کاردَگا گاؤں میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، تو گھر والے سب سے پہلے سومّکا پجاری کو اطلاع دیتے ہیں۔ وہ تقریباً ۹۰۰۰ افراد پر مشتمل گاؤں کے ان چند دستکاروں میں سے ایک ہیں جو اب بھی بھیڑ کے بالوں سے کڑے بنا سکتے ہیں۔ ان زیورات کو مقامی طور پر ’کنڈا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور نیک شگون کے طور پر انہیں نوزائیدہ بچوں کی کلائیوں میں پہنایا جاتا ہے۔
’’بھیڑیں اکثر ناسازگار موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے اور ہر طرح کے لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے چراگاہوں کی تلاش میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں گھومتی رہتی ہیں،‘‘ سومکا کہتی ہیں، جن کی عمر پچاس کی دہائی کی نصف آخر میں پہنچ چکی ہے۔ بھیڑوں کو استقامت کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے بالوں سے بنا کَنڈا شر سے محفوظ رکھتا ہے۔
دَھنگر برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین روایتی طور پر یہ کڑے بناتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آج کاردگا میں صرف آٹھ دَھنگر گھرانے اس فن پر عمل پیرا ہیں۔ سومّکا مراٹھی میں کہتی ہیں، ’’نمّا گاوالا گھاتلا آہے [میں نے اس گاؤں کے آدھے بچوں کی کلائیوں میں یہ کڑے پہنائے ہیں]۔‘‘ کارداگا گاؤں کرناٹک کے بیلگاوی ضلع میں واقع ہے جس کی سرحد مہاراشٹر سے ملتی ہے، اور اسی لیے سومکّا کی طرح یہاں کے بہت سے باشندے کنڑ اور مراٹھی دونوں زبانیں بول سکتے ہیں۔
سومکّا کہتی ہیں، ’’ہر ذات اور مذہب کے لوگ ہمارے پاس کنڈا کے لیے آتے ہیں۔‘‘
بچپن میں، سومکّا اپنی والدہ، آنجہانی کِسنا بائی بَنکر کو کاردگا میں کچھ بہترین کَنڈا بناتے ہوئے دیکھتی تھیں۔ ’’میں یہ جاننے کے لیے متجسس رہتی تھی کہ وہ کنڈا بنانے سے پہلے بھیڑ کے بالوں کی ایک ایک لڑی [جسے لوکر بھی کہا جاتا ہے] کی جانچ کیوں کرتی ہیں،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی والدہ کس طرح باریک لڑیوں کا استعمال کرتی تھیں کیونکہ انہیں شکل دینا آسان تھا۔ اس کے لیے پہلی بار اتارے گئے بھیڑوں کے بال استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ ساخت میں کھردرے ہوتے ہیں۔ ’’سو بھیڑوں میں سے مطلوبہ قسم کے بال صرف ایک بھیڑ میں ملتے ہیں۔‘‘
سومکّا نے اپنے والد آنجہانی اپّا جی بَنکر سے کنڈا بنانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ تب وہ ۱۰سال کی تھیں اور اسے سیکھنے میں انہیں دو مہینے کا وقت لگا تھا۔ چار دہائیوں بعد سومکا اس فن کی مشق جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کی گرتی ہوئی مقبولیت کو لے کر فکر مند ہیں: ’’آج کل نوجوان چرواہے تو بھیڑ کو بھی نہیں چراتے ہیں۔ وہ بھیڑوں کے بالوں پر مشتمل دستکاری کے بارے میں کیا جانیں گے؟‘‘
سومکا بتاتی ہیں، ’’عام طور پر ایک بھیڑ سے ایک بار میں ۱-۲ کلو لوکر نکلتا ہے۔‘‘ ان کے گھر کے مرد سال میں دو دفعہ بھیڑوں کے بال اتارتے ہیں۔ یہ کام عموماً دیوالی اور بیندور (جون اور اگست کے درمیان بیلوں کے لیے منایا جانے والا تہوار) کے دوران ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے ایک کتربھونی یا روایتی قینچی کے ایک جوڑے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بھیڑ کے بال اتارنے میں تقریباً ۱۰ منٹ لگتے ہیں اور یہ کام عموماً صبح کے وقت کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بالوں کی ہر لڑی کے معیار کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے اور خراب بالوں کو الگ کردیا جاتا ہے۔
سومکا کو ایک کنڈا بنانے میں ۱۰ منٹ لگتے ہیں۔ وہ جو لوکر ابھی استعمال کر رہی ہے وہ سال ۲۰۲۳ میں دیوالی کے دوران اتاری گئی تھی- ’’میں نے اسے نوزائیدہ بچوں کے لیے محفوظ کر رکھا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
بالوں کو شکل دینے سے پہلے، سومکا ان پر لگی دھول اور دوسری گندگیوں کو دور کرتی ہیں۔ وہ نوزائیدہ کی کلائیوں کے مطابق کنڈا کے سائز کا تعین کرتے ہوئے بالوں کو کھینچتی اور ایک گول شکل دیتی ہیں۔ بالوں کے دائرے کی ساخت اختیار کرنے کے بعد وہ اسے اپنی ہتھیلیوں کے درمیان اینٹھتی ہیں۔ اینٹھن اسے مضبوطی عطا کرتی ہے۔
سومکا اس دائرہ نما فریم کو ہر چند سیکنڈ کے بعد پانی میں ڈبوتی ہیں۔ ’’آپ جتنا زیادہ پانی ڈالیں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا،‘‘ کناروں کو مہارت سے کھینچتے اور اپنی ہتھیلیوں کے درمیان فریم کو رگڑتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔
’’ایک سے تین سال کی عمر کے بچے یہ کڑے پہنتے ہیں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اضافہ کرتی ہیں کہ کنڈا کا ایک جوڑا کم از کم تین سال تک برقرار رہتا ہے۔ دھنگر مہاراشٹر میں خانہ بدوش قبیلے اور کرناٹک میں دیگر پسماندہ طبقات کے طور پر درج ہیں۔ کڑے بنانے کے علاوہ یہ برادری بھیڑ بکریاں چراتی ہے اور کاشتکاری کا کام بھی کرتی ہے۔
سومکا کے شوہر بالو پجاری نے ۱۵ سال کی عمر میں چرواہے کا کام کرنا شروع کیا تھا۔ اب وہ ۶۲ سال کے ہیں، انہوں نے بڑھتی عمر کی وجہ سے مویشی چرانا چھوڑ دیا ہے۔ ان دنوں وہ بطور کسان کام کرتے ہیں، اور گاؤں میں اپنی دو ایکڑ زمین پر گنا اگاتے ہیں۔
سومکا کے بڑے بیٹے ۳۴ سالہ مالو پجاری نے مویشی چرانے کا کام سنبھال لیا ہے۔ بالو کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ۵۰ سے بھی کم بھیڑیں اور بکریاں چراتا ہے۔ ’’ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے، ہمارے کنبے کے پاس ۲۰۰ سے زیادہ جانور تھے، جنہیں وہ چراتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے ان جانوروں کی تعداد میں آئی کمی کی بنیادی وجہ کاردگا کے آس پاس کم ہوتی ہوئی چراگاہوں کو قرار دیتے ہیں۔
ریوڑ کی سکڑتے حجم کی وجہ سے ایسے بھیڑوں کو تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے جن کے بال پہلے سے اتارے نہ گئے ہوں۔ اس کا اثر گاؤں میں ملنے والے کنڈا پر پڑتا ہے۔
روزانہ بھیڑیں اور بکریاں چرانے کے لیے بالو کے ہمراہ سفر پر نکلنا سومکا کو یاد ہے۔ یہ ۱۵۱ کلومیٹر دور کرناٹک کے بیجاپور اور ۲۲۷ کلومیٹر دور مہاراشٹر کے سولاپور تک کا سفر کرتے تھے۔ ’’ہم نے اتنا سفر کیا کہ کھیت ہمارا گھر بن گئے،‘‘ سومکا ایک دہائی پہلے تک کی اپنی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ’’میں ہر روز کھلے میدانوں میں سونے کی عادی تھی۔ ہمارے سروں کے اوپر ستارے اور چاند تھے۔ چہار دیواری والے گھر میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
سومکا کاردگا اور اس کے آس پاس کے گاؤوں میں ۱۰ کلو میٹر سے بھی زیادہ دور کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔ وہ کام کرنے کے لیے روزانہ پیدل ہی جاتی تھیں۔ ’’میں نے کنویں کھودے اور پتھر تک اٹھائے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں انہیں کنویں کھودنے کے لیے ۲۵ پیسے ملتے تھے تھے۔ ’’ان دنوں چاول کی قیمت ۲ روپے فی کلوگرام تھی،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔
ہاتھ سے کنڈا بنانا بظاہر آسان نظر آتا ہے، لیکن اس میں کئی پیچیدہ مرحلے شامل ہیں۔ اکثر بال دستکار کی ناک یا منہ میں داخل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر کھانسی اور چھینکوں کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ پھر کام کی مفت نوعیت (کوئی اجرت نہیں ملتی) اور اس کے ساتھ ساتھ چراگاہوں کی کمی نے اس ہنر کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
نوزائیدہ بچے کو کنڈا پہنانے کی تقریب کے بعد سومکا کو عام طور پر ہلد کُنکو (ہلدی-سندور)، ٹوپی (روایتی ٹوپی)، پان، سپاری، جھمپر (بلاؤز کا کپڑا)، ساڑی، ناریل، اور تولیہ ملتے ہیں۔ سوماکا کہتی ہیں، ’’کچھ لوگ تھوڑی بہت رقم بھی دیتے ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کنڈے کے بدلے میں کبھی کچھ نہیں مانگتی ہیں۔ ’’یہ فن کبھی بھی پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں رہا،‘‘ وہ اصرار کرتی ہیں۔
آج کل کچھ لوگ میلوں کے دوران کالے دھاگے کو بھیڑ کے بالوں میں لپیٹ کر کنڈا کے طور پر کم سے کم ۱۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ ’’اصل کنڈا تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے،‘‘ سومکا کے چھوٹے بیٹے۳۰ سالہ رام چندر کہتے ہیں، جو گاؤں کے ایک مندر میں پجاری ہیں اور کھیتی باڑی میں اپنے والد کا ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔
سومکا کی ۲۸ سالہ بیٹی مہادیوی نے یہ ہنر انہی سے سیکھا ہے۔ ’’اب بہت کم لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں،‘‘ سومکا کو وہ وقت یاد ہے جب دھنگر برادری کی ہر عورت کنڈا بنانا جانتی تھی۔
سومکا یہ بھی جانتی ہیں کہ کس طرح لوکر (بھیڑ کے بال) کو اپنی رانوں پر رگڑ کر دھاگے بنائے جاتے ہیں۔ رگڑنے کے اس عمل کے دوران اکثر ان کی جلد جل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس طرح کی بنائی کے لیے لکڑی کا چرخہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی فیملی بُنا ہوا لوکر سنگر برادری کو فروخت کرتی ہے۔ یہ براداری گھونگڑی (بھیڑوں کے بالوں سے بنائے گئے کمبل) بننے کے لیے مشہور ہے۔ حالانکہ یہ کمبل ۱۰۰۰ روپے سے بھی زیادہ میں فروخت ہوتے ہیں، لیکن سوماکا اپنے بُنے ہوئے دھاگے کو ۷ روپے فی کلوگرام کی معمولی قیمت پر فروخت کرتی ہیں۔
یہ دھاگے کولہاپور کے پٹن کوڈولی گاؤں میں ہر سال اکتوبر اور دسمبر کے درمیان منعقد ہونے والی ’وٹھل بردیو یاترا‘ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ سومکا اس یاترا کی تیاری میں دیر تک کام کرتی ہیں، اور یاترا شروع ہونے سے ایک دن پہلے دھاگوں کی کم از کم ۲۵۰۰ لڑیاں بُن لیتی ہیں۔ ’’اس سے اکثر میری ٹانگیں پھول جاتی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ سومکا اپنے سر پر ٹوکری میں ۱۰ کلو سے زیادہ دھاگہ لے کر ۱۶ کلومیٹر دور اس مقام تک صرف ۹۰ روپے کمانے کے لیے جاتی ہیں۔
مشکلات کے باوجود سومکا کا کنڈا بنانے کا جوش کم نہیں ہوا۔ ’’مجھے فخر ہے کہ میں نے اس روایت کو زندہ رکھا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کی پیشانی پر بھنڈارا (ہلدی) لگا ہوا ہے۔ ’’میں اپنے ارد گرد بھیڑوں اور بکریوں کے ساتھ کھیتوں میں پیدا ہوئی تھی،‘‘ سومکا مزید کہتی ہیں، ’’اور میں مرتے دم تک اس فن کو زندہ رکھوں گی۔‘‘
یہ اسٹوری دیہی دستکاروں پر سنکیت جین کی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم