دو شخص ایک پہاڑی پر چڑھتے ہوئے گھنی جھاڑیوں کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ یہ دونوں منی پور کے کانگپوکپی ضلع میں ۴۰ کوکی- زو قبائلی کنبوں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گاؤں ناہمُن گُنفائیجانگ میں اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۳ کے اس دن کا آسمان ابر آلود ہے اور ان کے چاروں طرف جنگلی جھاڑیوں سے ڈھکی پہاڑیوں کا خوبصورت منظر ہے۔

ابھی چند سال قبل یہ پہاڑیاں پوست (پیپیوَر سومنیفیرم) کے سفید، ارغوانی اور گلابی رنگ کے پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔

’’میں ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں گانجا (کینیبِس سیٹائیوا) اگایا کرتا تھا، لیکن اس وقت اس میں زیادہ آمدنی نہیں تھی،‘‘ پاؤلال کہتے ہیں۔ وہ ایک کسان ہیں اور اس پہاڑی پر چڑھنے والے دو لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ’’۲۰۰۰ کی دہائی کے اوائل میں لوگوں نے ان پہاڑیوں میں کانی [پوست] کی کاشت شروع کی تھی۔ میں نے بھی وہ اُگایا، جب تک کہ کچھ سال پہلے اس پر پابندی نہیں عائد کر دی گئی۔‘‘

پاؤلال ۲۰۲۰ کے موسم سرما کا حوالہ دے رہے ہیں، جب ناہمُن گُنفائیجانگ کے سردار ایس ٹی تھانگبوئی کپگِین نے گاؤں میں پوست کی کاشت ختم کرنے اور کسانوں سے اس کی کھیتی پوری طرح سے بند کرنے کی اپیل کی۔ یہ ان کی طرف سے اٹھایا گیا کوئی یکطرفہ قدم نہیں تھا، بلکہ بی جے پی کی ریاستی حکومت کی ’منشیات مخالف جنگ‘ کی جارحانہ مہم کی حمایت میں لیا گیا ایک فیصلہ تھا۔

پوست سے انتہائی نشہ آور افیون بنائی جاتی ہے، جو بنیادی طور پر منی پور کے پہاڑی اضلاع جیسے چُورا چند پور، اُکھرول، کامجونگ، سیناپتی، تامینگلونگ، چاندیل، تینگنوپل کے ساتھ ساتھ کانگپوکپی میں کاشت کی جاتی ہے۔ کانگپوکپی میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق کوکی زو قبیلے سے ہے۔

یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے، جب نومبر ۲۰۱۸ میں وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کی قیادت میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ’منشیات مخالف جنگ‘ کا اعلان کیا تھا۔ بیرن سنگھ نے پہاڑی اضلاع کے گاؤں کے سرداروں اور چرچوں سے گزارش کی تھی کہ وہ ان علاقوں میں پوست کی کاشت پر روک لگانے کی مہم میں پیش قدمی کریں۔

Left: Poppy plantations in Ngahmun village in Manipur's Kangpokpi district .
PHOTO • Kaybie Chongloi
Right: Farmers like Paolal say that Manipur's war on drugs campaign to stop poppy cultivation has been unsuccessful in the absence of  consistent farming alternatives.
PHOTO • Makepeace Sitlhou

بائیں: منی پور کے کانگپوکپی ضلع کے ناہمُن گاؤں میں پوست کے کھیت۔ دائیں: پاؤلال جیسے کسانوں کا کہنا ہے کہ پوست کی کاشت روکنے میں منشیات کے خلاف منی پور کی جنگ کی مہم سازگار متبادل کی عدم موجودگی میں ناکام رہی ہے

کوکی زو قبیلے کے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ’منشیات مخالف جنگ‘ کی مہم ان پر براہ راست حملہ ہے، اور یہ مئی ۲۰۲۳ میں اکثریتی میتی برادری اور اقلیتی کوکی-زو قبائل کے درمیان شروع ہونے والے خونی نسلی تصادم کو ہوا بھی دے رہی ہے۔ اگرچہ پوست کی کھیتی ناگا اور کوکی زو اکثریت والے پہاڑی اضلاع میں ہوتی ہے، لیکن مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ (بی جے پی) نے منی پور میں منشیات کے کاروبار کو چلانے کے لیے کوکیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ناہمُن گُنفائیجانگ میں پاؤلال جیسے ۳۰ کاشتکار کنبوں کو پوست کی کاشت ترک کرنے اور اس کی جگہ سبزیاں اور پھل جیسے مٹر، گوبھی، آلو اور کیلے اگانے پر مجبور کیا گیا ہے، جس سے انہیں اپنی پہلے کی کمائی کا ایک معمولی حصہ ہی مل پاتا ہے۔ ’’یہ ان کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھا،‘‘ گاؤں کے قائم مقام سردار سیمسن کِپگین کہتے ہیں۔ یہاں زمین اجتماعی طور پر برادری کی ملکیت ہوتی ہے، جو گاؤں کے سردار (ایک موروثی عہدہ جو ایک ہی خاندان میں جاری رہتا ہے) کے زیرانتظام آتی ہے۔ ’’لیکن وہ [جن کسانوں نے فصل بدلی ہے] سمجھ گئے کہ یہ گاؤں اور ماحولیات کی بھلائی کے لیے ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

حالانکہ، ۴۵ سالہ کسان پاؤلال کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو گرفتار کرنے اور انہیں جیل بھیجنے کی حکومت کی دھمکی نے اس کاشت کاری کو ترک کرنے پر مجبور کیا۔ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر گاؤں والوں نے تعاون نہ کیا تو مقامی پولیس پوست کے کھیتوں کو جلا دے گی۔ حال ہی میں وادی میں مقیم ایک سول سوسائٹی گروپ نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ مرکز پوست کے کھیتوں پر ہوائی حملے کرنے پر راضی ہو گیا ہے، لیکن سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

سال ۲۰۱۸ کے بعد سے حکومت نے ۱۸۰۰۰ ایکڑ سے زیادہ اراضی پر پھیلی پوست کی فصل کو تباہ کرنے اور ۲۵۰۰ کاشتکاروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم، ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۲ تک منی پور پولیس کی خصوصی اکائی، نارکوٹکس اینڈ افیئرز آف بارڈر ، کے اعداد و شمار کے مطابق کل ۱۳۴۰۷ ایکڑ پوست کی کاشت کو تباہ کیا گیا ہے۔

منی پور کی سرحد میانمار کے ساتھ ملتی ہے، جو پوست کی کاشت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، اور جہاں مورفین، کوڈین، ہیروئن اور آکسی کوڈون جیسے دیگر طاقتور نشہ آور مادوں کی مبینہ فروخت اور پیداوار ہوتی ہے۔ اس قربت کی وجہ سے یہاں منشیات اور دیگر غیرقانونی تجارت کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ سماجی انصاف اور تفویض اختیار کی وزارت کے ۲۰۱۹ کے سروے، ہندوستان میں منشیات کے استعمال کی شدت ، کے مطابق شمال مشرقی ہندوستان میں انجیکشن والے منشیات کے استعمال کے معاملے میں منی پور سرفہرست ہے۔

دسمبر ۲۰۲۳ میں امپھال میں واقع بی جے پی کے ہیڈ کوراٹر میں ایک میٹنگ کے دوران وزیراعلیٰ بیرن سنگھ  نے پارٹی کارکنوں سے دریافت کیا تھا، ’’کیا نوجوانوں کو بچانے کے لیے منشیات کے خلاف جنگ شروع کرنا غلطی تھی؟‘‘ وہ ریاست میں نسلی تصادم کے لیے بی جے پی کو مورد الزام ٹھہرانے کا جواب دے رہے تھے۔

Demza, a farmer who used to earn up to three lakh rupees annually growing poppy, stands next to his farm where he grows cabbage, bananas and potatoes that he says is not enough to support his family, particularly his children's education
PHOTO • Makepeace Sitlhou

ڈیمزا نامی ایک کسان جو پوست اُگا کر سالانہ تین لاکھ روپے تک کی آمدنی حاصل کرتے تھے، اپنے کھیت کے پاس کھڑے ہیں، جس میں اب وہ گوبھی، کیلے اور آلو اگاتے ہیں جو ان کے بقول ان کے کنبے کی کفالت، خصوصاً ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے ناکافی ہے

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ’منشیات مخالف جنگ‘ کی وجہ سے ڈیمزا کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔

چار سال پہلے تک ڈیمزا اور ان کے افراد خانہ ناہمُن گُنفائیجانگ میں پوست کی آمدنی سے آرامدہ زندگی گزار رہے تھے۔ اس پر پابندی عائد ہونے کے بعد ڈیمزا مخلوط فصلیں کاشت کرنے لگے اور ان کی آمدنی میں کمی واقع ہوگئی۔ ’’اگر ہم سال میں دو بار [سبزیوں کی] کاشت کریں اور اچھی پیداوار حاصل کریں، تو سالانہ ایک لاکھ [روپے] تک کما سکتے ہیں،‘‘ ڈیمزا پاری سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’پوست کی صرف ایک فصل سے ہم کم از کم تین لاکھ روپے سالانہ کی آمدنی حاصل کرتے تھے۔‘‘

آمدنی میں آئی اس نمایاں کمی کا مطلب امپھال میں ان کے بچوں کو اسکول سے ہٹا لینا ہے۔ وہ ان میں سے صرف ایک کو کانگپوکپی ضلع صدر مقام کے مقامی اسکول میں داخل کروا سکے۔

سال ۲۰۱۹ میں کانگپوکپی، چوراچند پور، اور تینگنوپل کے پہاڑی اضلاع میں کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق غربت، خوراک کا عدم تحفظ اور مادی ضروریات منی پور کے قبائلی کسانوں کو افیون کی کاشت کی جانب راغب کرتی ہیں۔ اس مطالعہ کی قیادت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( آئی آئی ٹی)، گوہاٹی میں سماجیات کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسرنامجہاؤ کپِگین نے کی ہے۔ انہوں نے ۶۰ کنبوں کا سروے کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک ہیکٹیئر زمین سے پانچ سے سات  کلو کے درمیان افیون کی پیداوار ہوتی ہے، جو ۷۰ ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی کلو کے درمیان فروخت ہو سکتی ہے۔

پوست ان کسانوں کے لیے فائدے کی فصل رہی ہے جن کے پاس مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی (منریگا) جیسے روزگار کے دیگر قابل عمل مواقع تک رسائی نہیں ہے۔

*****

نومبر کا مہینہ اقلیتی کوکی زو قبیلے کے لیے خوشی کا موقع ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس مہینے میں سالانہ کُٹ تہوار مناتے ہیں جو پوست کی کٹائی کے موسم کے ساتھ ملتا ہے۔ تہوار کے دوران، لوگ جمع ہوتے ہیں، بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں، گاتے اور ناچتے ہیں، اور یہاں تک کہ خوبصورتی کے مقابلے بھی منعقد کرتے ہیں۔ لیکن، ۲۰۲۳ کا سال مختلف تھا۔ مئی میں، میتی کمیونٹی اور کوکی زو کے درمیان ایک خونیں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ خیال رہے کہ اول الذکر کی آبادی منی پور کی کل آبادی کا ۵۳ فیصد ہے۔

دراصل، مارچ ۲۰۲۳  کے آخر میں منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ میتی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل کرنے کی ان کی ایک دیرینہ درخواست پر غور کرے، جس سے انہیں معاشی فوائد اور سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ مل سکے۔ اس کے علاوہ، میتی پہاڑی علاقوں میں بھی زمین خریدنے کے اہل ہو جائیں، جن پر زیادہ تر کوکی قبائل کا قبضہ ہے۔ عدالت کی سفارش کی منی پور کی تمام قبائلی برادریوں نے مخالفت کی، جنہیں لگا کہ زمین پر ان کے حق کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

Farmers and residents of Ngahmun village slashing the poppy plantations after joining Chief Minister Biren Singh’s War on Drugs campaign in 2020
PHOTO • Kaybie Chongloi

ناہمُن گاؤں کے کسان اور رہائشی ۲۰۲۰ میں وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کی منشیات مخالف جنگ کی مہم میں شامل ہونے کے بعد پوست کی فصلیں کاٹ رہے ہیں

اس کی وجہ سے پوری ریاست میں پرتشدد حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، جن میں وحشیانہ قتل، سر قلم کرنے کی وارداتیں، اجتماعی عصمت دری، اور آتش زنی جیسے واقعات شامل تھے۔

پاری کے گاؤں کا دورہ کرنے سے دو ماہ قبل ایک ہولناک واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں میتی مردوں کے ایک ہجوم نے کانگپوکپی کے بی پھائینوم گاؤں کی دو خواتین کا برہنہ پریڈ کرایا تھا۔ یہ واقعہ مئی کے اوائل میں بی پھائینوم پر ہوئے حملے کے دوران پیش آیا تھا، جس میں اس گاؤں کو زمین دوز کر دیا گیا تھا۔ ویڈیو شوٹ کرنے کے بعد ان کے مرد رشتہ داروں کو قتل کر دیا گیا اور مبینہ طور پر دھان کے کھیتوں میں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔

اب تک، ایک اندازے کے مطابق اس تنازع میں ۲۰۰ افراد مارے جا چکے ہیں (اور ابھی شمار جاری ہے)، اور ۷۰ ہزار سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر اقلیتی کوکی ہیں۔ انہوں نے ریاست اور پولیس پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ اس خانہ جنگی میں میتی کے عسکریت پسندوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس خونیں خانہ جنگی کے مرکز میں پوست کی کاشت ہے۔ آئی آئی ٹی کے پروفیسر کپگین کہتے ہیں، ’’سیاست دان اور نوکرشاہ اس کڑی میں سب سے اوپر ہیں، اسی طرح دلال بھی ہیں جو کسانوں سے فصل خریدتے ہیں اور اچھا منافع حاصل کرتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ پوست کے کھیتوں کی تباہی اور بڑے پیمانے پر ضبطی اور گرفتاریوں کے باوجود، بڑی مچھلیاں قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ کِپگین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کو پوست کی تجارت سے ہونے والے منافع میں بہت کم حصہ ملا ہے۔

وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ نے ریاست میں تصادم کی ذمہ داری کوکی-زو قبیلے کے غریب پوست کاشتکاروں پر عائد کی ہے، جنہیں ان کے مطابق کوکی-زو مسلح گروپوں جیسے کوکی نیشنل فرنٹ (کے این ایف) کی حمایت حاصل ہے، جو میانمار کے ساتھ سرحد پار منشیات کی تجارت میں ملوث ہے۔ ریاستی حکومت پہاڑیوں میں پوست کی کاشت کو تحفظ شدہ جنگلات کی بے تحاشہ تباہی اور میتی کے زیر اثر وادی میں شدید ماحولیاتی بحران کے لیے ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔

کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پوست کی کاشت کا سلسلہ درختوں کو کاٹ کر اور کچھ جنگل کے حصوں کو جلا کر زمین کے بڑے رقبے کو صاف کرنے سے شروع ہوتا ہے، اس کے بعد کیڑے مار ادویات، وٹامنز اور یوریا کا استعمال ہوتا ہے۔ سال ۲۰۲۱ میں شائع ہونے والے اس مقالہ میں کہا گیا ہے کہ ضلع چوراچند پور میں کھیتی کے لیے نئے صاف کیے گئے مقامات سے ملحق گاؤں میں ندیوں کے خشک ہونے اور گاؤوں کے بچوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم، پروفیسر کپگین نے کہا ہے کہ منی پور میں پوست کی کاشت کے ماحولیاتی اثرات پر وافر سائنسی تحقیق کا فقدان ہے۔

Paolal harvesting peas in his field. The 30 farming households in Ngahmun Gunphaijang, like Paolal’s, were forced to give up poppy cultivation and grow vegetables and fruits like peas, cabbage, potatoes and bananas instead, getting a fraction of their earlier earnings
PHOTO • Makepeace Sitlhou

پاؤلال اپنے کھیت میں مٹر توڑ رہے ہیں۔ ناہمُن گُنفائیجانگ میں پاؤلال جیسے ۳۰ کاشتکار کنبوں کو پوست کی کاشت چھوڑ کر سبزیاں اور پھل، جیسے مٹر، بند گوبھی، آلو اور کیلے اگانے پر مجبور کیا گیا ہے، جن سے انہیں اپنی پہلے کی کمائی کا ایک معمولی حصہ ہی مل پاتا ہے

منشیات اور جرائم پر اقوام متحدہ کے دفتر (ایو این او سی ڈی) کی پڑوسی ملک میانمار میں افیون کی پوست کی کاشت سے متعلق رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پوست کاشت کرنے والے گاؤوں میں جنگلات کا معیار غیر پوست والے گاؤوں کی نسبت زیادہ تیزی سے گر رہا ہے۔ بہرحال، ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۸ کے درمیان پوست اور غیر پوست والی دونوں زمینوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پیداوار میں تخفیف کی صورت میں نمایاں ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پوست کی کاشت کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

کسان پاؤلال اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر پوست نے زمین کو متاثر کیا ہوتا تو ہم یہاں اس سبزی کی کاشت نہیں کر رہے ہوتے۔‘‘ ناہمُن کے دیگر کسانوں کا کہنا ہے کہ پہلے اپنی زمین پر افیون کاشت کرنے کے باوجود انہیں پھل یا سبزیاں اگانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔

*****

کسانوں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ انہیں پوست سے ملنے والی زیادہ آمدنی کا متبادل فراہم کرنے میں ریاست کی ناکامی کا ہے۔ سبھی گاؤں والوں میں آلو کے بیج تقسیم کرنے کے سردار کے دعوے کے باوجود، پاؤلال جیسے سابق پوست کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ’’میں بازار سے بمشکل ۱۰۰ روپے کے بیجوں کا ایک پیکٹ خریدنے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح میں نے اَنکام [سبزیاں] اگائیں،‘‘ انہوں نے پاری کو بتایا۔

ناہمُن کے حکومتی اقدام میں شمولیت کے ایک سال بعد ناگا اکثریتی اکھرول ضلع میں تانگکھل کی پیہہ گاؤں کی کونسل نے بھی پہاڑیوں میں پوست کے پودوں کو تباہ کر دیا۔ جہاں سال ۲۰۲۱ میں وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر ۱۰ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا، وہیں باغبانی اور مٹی کے تحفظ کا محکمہ، منی پور آرگینک مشن ایجنسی کے ساتھ مل کر مستفید ہونے والوں کی شناخت کرنے اور کیوی اور سیب کے باغات جیسے متبادل ذریعہ معاش فراہم کرنے کے لیے بھی کونسل کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

انعام کے علاوہ، پیہہ کے ولیج چیئرمین مون شمرہ نے پاری کو بتایا کہ گاؤں کو ۳ء۲۰ لاکھ روپے نقد کی اضافی گرانٹ موصول ہوئی ہے، جو مشینری اور دیگر ساز و سامان، کھاد کے ۸۰ تھیلوں، پلاسٹک کی پیکجنگ، اور سیب، ادرک اور کینووا کے پودوں کے علاوہ ہے۔ شمرہ نے کہا، ’’دراصل صرف ایک کنبے نے پوست کی کاشت شروع کی تھی، جس میں  ویلج کونسل نے مداخلت کی اور اس کے لیے حکومت نے ہمیں انعام سے نوازا۔‘‘ سرکاری گرانٹ سے گاؤں کے تمام ۷۰۳ کنبوں  کو فائدہ پہنچے گا، جو ضلع صدر مقام اکھرول سے ۳۴ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جہاں شکرقند، لیموں، سنترہ، سویا بین، باجرہ، مکئی اور دھان اگائے جاتے ہیں۔

’’تاہم، ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ان نئی فصلوں کی کاشت سے متعلق مناسب تربیت فراہم کی جائے اور اس منصوبے کی کامیابی کے لیے نزدیک سے نگرانی کی جائے۔ باغات کی چہار دیواری کے لیے ہمیں خاردار تاروں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے مویشی آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں اور وہ فصلوں کو تباہ کر سکتے ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا۔

ناہمُن کے قائم مقام سردار، کپگین نے پاری کو بتایا کہ اگرچہ ان کے گاؤں کو ریاستی یونیورسٹی کے تحقیقی مقاصد اور ایم ایل اے کی جانب سے ذریعہ معاش کے متبادل جیسے پولٹری اور سبزیوں کے بیجوں کے لیے یک مشت مدد ملی ہے، لیکن حکومتی پہل یکساں نہیں رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم پہاڑیوں کے پہلے قبائلی گاؤں تھے جنہوں نے ’منشیات مخالف جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حکومت صرف کچھ قبائلی برادریوں کو نواز رہی ہے، جبکہ دوسروں کو نظر انداز کر رہی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Left: Samson Kipgen, the acting village chief,  says that switching from poppy cultivation has 'strangled' the farmers.
PHOTO • Makepeace Sitlhou
Right: Samson walks through a patch of the hill where vegetables like bananas, peas, potatoes and cabbages are grown
PHOTO • Makepeace Sitlhou

بائیں: گاؤں کے قائم مقام سربراہ سیمسن کِپگین کہتے ہیں کہ پوست کی کاشت سے علاحدگی نے کسانوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ دائیں: سیمسن پہاڑی کے ایک حصے سے گزر رہے ہیں جہاں کیلے، مٹر، آلو اور گوبھی جیسی سبزیاں اگائی جاتی ہیں

بہرحال، ریاستی حکومت کے ذرائع اس کا الزام روزی روٹی کے ناکافی متبادل کی بجائے خود اس ماڈل کے سر منڈھتے ہیں۔ ’’پہاڑی قبائلی کسانوں نے بیج اور پولٹری جمع کی ہے لیکن یہ زیادہ تر گزارے کی کھیتی کے لیے ہے،‘‘ یہ کہنا ہے منی پور حکومت کے ایک سورس کا، جو ناگا اور کوکی-زو کے غلبہ والے پہاڑی اضلاع  میں پوست کے کاشتکاروں کے لیے روزی روٹی کے اقدامات کی نگرانی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سبزیاں اگانے یا مرغیاں پالنے سے ملنے والی آمدنی کبھی بھی پوست سے کسانوں کی ہونے والی کمائی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ایک اندازہ کے مطابق پوست سے سالانہ ۱۵ لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی تھی، جبکہ سبزیوں اور پھلوں سے بمشکل ایک لاکھ روپے سالانہ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ آمدنی کے ناقص متبادل فراہم کرنے سے پوست کی کاشت ختم نہیں ہوگی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سرکاری ملازم نے کہا، ’’منشیات مخالف جنگ کی مہم پہاڑیوں میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہ صرف دکھاوا ہے۔‘‘

پوست کی کاشت کا زبردستی خاتمہ اس وقت تک بے معنی رہے گا جب تک کہ اس کو پائیدار متبادل ذریعہ معاش اور منریگا جیسے وسیع البنیاد ترقیاتی اقدامات سے نہیں بدل دیا جاتا۔ پروفیسر کپگین کا کہنا ہے کہ ایسا نہ کرنے سے ’’سماجی تناؤ بڑھے گا، اور مقامی حکومت اور کسان برادریوں کے درمیان مخاصمت بھی پیدا ہوگی۔‘‘

یو این او سی ڈی کی رپورٹ نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’پوست کی کاشت روکنے کے بعد کسانوں کو اپنی آمدنی کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد کرنے والے مواقع، پوست کی کاشت کے خاتمے کی کوششوں کو پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہیں۔‘‘

نسلی تنازعہ نے پہاڑی قبائلی کسانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ وہ اب وادی میں تجارت بھی نہیں کر سکتے۔

’’پوست کی [سالانہ] کاشت سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ہم کان سے ریت نکال کو میتیوں کو فروخت کرتے تھے اور اضافی آمدنی حاصل کرتے تھے۔ اب وہ آمدنی بھی ختم ہو گئی ہے،‘‘ ڈیمزا کہتے ہیں۔ ’’اگر یہ [تصادم] جاری رہا تو ایک وقت آئے گا جب ہم اپنے بچوں کو نہ تو اسکول بھیج پائیں گے اور نہ ہی روزی روٹی ہی حاصل کرسکیں گے۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Makepeace Sitlhou

ਮੇਕਪੀਸ ਸਿਟਲਹੋ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ ਜੋ ਮਨੁੱਖੀ ਅਧਿਕਾਰਾਂ, ਸਮਾਜਿਕ ਮੁੱਦਿਆਂ, ਸ਼ਾਸਨ ਅਤੇ ਰਾਜਨੀਤੀ 'ਤੇ ਰਿਪੋਰਟਿੰਗ ਕਰਦੇ ਹਨ।

Other stories by Makepeace Sitlhou
Editor : PARI Desk

ਪਾਰੀ ਡੈਸਕ ਸਾਡੇ (ਪਾਰੀ ਦੇ) ਸੰਪਾਦਕੀ ਕੰਮ ਦਾ ਧੁਰਾ ਹੈ। ਸਾਡੀ ਟੀਮ ਦੇਸ਼ ਭਰ ਵਿੱਚ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰਾਂ, ਖ਼ੋਜਕਰਤਾਵਾਂ, ਫ਼ੋਟੋਗ੍ਰਾਫਰਾਂ, ਫ਼ਿਲਮ ਨਿਰਮਾਤਾਵਾਂ ਅਤੇ ਅਨੁਵਾਦਕਾਂ ਨਾਲ਼ ਮਿਲ਼ ਕੇ ਕੰਮ ਕਰਦੀ ਹੈ। ਡੈਸਕ ਪਾਰੀ ਦੁਆਰਾ ਪ੍ਰਕਾਸ਼ਤ ਟੈਕਸਟ, ਵੀਡੀਓ, ਆਡੀਓ ਅਤੇ ਖ਼ੋਜ ਰਿਪੋਰਟਾਂ ਦੇ ਉਤਪਾਦਨ ਅਤੇ ਪ੍ਰਕਾਸ਼ਨ ਦਾ ਸਮਰਥਨ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹੈ ਤੇ ਅਤੇ ਪ੍ਰਬੰਧਨ ਵੀ।

Other stories by PARI Desk
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam