دن کا سورج غروب ہونے لگا ہے اور نول گہوان گاؤں کے نوجوان اور عمر دراز لوگ اسکول کے کھیل کے میدان کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ وہاں پہنچ کر وہ میدان کو صاف کرتے ہیں، ڈھیلا پتھر اور کوڑا کچرا ہٹاتے ہیں، چونے سے لائن کھینچتے ہیں اور روشنی کے لیے لائٹ چیک کرتے ہیں۔

آٹھ سے ۱۶ سال کی عمر کے بچے جلد ہی نیلی جرسی میں تیار نظر آنے لگتے ہیں، اور سات سات کھلاڑیوں کی ٹیم میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

کبڈی! کبڈی! کبڈی!

کھیل شروع ہو جاتا ہے اور ڈھلتی شام اور دبے پاؤں آتی رات کے پہر، مراٹھواڑہ کے ہنگولی ضلع میں اس زوردار کھیل کے کھلاڑیوں کی تیز چیخیں ہواؤں میں تیرتی ہیں، اور ان کے اہل خانہ اور دوست انہیں دیکھتے ہیں۔

اپنی سانس روک کر، ایک کھلاڑی مخالف ٹیم کے حصے میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ٹیم کی طرف لوٹنے سے پہلے جتنا ممکن ہو اتنے کھلاڑیوں کو چھونے اور کھیل سے آؤٹ (باہر) کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک وہ اپنے حصے میں واپس نہیں آ جاتا، تب تک ’کبڈی، کبڈی‘ بولنا نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر اسے مخالف ٹیم کے ذریعہ پکڑ لیا جاتا ہے، تو وہ کھیل سے باہر ہو جاتا ہے۔

کبڈی، کبڈی

نول گہوان کے زیادہ تر کھلاڑی مراٹھا برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور عام گھروں سے آتے ہیں۔ ان کے گھر کا گزارہ کھیتی باڑی سے چلتا ہے

ہر کسی کی نظر دو سرکردہ کھلاڑیوں، شبھم کورڈے اور کانبا کورڈے پر ہے۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑی بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ مجمع میں موجود ایک آدمی ہم سے کہتا ہے، ’’یہ ایسے کھیلتے ہیں جیسے کبڈی ان کی رگوں میں دوڑتا ہو۔‘‘

شبھم اور کانبا نے اپنی ٹیم کے لیے یہ مقابلہ جیت لیا ہے۔ ہر کوئی ایک جگہ جمع ہو جاتا ہے۔ کھیل پر بہت باریکی سے بحث ہوتی ہے اور اگلے دن کا منصوبہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، کھلاڑی گھر لوٹ جاتے ہیں۔

مہاراشٹر کے نول گہوان گاؤں کا یہی معمول ہے۔ ماروتی راؤ کورڈے کہتے ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں کبڈی کھیلنے کی کافی طویل روایت رہی ہے۔ کئی نسلوں سے اس کھیل کو کھیلا جا رہا ہے اور آج بھی آپ کو ہر گھر میں کبڈی کا کم از کم ایک کھلاڑی مل جائے گا۔‘‘ ماروتی اس گاؤں کے سرپنچ ہیں۔ ’’ایک دن نول گہوان کے بچے بڑے مقابلوں میں کھیلیں گے۔ یہی ہمارا خواب ہے۔‘‘

برصغیر ہند میں کبڈی صدیوں سے کھیلی جاتی رہی ہے۔ سال ۱۹۱۸ میں اس کھیل کو قومی کھیل کا درجہ ملا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر، سال ۱۹۳۶ میں ہوئے برلن اولمپک میں اسے پہلی بار کھیلا گیا تھا۔ سال ۲۰۱۴ میں پرو کبڈی لیگ کی شروعات سے اس کھیل کو نئی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

اس گاؤں کے کھلاڑی عام گھروں سے ہیں۔ کچھ خاندانوں کو چھوڑ کر، یہاں کے زیادہ تر لوگ مراٹھی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور گزر بسر کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اس علاقہ میں پتھریلی زمینوں کے علاوہ، لال لیٹرائٹ مٹی پائی جاتی ہے۔

PHOTO • Pooja Yeola
PHOTO • Pooja Yeola

بائیں: شبھم اور کانبا کورڈے نے سال ۲۰۲۴ میں ہوئے ماترتو سمّان کبڈی ٹورنامنٹ میں بہترین کھلاڑیوں کو دیا جانے والا پہلا اور دوسرا انعام جیتا تھا۔ دائیں: نول گہوان کے کبڈی کھلاڑیوں کے ذریعہ حاصل کی گئی ٹرافیاں اور انعام

PHOTO • Nikhil Borude
PHOTO • Pooja Yeola

بائیں: برصغیر ہند میں کبڈی صدیوں سے کھیلی جاتی رہی ہے۔ سال ۲۰۱۴ میں شروع ہوئی پرو کبڈی لیگ نے اس کھیل کو دوبارہ مقبول بنانے میں مدد کی ہے۔ دائیں: مشق کے بعد کھیل پر بحث کرتے کھلاڑی

شبھم بھی کسان خاندان سے ہیں۔ وہ چھ سال کی عمر سے کبڈی کھیل رہا ہے۔ ’’میرے گاؤں میں اس کھیل کا ماحول کافی اچھا ہے۔ میں یہاں روز آتا ہوں اور کم از کم آدھے گھنٹے مشق کرتا ہوں،‘‘ ۱۲ سال کا شبھم کہتا ہے، جو فی الحال ۶ویں جماعت کا طالب علم ہے۔ ’’میں پُنیری پلٹن [پرو کبڈی لیگ کی ایک ٹیم] کا بہت بڑا فین ہوں، اور مستقبل میں ان کے لیے کھیلنے کی امید کرتا ہوں۔‘‘

شبھم اور کانبا قریب کے بھانڈے گاؤں میں سکھدیوانند ہائی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ کانبا ۱۰ویں جماعت کا طالب علم ہے۔ ان دونوں کے علاوہ، ویدانت کورڈے اور آکاش کورڈے بھی یہاں کے دو ہونہار ریڈر (کبڈی کبڈی بولتے ہوئے مخالف ٹیم کے حصے میں جانے والا کھلاڑی) ہیں، اور ایک بار میں ۵-۴ کھلاڑیوں کو کھیل سے باہر کرنے کا مادّہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بیک کِک، سائڈ کک اور سِنہاچی اُڑی [جب آپ کود کر خود کو چھڑاتے ہیں] میں ہمیں سب سے زیادہ مزہ آتا ہے۔‘‘ یہ تمام لڑکے اس کھیل کے ہرفن مولا کھلاڑی ہیں۔

نول گہوان میں، وزن کی بنیاد پر ٹیمیں بنائی جاتی ہیں – انڈر۔۳۰ کلو (تیس کلو سے کم وزن کے کھلاڑیوں کی ٹیم)، انڈر۔۵۰ (پچاس کلو سے کم وزن کے کھلاڑیوں کی ٹیم)، اور اوپن گروپ (اس میں کوئی بھی کھیل سکتا ہے)۔

کیلاش کورڈے اوپن گروپ کے کپتان ہیں۔ کیلاش (۲۶) کہتے ہیں، ’’ہم نے کئی ٹرافیاں جیتی ہیں۔‘‘ ان کی ٹیم نے ۲۰۲۴ میں ماترتو سمّان کبڈی ٹورنامنٹ، ۲۰۲۲ اور پھر ۲۰۲۳ میں وسندھرا فاؤنڈیشن کبڈی چشک مقابلہ میں جیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے سکھدیوانند کبڈی کریڑا منڈل کے ذریعہ منعقدہ ریاستی سطح کے ٹورنامنٹ بھی جیتے ہیں۔

’’۲۶ جنوری کو، یوم جمہوریہ کے موقع پر منعقد ہونے والا میچ کافی بڑا مقابلہ مانا جاتا ہے۔ لوگ ہمیں دیکھنے آتے ہیں – پڑوسی گاؤوں کی ٹیمیں مقابلے میں حصہ لینے آتی ہیں۔ ہمیں ایوارڈ اور نقد انعام بھی ملتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ایسے اور بھی مقابلے منعقد کیے جانے چاہئیں۔ فی الحال پورے سال صرف دو یا تین مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ کیلاش کے مطابق، نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یہ مقابلے کافی اہمیت رکھتے ہیں۔

PHOTO • Pooja Yeola
PHOTO • Pooja Yeola

بائیں: کیلاش کورڈے، نول گہوان میں کبڈی کھیلنے والے نوجوان لڑکوں کے گروپ کے کپتان ہیں اور انہیں ٹریننگ دیتے ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے پونے میں منعقد ۱۰ روزہ ٹریننگ سیشن میں حصہ لیا تھا۔ دائیں: نارائن چوہان نوجوان لڑکوں کو ٹریننگ دیتے ہیں اور پولیس بھرتی امتحانات کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کبڈی نے انہیں جسمانی طور پر مضبوط بنانے میں مدد کی ہے

کیلاش پولیس بھرتی امتحان کی تیار کر رہے ہیں۔ وہ ہر صبح ۱۳ کلومیٹر کا سفر کر کے ہنگولی جاتے ہیں اور ایک اسٹڈی روم (مطالعہ کرنے کا کمرہ) میں دو گھنٹے پڑھائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد، وہ میدان میں جاتے ہیں اور ورزش اور جسمانی ٹریننگ مکمل کرتے ہیں۔ کھیل، ورزش اور تعلیم کے تئیں ان کے عزم نے یہاں کے کئی نوجوانوں کو حوصلہ بخشا ہے۔

نارائن چوہان کہتے ہیں، ’’کبڈی نے نول گہوان اور ارد گرد کے ساٹمبا، بھانڈے گاؤں اور اِنچا جیسے گاؤوں کے تمام نوجوانوں کو کریئر بنانے میں مدد کی ہے۔‘‘ کیلاش کی طرح ہی ۲۱ سالہ نارائن بھی پولیس بھرتی امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں اور کبڈی ان کی جسمانی ٹریننگ اور طاقت کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ ’’ہمیں کبڈی بہت پسند ہے۔ ہم بچے تھے، تب سے اسے کھیل رہے ہیں۔‘‘

ہنگولی کے کئی چھوٹے قصبوں میں الگ الگ عمر کے لوگوں کے لیے سالانہ کبڈی کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان کا اہتمام شریپت راؤ کاٹکر فاؤنڈیشن کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور اسے ’ماترتو سمّان کبڈی پرتیوگتا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کاٹکر فاؤنڈیشن کے بانی سنجے کاٹکر کبڈی کے کھلاڑیوں کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ، ان پروگراموں کا بھی انعقاد کرتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کا مقصد دیہی برادریوں کے درمیان کام کرنا ہے، تاکہ مقامی تجارت اور کاروبار کو فروغ حاصل ہو اور آگے چل کر مہاجرت کے مسئلہ کو حل کیا جا سکے۔ فاؤنڈیشن کو ہنگولی ضلع کے تمام تعلقہ میں کبڈی ٹورنامنٹ منعقد کرانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

سال ۲۰۲۳ میں، وجے کورڈے اور کیلاش کورڈے نے پونے میں منعقد ایک ۱۰ روزہ ٹریننگ کیمپ میں حصہ لیا تھا۔ آج وہ نول گہوان میں بچوں اور نوجوانوں کو ٹریننگ دیتے ہیں۔ وجے کہتے ہیں، ’’بچپن سے ہی مجھے یہ کھیل کافی پسند رہا ہے اور میں اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ گاؤں کے نوجوان اچھی طرح ٹریننگ حاصل کریں اور اچھا کھیلیں۔‘‘

PHOTO • Pooja Yeola
PHOTO • Pooja Yeola

بائیں: نول گہوان میں واقع ضلع پریشد اسکول کا میدان، جہاں ہر شام نوجوان اور عمر دراز لوگ آتے ہیں۔ دائیں: نیلی جرسی میں کھیلنے کو تیار لڑکے!

ان کا ماننا ہے کہ یہاں کے بچوں میں کافی امکانات ہیں اور وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیل سکتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس ہر موسم میں کھیلنے لائق میدان جیسی اچھی سہولیات کی کمی ہے۔ وجے کہتے ہیں، ’’بارش ہونے پر ہم پریکٹس نہیں کر پاتے۔‘‘

ویدانت اور نارائن بھی اپنے مسائل ہمارے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس گراؤنڈ [میدان] نہیں ہے۔ بقیہ کھلاڑیوں کی طرح اگر ہم بھی میٹ (چٹائی) پر ٹریننگ کر سکیں، تو یقینی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔‘‘

حالانکہ، نول گہوان میں کبڈی کی اس پھلتی پھولتی روایت میں لڑکیوں کو مناسب جگہ حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اسکولی سطح پر گاؤں کے بہت سے لوگ کبڈی کھیلتے ہیں، لیکن ان کے پاس نہ تو کوئی سہولت ہے اور نہ ہی انہیں کوئی ٹریننگ دینے والا ہے۔

*****

کبڈی جیسے میدانی کھیل کے اپنے کچھ چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ اس بات کو پون کورڈے سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

پچھلے سال ہولی کے دوران نول گہوان میں کبڈی کے میچ ہوئے۔ کھیل دیکھنے کے لیے پورا گاؤں اکٹھا ہوا تھا۔ پون کورڈے انڈر۔۵۰ کلو گروپ میں کھیل رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں مخالف ٹیم کے حصے میں داخل ہوا اور کچھ کھلاڑیوں کو کھیل سے آؤٹ کردیا۔ پھر میں اپنے حصے میں لوٹ ہی رہا تھا کہ اچانک میرا توازن بگڑ گیا اور میں پیٹھ کے بل گر گیا۔‘‘ پون کو گہری چوٹ آئی تھی۔

PHOTO • Pooja Yeola
PHOTO • Pooja Yeola

بائیں: ایک میچ کے دوران کبڈی کھلاڑی پون کورڈے کی پیٹھ میں گہری چوٹ آ گئی تھی۔ تقریباً چھ مہینے کے بعد وہ آخرکار آہستہ آہستہ چلنے اور دوڑنے کے لائق ہو پائے ہیں۔ دائیں: گزر بسر میں مشکل آنے کے سبب، وکاس کورڈے نے کھیلنا بند کردیا اور سیکنڈ ہینڈ ٹیمپو خریدا، تاکہ اپنے گاؤں سے زرعی پیداوار کو ہنگولی میں بازار تک پہنچانے کا کام کر سکیں

انہیں فوراً ہنگولی لے جایا گیا۔ لیکن انہیں سرجری کی ضرورت تھی، اس لیے ناندیڑ کے ایک اسپتال میں ریفر کر دیا گیا۔ ان کی سرجری کامیاب رہی، لیکن ڈاکٹروں نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ پہلے کی طرح کبڈی نہیں کھیل پائیں گے۔

وہ بتاتے ہیں، ’’جب ہم نے یہ سنا، تو بہت غمزدہ اور پریشان ہو گئے تھے۔‘‘ لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ سرجری کے زخم سے ٹھیک ہونے کے بعد انہوں نے ٹریننگ شروع کی، اور تقریباً چھ مہینے کے بعد چلنا اور دوڑنا شروع کر دیا۔ ان کے والد کہتے ہیں، ’’وہ پولیس میں بھرتی ہونا چاہتا ہے۔‘‘

ان کے علاج کا پورا خرچ کاٹکر فاؤنڈیشن نے اٹھایا تھا۔

نول گہوان کو کبڈی کی اپنی روایت پر کافی فخر ہے، لیکن ہر کوئی اسے نہیں کھیل سکتا۔ وکاس کورڈے کو کبڈی چھوڑنی پڑی کیوں کہ اپنے گزارہ کے لیے انہیں کمانے کی ضرورت تھی۔ وکاس (۲۲) کہتے ہیں، ’’مجھے کبڈی کھیلنا پسند تھا، لیکن گھر میں مالی مسائل تھے۔ کھیتی کا کام کرنے کے لیے مجھے کھیل کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چھوڑنی پڑی۔‘‘ وکاس نے پچھلے سال ایک ٹیمپو خریدا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اپنے گاؤں سے زرعی پیداوار [ہلدی، سویابین اور دیگر تازہ پیداوار] کو ہنگولی پہنچاتا ہوں اور کچھ پیسے کما لیتا ہوں۔‘‘

حالانکہ، نول گہوان کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کا گاؤں ’کبڈیچ گاؤں‘ کے طور پر جانا جائے، یعنی ایک ایسا گاؤں جس کی پہچان کبڈی کے کھیل سے ہے۔ اور یہاں کے نوجوانوں کے لیے، ’’کبڈی ہی آخری منزل ہے۔‘‘

مترجم: قمر صدیقی

Student Reporter : Pooja Yeola

ਪੂਜਾ ਯੇਓਲਾ ਮਹਾਰਾਸ਼ਟਰ ਦੇ ਛਤਰਪਤੀ ਸੰਭਾਜੀਨਗਰ ਵਿੱਚ ਪੱਤਰਕਾਰੀ ਦੀ ਵਿਦਿਆਰਥਣ ਹੈ।

Other stories by Pooja Yeola
Editor : Medha Kale

ਮੇਧਾ ਕਾਲੇ ਪੂਨਾ ਅਧਾਰਤ ਹਨ ਅਤੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਔਰਤਾਂ ਅਤੇ ਸਿਹਤ ਸਬੰਧੀ ਖੇਤਰਾਂ ਵਿੱਚ ਕੰਮ ਕੀਤਾ ਹੈ। ਉਹ ਪਾਰੀ (PARI) ਲਈ ਇੱਕ ਤਰਜ਼ਮਾਕਾਰ ਵੀ ਹਨ।

Other stories by Medha Kale
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique