اس سال جون مہینہ کا تیسرا جمعہ تھا جب مزدور ہیلپ لائن کی گھنٹی بجی تھی۔

’’کیا آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں؟ ہماری اجرت ادا نہیں کی گئی ہے۔‘‘

یہ ۸۰ مزدوروں پر مشتمل ایک گروپ تھا، جن کا تعلق کُشل گڑھ سے تھا۔ ان مزدوروں نے راجستھان کے اندر ہی نزدیکی تحصیلوں میں کئی مقامات پر کام کیا تھا۔ انہوں نے دو ماہ تک ٹیلی کام فائبر کیبل بچھانے کے لیے دو فٹ چوڑی اور چھ فٹ گہری کھائیاں کھودی تھیں۔ یہاں اجرت کی ادائیگی فی میٹر کھودی گئی کھائی کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔

دو مہینے بعد جب انہوں نے اپنے واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو ٹھیکیدار نے ناقص کام کا حوالہ دیا، حساب کتاب میں الجھایا اور پھر یہ کہہ کر انہیں ٹالنے کی کوشش کی کہ ’’دیتا ہوں، دیتا ہوں۔‘‘ لیکن ٹھیکدار نے ادائیگی نہیں کی۔ مزدوروں کو اپنے ۷ سے ۸ لاکھ روپوں کی ادائیگی کے لیے مزید ایک ہفتہ کے انتظار کے بعد  پولیس کے پاس جانا پڑا۔ پولیس نے انہیں مزدور ہیلپ لائن پر کال کرنے کو کہا۔

جب مزدوروں نے فون کیا تو ’’ہم نے ان سے پوچھا کہ آیا ان کے پاس کوئی ثبوت ہے؟ کیا وہ ہمیں ٹھیکیدار کے نام اور فون نمبر، اور حاضری رجسٹر کی کوئی تصویر فراہم سکتے ہیں،‘‘ ضلع صدر مقام بانس واڑہ کے ایک سماجی کارکن کملیش شرما کہتے ہیں۔

خوش قسمتی سے موبائل کے شوقین کچھ نوجوان مزدوروں نے یہ سب کچھ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دعویٰ کو مضبوطی دینے کے لیے اپنے فون میں موجود کام کے مقامات کی تصاویر بھی ہمیں بھیجیں۔

Migrants workers were able to show these s creen shots taken on their mobiles as proof that they had worked laying telecom fibre cables in Banswara, Rajasthan. The images helped the 80 odd labourers to push for their Rs. 7-8 lakh worth of dues
PHOTO • Courtesy: Aajeevika Bureau
Migrants workers were able to show these s creen shots taken on their mobiles as proof that they had worked laying telecom fibre cables in Banswara, Rajasthan. The images helped the 80 odd labourers to push for their Rs. 7-8 lakh worth of dues
PHOTO • Courtesy: Aajeevika Bureau
Migrants workers were able to show these s creen shots taken on their mobiles as proof that they had worked laying telecom fibre cables in Banswara, Rajasthan. The images helped the 80 odd labourers to push for their Rs. 7-8 lakh worth of dues
PHOTO • Courtesy: Aajeevika Bureau

مہاجر مزدوروں نے اس بات کے ثبوت کے طور پر کہ انہوں نے راجستھان کے بانس واڑہ میں ٹیلی کام فائبر کیبل بچھانے کا کام کیا تھا، یہ اسکرین شاٹس پیش کیے۔ ان تصاویر سے تقریباً ۸۰  مزدوروں کو اپنے واجب الادا ۷ سے ۸ لاکھ روپے کا دعویٰ پیش کرنے میں مدد ملی

حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ انہوں نے جو کھائیاں کھودی تھیں وہ ملک کے سب سے بڑے ٹیلی کام فراہم کنندگان میں سے ایک کے لیے تھیں، جو ’لوگوں کو جوڑنا‘ چاہتے ہیں۔

مزدوروں کے مسائل پر کام کرنے والی ایک غیرمنافع بخش تنطیم ’آجیویکا بیورو‘ کے پروجیکٹ مینجر کملیش اور دوسرے لوگوں نے مقدمہ تیار کرنے میں مزدوروں کی مدد کی۔ آجیویکا سے رابطہ کے لیے ان کا ہیلپ لائن 999 1800 1800، اور بیورو کے عہدیداروں کے فون نمبر دونوں موجود ہیں۔

*****

بانس واڑہ کے مزدور کام کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والے لاکھوں مزدوروں میں شامل ہیں۔ ضلع کے چوڑادا گاؤں کے سرپنچ جوگا پِتّا کہتے ہیں، ’’کُشل گڑھ میں بہت سے پرواسی [مہاجر مزدور] ہیں۔ ’’ہم کاشت کاری کے ذریعہ اپنی کفالت کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘

زمین کی کمی، آبپاشی کا فقدان، روزگار کی عدم موجودگی اور مجموعی غربت کی وجہ سے بھیل قبائلیوں نے اس ضلع کو پریشان کن نقل مکانی کا مرکز بنا دیا ہے۔ بھیل یہاں کی آبادی کا ۹۰ فیصد حصہ ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ برائے ماحولیات اور ترقی کے ورکنگ پیپر میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی جیسے موسمیاتی واقعات کے بعد نقل مکانی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

کشل گڑھ کے مصروف بس اسٹینڈ سے روزانہ تقریباً ۴۰ ریاستی بسیں پورے سال چلتی ہیں، جن میں ایک سفر میں ۵۰ سے۱۰۰ افراد سوار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں پرائیویٹ بسیں بھی چلتی ہیں۔ سورت کے لیے ایک ٹکٹ کی قیمت ۵۰۰ روپے ہے۔ کنڈکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کے ٹکٹ کے پیسے نہیں لیتے۔

سریش میڈا جگہ حاصل کرنے کے لیے جلدی بس اسٹینڈ پہنچ جاتے ہیں، اور اپنی بیوی اور تین چھوٹے بچوں کو سورت جانے والی بس میں بٹھا دیتے ہیں۔ اور خود اتر کر پانچ کلو آٹا، کچھ برتن اور کپڑوں سے اپنی بھری بوری کو بس کے پیچھے اسٹوریج ایریا میں رکھوا کر واپس بس کے اندر آجاتے ہیں۔

Left: Suresh Maida is from Kherda village and migrates multiple times a year, taking a bus from the Kushalgarh bus stand to cities in Gujarat.
PHOTO • Priti David
Right: Joga Pitta is the sarpanch of Churada village in the same district and says even educated youth cannot find jobs here
PHOTO • Priti David

بائیں: سریش میڈا کا تعلق کیھردا گاؤں سے ہے اور وہ سال میں کئی بار نقل مکانی کرتے ہیں، اور کشل گڑھ بس اسٹینڈ سے گجرات کے شہروں کے لیے بس پر سوار ہوتے ہیں۔ دائیں: جوگا پِتّا اسی ضلع کے چوڑادا گاؤں کے سرپنچ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے بھی نوکری نہیں ہے

At the Timeda bus stand (left) in Kushalgarh, roughly 10-12 busses leave every day for Surat and big cities in Gujarat carrying labourers – either alone or with their families – looking for wage work
PHOTO • Priti David
At the Timeda bus stand (left) in Kushalgarh, roughly 10-12 busses leave every day for Surat and big cities in Gujarat carrying labourers – either alone or with their families – looking for wage work
PHOTO • Priti David

کشل گڑھ کے ٹمیڑا بس اسٹینڈ (بائیں) سے تقریباً ۱۰ سے ۱۲ بسیں روزانہ مزدوروں کو لے کر سورت اور گجرات کے دوسرے بڑے شہروں کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔ یہ مزدور یا تو تنہا یا اپنے کنبے کے ساتھ دہاڑی مزدوری کی تلاش میں نکلتے ہیں

’’میں روزانہ تقریباً ۳۵۰ روپے کماؤں گا،‘‘ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے یہ بھیل آدیواسی پاری کو بتاتے ہیں۔ ان کی بیوی کی روزانہ کی کمائی ۲۵۰ سے ۳۰۰ روپے تک ہوگی۔ سریش کو امید ہے کہ وہ ایک یا دو ماہ کام کرنے کے بعد واپس آئیں گے اور تقریباً ۱۰ دن گھر پر گزارنے کے بعد دوبارہ روانہ ہو جائیں گے۔ ’’میں یہ کام ۱۰سال سے زیادہ عرصے سے کر رہا ہوں،‘‘ ۲۸ سالہ نوجوان مزید کہتے ہیں۔ سریش جیسے تارکین وطن عام طور پر ہولی، دیوالی اور رکشا بندھن جیسے بڑے تہواروں کے موقعوں پر گھر واپس آتے ہیں۔

راجستھان سے بڑی تعداد میں باہر کی ریاستوں میں مہاجرت ہوتی ہے۔ کام کی تلاش میں یہاں آنے والوں کی بنسبت یہاں سے منتقل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بیرونی ریاستوں میں مزدوروں کی منتقلی کے معاملے میں صرف اتر پردیش اور بہار اس سے آگے ہیں۔ ’’یہاں زراعت ہی معاش کا واحد متبادل ہے، وہ بھی سال میں ایک دفع بارش کے بعد،‘‘  کشل گڑھ تحصیل دفتر کے ایک اہلکار وی ایس راٹھور کہتے ہیں۔

سبھی مزدور ’کایم‘ مزدوری کی امید کر رہے ہیں، جس کے تحت وہ پوری مدت کے لیے ایک ہی ٹھیکیدار سے منسلک رہتے ہیں۔ یہ روکڑی یا دِہاڑی – جس کے لیے ہر صبح مزدور کو منڈی میں کھڑا ہونا پڑتا ہے – کے مقابلے میں زیادہ استحکام فراہم کرتی ہے۔

جوگا جی نے اپنے تمام بچوں کو تعلیم دلوائی ہے، لیکن اس کے باوجود ’’یہاں بے روزگاری زیادہ ہے۔ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی نوکری نہیں ہے۔‘‘

مہاجرت ہی واحد متبادل نظر آتی ہے۔

راجستھان سے بڑی تعداد میں باہر کی ریاستوں میں مہاجرت ہوتی ہے۔ بیرونی ریاستوں میں مزدوروں کی مہاجرت کے معاملے میں صرف اتر پردیش اور بہار اس سے آگے ہیں

دیکھیں: راجستھان کے مہاجر مزدور

*****

جب مریا پاروُ گھر چھوڑتی ہیں، تو اپنے ساتھ مٹی کا توا لے بھی جاتی ہیں۔ یہ ان کی پیکنگ کا ایک اہم جزو ہے۔ مکئی کی روٹیاں مٹی کے توے پر بہتر طریقے سے بنائی جاتی ہیں۔ یہ روٹی کو جلائے بغیر لکڑی کی آگ کی تپش کو سنبھال سکتی ہے، اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔

مریا اور ان کے شوہر پاروُ دامور ان لاکھوں بھیل آدیواسیوں میں شامل ہیں جو راجستھان کے بانس واڑہ ضلع میں واقع اپنے گھروں سے نکل کر سورت، احمد آباد، واپی اور گجرات کے دیگر شہروں کے ساتھ ساتھ دوسری پڑوسی ریاستوں میں بھی یومیہ اجرت والے کام کی تلاش میں جاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم، جو ۱۰۰ دن کا کام دیتی ہے، کے بارے میں بات کرتے ہوئے پارو کہتے ہیں، ’’منریگا میں بہت وقت لگتا ہے اور یہ ہماری کفالت کے لیے ناکافی ہے۔‘‘

تیس سالہ مریا اپنے ساتھ ۱۰ سے ۱۵ کلو گرام مکئی کا آٹا بھی لے جاتی ہیں۔ ’’ہم اس کھانے کو ترجیح دیتے ہیں،‘‘ وہ اپنے گھر والوں کے کھانے کی عادت بیان کرتی ہیں جو سال میں نو ماہ تک گھر سے دور رہتے ہیں۔ ڈونگرا چھوٹا میں گھر سے دور گھر کا کھانا سکون بخش ہوتا ہے۔

اس جوڑے کے چھ بچے ہیں جن کی عمریں ۳ سے ۱۲سال کے درمیان ہیں۔ یہ دو ایکڑ زمین کے مالک ہیں جس پر وہ اپنے استعمال کے لیے گندم، چنا اور مکئی کاشت کرتے ہیں۔ ’’ہم دہاڑی مزدور کے طور پر مہاجرت کے بغیر اپنے اخراجات کا انتظام نہیں کر سکتے۔ مجھے اپنے والدین کو پیسے بھیجنے ہیں، آبپاشی کی ادائیگی کرنی ہے، مویشیوں کے لیے چارہ خریدنا ہے، گھر والوں کے لیے کھانا فراہم کرنا ہے…،‘‘ پاروُ اپنے اخراجات کا لیکھا جوکھا پیش کرتے ہیں۔ ’’لہذا، ہمیں نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔‘‘

انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی اور بہن کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ اس وقت طبی اخراجات کی وجہ سے ان کے کنبے پر ۸۰ ہزار روپے کا قرض تھا۔ ’’یہ سردیوں کا موسم تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں، ’’میں احمد آباد گیا تھا اور روزانہ ۶۰ روپے کماتا تھا۔‘‘ بھائی بہن وہاں چار مہینے تک مقیم رہے اور قرض چکانے میں کامیاب رہے۔ ’’مجھے اس حقیقت سے خوشی ہوئی کہ میں نے بھی قرض کی ادائیگی میں مدد کی تھی،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ دو ماہ بعد وہ پھر کام کے لیے منتقل ہوئے۔ اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اوائل میں پہنچ چکے پاروُ مہاجر ت کی زندگی کے ۲۵ سال گزار چکے ہیں۔

Left: Maria Paaru has been migrating annually with her husband Paaru Damor since they married 15 years ago. Maria and Paaru with their family at home (right) in Dungra Chhota, Banswara district
PHOTO • Priti David
Left: Maria Paaru has been migrating annually with her husband Paaru Damor since they married 15 years ago. Maria and Paaru with their family at home (right) in Dungra Chhota, Banswara district
PHOTO • Priti David

بائیں: ۱۵سال قبل اپنی شادی کے بعد سے مریا پارو اپنے شوہر پارو دامور کے ساتھ ہر سال کام کرنے باہر جاتی ہیں۔ مریا اور پارو اپنے کنبے کے ساتھ بانس واڑہ ضلع کے ڈُونگرا چھوٹا میں واقع اپنے گھر (دائیں) میں

'We can’t manage [finances] without migrating for work. I have to send money home to my parents, pay for irrigation water, buy fodder for cattle, food for the family…,' Paaru reels off his expenses. 'So, we have to migrate'
PHOTO • Priti David
'We can’t manage [finances] without migrating for work. I have to send money home to my parents, pay for irrigation water, buy fodder for cattle, food for the family…,' Paaru reels off his expenses. 'So, we have to migrate'
PHOTO • Priti David

’ہم کام کے لیے مہاجرت کے بغیر اپنے اخراجات کا انتظام نہیں کر سکتے۔ مجھے اپنے والدین کو پیسے بھیجنے ہیں، آبپاشی کے پانی کی ادائیگی کرنی ہے، مویشیوں کے لیے چارہ خریدنا ہے، کنبے کے لیے کھانے کا انتظام کرنا  ہے…،‘ پارو اپنے اخراجات کا حساب دیتے ہیں۔ ’لہذا ہمیں نقل مکانی کرنی پڑے گی‘

*****

مہاجر مزدور ایک ایسے ’سونے کے پیالہ‘ کا خواب دیکھتے ہیں جو آخر میں ان کے قرض ادا کر دے، ان بچوں کا اسکول جاری رکھنے میں مدد کرے اور بھوک مٹائے۔ لیکن چیزیں اکثر غلط ہو جاتی ہیں۔ آجیویکا کی طرف سے چلائی جانے والی ریاستی مزدور ہیلپ لائن کو ہر مہینہ مہاجر مزدوروں کی ۵۰۰۰ کالیں موصول ہوتی ہیں، جن میں اپنی واجبات کی عدم ادائیگی پر قانونی چارہ جوئی کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے۔

’’دہاڑی مزدوری کے معاہدے کاغذی طور پر نہیں بلکہ زبانی طے ہوتے ہیں۔ مزدوروں کو ایک ٹھیکیدار سے دوسرے کو منتقل کر دیا جاتا ہے،‘‘ کملیش کہتے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ صرف بانس واڑہ ضلع کے مہاجر مزدوروں کی اجرت کی عدم ادائیگی کئی کروڑ میں پہنچ گئی ہے۔

کملیش مزید کہتے ہیں، ’’انہیں کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا اصل ٹھیکیدار کون ہے، وہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں، اس لیے واجبات کا ازالہ ایک پریشان کن اور طویل المیعاد عمل بن جاتا ہے۔‘‘ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے جس سے انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح مہجری مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔

گزشتہ ۲۰ جون ۲۰۲۴ کو ایک ۴۵ سالہ بھیل آدیواسی راجیش دامور اور دو دیگر مزدور مدد کے لیے بانس واڑہ میں ان کے دفتر آئے۔ ریاست میں گرمی اپنے شباب پر تھی، لیکن پریشان مزدوروں کے غصے کی وجہ شدید گرمی نہیں تھی۔ ان کے آجر ٹھیکیدار کے اوپر ان کے کل ۲۲۶۰۰۰ روپے واجب الادا تھے۔ انہوں نے شکایت درج کرانے کے لیے تحصیل کشل گڑھ کے پٹن پولیس تھانے سے رجوع کیا تھا۔ پولیس والوں نے انہیں آجیویکا کے ’شرمک سہایتا ایوم سندربھ کیندر‘ میں بھیج دیا، جو علاقے میں مہاجر مزدوروں کے لیے قانونی چارہ جوئی کا ایک مرکز ہے۔

اپریل میں  راجیش اور سکھواڑہ پنچایت کے ۵۵ مزدور ۶۰۰ کلومیٹر دور گجرات کے موربی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ انہیں وہاں کی ایک ٹائلز فیکٹری مزدوری اور راج مستری کا کام کرنے کے لیے اجرت پر رکھا گیا تھا۔ ۱۰ ہنر مند مزدوروں کی اجرت ۷۰۰ روپے یومیہ اور باقی کی ۴۰۰ روپے طے کی گئی تھی۔

ایک مہینہ کام کرنے کے بعد، ’’ہم نے ٹھیکیدار سے اپنے تمام واجب الادا رقم کا مطالبہ کیا، لیکن وہ ادائیگی کی تاریخوں کو آگے بڑھاتا رہا،‘‘ پاری سے فون پر بات کرتے ہوئے راجیش کہتے ہیں۔ ٹھیکدار سے بات چیت میں پیش پیش رہے راجیش کو ان کی زبان دانی سے مدد ملی۔ وہ بھیلی، واگڈی، میواڑی، ہندی اور گجراتی پانچ زبانیں جانتے ہیں۔ ان کی ادائیگی کا معاملہ طے کرنے والے ٹھیکیدار کا تعلق مدھیہ پردیش کے جھابوا سے تھا اور وہ ہندی بولتا تھا۔ اکثر مزدور اصل ٹھیکیدار سے معاملہ طے کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بعض اوقات زبان کی رکاوٹ ہوتی ہے، لیکن اکثر انہیں نیچے کے ذیلی ٹھیکیداروں سے ہی معاملہ طے کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات جب مزدور اپنی بقایا اجرت کا تقاضہ کرتے ہیں تو ٹھیکیدار تشدد  پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

ان سبھی ۵۶ مزدوروں نے اپنی اجرت کی بڑی رقم کی ادائیگی کے لیے ہفتوں تک انتظار کیا۔ اب گھر سے لایا ہوا راشن ختم ہو رہا تھا اور کمائی کا پیسہ بازار سے خریداری کی وجہ سے ختم ہو رہا تھا۔

Rajesh Damor (seated on the right) with his neighbours in Sukhwara panchayat. He speaks Bhili, Wagdi, Mewari, Gujarati and Hindi, the last helped him negotiate with the contractor when their dues of over Rs. two lakh were held back in Morbi in Gujarat

راجیش دامور (دائیں طرف بیٹھے ہوئے) سکھواڑہ پنچایت کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ۔ وہ بھیلی، واگڑی، میواڑی، گجراتی اور ہندی بول لیتے ہیں۔ گجرات کے موربی میں ان کے دو لاکھ روپے سے زیادہ کی بقایا اجرت کی ادائیگی کے سلسلے میں ٹھیکیدار کے ساتھ بات چیت کے دوران ان کی ہندی دانی سے مدد ملی تھی

’’وہ تاریخ  آگے بڑھاتا رہا – پہلے ۲۰، پھر ۲۴ مئی، پھر ۴ جون…‘‘ راجیش اپنی مصیب یاد کرتے ہیں۔ ’’ہم نے اس سے پوچھا، ’’ہم کھائیں گے کیا؟ ہم گھر سے بہت دور ہیں۔‘‘ آخری حربہ کے طور پر ہم نے آخری ۱۰ دنوں کا کام چھوڑ دیا، اس امید پر کہ وہ مجبور ہوکر ہماری اجرت ادا کر دے گا۔‘‘ بہرحال، ان سے ۲۰ جون کی حتمی تاریخ لی گئی۔

رقم ادائیگی کو لے کر تردد میں مبتلا اور ٹھہرنے سے قاصر، ۵۶ مزدور گھر واپسی کے لیے ۹ جون کو کشل گڑھ کی بس میں سوار ہوئے۔ ۲۰ جون کو جب راجیش نے ٹھیکیدار کو فون کیا، ’’وہ بدتمیزی پر اترا آیا، ہمیں بھلا برا کہنے لگا۔‘‘ پھر راجیش دوسرے مزدوروں کے ہمراہ اپنے نزدیکی پولیس اسٹیشن گئے۔

راجیش کے پاس ۱۰ بیگھہ زمین ہے جس پر ان کا کنبہ اپنے استعمال کے لیے سویابین، کپاس اور گندم اگاتا ہے۔ ان کے چاروں بچوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ یا تو اسکولوں میں ہیں یا کالجوں میں داخلہ لے رکھا ہے۔ اس کے باوجود وہ اس موسم گرما میں اپنے والدین کے ساتھ مزدوری کے کام میں شامل ہوئے۔ ’’چھٹیاں تھیں اس لیے میں نے کہا کہ وہ ساتھ آ کر کچھ پیسے کما لیں،‘‘ راجیش کہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ان کی بقایا اجرت مل جائے کے کیونکہ ٹھیکیدار پر لیبر کورٹ میں مقدمہ چلانے کی دھمکی دی گئی ہے۔

لیبر کورٹ کا ذکر وعدہ خلاف ٹھیکیداروں کو اپنے وعدے نبھانے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن مزدوروں کو وہاں پہنچنے اور معاملہ درج کرانے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضلع سے ۱۲ دہاڑی مزدوروں کا ایک گروپ پڑوسی ریاست مدھیہ پردیش کے علی راج پور میں سڑک کی تعمیر کا کام کرنے گیا تھا۔ تین مہینے کام کرنے کے بعد انہیں اجرت کی مکمل ادائیگی سے انکار کر دیا گیا۔ ٹھیکیدار نے ناقص کام کا حوالہ دے کر ان کی اجرت کے ۴ سے ۵ لاکھ روپے ادا کرنے سے منع کر دیا۔

’’ہمیں ایک فون آیا جس میں کہا گیا کہ ہم مدھیہ پردیش میں پھنس گئے ہیں، اور ہماری اجرت ادا نہیں کی گئی ہے،‘‘ ٹینا گراسیا یاد کرتی ہیں، جو اکثر اپنے ذاتی فون پر ایسی کالیں موصول کرتی رہتی ہیں۔ بانس واڑہ ضلع میں آجیویکا  بیورو کی سربراہ وضاحت کرتی ہیں، ’’ہمارے نمبر مزدوروں کے درمیان بھیلا دیے گئے ہیں۔‘‘

اس دفعہ مزدوروں نے کام کے مقام کی تفصیلات، حاضری رجسٹر کی تصاویر، اور جس ٹھیکیدار پر معاملہ درج کرانا ہے اس کا نام اور موبائل نمبر فراہم کر دیے۔

چھ ماہ بعد ٹھیکیدار نے دو قسطوں میں اجرت کی ادائیگی کر دی۔ اجرت مل جانے کے بعد راحت محسوس کر نے والے مزدوروں کا کہنا ہے، ’’وہ یہاں [کشل گڑھ] پیسے دینے آیا تھا،‘‘  لیکن دیر سے ادائیگی پر واجب سود نہیں دیا۔

For unpaid workers, accessing legal channels such as the police (left) and the law (right) in Kushalgarh is not always easy as photographic proof, attendance register copies, and details of the employers are not always available
PHOTO • Priti David
For unpaid workers, accessing legal channels such as the police (left) and the law (right) in Kushalgarh is not always easy as photographic proof, attendance register copies, and details of the employers are not always available
PHOTO • Priti David

اجرت نہ ملنے والے مزدوروں کے لیے، کشل گڑھ میں پولیس (بائیں) اور قانونی (دائیں) ذرائع تک رسائی حاصل کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، کیونکہ فوٹوگرافی کا ثبوت، حاضری رجسٹر کی کاپیاں، اور آجروں کی تفصیلات ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتی ہیں

کملیش شرما کہتے ہیں، ’’ہم پہلے بات چیت کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ٹھیکیدار سے متعلق تفصیلات موجود ہوں۔‘‘

ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرنے سورت جانے والے ۲۵ مزدوروں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ٹینا کہتی ہیں، ’’وہ ایک ٹھیکیدار سے دوسرے ٹھیکیدار کو منتقل کیے گئے تھے اور ان کے پاس اس شخص کی شناخت کے لیے کوئی فون نمبر یا نام نہیں تھا۔ وہ ایک جیسی نظر آنے والے فیکٹریوں کے سمندر میں اپنی فیکٹری کی شناخت تک نہیں کرسکے۔‘‘

ہراساں کیے جانے اور اپنی ۶ لاکھ روپے کی اجرت نہ ملنے سے پریشان وہ بانس واڑہ کے اپنے گاؤوں کشل گڑھ اور سجن گڑھ واپس لوٹ آئے۔

ایسے ہی معاملات کے لیے سماجی کارکن کملیش قانون شکشا (قانونی خواندگی) پر بہت زیادہ اعتماد رکھتے ہیں۔ بانس واڑہ ضلع ریاست کی سرحد پر واقع ہے اور یہاں سے مزدوروں کی سب سے زیادہ منتقلی ہوتی ہے۔ آجیویکا کے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق کشل گڑھ، سجن گڑھ، امباپاڑہ، گھاٹول اور گنگر تلائی کے ۸۰ فیصد کنبوں سے زیادہ نہیں تو کم از کم ایک مہاجر مزدور ہے۔

کملیش پرامید ہیں کہ چونکہ ’’نوجوان نسل کے پاس فون ہے، وہ نمبر محفوظ کر سکتے ہیں، اور فوٹو لے سکتے ہیں، اس لیے مستقبل میں بے ایمان ٹھیکیداروں کی نکیل کسنا آسان ہو جائے گا۔‘‘

صنعتی تنازعات کے معاملوں سے نمٹنے کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے ۱۷ستمبر ۲۰۲۰ کو ہندوستان گیر پیمانے پر ایک سمادھان پورٹل لانچ کیا گیا تھا، اور دہاڑی مزدوروں کے دعووں کو شامل کرنے کے لیے اس میں ۲۰۲۲ میں تبدیلی کی گئی تھی۔ لیکن ایک فطری مرکز ہونے کے باوجود بانس واڑہ میں اس کا کوئی دفتر نہیں ہے۔

Kushalgarh town in Banswara district lies on the state border and is the scene of maximum migration. Eighty per cent of families in Kushalgarh, Sajjangarh, Ambapara, Ghatol and Gangar Talai have at least one migrant, if not more, says Aajeevika’s survey data
PHOTO • Priti David
Kushalgarh town in Banswara district lies on the state border and is the scene of maximum migration. Eighty per cent of families in Kushalgarh, Sajjangarh, Ambapara, Ghatol and Gangar Talai have at least one migrant, if not more, says Aajeevika’s survey data
PHOTO • Priti David

بانس واڑہ ضلع کا کشل گڑھ قصبہ ریاست کی سرحد پر واقع ہے اور زیادہ تر مہاجرت یہیں سے ہوتی ہے۔ آجیویکا کے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق کشل گڑھ، سجّن گڑھ، امباپاڑہ، گھٹول اور گنگر تلائی کے ۸۰ فیصد کنبوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم از کم ایک مہاجر مزدور ضرور ہے

*****

خواتین مزدوروں کو اجرت کا معاملہ طے کرنے میں شامل نہیں کیا جاتا۔ ان کے پاس شاذ و نادر ہی اپنا فون ہوتا ہے۔ کام اور اجرت دونوں ان کے قریبی مردوں کے توسط سے آتے ہیں۔ خواتین کو اپنا فون رکھنے کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔ اشوک گہلوت کی قیادت والی ریاست کی گزشتہ کانگریس حکومت نے ریاست کی خواتین کے درمیان ۱۳ کروڑ سے زیادہ مفت فون تقسیم کرنے کا پروگرام شروع کیا تھا۔ گہلوت حکومت کے اقتدار سے محروم ہونے تک تقریباً ۲۵ لاکھ فون غریب خواتین میں تقسیم کیے جا چکے تھے۔ پہلے مرحلہ میں یہ فون ان بیواؤں اور ۱۲ویں جماعت کی لڑکیوں کو دیے گئے جن کا تعلق مہاجرت کرنے والے کنبوں سے تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھجن لال شرما کی موجودہ حکومت نے پروگرام پر ’’اس کے فوائد کی جانچ ہونے تک‘‘ روک لگا دی ہے۔ یہ فیصلہ ان کی حلف برداری کے بمشکل ایک ماہ بعد لیے گئے چند ابتدائی فیصلوں میں سے ایک تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے دوبارہ شروع ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

زیادہ تر خواتین کا اپنی کمائی پر اختیار نہ ہونے کی وجہ سے وہ صنفی اور جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں اور ان پر شوہروں کے ذریعہ ترک کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ پڑھیں: : شادی کی آڑ میں لڑکیوں کی اسمگلنگ

’’گندم میں نے صاف کیا اور وہ مکئی کے ۵ سے ۶ کلو آٹے کے ساتھ اسے لے کر چلا گیا۔ اس نے سب اٹھایا اور لے کر چلتا بنا،‘‘ سنگیتا یاد کرتی ہیں۔ وہ ایک بھیل آدیواسی خاتون ہیں، جو اب اپنے والدین کے ساتھ کشل گڑھ بلاک کے چُڑادا میں اپنے گھر میں رہتی ہیں۔ شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ سورت گئی تھیں۔

Sangeeta in Churada village of Kushalgarh block with her three children. She arrived at her parent's home after her husband abandoned her and she could not feed her children
PHOTO • Priti David
Sangeeta in Churada village of Kushalgarh block with her three children. She arrived at her parent's home after her husband abandoned her and she could not feed her children
PHOTO • Priti David

کشل گڑھ بلاک کے چڑادا گاؤں میں سنگیتا اپنے تین بچوں کے ساتھ۔ وہ اپنے والدین کے گھر اس وقت آئی تھیں جب ان کے شوہر نے انہیں چھوڑ دیا اور وہ اپنے بچوں کی کفالت نہیں کرسکیں

Sangeeta is helped by Jyotsna Damor to file her case at the police station. Sangeeta’s father holding up the complaint of abandonment that his daughter filed. Sarpanch Joga (in brown) has come along for support
PHOTO • Priti David
Sangeeta is helped by Jyotsna Damor to file her case at the police station. Sangeeta’s father holding up the complaint of abandonment that his daughter filed. Sarpanch Joga (in brown) has come along for support
PHOTO • Priti David

جیوتسنا دامور نے پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کرانے میں سنگیتا کی مدد کی۔ سنگیتا کو شوہر کے ذریعہ ترک کیے جانے کی شکایت کے کاغذات کے ساتھ ان کے والد۔ سرپنچ جوگا (بھورے لباس میں) ان کی حمایت کے لیے ساتھ آئے ہیں

’’میں نے تعمیراتی کام میں مدد کی تھی،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں، اور ان کی اجرت ان کے شوہر کے حوالے کر دی گئی تھی۔ ’’مجھے یہ چیز پسند نہیں آئی۔‘‘ جب ان کے بچے پیدا ہوئے – تین لڑکے جن کی عمر سات، پانچ اور چار سال ہے – انہوں نے کام پر جانا چھوڑ دیا۔ ’’میں بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کر رہی تھی۔‘‘

اب ایک سال سے زیادہ عرصے سے انہوں نے اپنے شوہر کو نہیں دیکھا ہے، اور نہ ہی ان سے کوئی رقم حاصل کی ہے۔ ’’میں اپنے والدین کے گھر آئی ہوں کیونکہ وہاں (سسرال  میں) میرے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘

اس سال، جنوری (۲۰۲۴) میں، وہ کشل گڑھ پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کرانے گئی تھیں۔ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ۲۰۲۰ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں شوہروں کے ذریعہ ترک کی گئیں کل خواتین میں سے تقریباً ۱۰ فیصد کا تعلق راجستھان سے ہے۔ لیکن حقیقی اعداد و شمار معلوم کرنا مشکل ہے، کیونکہ شوہروں کے ذریعہ چھوڑی گئیں خواتین کے اعداد و شمار کو اسقاط حمل، اطفال کشی، اور جنین کشی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔

کشل گڑھ پولیس اسٹیشن کے افسران تسلیم کرتے ہیں کہ تدارک کی خواہش مند خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زیادہ تر معاملے ان تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، کیونکہ بانجڑیا (فیصلے لینے والا گاؤں کے مردوں کا گروہ) پولیس کی مداخلت کے بغیر ہی معاملے کو رفع دفع کرنا پسند کرتا ہے۔ ایک مقامی رہائشی کا کہنا ہے کہ ’’ بانجڑیا دونوں فریق سے پیسے لیتے ہیں۔ اور انصاف کا دکھاوا کرتے ہیں۔ عورتوں کو ان کا حق کبھی نہیں ملتا ہے۔‘‘

سنگیتا کی پریشانی بڑھ رہی ہے کیونکہ ان کے رشتہ دار بتا رہے ہیں کہ ان کا شوہر دوسری عورت کے ساتھ رہ رہا ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔ ’’مجھے برا لگتا ہے کہ اس شخص نے میرے بچوں کو تکلیف پہنچائی ہے، ایک سال سے ان سے ملنے نہیں آیا۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ’کیا وہ مر گیا ہے؟‘ میرا سب سے بڑا لڑکا اسے گالی دیتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے، ’ماں جب پولیس اسے پکڑے تو آپ بھی اس کی پٹائی کرنا!‘‘ وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں۔

*****

Menka (wearing blue jeans) with girls from surrounding villages who come for the counselling every Saturday afternoon
PHOTO • Priti David

مینکا (نیلی جینس پہنے ہوئے) آس پاس کے گاؤوں کی لڑکیوں کے ساتھ، جو ہر ہفتہ کی دوپہر کونسلنگ کے لیے آتی ہیں

کھیرپور کے ویران پنچایت دفتر میں ہفتہ کی سہ پہر کو ۲۷ سالہ سماجی کارکن مینکا دامور کشل گڑھ بلاک کے پانچ پنچایتوں کی نوعمر لڑکیوں سے بات کر رہی ہیں۔

’’تمہارے خواب کیا ہیں؟‘‘ وہ اپنے گرد دائرے میں بیٹھی ۲۰ لڑکیوں سے پوچھتی ہیں۔ یہ سب مہاجر مزدوروں کی بیٹیاں ہیں۔ یہ سبھی اپنے والدین کے ساتھ سفر کرچکی ہیں اور آگے بھی سفر کے امکانات ہیں۔ مینکا جو نوعمر لڑکیوں کے لیے کشوری شرمک پروگرام کا انتظام دیکھتی ہیں کہتی ہیں، ’’وہ مجھے بتاتی ہیں کہ اگر ہم اسکول جاتے ہیں، تب بھی ہمارے پاس آخر میں نقل مکانی ہی ہوگی۔‘‘

وہ چاہتی ہیں کہ یہ لڑکیاں مہاجرت سے الگ ایک مستقبل کی جانب دیکھیں۔ باری باری سے واگڑی اور ہندی میں بات کرتے ہوئے  وہ کچھ کارڈز دکھاتی ہیں جن پر مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی تصویریں ہیں۔ ان میں کیمرہ پرسن، ویٹ لفٹر، ڈریس ڈیزائنر، اسکیٹ بورڈر، استاد اور انجینئر شامل ہیں۔ ’’آپ جو چاہیں وہ بن سکتی ہیں، اور آپ کو اس کے لیے محنت کرنا ہوگا،‘‘ وہ امید سے روشن چہروں سے مخاطب ہیں۔

’’مہاجرت ہی واحد متدبادل نہیں ہے۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Priti David

ਪ੍ਰੀਤੀ ਡੇਵਿਡ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਇਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਪਾਰੀ ਵਿਖੇ ਐਜੁਕੇਸ਼ਨ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਪੇਂਡੂ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਕਲਾਸਰੂਮ ਅਤੇ ਪਾਠਕ੍ਰਮ ਵਿੱਚ ਲਿਆਉਣ ਲਈ ਸਿੱਖਿਅਕਾਂ ਨਾਲ ਅਤੇ ਸਮਕਾਲੀ ਮੁੱਦਿਆਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜਾ ਦੇ ਰੂਪ ’ਚ ਦਰਸਾਉਣ ਲਈ ਨੌਜਵਾਨਾਂ ਨਾਲ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹਨ ।

Other stories by Priti David

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam