انوپارام سوتار نے کبھی موسیقی کا کوئی ساز نہیں بجایا، لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ لکڑی کے کس ٹکڑے سے بہترین سُر نکلتے ہیں۔ ’’مجھے لکڑی کا کوئی ٹکڑا دیں، اسے دیکھ کر میں بتا سکتا ہوں کہ آیا اس سے ایک اچھا ساز بنے گا یا نہیں،‘‘ آٹھویں نسل کے کھرتال ساز کہتے ہیں۔
راجستھان کی لوک اور بھگتی موسیقی میں استعمال ہونے والے ضربی کھرتال کو لکڑی کے چار ٹکڑوں سے بنایا جاتا ہے۔ اسے بجانے والے سازندے کے دونوں ہاتھوں میں دو دو ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ایک ٹکڑے کو انگوٹھے سے پکڑا جاتا ہے، جبکہ دوسرے کو باقی کی چار انگلیوں سے۔ جب انہیں ایک ساتھ بجایا جاتا ہے، تو ان کے ٹکرانے سے کھنک دار آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس ساز میں صرف دو سُر (موسیقی کے ارکان)، تا اور کا، استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ ’’کلاکار (موسیقار) بنواتے ہیں،‘‘ ۵۷ سالہ دستکار کہتے ہیں۔
راجستھانی کھرتالوں میں عام طور پر منجیرے یا کرتال جیسی گھنٹیاں نہیں بنی ہوتی ہیں۔
اس ہنرمند دستکار کو چار ٹکڑوں کا سیٹ بنانے میں صرف دو گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ ’’اس سے پہلے مجھے پورا دن [آٹھ گھنٹے] لگتا تھا،‘‘ وہ اس دستکاری کے اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ انوپارام کا سوتاروں کا خاندان تقریباً دو صدیوں سے کھرتال سازی کر رہا ہے: ’’بچپن سے یہی کام ہے ہمارا۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد آنجہانی اُسلارام ایک رحم دل استاد تھے۔ انہوں نے صبر وتحمل کے ساتھ انہیں یہ کام سکھایا تھا۔ ’’میں نے بہت سی غلطیاں کیں، لیکن وہ کبھی چیختے نہیں تھے، پیار سے سمجھاتے تھے۔‘‘ سوتار برادری کے صرف مرد ہی کھرتال بناتے ہیں۔
انوپارام ۱۹۸۱ میں باڑمیر ضلع کے ہرسانی گاؤں سے مہاجرت کرکے کام کی تلاش میں جیسلمیر آئے تھے، کیونکہ ’’گاؤں میں، ہمیں بڑھئی کا کام نہیں ملتا تھا۔‘‘ لکڑی کے کام کے اس ماہر دستکار کو موسیقی کے دوسرے ساز بنانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ وہ ہارمونیم، کمئیچا، سارنگی اور وینا بناتے ہیں۔ لیکن ’’مجھے ان کے لیے کم ہی آرڈر ملتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ایک کمئیچا اور ایک سارنگی بنانے میں انہیں ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت لگتا ہے، جنہیں وہ بالترتیب ۸۰۰۰ اور ۴۰۰۰ روپے کے عوض فروخت کرتے ہیں۔
موسیقی کے ساز بنانے کے علاوہ انہیں پھولوں کی پیچیدہ نقاشی والے دروازے بنانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ دروازوں کی یہ نقاشی جیسلمیر کی فن تعمیر کا نمایاں ڈیزائن ہے۔ وہ کرسیاں اور لکڑی کے فرنیچر جیسے الماری اور ڈریسنگ یونٹ بھی بناتے ہے۔
راجستھان کے جیسلمیر اور جودھ پور اضلاع میں شیشم (دَلبرگیا سیسو) یا سیفدا (یوکلپٹس) کی لکڑی سے کھرتال بنائے جاتے ہیں۔ کھرتال بنانے کے لیے صحیح لکڑی کا انتخاب پہلا اور سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ ’’دیکھ کے لینا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ نئی نسل یہ بھی نہیں جانتی کہ کھرتال جیسا ساز بنانے کے لیے صحیح لکڑی کی شناخت کیسے کی جاتی ہے۔‘‘
انوپارام کھرتال بنانے کے لیے شیشم اور سفیدا کی لکڑی جیسلمیر سے خریدتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب صحیح قسم کی لکڑی تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
چار کھرتالوں کا ایک سیٹ بنانے کے لیے، وہ ڈھائی فٹ لمبی لکڑی کا ایک ٹکڑا استعمال کرتے ہیں، جس کی قیمت تقریباً ۱۵۰ روپے ہوتی ہے۔ پھر وہ اس کے طول و عرض کو نشان زد کرتے ہیں: ۲۵ء۷ انچ لمبا، ۲۵ء۲ انچ چوڑا، اور ۶ ملی میٹر گہرا، اور اسے آری کی مدد سے کاٹتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’برادہ اُڑتا ہے اور ناک، آنکھ میں چلا جاتا ہے ،‘‘ جس کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ کھانسی آتی ہے۔ ماسک بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، کیونکہ دن میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ ماسک پہننے سے دم گھٹتا ہے۔ ’’جیسلمیر کی گرمی میں، اس سے پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے،‘‘ وہ شہر کی گرمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہاں گرمیوں میں درجہ حرارت ۴۵ ڈگری سیلسیس سے اوپر پہنچ جاتا ہے۔
لکڑی کو آری سے کاٹنے کے بعد وہ سطح کو ہموار کرنے کے لیے رندے کا استعمال کرتے ہیں۔ ’’یہ کام احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر آپ سے ایک معمولی سی غلطی بھی سرزد ہوگئی، تو آپ کو دوسری لکڑی کے ساتھ کام شروع کرنا ہوگا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ کھرتال پر بار بار ضرب لگانے سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں، اور اس کی سطح پر موجود معمولی کھردراپن اس کے لہجے اور آواز کو بدل سکتا ہے۔
آری سے کئی دفعہ ان کی انگلیاں زخمی ہو جاتی ہیں، اور ہتھوڑا بھی درد کا سبب بنتا ہے، لیکن وہ اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ یہ ان کے کام کا ایک عام حصہ ہے، اور ان کے والد، اسلارام بھی اکثر خود کو زخمی کر لیتے تھے۔
انہیں لکڑی کی سطح کو ہموار کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت لگتا ہے، اور پھر وہ کوپنگ آری کا استعمال کرکے چاروں کناروں کو گول کرتے ہیں۔ گول کونوں کا بغور معائنہ کرنے کے بعد انوپارام کناروں کو اس وقت تک ریگمال سے گھستے ہیں جب تک کہ وہ شیشے کی طرح ہموار نہ ہو جائیں۔
کھرتالوں کو خریدنے کے بعد موسیقار ان کے سُر کو بہتر بنانے کے لیے ریگمال کا استعمال کرتے ہیں۔ سرسوں کا تیل لگانے سے ساز کا رنگ گہرا بھورا ہو جاتا ہے۔
وہ سفیدہ کی لکڑی سے بنے چار کھرتالوں کے ایک سیٹ کو ۳۵۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں جبکہ شیشم کا ایک سیٹ ۴۵۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ ’’شیشم کے کھرتال اپنی بہتر آواز اور پکے سُروں کے لیے مشہور ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
انوپارام کو ہر ماہ ۵ سے ۱۰ جوڑے کھرتال بنانے کے آرڈر ملتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا تو یہ تعداد دو سے چار کے درمیان رہتی تھی۔ اگرچہ راجستھان آنے والے بہت سے غیرملکی سیاحوں کی وجہ سے یہاں اس ساز کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اسے بنانے والے لوگ کم ہو گئے ہیں۔ دو دہائی قبل اس ساز کے بنانے والے ۱۵ سے زیادہ بڑھئی تھے، لیکن اب انوپارام جیسلمیر میں کھرتال بنانے والے معدودے چند دستکاروں میں سے ایک ہیں۔ نوجوان بڑھئی اب فرنیچر بنانے کے لیے شہروں کا رخ کر رہے ہیں، کیونکہ وہاں اچھی مزدوری ملتی ہے۔
کچھ دستکار جو سیاحوں کو کھرتال فروخت کرتے ہیں، وہ مختلف زبانیں بولنے والے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ آن لائن سیشن کا بھی انعقاد کرتے ہیں۔
’’یہ فن کافی پرانا ہے، لیکن نوجوان نسل کھرتال بنانا سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔‘‘ انوپارام کہتے ہیں کہ پچھلے ۳۰ سالوں کے دران انہوں نے تقریباً سات لوگوں کو یہ ساز بنانا سکھائے ہیں: ’’وہ جہاں بھی ہوں، مجھے امید ہے کہ وہ کھرتال بنا رہے ہوں گے۔‘‘
ان کے بیٹوں، ۲۸ سالہ پرکاش اور ۲۴سالہ کیلاش، نے کبھی کھرتال بنانا نہیں سیکھا۔ وہ مختلف ریاستوں میں بڑھئی کا کام کرتے ہیں، گھروں اور دفاتر میں فرنیچر بناتے ہیں۔ ان کی بیٹی سنتوش کی عمر ۲۰ کی دہائی کے وسط میں ہے۔ وہ شادی شدہ اور گھریلو خاتون ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے بیٹے کبھی اس دستکاری کو سیکھیں گے، تو انوپارام کہتے ہیں، ’’کوئی بھروسہ نہیں ہے۔‘‘
ایک گاہک، ہماری گفتگو کو سن کر ان سے پوچھتا ہے، ’’آپ بڑے شہر کیوں نہیں گئے زیادہ پیسہ کمانے؟‘‘ انوپارام جواب دیتے ہیں، ’’ہم اسی میں خوش ہیں۔‘‘
یہ اسٹوری دیہی دستکاروں پر سنکیت جین کی اسٹوریز کی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم