شیواجی ٹھومرے کے پاس ۱۳ ایکڑ زمین ہے۔ کپاس، جوار اور مکئی کی کھیتی کے لیے تیار ان کے جوتے ہوئے کھیتوں میں گھومتے گھومتے، ہم خشک درختوں کے ایک حصے کے پاس پہنچے، جس کے نیچے گول زرد رنگ کے پھل – چوسے ہوئے لیموں کی طرح – بکھرے ہوئے ہیں۔ ’’یہ موسمبی (میٹھا لیموں) ہے،‘‘ شیواجی ایک پھل کو اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’معقول حالات میں اسے روزانہ ۶۰ لیٹر پانی فی پودا درکار ہوتا ہے۔ موسمبی کے پھل مکمل طور پر سوکھ چکے ہیں۔‘‘
ٹھومرے کی دو ایکڑ زمین میں ۴۰۰ موسمبی کے درخت لگے ہوئے ہیں – اس کا مطلب ہے کہ گرمیوں میں انہیں ہر روز ۲۴ ہزار لیٹر پانی، مانسون میں اچھی بارش، اور سردیوں میں تقریباً اتنا ہی لیٹر پانی چاہیے۔ دیگر پھلوں کے درختوں کو پانی کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر، گرمیوں میں انار کے ہر ایک درخت کو روزانہ ۲۰ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹھومرے کے والد نے ۲۰۰۲ میں مراٹھواڑہ کے اورنگ آباد شہر کے مضافات میں ۱۳۰۰ افراد کی آبادی والے اپنے گاؤں، کارجگاؤں میں موسمبی کے کئی درخت لگائے تھے۔ اس وقت شیواجی محض ۲۰ سال کے تھے۔ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس وقت پانی کا مسئلہ نہیں تھا۔‘‘ ضرورت اور امید کے مطابق بارش ہوجایا کرتی تھی، اور ان کی فیملی کے ذاتی کنویں میں وافر مقدار میں پانی موجود ہوتا تھا۔ ’’اس وقت موسمبی کا درخت لگانا ایک دانش مندانہ اور منافع بخش انتخاب تھا۔‘‘
اورنگ آباد ہائی وے سے جالنہ تک، ۶۰ کلومیٹر کی پٹی کے ہر گاؤں میں موسمبی کے باغات پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ سب ۲۰۰۰ کی دہائی کے اوائل میں لگائے گئے تھے، اور آج تمام باغات کے مالکان پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس پھل کی کاشت آسان نہیں ہے۔ موسمبی کے پھل آنے سے پہلے اس کے درختوں کی چار سے پانچ سال تک اچھے طریقے سے دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، تب جا کر ۳۰-۲۵ برسوں تک ہر دو سال میں ایک بار اس کی پیداوار کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لیکن، شیواجی کے باغ میں صرف چار سال تک – ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۰ تک – ہی پھل آئے۔
سال ۲۰۱۲ کے بعد سے، مراٹھواڑہ میں مسلسل چار سالوں سے خشک سالی اور پانی کی کمی کا مسئلہ برقرار رہا۔ شیواجی کہتے ہیں، ’’فصلوں کو تو بھول ہی جائیں، پانی کی کمی کی وجہ سے پودے بھی بمشکل ہی بچ پائے ہیں۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۶ کے نسبتاً اچھے مانسون سے بھی کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس علاقے میں بارش اتنی اچھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘
شیواجی بتاتے ہیں کہ اگر سال اچھا رہا، تو انہیں تقریباً ۲۰-۱۵ ٹن موسمبی کے پھل مل جایا کرتے تھے۔ ’’اس سیزن میں مجھے اوسطاً ۳۰ ہزار روپے فی ٹن [فروخت کی قیمت] کے حساب سے، تقریباً ساڑھے تین سے چارلاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے،‘‘ وہ موسمبی کے ایک بنجر درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’میں اس ایک لاکھ روپے کا شمار نہیں کر رہا، جو میں نے سال بھر وقفے وقفے سے اس باغ میں لگائے تھے۔ پچھلے پانچ سال اس پھل کے لیے تباہ کن رہے ہیں۔‘‘
طویل عرصے تک مشکلات کا سامنا کرنے کی وجہ سے شیواجی کی بیوی جیوتی کو دوسرے کھیتوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ۱۵۰ روپے یومیہ اجرت پر کام کرتی ہوں۔ اس سے گھر کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کب آپ کو اضافی رقم کی ضرورت پڑ جائے؟ ہماری سات سالہ بھانجی گزشتہ دو دنوں سے اورنگ آباد کے اسپتال میں زیرعلاج ہے۔ اس کے جسم میں گانٹھ بن گئی ہے جس کا آپریشن ہونا ہے۔ اس کے علاج میں ہم پہلے ہی ۱۵ ہزار روپے خرچ کر چکے ہیں۔‘‘
اٹھارہ افراد پر مشتمل مشترکہ خاندان کے ساتھ رہنے والے شیواجی محض کھیتی باڑی سے گھریلو اخراجات پورا نہیں کرسکتے۔ فیملی کے پاس گاؤں میں الیکٹرانکس کی ایک دکان ہے، اور شیواجی خود بینک آف مہاراشٹر کی کرماڈ برانچ میں تجارتی نمائندے کے طور پر کام کرتے ہیں، جہاں سے انہیں ماہانہ ۷۰۰۰ روپے ملتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہم پر ۸ لاکھ روپے کا قرض ہے [جو بینک سے، پانچ سال کے عرصے میں لیا گیا ہے]۔ ہمیں موسمبی کے متبادل کے بارے میں سوچنا ہی ہوگا۔‘‘
اور اسی لیے شیواجی نے باغ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کے والد نے ۱۵ سال پہلے جن درختوں کو اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا، انہیں جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ اور یہ کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ ’’ہمارے ۴۰۰ درختوں میں سے ۵۰ کو اسی سیزن میں [۲۰۱۷ کی گرمیوں میں] اکھاڑ دیا گیا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں نے ایک جے سی بی مشین کرایے پر لی تھی۔ میں آہستہ آہستہ ان سب سے چھٹکارہ حاصل کروں گا۔ معاشی طور پر غیر یقینی اور بہت زیادہ پانی کی ضرورت والی فصل کی کاشتکاری کرتے رہنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
چلچلاتی گرمی بھی موسمبی کے لیے نقصان دہ ہے۔ مراٹھواڑہ میں ۲۰۱۷ کی گرمی کی لہر نے – جب اپریل کے آخر اور مئی میں درجہ حرارت مسلسل ۴۵ ڈگری سیلسیس تھا – پھل کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ’’اس کے نتیجے میں پھل قبل از وقت ہی اپنی ٹہنیوں سے گر گیا،‘‘ شیواجی کہتے ہیں۔ ’’شدید گرمی ٹشو (بافت) کو کمزور کر دیتی ہے۔‘‘
مراٹھواڑہ کے اورنگ آباد، جالنہ اور ناندیڑ ضلعوں میں موسمبی کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے اور یہ تمام ضلعے ملک کے بقیہ حصوں میں اس پھل کے سب سے بڑے سپلائرز ہیں۔ تاہم، اب موسمبی کا پھل مراٹھواڑہ میں معدوم ہونے کے دہانے پر ہے۔ کئی کسان اب انار کی کاشت کرنے کا متبادل تلاش کر رہے ہیں، جس میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کچھ لوگ خریف کی روایتی فصلوں جیسے ارہر اور کپاس کی کاشتکاری کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
اکیلے ۲۰۱۳ میں اس پھل کے ۳۰ فیصد سے زیادہ درخت اکھاڑ دیے گئے، جب پورے مراٹھواڑہ میں ڈیڑھ (۵ء۱) لاکھ ایکڑ سے زیادہ کی اراضی پر لگے موسمبی کے باغات متاثر ہوئے تھے، بہت سے کسانوں نے تو اپنے پودوں کو نالے کے پانی سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ وہیں دوسری طرف، خوشحال کسانوں نے پانی کے ٹینکروں پر بہت زیادہ پیسے خرچ کیے تھے۔
اپریل ۲۰۱۷ میں، کارجگاؤں سے دو کلومیٹر دور واقع گاؤں گدھے جلگاؤں کے ۳۴ سالہ کسان بھاؤ صاحب بھیرے نے موسم گرما میں موسمبی کے اپنے درختوں کو بچانے کے لیے پانی پر ۵۰ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔ ’’پھل سوکھ چکے تھے،‘‘ وہ اپنے ڈھائی ایکڑ پر محیط باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے کہتے ہیں، جو کپاس اور جوار کے ڈھائی ایکڑ باغ سے ملحق ہے۔ ’’مجھے کسی نہ کسی طرح درختوں کو بچانے کی کوشش کرنی تھی۔ پھر بھی ۲۰ درخت نہیں بچ پائے۔‘‘
بھیرے کے پاس بھی یہ باغ سال ۲۰۰۰ سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برس ایک ڈراؤنے خواب کی طرح رہے ہیں۔ ’’میرے اوپر ۴ لاکھ روپے کا قرض ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میری بیٹی کی تین ماہ قبل شادی ہوئی ہے۔ صورتحال اس وقت سنگین ہو جاتی ہے جب آپ کو شادی کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ موسمبی پر منحصر رہتے ہیں۔ میں نے اپنے کھیت میں ایک تالاب کھودا ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سے مدد ملے گی۔‘‘
ریاستی حکومت مہاراشٹر بھر کے کسانوں کو پانی بچانے کے لیے کھیتوں میں تالاب کھودنے کی خاطر سبسڈی دے رہی ہے۔ موسمبی کے درختوں کو زندہ رکھنے کے لیے وافر مقدار میں پانی کی ضرورت نے بہت سے کسانوں کو سبسڈی لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ تاہم، اورنگ آباد کے ڈویژنل کمشنر کے دفتر سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، سال ۱۷-۲۰۱۶ میں مراٹھواڑہ کے آٹھ ضلعوں میں صرف ۱۳۶۱۳ کھیتوں میں ہی تالاب کی کھدائی ہوئی تھی، جب کہ انتظامیہ نے ۳۹۶۰۰ تالابوں کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ تالاب بنوانے والے ۱۳۶۱۳ کسانوں میں سے ۴۴۲۹ کو ابھی تک ان کی سبسڈی نہیں ملی ہے۔
بہرحال، بھیرے کے پاس کھیت میں تالاب بنوانا ہی واحد متبادل بچا ہے اور انہوں نے اس پر ۲ لاکھ روپے خرچ بھی کیے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اچھا مانسون تالاب کو پانی سے بھر دے گا، جس سے انہیں موسمبی کے باغ کی دیکھ بھال کرنے میں آسانی ہوگی۔ ’’یہی وہ آخری حربہ ہے،‘‘ بھیرے کہتے ہیں۔ ’’اگر یہ تجربہ ناکام رہا، تو ۲۰۱۸ تک باغ سوکھ جائے گا۔‘‘
تصاویر: شری رنگ سورگے
مترجم: سبطین کوثر