ٹک – ٹک – ٹک!
یہ آواز کوڈاوتی پُڈی میں ترپال سے ڈھکی جھونپڑی سے آ رہی ہے۔ مُلمپک بھدر راجو، چیکِاّ سُتّی کی مدد سے ایک برتن کو تھپتھپا رہے ہیں – یہ ایک چھوٹا سا پیڈل نما لکڑی کا ہتھوڑا ہے، جسے برتن کو پوری طرح گول شکل میں ڈھالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
’’موٹی چیکاّ سُتّی کا استعمال برتن کے نچلے حصے کو بند کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس متوازن آلہ سے برتن کے نچلے حصے کو مزید ہموار کیا جاتا ہے۔ سب سے پتلی چیکا سُتّی پورے برتن کو ہموار کرنے کے لیے ہے،‘‘ ۷۰ سال کے بھدر راجو ضرورت کے مطابق ہتھوڑوں کا استعمال کرتے ہوئے برتن بنانے کے پورے عمل کی وضاحت کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سب سے پتلا، متوازن سائز کا آلہ کھجور کے درخت (بوراسس فلابیلیفر) کی شاخوں سے اور سب سے موٹا ارجن کے درخت (ٹرمنالیا ارجن) سے بنایا گیا ہے۔ وہ سب سے پتلی چیکا سُتی کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کے بعد اس پر پڑنے والی ضربیں نمایاں طور پر پرسکون ہو جاتی ہیں۔
اسے ۲۰ انچ قطر کے بڑے برتن کی شکل دینے میں تقریباً ۱۵ منٹ لگتے ہیں۔ اگر وہ کسی حصے کو توڑتے ہیں یا کسی طرف کا کوئی حصہ پھٹ جاتا ہے، تو وہ اس حصے پر مٹی ڈال کر اور اس عمل کو بار بار دہراتے ہوئے اسے تیزی سے ٹھیک کرتے ہیں۔
بھدر راجو ۱۵ سال کی عمر میں ہی اس پیشہ سے جڑ گئے تھے۔ وہ اَنکا پلّی ضلع کے ایک گاؤں کوڈاوتی پُڈی میں رہتے اور یہیں کمہار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق آندھرا پردیش میں دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) کے طور پر درج کمہار برادری سے ہے۔
یہ ستّر سالہ بزرگ کمہار برتن بنانے کے لیے مٹی ایک تالاب سے لاتے ہیں۔ تالاب کی اس ڈیڑھ ایکڑ زمین کو انہوں نے ۱۵ سال پہلے ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ پڑوسی گاؤں کوٹورتلا میں ریت، مٹی اور بجری فراہم کرنے والے کاروباری سے اپنے پلاٹ پر ۴۰۰ کلو گرام ایرا مٹی (سرخ مٹی) پہنچانے کے لیے سال بھر میں انہیں ایک ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔
انہوں نے اس زمین پر کھجور اور ناریل کے پتوں اور ترپال کو چھت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دو جھونپڑیاں بنائی ہیں۔ اس جگہ کے اچھے طریقے سے ڈھک جانے کی وجہ سے وہ سال بھر، حتی کہ بارش کے دنوں میں بھی آرام سے اپنا کام کر پاتے ہیں۔ وہ برتنوں کو بنانے اور اسے الگ الگ شکل دینے کے لیے ایک جھونپڑی کا استعمال کرتے ہیں – چھوٹی جھونپڑی میں وہ انہیں پکاتے ہیں۔ ’’جب ہمارے پاس ۲۰۰ سے ۳۰۰ کے قریب برتن جمع ہو جاتے ہیں، تو ہم انہیں [خشک لکڑی پر] سینکتے ہیں،‘‘ وہ قریب ہی ایک کھلے میدان سے انہیں جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’وہ [برتن] جھونپڑی میں ہی خشک ہو جاتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بچت سے اس زمین کی قیمت ادا کی تھی۔ ’’انہوں نے [مقامی بینکوں نے] مجھے قرض نہیں دیا تھا۔ میں نے ان سے پہلے بھی کئی بار اس بابت گزارش کی تھی، لیکن کسی نے مجھے قرض نہیں دیا۔‘‘ وہ ساہوکاروں کے ساتھ لین دین کرنا پسند نہیں کرتے، کیونکہ ان کے کام کا معاملہ غیر یقینی ہوتا ہے – ہر ۱۰ برتن بنانے کے دوران ۲-۱ برتن ٹوٹ جاتے ہیں۔ ’’بنائے جانے والے تمام برتن بالکل خشک نہیں ہو پاتے، سوکھتے وقت برتنوں کا ایک حصہ ٹوٹ جاتا ہے،‘‘ وہ جھونپڑی کے کونے میں پڑے درجنوں ٹوٹے ہوئے گملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
برتن بنانے کے عمل میں، شروع سے آخر تک، عام طور پر انہیں تقریباً ایک مہینہ لگتا ہے؛ وہ دن میں تقریباً ۱۰ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ’’اگر میری بیوی اس کام میں میری مدد کرے، تو ہم ایک دن میں ۳۰-۲۰ برتن بآسانی بنا سکتے ہیں،‘‘ وہ برتنوں کو تھاپ لگاتے ہوئے کہتے ہیں، اور بات کرتے وقت تھوڑی دیر کے لیے تبھی رکتے ہیں جب انہیں کسی نقطے پر زور دینا ہوتا ہے۔ مہینے کے آخر میں، وہ تقریباً ۳۰۰-۲۰۰ برتن بنا لیتے ہیں۔
ان کی چھ رکنی فیملی – تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوی – کی آمدنی کا یہ واحد ذریعہ ہے۔ وہ بڑے ہی پراعتماد لہجے میں کہتے ہیں کہ ’’صرف اسی سے، انہوں نے اپنے سارے گھریلو اخراجات پورے کیے ہیں اور اپنے بچوں کی شادیاں بھی کی ہیں۔
بھدر راجو اپنے برتن وشاکھاپٹنم اور راجمندری کے تھوک فروشوں کو بیچتے ہیں، جو یہاں ہر ہفتے آتے ہیں اور گاؤں کے تقریباً ۳۰ کمہاروں کے یہاں سے ان کے بنائے ہوئے برتنوں کو لے جاتے ہیں۔ راجو بتاتے ہیں کہ یہ برتن بازار میں مختلف مقاصد کے لیے فروخت کیے جاتے ہیں: ’’کھانا پکانے، بچھڑوں کو پلانے اور جس طرح کی بھی لوگوں کی ضروریات ہوتی ہیں اس کے لیے۔‘‘
بھدر راجو بتاتے ہیں، ’’وشاکھاپٹنم کے تھوک فروش ۱۰۰ روپے فی برتن کے حساب سے خریدتے ہیں، جب کہ راجمندری میں تھوک فروش اسے ۱۲۰ روپے کے حساب سے خریدتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو مجھے [ایک مہینے میں] ۳۰ ہزار روپے مل سکتے ہیں۔‘‘
دس سال پہلے بھدر راجو گوا میں آرٹس اینڈ کرافٹس کی دکان میں کمہار کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’کئی دوسری ریاستوں کے لوگ بھی وہاں کام کیا کرتے تھے، سبھی مختلف دستکاریوں میں مصروف تھے۔‘‘ انہیں ہر ایک برتن کے ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے ملتے تھے۔ ’’لیکن وہاں کا کھانا میرے لیے اچھا نہیں تھا اس لیے میں چھ ماہ بعد وہاں سے چلا آیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
منے پلّی کہتے ہیں، ’میرے پیٹ میں گزشتہ ۷-۶ سالوں سے السر ہے۔‘ جب وہ پہیے کو ہاتھ سے گھماتے تھے تو اس سے انہیں درد ہوتا تھا، جب کہ مشین سے چلنے والے خودکار پہیہ کو استعمال کرنے سے کوئی درد نہیں ہوتا۔ کمہار برادری سے ہی تعلق رکھنے والے ۴۶ سالہ نوجوان نوعمری سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔
چند میٹر کے فاصلے پر ہی کامیشور راؤ منے پلّی کا گھر ہے، جو خود بھی ایک کمہار ہیں۔ یہاں چیکاّ سُتّی کی آواز مشین سے چلنے والے پہیے کی دھیمی، گھومنے والی آواز سے بدل گئی ہے، جو خودکار طریقے سے پہیے پر ہی برتن کو شکل دے دیتی ہے۔
گاؤں کے تمام کمہار اب مشینوں سے چلنے والے پہیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ بھدر راجو واحد کمہار ہیں جو اب بھی دستی پہیوں سے ہی برتن سازی کر رہے ہیں اور مشین سے چلنے والے پہیے کا استعمال کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں یہ کام ۱۵ سال کی عمر سے کر رہا ہوں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ اس کام میں اچھا خاصا وقت لگانے اور محنت و مشقت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ مشین سے چلنے والے پہیے بہت چھوٹے برتن بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں، نہ کہ روایتی ۱۰ لیٹر والے برتن کے لیے، جسے بھدر راجو بناتے ہیں۔
بہت سے بزرگ کمہاروں کی طرح منے پلّی نے بھی خرابی صحت اور سرجری کی وجہ سے پانچ سال پہلے سے ہی مشین سے چلنے والے پہیے کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے پیٹ میں گزشتہ ۷-۶ سالوں سے السر ہے۔‘‘ دستی پہیے کو گھمانے سے تکلیف ہوتی ہے جبکہ خودکار مشین کا پہیہ چلانے سے درد نہیں ہوتا ہے۔
’’برتن بنانے کے لیے میں نے ۱۲ ہزار روپے میں مشین سے چلنے والا یہ پہیہ خریدا ہے۔ جب یہ خراب ہوگیا تو مجھے کھادی گرامین سوسائٹی سے ایسا ہی ایک اور مفت میں مل گیا۔ میں اب اس سے برتن بناتا ہوں۔‘‘
’’سادہ سے [چھوٹے] برتن کی قیمت ۵ [روپے] ہے۔ اگر آپ اس پر کوئی ڈیزائن بناتے ہیں، تو اس کی قیمت ۲۰ روپے ہوجائے گی،‘‘ وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا استعمال خاص طور سے سجاوٹ کے لیے کیا جاتا ہے۔ ۴۶ سالہ اس نوجوان کا تعلق بھی کمہار برادری سے ہی ہے، جو اپنے والد کے ساتھ نوعمری سے ہی یہ کام کر رہے ہیں۔ ۱۵ سال قبل اپنے والد کے انتقال کے بعد سے ہی تن تنہا وہ اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔
منے پلّی اپنی چھ رکنی فیملی – تین بچے، بیوی اور ماں – کی کفالت کرنے والے واحد فرد ہیں- ’’اگر میں روزانہ کام کرتا ہوں، تو ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کما لیتا ہوں۔ برتنوں کو آگ میں پکانے کے لیے چارکول (پتھر کوئلہ) کا استعمال ہوتا ہے، جس کی قیمت تقریباً ۲۰۰۰ روپے ہے۔ اس کے بعد، میرے پاس محض ۸۰۰۰ روپے ہی بچ پاتے ہیں۔‘‘
تجربہ کار کمہار اپنی خراب صحت کی وجہ سے باقاعدگی کے ساتھ کام نہیں کر پاتے ہیں، اور کام کے بیشتر دنوں کو پوری طرح چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ’’اس کے علاوہ میں کر ہی کیا سکتا ہوں؟‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کوئی اور کام بھی کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں، ’’میرے پاس کرنے کے لیے صرف یہی ایک کام ہے۔‘‘
مترجم: سبطین کوثر