ہریشور داس کہتے ہیں، ’’جب پانی چڑھتا ہے، تو ہماری روح کانپنے لگتی ہے۔ آسام کے بگری باری کے اس باشندہ کے مطابق، مانسون کے مہینوں میں گاؤں والوں کو ہمیشہ محتاط رہنا ہوتا ہے، کیوں کہ پاس کی پُٹھی ماری ندی میں آبی سطح بڑھنے سے ان کے گھر اور فصلیں تباہ ہو سکتی ہیں۔
ان کی بیوی سابتری داس بتاتی ہیں، ’’ہمیں اپنے کپڑے باندھنے ہوتے ہیں اور بارش ہونے پر تیار رہنا پڑتا ہے۔ پچھلی بار سیلاب نے دونوں کچے مکان تباہ کر دیے تھے۔ بانس اور مٹی کی دیواریں پھر سے کھڑی کی گئی تھیں۔‘‘
نیردا داس کہتی ہیں، ’’میں نے [اب ٹوٹے پھوٹے] ٹی وی کو بورے میں ڈالا اور چھت پر رکھ دیا۔‘‘ پہلا والا ٹی وی سیٹ بھی پچھلے سیلاب میں خراب ہو گیا تھا۔
گزشتہ ۱۶ جون ۲۰۲۳ کی رات لگاتار بارش ہوتی رہی تھی۔ لوگوں نے بند (باندھ) کے ایک حصے کی مرمت کے لیے ریت کی بوریاں لگائی تھیں، جو پچھلے سال ڈھے گیا تھا۔ دو دن گزرنے پر بھی بارش نے رکنے کا نام نہیں لیا۔ بگری باری اور اس کے پڑوسی گاؤں دھیپار گاؤں، مادو اِکٹا، نیز کاؤرباہا، کھنڈیکر، بیہا پارا اور لاہا پارا میں تمام لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں بند کا سب سے کمزور حصہ پھر سے نہ ٹوٹ جائے۔
خوش قسمتی سے چار دن بعد بارش ہلکی ہوئی اور پانی بھی کم ہو گیا۔
مقامی ٹیچر ہریشور داس بتاتے ہیں، ’’جب بند ٹوٹتا ہے تو لگتا ہے جیسے پانی کا بم پھوٹا ہو۔ وہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کر دیتا ہے۔‘‘ اب ریٹائر ہو چکے ۸۵ سال کے ہریشور، کے بی دیئول کوچی ہائی سیکنڈری اسکول میں آسامی زبان پڑھایا کرتے تھے۔
ان کا پختہ ماننا ہے کہ ۱۹۶۵ میں بنائے گئے بند نے درحقیقت فائدے سے زیادہ نقصان ہی پہنچایا ہے اور ’’فصلوں والی زمینیں بچنے کی بجائے ڈوب گئیں۔‘‘
پُٹھی ماری ندی کے کنارے واقع بگری باری، برہم پتر ندی سے ۵۰ کلومیٹر دور ہے جس میں ہر سال سیلاب آتا ہے۔ مانسون کے مہینوں میں آبی سطح بڑھنے کے خوف سے گاؤں والوں کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ یہاں باکسا ضلع میں گاؤں کے نوجوان، جولائی اور اگست کے دوران پوری رات جاگ کر بند کے پانی پر نظر رکھتے ہیں۔ ہریشور مزید کہتے ہیں، ’’ہم سال میں پانچ مہینے سیلاب سے لڑنے یا سیلاب کے خوف کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘
گاؤں کی باشندہ یوگ مایا داس بتاتی ہیں، ’’کئی دہائیوں سے تقریباً ہر دوسرے مانسون میں بند ایک ہی جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔‘‘
شاید یہی وجہ ہے کہ اتل داس کے بیٹے ہیرک جیوتی حال ہی میں آسام پولیس کی غیر مسلح شاخ میں سپاہی بنے ہیں۔ بند بنانے اور مرمت سے ان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’بند سُنور کونی پورا ہاہ [سونے کا انڈا دینے والی بطخ] جیسا ہے۔ ہر بار اس کے ٹوٹنے پر پارٹیاں اور تنظیمیں آتی ہیں۔ ٹھیکہ دار بند کی تعمیر کرتا ہے، لیکن سیلاب میں وہ پھر ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ ہیرک جیوتی (۵۳ سالہ) کے مطابق، جب علاقے کے نوجوان اچھی مرمت کرنے کے لیے کہتے ہیں، تو ’’پولیس انہیں دھمکی دیتی ہے اور خاموش رہنے کو مجبور کرتی ہے۔‘‘
بگری باری کے کھیت، سڑکیں اور گھر لوگوں کا درد بیان کرتے ہیں۔ ایسا نہیں لگتا کہ جلد ہی اس سے نجات مل پائے گی۔ پُٹھی ماری ندی کے ہائیڈوگرافک سروے پر اِن لینڈ واٹر ویز اتھارٹی آف انڈیا کی ۲۰۱۵ کی رپورٹ میں نتیجہ نکلا کہ ’’لگتا ہے کہ بند کی تعمیر اور مرمت کرنا مستقل معاملہ ہے۔‘‘
*****
سال ۲۰۲۲ میں یوگ مایا داس اور ان کے شوہر شمبھو رام کو ان کے گھر میں پانی بھر جانے پر آٹھ گھنٹے سے زیادہ وقت تک اپنی کھڑکیوں سے چپکے رہنا پڑا تھا۔ اُس رات جب پانی ان کی گردن تک پہنچا، تو میاں بیوی کچا گھر چھوڑ کر بغل میں پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے تحت بن رہے اپنے نئے گھر میں چلے گئے تھے۔ اس پکے گھر میں بھی پانی بھر گیا اور تب کھڑکیاں ہی ان کے بچنے کی آخری امید تھیں۔
یوگ مایا کہتی ہیں، ’’یہ برا خواب تھا۔‘‘ اُس اندھیری رات کا سایہ ابھی بھی ان کے چہرے پر دکھائی دے جاتا ہے۔
اپنے سیلاب سے تباہ گھر کے دروازے پر کھڑی تقریباً ۴۰ سال کی یوگ مایا ۱۶ جون، ۲۰۲۲ کی رات کے اپنے تجربات کو یاد کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے آدمی [شوہر] نے مجھے بار بار یقین دلایا تھا کہ پانی کم ہو جائے گا، بند نہیں ٹوٹے گا۔ میں ڈری ہوئی تھی، مگر میں سو گئی۔ اچانک میں کیڑے کے کاٹنے سے چونک کر اٹھی اور دیکھا کہ بستر تو تقریباً تیر رہا تھا۔‘‘
گاؤں کے زیادہ تر دوسرے باشندوں کی طرح کوچ راج بنشی برادری سے تعلق رکھنے والا یہ جوڑا برہم پتر کی معاون ندی، پُٹھی ماری کے شمالی ساحل سے تقریباً ۲۰۰ میٹر دور رہتا ہے۔
یوگ مایا آپ بیتی سناتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں اندھیرے میں کچھ نہیں دیکھ پائی۔ ہم کسی طرح کھڑکی تک پہنچے۔ پہلے بھی سیلاب آیا ہے، لیکن میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا پانی پہلے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے اپنے ارد گرد کیڑے اور سانپ منڈلاتے محسوس ہو رہے تھے۔ میں اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی اور جتنا ہو سکے کھڑکی کے فریم کو مضبوطی سے پکڑے ہوئی تھی۔‘‘ راحت اور بچاؤ دستہ کے آنے کے بعد انہیں صبح ۱۱ بجے جا کر اُس مشکل امتحان سے راحت ملی جو رات میں پونے تین بجے شروع ہوا تھا۔
’پُٹھی ماری ندی پر بنا بند کئی دہائیوں سے تقریباً ہر دوسرے مانسون میں ایک ہی جگہ سے ٹوٹ رہا ہے‘
گھر بنانے کے سالانہ خرچ سے تھکے ماندے گاؤں والے سیلاب اور پھر اس سال کی مسلسل بارش کے بعد تباہ ہوئے اپنے گھروں کی مرمت کرانے کو تیار نہیں ہیں۔ کئی خاندان سیلاب میں گھر گنوانے کے بعد یا واپس جانے کے خوف سے اب بند پر عارضی خیموں میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔
مادھوی داس (۴۲ سالہ) اور ان کے ۵۳ سالہ شوہر دنڈیشور داس اپنے گھر کی مرمت کر پائے ہیں، جو پچھلے سیلاب میں ٹوٹ گیا تھا۔ مگر وہ وہاں اطمینان سے نہیں رہ پاتے۔ مادھوی کہتی ہیں، ’’جب پانی چڑھا تو ہم بند پر آ گئے۔ میں اس بار خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔‘‘
بند پر رہنے والوں کے لیے پینے کا پانی تلاش کر پانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مادھوی کے مطابق، سیلاب کے بعد کئی ٹیوب ویل ریت کے نیچے دب گئے۔ وہ ہمیں خالی پلاسٹک کی بوتلوں سے بھری بالٹی دکھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پانی میں کافی آئرن ہے۔ ہم ٹیوب ویل کے پاس پانی کو فلٹر کرتے ہیں اور اسے بالٹیوں اور بوتلوں میں بند تک لے کر آتے ہیں۔‘‘
اتل کی بیوی نیردا داس کہتی ہیں، ’’یہاں کھیتی کرنے یا گھر بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سیلاب بار بار آتا ہے اور سب کچھ لے جاتا ہے۔ ہم نے دو بار ٹی وی خریدا۔ دونوں سیلاب میں ٹوٹ گئے،‘‘ اپنے برآمدے میں بانس کے ستون کے سہارے کھڑی وہ یہ بتا رہی ہیں۔
مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق، ۷۳۹ لوگوں کی آبادی والے بگری باری گاؤں کے باشندوں کا بنیادی پیشہ کاشت کاری تھا۔ مگر سیلاب اور پانی لوٹنے کے بعد پیچھے چھوٹی ریت کے سبب اب ایسا نہیں رہا، اور یہاں کی زمین پر کھیتی کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
*****
ہریشور بتاتے ہیں، ’’ہمارے والد اس امید میں یہاں آئے تھے کہ یہاں کی زمین زیادہ قابل کاشت ہے۔‘‘ جب وہ چھوٹے تھے، تب اپنے والدین کے ساتھ کامروپ ضلع کے موئیا گاؤں سے یہاں آئے تھے۔ فیملی بگری باری میں ندی کے اوپری کنارے پر آباد ہو گئی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اس سرسبز علاقے میں بہت کم آبادی رہتی تھی۔ انہوں نے [بالغوں نے] جھاڑیاں کاٹیں، زمین صاف کی اور جتنی زمین پر وہ کھیتی کرنا چاہتے تھے اتنی انہیں مل گئی۔ مگر اب زمین ہونے کے باوجود ہم اس پر کھیتی نہیں کر سکتے۔‘‘
پچھلے سال [۲۰۲۲] ہریشور نے دھان کے بیج پہلے ہی بو دیے تھے اور کھیت میں روپائی کرنے ہی والے تھے کہ سیلاب آ گیا۔ ان کے کھیت کی آٹھ بیگھہ (تقریباً ۶ء۲ ایکڑ) زمین پانی میں ڈوب گئی اور ہٹانے سے پہلے ہی پودے کھیت میں سڑ گئے۔
ہریشور آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس بار بھی میں نے کچھ بیج بوئے تھے، مگر چڑھتے پانی نے سب کچھ برباد کر دیا۔ میں اب کھیتی نہیں کروں گا۔‘‘ اس سال جون میں مسلسل بارش نے ان کے کچن گارڈن کو نقصان پہنچایا، جس سے مرچ، پتلی لوکی اور دوسرے پودے ختم ہو گئے۔
جن خاندانوں کو کھیتی چھوڑنی پڑی ان میں سمیندر داس کی فیملی بھی ہے۔ تقریباً ۵۳ سالہ سمیندر کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس ۱۰ بیگھہ [۳ء۳ ایکڑ] کھیت ہوتا تھا۔ آج اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ وہ ریت کی موٹی پرت کے نیچے دب گیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اس بار بھاری بارش کے سبب ہمارے گھر کے ٹھیک پیچھے بند سے پانی رِس رہا تھا۔ جیسے ہی ندی میں پانی بڑھا، ہم ٹینٹ [بانس کے ستون اور ترپال سے بنا ایک عارضی ٹھکانہ] میں واپس چلے گئے۔‘‘
یوگ مایا اور شمبھو رام کی فیملی کے پاس تین بیگھہ (تقریباً ایک ایکڑ) کھیت ہوا کرتا تھا، جس میں وہ عموماً دھان اور کبھی کبھی سرسوں کی کھیتی کرتے تھے۔ یوگ مایا یاد کرتی ہیں کہ ۲۲ سال پہلے ان کی شادی کے وقت گوہاٹی سے ۵۰ کلومیٹر دور واقع اس گاؤں میں سرسبز فصل ہوتی تھی۔ اب یہاں صرف ریت کے انبار ہیں۔
زمین بنجر ہونے کے بعد شمبھو رام کو کھیتی چھوڑ کر دوسرا کام ڈھونڈنا پڑا۔ بگری باری میں کئی دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی دہاڑی مزدور بن گئے۔ اب وہ پڑوسی گاؤوں میں چھوٹے موٹے کام کرکے روزانہ تقریباً ۳۵۰ روپے کما پاتے ہیں۔ یوگ مایا کہتی ہیں، ’’انہیں کھیتی کرنا بہت پسند تھا۔‘‘
مگر کام ہمیشہ نہیں مل پاتا۔ یوگ مایا گھریلو ملازمہ ہیں اور روزانہ تقریباً ۱۵۰-۱۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔ کسی زمانے میں وہ کھیتوں میں دھان کی روپائی کیا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی کچھ اضافی نقدی کے لیے وہ کسی اور کی زمین پر بھی کام کر لیتی تھیں۔ یوگ مایا کھیتی کے علاوہ بُنائی میں بھی ماہر ہیں۔ ان کے پاس اپنا خود کا کرگھا ہے، جس میں وہ گاموچا (ہاتھ سے بُنا تولیہ) اور چادر (آسام کی خواتین کے ذریعے پہنی جانے والی اوڑھنی) بُنتی تھیں، جو آمدنی کا ایک ذریعہ بھی تھا۔
چونکہ اب کھیتی کوئی عملی متبادل نہیں رہا، تو وہ کرگھے پر زیادہ منحصر ہو گئی تھیں۔ لیکن ندی نے ایک بار پھر کھیل بگاڑ دیا۔ یوگ مایا کہتی ہیں، ’’میں پچھلے سال تک ادھیا پر [مالک کو کل پیداوار کا آدھا حصہ دینے کا معاہدہ] بُنائی کر رہی تھی، لیکن ہینڈ لوم کا صرف وہی ڈھانچہ بچا ہے۔ چرخی، بوبن سب کچھ سیلاب لے گیا۔‘‘
یوگ مایا کہتی ہیں، کام کی کمی اور غیر یقینی آمدنی کی وجہ سے ان کے بیٹے کی تعلیم کا خرچ اٹھانا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ راجیب (۱۵ سالہ) کاؤرباہا نومیلن ہائی اسکول میں ۱۰ویں کلاس کا طالب علم ہے۔ پچھلے سال اس واقعہ سے ٹھیک پہلے اس کے والدین نے اسے بند کے پاس ایک رشتہ دار کے گھر بھیج دیا تھا۔ اس جوڑے کی دو بیٹیاں بھی ہیں، دھِریتی منی اور نیتو منی۔ دونوں شادی شدہ ہیں اور بالترتیب کاٹا نیپارہ اور کیندو کونا میں رہتی ہیں۔
*****
پُٹھی ماری ندی میں بار بار کے سیلاب اور آبی سطح میں اضافہ نے اتل داس کی فیملی کی زندگی برباد کر دی ہے۔ اتل کہتے ہیں، ’’میں نے ۵ء۳ بیگھہ [۱ء۱ ایکڑ] زمین پر کیلے اور ایک بیگھہ [۳۳ء۰ ایکڑ] پر لیموں لگائے تھے۔ ایک بیگھہ میں، میں نے کدو اور لوکی لگائی تھی۔ اس بار جب ندی کا پانی بڑھا، تو تمام فصلیں برباد ہو گئیں۔‘‘ کچھ ہفتے بعد، صرف دو تہائی فصلیں پھر سے کھڑی ہو پائیں۔
اتل کے مطابق، خراب سڑکوں کی وجہ سے کئی گاؤں والوں کو کھیتی چھوڑنی پڑی ہے۔ جو لوگ اپنی پیداوار بیچنا چاہتے ہیں ان کے لیے بند ٹوٹنے کی وجہ سے بازاروں تک جا پانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے، کیوں کہ سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔
اتل کہتے ہیں، ’’میں اپنی پیداوار رنگیا اور گوہاٹی لے جاتا تھا۔ ایک وقت تھا، جب میں رات میں کیلے اور لیموں جیسی اپنی پیداوار سے وین بھر لیتا تھا۔ اگلی صبح تقریباً ۵ بجے میں گوہاٹی کے فینسی بازار میں پہنچتا اور فصل بیچتا، اور اسی دن صبح آٹھ بجے تک گھر پہنچ جاتا تھا۔‘‘ مگر پچھلے سیلاب کے بعد سے یہ ناممکن ہو گیا۔
اتل مزید کہتے ہیں، ’’میں اپنی پیداوار کو کشتی سے دھولا باری تک لے جایا کرتا تھا۔ لیکن کیا کہوں! سال ۲۰۰۱ کے بعد سے بند کئی بار ٹوٹا ہے۔ سال ۲۰۲۲ کے سیلاب کے بعد اس کی مرمت میں پانچ مہینے لگ گئے۔‘‘
بند ٹوٹنے کی وجہ سے پھیلی افراتفری کو یاد کرکے اتل کی ماں پربھا بالا داس غمگین ہو جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سیلاب نے ہم سب کو برباد کر دیا ہے۔‘‘
حالانکہ، جیسے ہی ہم وداع لینے کو بند پر چڑھتے ہیں، ان کا بیٹا ہمیں دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہنے لگتا ہے، ’’پچھلی بار بھی آپ تب آئے تھے، جب سیلاب آیا تھا۔ کسی اچھے دن ملنے آئیے۔ میں آپ کو ہمارے کھیت کی سبزیاں بھیجوں گا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز