتوبر ۲۰۰۶ کے آس پاس جمع کی گئی تھی۔ ان رپورٹوں میں جس زرعی بحران کی نشاندہی کی گئی ہے اس پر پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس (جس کا ہمیں آج بھی بے صبری سے انتظار ہے) بلانا تو دور، اس پر آج تک ایک گھنٹے کی بھی بحث نہیں ہوئی ہے۔ اور اب تو اس کی پہلی رپورٹ کو جمع کرائے ہوئے ۱۹ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔

سال ۲۰۱۴ میں، مودی حکومت کسانوں سے وعدہ کرکے اقتدار میں آئی کہ وہ سوامی ناتھن رپورٹ، خاص کر ایم ایس پی فارمولہ سے متعلق اس کی تجویز کو جلد از جلد نافذ کرے گی۔ لیکن اپنا وعدہ پورا کرنے کی بجائے، اس نے بڑی تیزی سے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کر دیا، جس میں کہا گیا کہ سوامی ناتھن کمیشن رپورٹ کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس سے بازار کی قیمتوں پر برا اثر پڑے گا۔

یو پی اے اور این ڈی اے کی دلیل شاید یہ تھی کہ سوامی ناتھن رپورٹ کچھ زیادہ ہی ’کسانوں کے حق‘ میں ہے، جب کہ دونوں حکومتیں ہندوستانی زراعت کو خاموشی سے کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کر دینا چاہتی تھیں۔ حالانکہ، آزادی کے بعد پہلی بار اس رپورٹ کے ذریعہ زراعت کا ایک مثبت خاکہ تیار کیا گیا تھا۔ اس کی قیادت ایک ایسے انسان کے ہاتھوں میں تھی، جو پوری طرح سے ایک الگ ڈھانچہ تیار کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا – ان کا ماننا تھا کہ زرعی ترقی کا پیمانہ صرف پیداوار میں اضافہ نہیں، بلکہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہونا چاہیے۔

Women are central to farming in India – 65 per cent of agricultural work of sowing, transplanting, harvesting, threshing, crop transportation from field to home, food processing, dairying, and more is done by them. They were up front and centre when farmers across the country were protesting the farm laws. Seen here at the protest sites on the borders of Delhi.
PHOTO • Shraddha Agarwal

ہندوستان کے اندر کاشتکاری میں خواتین کا مرکزی کردار رہا ہے – فصلوں کی بوائی، روپائی، کٹائی، اناج کی صفائی، انہیں کھیت سے گھر لانا، پھر غلہ کو سنبھال کر رکھنا، دودھ دہی کا کام وغیرہ، اور زراعت سے متعلق اس قسم کے ۶۵ فیصد کام عورتوں کے ذریعہ ہی کیے جاتے ہیں۔ زرعی قوانین کے خلاف جب ملک بھر میں کسان احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے، تو اس میں بھی عورتیں سب سے آگے تھیں۔ دہلی کی سرحدوں پر ایسے ہی ایک مظاہرے میں شرکت کرنے والی عورتوں کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے

Bt-cotton occupies 90 per cent of the land under cotton in India – and the pests that this GM variety was meant to safeguard against, are back, virulently and now pesticide-resistant – destroying crops and farmers. Farmer Wadandre from Amgaon (Kh) in Wardha district (left) examining pest-infested bolls on his farm. Many hectares of cotton fields were devastated by swarming armies of the pink-worm through the winter of 2017-18 in western Vidarbha’s cotton belt. India has about 130 lakh hectares under cotton in 2017-18, and reports from the states indicate that the pink-worm menace has been widespread in Maharashtra, Madhya Pradesh and Telangana. The union Ministry of Agriculture of the government of India has rejected the demand to de-notify Bt-cotton
PHOTO • Jaideep Hardikar
Bt-cotton occupies 90 per cent of the land under cotton in India – and the pests that this GM variety was meant to safeguard against, are back, virulently and now pesticide-resistant – destroying crops and farmers. Farmer Wadandre from Amgaon (Kh) in Wardha district (left) examining pest-infested bolls on his farm. Many hectares of cotton fields were devastated by swarming armies of the pink-worm through the winter of 2017-18 in western Vidarbha’s cotton belt. India has about 130 lakh hectares under cotton in 2017-18, and reports from the states indicate that the pink-worm menace has been widespread in Maharashtra, Madhya Pradesh and Telangana. The union Ministry of Agriculture of the government of India has rejected the demand to de-notify Bt-cotton
PHOTO • Jaideep Hardikar

ہندوستان میں کپاس کی کھیتی والی زمین کے ۹۰ فیصد رقبہ پر بی ٹی کپاس اُگائی جا رہی ہے – اور جن کیڑوں سے فصل کو بچانے کے لیے اس جی ایم (جینیاتی طور پر ترمیم شدہ) قسم کی کپاس کو لایا گیا تھا وہ کیڑے اب دوبارہ واپس آ گئے ہیں، جن پر اب کسی زہر یا حشرہ کش کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے – اور یہ کیڑے فصلوں کے ساتھ ساتھ کسانوں کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں۔ وردھا ضلع کے آمگاؤں (کھ) کے کسان وڈاندرے (بائیں) اپنے کھیت میں کپاس کے اُن ڈوڈوں کو دیکھ رہے ہیں جن پر اب کیڑے لگ چکے ہیں۔ گلابی سنڈیوں (کیڑے) کی اس فوج نے مغربی ودربھ کے کپاس والے علاقے میں سال ۱۸-۲۰۱۷ کی سردیوں کے دوران کئی ہیکٹیئر میں لگی کپاس کی فصل کو برباد کر دیا تھا۔ سال ۱۸-۲۰۱۷ میں ہندوستان میں تقریباً ۱۳۰ لاکھ ہیکٹیئر میں کپاس کی کھیتی کی گئی تھی، اور ریاستوں سے جاری ہونے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گلابی سنڈیوں نے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی۔ حکومت ہند کی وزارت زراعت نے بی ٹی کپاس کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا مطالبہ ٹھکرا دیا ہے

ذاتی طور پر، میرے ساتھ بھی ان کی ایک یاد وابستہ ہے جو ۲۰۰۵ کی ہے۔ اُس وقت وہ این سی ایف کے چیئر پرسن تھے اور میں نے ان سے ودربھ کا دورہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ اُس زمانے میں وہاں پر ۸-۶ کسان روزانہ خود کشی کر رہے تھے۔ حالات کافی سنگین تھے، لیکن کوئی بھی میڈیا اس کے بارے میں بتانے کو تیار نہیں تھا۔ (سال ۲۰۰۶ میں، ودربھ سے باہر کے صرف چھ صحافی ہی انسانی تاریخ میں پیش آنے والے خود کشی کے شاید اس سب سے بڑے واقعہ کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ اس خطہ کے چھ ضلعے سب سے زیادہ متاثر تھے۔ وہیں دوسری طرف، ۵۱۲ نامی گرامی صحافی ممبئی میں منائے جا رہے ’لکمے فیشن ویک‘ کی رپورٹنگ پر مامور تھے اور تقریباً ۱۰۰ دیگر صحافیوں کا بھی وہاں روزانہ آنا جانا تھا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس فیشن ویک کا تھیم بھی کپاس ہی تھا، جسے ریمپ پر شاندار طریقے سے پیش کیا جا رہا تھا – جب کہ وہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز ایک گھنٹہ کی دوری پر واقع ودربھ کے اس علاقے میں کپاس اگانے والے مرد، عورت اور بچے بڑی تعداد میں خود کشی کر رہے تھے۔)

بہرحال، سال ۲۰۰۵ کی بات پر واپس چلتے ہیں۔ پروفیسر سوامی ناتھن نے ودربھ سے رپورٹنگ کر رہے ہم صحافیوں کی اپیل کا جتنی تیزی سے جواب دیا اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ جلد ہی این سی ایف کی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔

اُس وقت مہاراشٹر میں ولاس راؤ دیش مکھ کی سرکار تھی، جو سوامی ناتھن کے دورے سے بری طرح گھبرا گئی۔ سرکار نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ انہیں اچھی اچھی جگہ گھمایا جائے، نوکرشاہوں اور سائنس کے ماہرین کے ساتھ ان کی بات چیت کرائی جائے، اور زرعی کالجوں کی تقریبات وغیرہ میں انہیں مصروف رکھا جائے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے مہاراشٹر حکومت سے انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ کہا کہ وہ حکومت کے ذریعہ طے کی گئی جگہوں پر جانے کے لیے تیار ہیں، لیکن ان کھیتوں پر بھی وقت گزارنا چاہتے ہیں جہاں ان کے ساتھ میں نے اور جے دیپ ہرڈیکر جیسے میرے ساتھی صحافیوں نے دورہ کرنے کی ان سے درخواست کی تھی۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔

وردھا میں ہم انہیں شیام راؤ کھتالے کے گھر لے گئے، جن کے کسان بیٹوں نے خودکشی کر لی تھی۔ وہاں جانے پر ہمیں پتہ چلا کہ خراب صحت کی وجہ سے کچھ گھنٹے قبل شیام راؤ کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ وہ بھوک کی شدت اور اپنے بیٹوں کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر پائے تھے۔ ریاستی حکومت نے یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر سوامی ناتھن کا راستہ بدلنے کی کوشش کی کہ وہ آدمی تو مر چکا ہے۔ لیکن سوامی ناتھن نے زور دے کر کہا کہ وہ اس کے گھر جا کر اسے خراج عقیدت پیش کریں گے، اور ایسا کیا بھی۔

Young Vishal Khule, the son of a famer in Akola’s Dadham village, took his own life in 2015. Seen here are Vishal's father, Vishwanath Khule and his mother Sheela (on the right); elder brother Vaibhav and their neighbour Jankiram Khule with Vishal’s paternal uncle (to the left). Dadham, with a population of 1,500, is among the poorest villages in western Vidarbha, Maharashtra’s cotton and soybean belt, which has been in the news since the mid-1990s for a continuing spell of farmers’ suicides. The region is reeling under successive years of drought and an agrarian crisis that has worsened
PHOTO • Jaideep Hardikar

اکولہ کے دادھم گاؤں کے ایک کسان کا نوجوان بیٹا، وشال کھُلے نے سال ۲۰۱۵ میں خود کشی کر لی تھی۔ اس تصویر میں وشال کے والد وشوناتھ کھلے اور ماں شیلا (دائیں جانب)؛ بڑے بھائی ویبھو اور ان کے پڑوسی جانکی رام کھلے کو وشال کے چچا (بائیں جانب) کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۵۰۰ کی آبادی والا دادھم، مغربی ودربھ کے غریب ترین گاؤوں میں سے ایک ہے۔ مہاراشٹر کے اندر کپاس اور سویابین کی سب سے زیادہ کھیتی ودربھ میں ہوتی ہے، جو بڑی تعداد میں کسانوں کی خودکشی کی وجہ سے ۱۹۹۰ کی دہائی کے وسط سے ہی سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ علاقہ برسوں سے قحط اور زرعی بحران کا شکار رہا ہے، جس کی حالت اب اور بدتر ہو چکی ہے

اس کے بعد سوامی ناتھن نے کچھ اور گھروں کا دورہ کیا، جہاں خودکشی کرنے والے کسانوں کے اہل خانہ کی باتیں سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے وردھا کے وائیفڈ میں غمگین کسانوں کے ایک تعزیتی جلسہ میں بھی شرکت کی۔ اس جلسہ کا اہتمام زرعی امور کے ایک بڑے دانشور، وجے جاوندھیا نے کیا تھا۔ اسی دوران، مجمع میں سے ایک بزرگ کسان کھڑا ہوا اور سوامی ناتھن سے غصے میں پوچھا کہ سرکار ان سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہے۔ کیا سرکار کے کانوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہمیں دہشت گرد بننا پڑے گا؟ پروفیسر سوامی ناتھن کو کافی صدمہ پہنچا۔ پھر، انہوں نے انتہائی تحمل اور سمجھداری کے ساتھ ان کا اور ان کے دوستوں کے سوال کا جواب دیا۔

اُس وقت سوامی ناتھن ۸۰ سال سے زیادہ کی عمر کے ہو چکے تھے۔ میں ان کے تحمل، قوت برداشت اور مشفقانہ انداز کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ جو لوگ ان کی رائے اور کام کی سخت تنقید کرتے تھے، ان کے ساتھ بھی ہم نے انہیں بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو انتہائی تحمل کے ساتھ سنتے تھے اور کئی بار اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرتے تھے۔ میری نظر میں تو ایسا کوئی بھی نہیں ہے جو اپنے سیمینار یا ورکشاپ میں اپنے ناقدین کو بلائے اور انہیں وہ باتیں کھل کر کہنے کی دعوت دے جو انہوں نے سوامی ناتھن سے ذاتی طور پر کہی تھیں۔

یقیناً یہ ان کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ کئی دہائی پیچھے مڑ کر دیکھ سکتے تھے اور اپنے کام میں اب انہیں جو خامیاں محسوس ہوتی تھیں انہیں دور کر سکتے تھے۔ شروع میں انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی یہ تصور کیا تھا کہ سبز انقلاب کی وجہ سے کیمیاوی کھادوں اور حشرہ کش کا اس طرح اور اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جانے لگے گا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ دیکھ کر انہیں کافی حیرانی ہوتی ہے۔ گزرتی ہوئی دہائیوں کے ساتھ وہ حیاتیات اور ماحولیات، آبی وسائل کے استعمال اور ضیاع کے تئیں زیادہ حساس ہونے لگے تھے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے وہ بی ٹی یا جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلوں کے بے ضابطہ یا لاپروائی کے ساتھ استعمال کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے لگے تھے۔

منکومبو سمباسیون سوامی ناتھن کے جانے سے ہندوستان نے نہ صرف اپنے سرکردہ زرعی سائنس داں کو، بلکہ ایک بہترین ذہن اور عظیم انسان کو بھی کھو دیا ہے۔

یہ اسٹوری سب سے پہلے ’دی وائر‘ پر ۲۹ ستمبر، ۲۰۲۳ کو شائع ہوئی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique