اس سال ۲۴ فروری کی صبح تقریباً ساڑھے ۷ بجے ۴۳ سالہ پانڈی وینکیا نے پینوگولانو گاؤں کے اپنے کھیت میں کیڑے مار دوا پی لی تھی۔ وہ وہاں تنہا تھے۔ ان کی فیملی گھر پر تھی۔ صبح تقریباً ۹ بجے چند دوسرے کسانوں کو کھیت میں ان کی لاش ملی تھی۔
وینکیا کو صرف ۲۰۱۶ کے زرعی سیزن میں ۱۰ لاکھ روپے کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ان کے قرضے بڑھ کر ۱۷ روپے سے زیادہ ہو گئے تھے۔ وہ ایک ایکڑ زمین کے مالک تھے اور مزید سات ایکڑ زمین انہوں نے ۳۰ ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ کی شرح پر لیز پر لے رکھی تھی۔ ستمبر ۲۰۱۶ میں چار ایکڑ زمین پر ایک لاکھ روپے کی مالیت کی مرچیں اور باقی چار پر کپاس کے بیج بوئے تھے۔ ان کی ۳۵ سالہ بیوی سیتا بتاتی ہیں، ’’انہوں نے فصل پر ۱۰ لاکھ کی سرمایہ کاری کی تھی۔‘‘ قرض کا کچھ حصہ نجی ساہوکاروں سے لیا گیا تھا، اور کچھ سیتا کے چند زیورات کے بدلے گولڈ لون کے طور پر بینک سے لیا گیا تھا۔
دسمبر ۲۰۱۶ تک کلکٹر کے دفتر میں موجود دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ آندھرا پردیش میں کرشنا ضلع کے گمپالاگوڈیم منڈل کے گاؤں پینوگولانو کے ۸۷ کسانوں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ ان کی مرچ کی فصل خراب ہو رہی ہے۔ ان کسانوں نے دو مقامی نرسریوں سے بیج خریدے تھے۔ ’’[مجموعی طور پر] ۱۶۲ ایکڑ پر لگی مرچی کی فصل ناکام ہوگئی تھی۔ تمام سرمایہ کاری اور محنت مٹی میں مل گئی تھی،‘‘ ۲۶ سالہ وڈّیراپو تروپتی راؤ کہتے ہیں۔
وینکیا کی خودکشی سے تین ماہ قبل ۲۲ نومبر ۲۰۱۷ کو تروپتی راؤ اور دو دیگر کسانوں، ۳۲ سالہ بنالا ناگا پورنیّا اور ۳۵ سالہ رامیّا نے امراوتی میں نئی ریاستی اسمبلی کی عمارت کے بالکل سامنے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دن دو نرسریوں سے ناقص معیار کے بیجوں کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانے والے کسانوں نے نرسری مالکان کو قصوروار ٹھہرانے میں حکومت کی نااہلی کے خلاف احتجاج کے لیے امراوتی تک مارچ کیا تھا۔ پولیس نے کسانوں کو اسمبلی پہنچنے پر گرفتار کر لیا تھا۔ احساس بے بسی سے مشتعل ہو کر تینوں نے وہیں کیڑے مار دوا پی لی تھی۔
اپنی مرچی کی فصلوں کے لیے مشہور آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے اس سرحدی علاقے میں ۲۰۱۶ تک مرچی عام طور پر ایک منافع بخش فصل تھی۔ یہاں زیادہ تر کسان تیجا مرچی اگاتے ہیں۔ سال ۲۰۱۶ میں مرچی کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح پر تھی۔ یہ قیمت بعض اوقات معمول سے دوگنا، یعنی ۱۵ ہزار روپے فی کوئنٹل کو چھو رہی تھی۔ سال ۲۰۱۶ کی پہلی ششماہی میں اعلیٰ نرخوں نے ستمبر-اکتوبر ۲۰۱۶ میں مرچی کے بیجوں کی مانگ میں اضافہ کر دیا تھا۔ مزید یہ کہ کپاس کی فصل پر کیڑوں کے حملے نے دوسرے کسانوں کو مرچی کی فصل کی طرف راغب کر دیا تھا۔
لیکن اس کے بعد پینوگولانو کے کاشتکاروں کی یاداشت میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ پیداوار واقعی کم ہو گئی۔ اس کی وجہ تھی بھاری مانگ کا فائدہ اٹھانے کے لیے دو نرسریوں کے ذریعہ ناقص بیج فراہم کرنا۔
اس خطے کے کسان عموماً زیادہ پیداوار والی مرچوں کے ہائبرڈ (مخلوط النسل) بیج نرسریوں سے خریدتے ہیں، جنہیں یہ نرسریاں زرعی کمپنیوں سے خریدتی ہیں۔ دیگر وجوہات کے علاوہ ہائبرڈ بیج اور کھاد کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے زمین پر اثرات کی وجہ سے غیر ہائبرڈ اقسام سے اب یہاں اچھی پیداوار نہیں ملتی۔ آل انڈیا کسان سبھا کے ناگابوینا رنگاراؤ کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے کسانوں نے ماضی کی روایت کے مطابق اپنی مضبوط دیسی اقسام کی بیجوں کا ایک حصہ اگلے سال کی بوائی کے لیے نہیں بچایا۔ سال ۲۰۱۶ میں زیادہ مانگ کی وجہ سے دو مقامی نرسریوں نے کم پیداوار والے غیرہائبرڈ بیج ۸۷ کسانوں کو فروخت کیے تھے۔ تمام بیج ایک جیسے نظر آتے ہیں، چنانچہ کسانوں نے انہیں بو دیا۔ لیکن پیداوار مایوس کن حد تک کم ہو گئی۔
اس علاقے میں مرچی کی اوسط پیداوار ۳۵ سے ۴۰ کوئنٹل فی ایکڑ ہے۔ لیکن پچھلے سال رامیّا کے کھیت میں سب سے زیادہ پیداوار صرف ۳ کوئنٹل فی ایکٹر تھی
اس خطے میں مرچی کی اوسط پیداوار ۳۵ سے ۴۰ کوئنٹل فی ایکڑ ہوتی ہے۔ ’’لیکن پچھلے سال [ستمبر ۲۰۱۶ سے جنوری ۲۰۱۷ تک] میں نے ۱۰ ایکڑ زمین پر جس مرچی کی کاشت کی تھی اس سے مجموعی طور پر صرف ۲۰ کوئنٹل پیداوار ملی تھی۔ رامیّا کے کھیتوں میں سب سے زیادہ پیداوار ۳ کوئنٹل (فی ایکڑ) تھی،‘‘ پورنیّا کہتے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۶ میں ۱۰ ایکڑ زمین لیز پر لی تھی، لیکن مرچی کی ناکام فصل نے انہیں کھیت کم کرنے پر مجبور کردیا۔ ’’میں نے اس سال [ستمبر ۲۰۱۷ سے جنوری ۲۰۱۸] صرف ۳ ایکڑ زمین لیز پر لی ہے کیونکہ مجھ پر پہلے ہی ۱۲ لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
مرچی ایک جاذب محنت طلب فصل ہے، جس پر کاشتکار بیج، کھاد، بوائی اور توڑائی پر ۵ء۲ سے ۳ لاکھ روپے فی ایکڑ کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پورنیّا مزید کہتے ہیں، ’’اس سے پہلے کہ انہیں یہ احساس ہو کہ نقلی بیجوں کی وجہ سے فصل خراب ہو رہی ہے، کاشتکار پہلے ہی ۵ء۱ لاکھ روپیہ فی ایکڑ سے زیادہ خرچ کر چکے تھے۔ مزید برآں، ہم میں سے زیادہ تر کرایہ دار کسان ہیں اور قطع نظر اس کے کہ فصل خراب ہو گئی ہو، ہمیں زمین مالکان کو کرایہ ادا کرنا پڑتی ہے۔‘‘
کرایہ دار کسانوں کو ادارہ جاتی قرض تک رسائی نہیں تھی، کیونکہ ان کے پاس ریاستی محکمہ زراعت کی جانب سے جاری ہونے والے قرض کے اہلیتی کارڈ نہیں تھے۔ یہ کارڈ ان کسانوں کو ادارہ جاتی قرض تک رسائی فراہم کرتے ہیں جن کے پاس کوئی زمین نہیں ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک کرایہ دار کسان ۵۰ سالہ دیورا ناگارجن کہتے ہیں، ’’اب میرے اوپر ۶۰ فیصد کی سود کی شرح پر کل ۱۰ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ اس قرض کا کچھ حصہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے ہم سے بیج فروخت کیے تھے۔‘‘ ناقص بیج کی وجہ سے دیورا کو ۲۰۱۶-۱۷ کے زرعی سیزن کے دوران ۵ لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’بیج، کیڑے مار ادویات اور کھاد دیتے وقت وہ خالی اقرارناموں (پرمسری نوٹوں) پر ہمارے انگلیوں کے نشانات لیتے ہیں اور ان پر کوئی بھی رقم درج کر لیتے ہیں۔ چونکہ وہ ہماری پیداوار خریدنے والے بیچولیے بھی ہیں، اس لیے وہ قرض اور سود کاٹ کر ہمیں باقی رقم واپس کر دیتے ہیں۔‘‘
دیورا جن ’وہ‘ کا ذکر کر رہے ہیں وہ نرسری کے مالکان ہیں۔ یہ بیج ناگلّا مرلی کی ملکیت والی ابھیانجنیہ نرسری اور ایڈوُرو ستیہ نارائن ریڈی کی ملکیت والی لکشمی تروپتما نرسری کے ذریعہ فروخت کیے گئے تھے۔ یہ نرسریاں بیج، کھاد اور کیڑے مار دوا فروخت کرتی ہیں، اور جن کسانوں کو ادارہ جاتی قرض تک رسائی نہیں ہوتی انہیں زیادہ سود پر زرعی قرضے بھی دیتی ہیں۔ نرسری مالکان بھی اکثر گنٹور کے مرچی مارکیٹ یارڈ کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔
مرلی تیلگو دیشم پارٹی کے گاؤں کے صدر ہیں اور آبی وسائل اور آبپاشی کی وزیر دیویانی اوما مہیشورا راؤ کے قریبی ساتھی ہیں۔ جبکہ ستیہ نارائنا، جگن موہن ریڈی کی تشکیل کردہ یواجن شرمیک رعیتو کانگریس پارٹی (وائی ایس آر سی پی) کے رہنما ہیں۔ تروورو اسمبلی حلقے (وہ حلقہ جس میں پینوگولانو واقع ہے) سے وائی آر ایس پی کے رکن قانون ساز اسمبلی کوکّیلیگڈا رکھشنا ندھی کے معاون بھی ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۶ کے بعد سے چند دوسرے کسانوں کے ساتھ ۸۷ کسانوں نے گمپالا گوڈیم میں منڈل ریونیو آفس، نُزوِیڈ میں ریونیو ڈویژنل دفتر، مچلی پٹنم میں کلکٹر کے دفتر اور گنٹور اور امراوتی میں محکمہ زراعت کے دفاتر کے سامنے دھرنوں اور احتجاجوں کا اہتمام کیا تھا۔ اسی مہینے کے آخر میں وہ اپنے احتجاج کو جاری رکھنے کے لیے پد یاترا کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
مرچی کی ناکام فصل نے انہیں آل انڈیا کسان سبھا سے منسلک آندھرا پردیش ٹیننٹ فارمرز ایسوسی ایشن کے تحت اکٹھا کر دیا ہے۔ ’’ہم نرسریوں سے معاوضے کے لیے لڑ رہے ہیں،‘‘ نرسری مالکان کے خلاف احتجاج کی قیادت کر رہے پورنیّا کہتے ہیں۔ وہ ۲۴ دن نُزوید سب جیل میں گزار چکے ہیں، اور ان کے خلاف ۱۱ مقدمات درج ہیں۔
مارچ ۲۰۱۷ میں کرشنا ضلع کے کلکٹر بی لکشمی کانتم نے سائنسدانوں اور زرعی افسران پر مشتمل ضلعی سطح کی معاوضہ کمیٹی تشکیل دے کر تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیج واقعی ناقص معیار کے تھے اور نرسری مالکان کو فصل کے نقصان کے لیے ۹۱ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے معاوضہ ادا کرنا چاہیے۔ دونوں نرسریوں پر ۸۷ کسانوں کے کل ملا کر ۱۳ء۲ کروڑ روپے واجب لادا ہیں۔
جنوری ۲۰۱۸ میں کلکٹر نے نرسریوں کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن ۲۰۱۸ کے اوائل میں دوسری نرسریوں سے بیج خرید کر لگائی گئی اگلی فصل کی کٹائی کے بعد بھی انہیں معاوضہ نہیں ملا تھا۔ جب میں نے بی لکشمی کانتم سے بات کی تو انھوں نے مجھے بتایا، ’’ہم نے اپنا جواب ہائی کورٹ میں داخل کر دیا ہے۔ ایک بار جب عدالت اسے کلیئر کر دے گی، تو ہم ریونیو بازیافت قانون کا استعمال کریں گے اور نرسری مالکان کی جائیدادیں ضبط کر کے کسانوں کو معاوضہ ادا کریں گے۔‘‘
’’ہم نے وزیر زراعت [چندرموہن ریڈی] سے چار دفعہ، ضلع کے وزیر انچارج [دیوینینی اوما] سے دو دفعہ، اور کلکٹر سے آٹھ دفعہ ملاقاتیں کیں۔ منڈل ریونیو افسر اور زرعی افسران سے کتنی بار ملاقاتیں کیں اس کی گنتی بھول چکے ہیں،‘‘ خود کشی کی کوشش کرنے والے نوجوان کسان تروپتی راؤ کہتے ہیں۔ ’’جب ہم احتجاج کرنے گئے تو ہمیں کئی بار گرفتار کیا گیا۔ ہماری فصلیں ناکام ہونے کے بعد سے ۱۸ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہمیں ابھی تک ایک روپیہ کا بھی معاوضہ نہیں ملا ہے۔‘‘
جب میں نے نُزوید ڈویژن (جس کے تحت پینوگولانو گاؤں آتا ہے) کے ڈویژنل ریونیو افسر چودھری رنگایا سے معاوضے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا، ’’کلکٹر کی جانب سے ۹۱ ہزار روپے فی ایکڑ کے معاوضے کا حکم جاری ہونے کے بعد، نرسریوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ لہٰذا، اب ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں کسانوں کے مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل پوٹوری سریش کمار کہتے ہیں، ’’نقلی بیجوں کے استعمال کی جانچ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ نرسریوں کو چلانے کا کوئی طریقہ کار یا قانون کیوں نہیں ہے؟ نرسری سے متعلق قانون پاس کیا جانا چاہیے اور تمام نرسریوں کو اس کے زیر نگرانی لایا جانا چاہیے۔‘‘
لیکن وینکیا نے ایسے کسی تحفظ کی عدم موجودگی میں اپنی جان گنوا دی۔ اور دوسرے کسان ابھی تک پریشان ہیں۔ ’’اس ملک میں کسی کو کسان کے طور پر پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم قوم کو کھانا کھلاتے ہیں اور ہر حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کسان دوست ہے، لیکن ہمیں صرف انتخابات کے دوران یاد کیا جاتا ہے،‘‘ تروپتی راؤ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس اپنی آواز سنانے کے لیے اور کیا راستہ تھا؟ اور انصاف کی کیا امید ہے؟ اپنی بیوی اور تین سالہ بچے کے بارے میں سوچنے کے باوجود خودکشی کرنے کا یہ ایک بے ساختہ فیصلہ تھا… ہر روز ساہوکاروں کے ذریعہ پریشان کیے جانے سے بہتر ہے مرجانا۔‘‘ اتنا کہہ کر ۲۶ سالہ راؤ کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم