یہاں ’وراٹ کوہلی‘بہت مقبول ہیں۔ ڈونگرا چھوٹا میں ہندوستان کے اس عظیم کرکٹر کے بہت سے مداح ہیں۔
یہ جاڑے کی ایک صبح ہے اور گھڑی کی سوئی۱۰ بجے سے آگے نکل چکی ہے۔ درجن بھر یا اس سے کچھ زیادہ نوعمر بچے ایک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ سرسبز مکئی کے کھیتوں سے گھرے مربع شکل کی زمین کے اس قطعہ کو دیکھ کر آپ کو گمان نہیں گزرے گا کہ یہ کرکٹ کا میدان ہے، لیکن بانسواڑہ ضلع کے اس گاؤں میں کرکٹ کے شائقین بیٹنگ کریز سے لے کر باؤنڈری لائن تک اس کے ایک ایک انچ سے واقف ہیں۔
اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ کرکٹ کے شائقین کے ساتھ گفتگو کے آغاز کا سب سے مؤثر طریقہ ان کے پسندیدہ کھلاڑیوں کے بارے میں دریافت کرنا ہوتا ہے۔ یہاں بھلے ہی گفتگو کا آغاز وراٹ کوہلی سے ہو، لیکن روہت شرما، جسپریت بمراہ، سوریہ کمار یادو، محمد سراج وغیرہ کے نام بھی جلد ہی موضوع بحث بن جاتے ہیں۔
آخر میں ۱۸ سالہ شیوم لبانا کہتے ہیں، ’’مجھے اسمرتی مندھانا پسند ہیں۔‘‘ بائیں ہاتھ کی سلامی بلے باز اور ہندوستان کی خواتین ٹی ٹونٹی ٹیم کی سابق کپتان ملک کی سب سے مشہور کرکٹ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔
لیکن ہمیں بہت جلد معلوم ہوگیا کہ مندھانا بائیں ہاتھ کی واحد بلے باز نہیں ہیں جن پر اس میدان میں بحث ہو رہی ہے۔
گیند باز اور بلے باز بننے کے خواہش مند لڑکوں کی بھیڑ میں ایک تنہا لڑکی سب سے نمایاں ہے۔ صرف نو سال کی عمر میں دبلی بلتی ہِتَاکشی راہل ہڈکشی سفید جوتے پہنے، اور بیٹنگ پیڈ، تھائی پیڈ، اور ایلبو گارڈ باندھے کھیلنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔
’’میں ایک بلے باز بننا چاہتی ہوں۔ مجھے بلے بازی کرنا سب سے زیادہ پسند ہے،‘‘ وہ پاری کو بتاتے ہوئے اعلان کرتی ہیں، ’’میں انڈیا کے لیے کھیلنا چاہوں گی۔‘‘ ہتاکشی کو بات کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے، لیکن کریز پر کھڑے ہوکر اپنے کھیل کا مظاہرہ کرنے کے لیے وہ بخوشی راضی ہو جاتی ہیں۔ وہ سخت پچ پر جا کر پرانی ہو چکی گیند سے کی جا رہی گیند بازی پر کچھ شارٹس لگاتی ہیں جو لوہے کی جالیوں سے بنی باؤنڈری سے ٹکراتی ہیں۔
ہندوستان کے لیے کھیلنے کی ہتاکشی کی خواہش کو ان کے والد کی حمایت حاصل ہے۔ وہ ان کے کوچ بھی ہیں۔ وہ اپنا روزانہ کا معمول ہتاتی ہیں: ’’اسکول کے بعد گھر واپس آکر میں ایک گھنٹہ سوتی ہوں، پھر چار سے آٹھ بجے [شام تک] ٹریننگ کرتی ہوں۔‘‘ آج کی طرح ہفتے کی چھٹی اور دوسری چھٹیوں کے موقعوں پر وہ صبح تقریباً ساڑھے سات بجے سے دوپہر تک ٹریننگ کرتی ہیں۔
’’ہم تقریباً ۱۴ ماہ سے مسلسل ٹریننگ کر رہے ہیں۔ مجھے بھی اس کے ساتھ ٹریننگ کرنی پڑتی ہے،‘‘ ہتاکشی کے والد راہل ہڈکشی جنوری ۲۰۲۴ میں پاری سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ راجستھان کے بانسواڑہ ضلع کے ڈونگرا بڑا میں گاڑیوں کے ایک گیراج کے مالک ہیں۔ اپنی بیٹی کی صلاحیتوں پر انہیں فخر اور اعتماد ہے، ’’وہ واقعی اچھا کھیلتی ہے۔ بحیثیت باپ مجھے اس کے ساتھ سخت نہیں ہونا چاہیے، لیکن ہونا پڑتا ہے۔‘‘
’شاندار کھیلتی ہے‘ ان کے والد راہل ہڈکشی کہتے ہیں، جو خود بھی کبھی کرکٹر تھے اور اب ہتاکشی کے کوچ ہیں
ہتاکشی کے والدین بھی ان کے لیے صحت مند غذا فراہم کرتے ہیں۔ راہل کہتے ہیں، ’’ہم ہفتے میں چار بار انڈے کھاتے ہیں، اور کچھ گوشت بھی کھاتے ہیں۔ وہ روزانہ دو گلاس دودھ کے ساتھ ساتھ سلاد میں کھیرا اور گاجر بھی کھاتی ہے۔‘‘
یہ محنت ہتاکشی کے کھیل میں نظر آتی ہے۔ وہ بڑی عمر کے کھلاڑیوں جیسے شیوم لبانا (۱۸)، اور آشیش لبانا (۱۵) کے ساتھ پریکٹس کرنے کی عادی ہیں۔ ڈونگرا چھوٹا کے یہ دونوں لڑکے ضلع سطح پر کھیل چکے ہیں اور دونوں گیند باز ہیں۔ یہ پچھلے چار پانچ سالوں سے مقامی مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں، جس میں لبانا پریمیئر لیگ (ایل پی ایل) بھی شامل ہے۔ اس مقابلے میں لبانا برادری کی ۶۰ سے زیادہ ٹیمیں ایک دوسرے کی مدمقابل ہوتی ہیں۔
’’جب ہم نے پہلی دفعہ ایل پی ایل میں حصہ لیا تھا، تو اس میں صرف ہم لڑکے ہی شامل ہوئے تھے۔ تب ہمارے پاس راہل بھیا [ہتاکشی کے والد] بطور کوچ نہیں تھے،‘‘ شیوم کہتے ہیں۔ ’’میں نے ایک دفعہ ایک میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کی تھی۔‘‘
آج کل وہ راہل کے قائم کردہ ہتاکشی کلب کے لیے بھی کھیل رہے ہیں۔ ’’ہم اسے [ہتاکشی] کو تربیت دے رہے ہیں،‘‘ شیوم مزید کہتے ہیں۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری ٹیم میں ڈیبیو کرے۔ ہماری برادری میں لڑکیاں [کرکٹ] نہیں کھیلتی ہیں، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ اس کا کھیلنا اچھا ہے۔‘‘
ہتاکشی کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے والدین دوسروں سے الگ خواب دیکھ رہے ہیں، جیسا کہ ان کے ایک نوجوان ساتھی کھلاڑی کہتے ہیں، ’’ان کا خواب ہے کہ اسے آگے بھیجیں۔‘‘
اس کھیل کی مقبولیت کے باوجود، لوگ اپنے بچوں کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ شیوم اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ایک ۱۵ سالہ ساتھی کھلاڑی کا ذکر کرتے ہیں، ’’وہ کئی بار ریاستی سطح پر کھیل چکا ہے، لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کھیل چھوڑنے کی سوچ رہا ہے۔ اس کے گھر والے شاید اسے کوٹہ بھیج دیں گے۔‘‘ کوچنگ کلاسز اور اعلیٰ تعلیم کا مترادف بن چکے کوٹہ کا کرکٹ سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے۔
ہتاکشی کی ماں شیلا ہڈکشی ایک ٹیچر ہیں جو ابتدائی اور ثانوی درجات کے طلباء کی ہندی پڑھاتی ہیں۔ اپنے گھر کے دیگر افراد کی طرح وہ بھی کرکٹ کی بڑی مداح ہیں۔ ’’میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے ہر کھلاڑی کا نام جانتی ہوں اور سب کو پہچانتی بھی ہوں، حالانکہ میں روہت شرما کو سب سے زیادہ پسند کرتی ہوں،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔
بطور ٹیچر اپنے کام کے علاوہ وہ اپنے گیراج کا بھی انتظام دیکھتی ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم ان سے ملے تھے۔ ’’اس وقت، ہمارے راجستھان سے زیادہ لڑکیاں اور لڑکے کرکٹ نہیں کھیل رہے ہیں۔ ہم نے اپنی بیٹی کے لیے تھوڑی کوشش کی ہے اور آئندہ بھی کوشش کرتے رہیں گے۔‘‘
نو سالہ ہتاکشی کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے، لیکن ان کے والدین ’’انہیں ایک ہنر مند کرکٹر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘
راہل کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ مستقبل میں کیا ہوگا، لیکن ایک والد اور ایک اچھے کھلاڑی کے طور پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اسے ہندوستان کے لیے کھیلنے کے قابل بنائیں گے۔‘‘
مترجم: شفیق عالم