اندھیری اسٹیشن پر ٹرین کے اندر کی حالت اور اس میں سوار ہوتے مسافروں کے تیز شور شرابے سے عجیب سا تضاد پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ڈبے میں داخل ہونے کی افراتفری میں سواریوں کے ہاتھ جو کچھ بھی آتا ہے، وہ اسی کو پکڑ لینا چاہتے ہیں – چاہے وہ کمپارٹمنٹ کے دروازے ہوں یا کسی دوسرے مسافر کا ہاتھ۔ آس پاس کے لوگ دھکہ مُکی کر رہے ہیں، لڑکھڑا رہے ہیں اور خالی سیٹوں پر قبضہ کرنے کے لیے لپک رہے ہیں۔ وہ لوگوں سے درخواست کر رہے ہیں، بحث کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ ان لوگوں کو دھکہ دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں جو سیٹ پر بس بیٹھنے ہی والے ہیں۔

ٹرین میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ان مسافروں کی بھیڑ میں ۳۱ سال کے کشن جوگی اور ان کی ۱۰ سال کی بیٹی بھارتی بھی ہے، جس نے ہلکے نیلے رنگ کا راجستھانی گھاگھرا اور بلاؤز پہن رکھا ہے۔ ویسٹرن سبرب (مغربی مضافات) لائن کی سات بجے والی یہ ممبئی لوکل اُس شام کی پانچویں ٹرین ہے، جس پر باپ بیٹی کی یہ جوڑی سوار ہو چکی ہے۔

ٹرین جیسے ہی رفتار پکڑتی ہے اور مسافر تھوڑی راحت کی سانس لیتے ہیں، ماحول میں کشن کی سارنگی سے نکلی دُھن کی آواز گونجنے لگتی ہے۔

’’تیری آنکھیں بھول بھلیا…باتیں ہیں بھول بھلیا…‘‘

ان کا دایاں ہاتھ کمان کو سارنگی کے پتلے فنگر بورڈ پر کس کر تانے ہوئے تین تاروں والے ساز پر تیزی سے گھومتا ہے، اور ان تاروں سے ایک گہری گونجتی ہوئی سریلی آواز نکلتی ہے۔ سارنگی کا نچلا گول سرا ان کے سینہ اور بائیں بازو کے درمیان ٹکا ہوا ہے۔ ان کے ساز سے پھوٹ کر نکل رہا سال ۲۰۲۲ کی بالی ووڈ فلم ’بھول بھلیا‘ کا مشہور گانا ایک الگ ہی جادوئی اثر پیدا کرتا ہے۔

ٹرین کی کوچ میں بیٹھے کچھ مسافر اس خوبصورت دھن کو سننے کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے سہی، ادھر کو متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ جیب سے اپنا فون نکال کر اس دُھن کو ریکارڈ کرنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تیرنے لگتی ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ کانوں میں ایئر پلگ ڈال کر اپنے فون میں صرف اس لیے مصروف ہو جاتے ہیں، تاکہ کمپارٹمنٹ میں گھوم گھوم کر پیسے مانگتی ہوئی چھوٹی سی بچی بھارتی کو نظر انداز کر سکیں۔

’[میرے] باپ نے ہاتھوں میں سارنگی پکڑا دی۔ کبھی اسکول کا بھی نہیں سوچا، بس بجاتے گیا‘

کشن تھوڑی اداسی کے ساتھ کہتے ہیں، ’’پہلے لوگ مجھے دیکھتے تھے، تو سارنگی بجانے کی جگہ دے دیتے تھے۔‘‘ وہ ۱۵-۱۰ سال پہلے کا زمانہ یاد کرتے ہیں جب ماحول بالکل الگ ہوا کرتا تھا۔ ’’لوگ اخلاقی طور پر زیادہ ایماندار اور ذمہ دار ہوا کرتے تھے، لیکن اب ہر کوئی اپنے اپنے فون میں مشغول ہے۔ ان کا فون ہی ان کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ میری موسیقی میں اب شاید ہی کسی کی دلچسپی بچی ہے۔‘‘ اگلی دُھن بجانے سے پہلے وہ تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں۔

’’میں لوک گیت سے لے کر، بھجن…راجستھانی، گجراتی، ہندی گانے، کچھ بھی بجا سکتا ہوں۔ مجھ سے کچھ بھی فرمائش کر لیجئے، میں کوئی بھی گیت سن کر چار پانچ دنوں میں اسے یاد کرکے سارنگی پر بجانے کی مشق کر لیتا ہوں۔ سبھی سُر ٹھیک ٹھیک نکلیں، اس کے لیے میں خوب ریاض کرتا ہوں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اگلی دُھن کے لیے سارنگی کی لے کو ٹھیک کرنے لگتے ہیں۔

دوسری طرف، بھارتی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر کچھ مرد اور عورتیں اپنے پرس کو ٹٹولتے ہوئے سب سے چھوٹے سکہ یا نوٹ کو تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ٹرین کے پہیوں کی طرح بھارتی بھی کوچ کے اندر تیزی سے گھومنے لگتی ہے، تاکہ اگلے اسٹاپ کے آنے تک ایک بھی مسافر اس کی مانگ سے بچ نہ پائے۔

کشن کی کمائی ہر دن الگ الگ ہوتی ہے – کسی دن وہ ۴۰۰ روپے کماتے ہیں، تو کبھی کبھی ان کی کمائی ۱۰۰۰ روپے بھی ہو جاتی ہے۔ اور، روزانہ چھ گھنٹے تک الگ الگ ٹرینوں میں بھاگ دوڑ کرنے کے بعد ہی یہ آمدنی ان کے حصے میں آ پاتی ہے۔ ان کی یہ بھاگ دوڑ شام کو پانچ بجے شروع ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر کے قریب نالاسوپارہ سے ویسٹرن لائن کی لوکل ٹرین پر سوار ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی متعینہ روٹ (راستہ) نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ چرچ گیٹ اور ویرار کے درمیان ہی ٹرینوں کو بدلتے ہوئے جاتے اور واپس لوٹتے ہیں۔ ٹرین پر ان کی سواری اچھی بھیڑ اور اس بھیڑ کے درمیان سارنگی بجانے لائق جگہ ملنے پر منحصر ہوتی ہے۔

شام کو ٹرینوں میں گھومنے کی وجہ بتاتے ہوئے کشن کہتے ہیں، ’’صبح میں لوگوں کو اپنے اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے، اور ٹرینوں میں بے انتہا بھیڑ ہوتی ہے۔ میری دُھن اس وقت کون سنے گا؟ جب وہ واپس [گھر] لوٹتے ہیں، تو صبح کے مقابلے زیادہ تناؤ میں نہیں ہوتے ہیں۔ حالانکہ، پھر بھی کچھ لوگ آگے بڑھنے کے لیے مجھے دھکیل دیتے ہیں، لیکن میں ان کا برا نہیں مانتا ہوں۔ میرے پاس کوئی اور متبادل بھی تو نہیں ہے؟‘‘ یہ اکیلا ہنر ہے جو وہ جانتے ہیں یا جو انہیں وراثت میں ملا ہے۔

Kishan Jogi with his daughter Bharti as he plays the sarangi on the 7 o’clock Mumbai local train that runs through the western suburb line
PHOTO • Aakanksha

کشن جوگی ویسٹرن سبرب لائن پر چلنے والی ۷ بجے شام کی ممبئی لوکل ٹرین میں سارنگی بجا رہے ہیں۔ ساتھ میں ان کی بیٹی بھارتی بھی ہے

ان کے والد میتاجی جوگی پہلی بار راجستھان کے لونیا پورہ گاؤں سے جب اس شہر میں آئے تھے، تب وہ لوکل ٹرینوں اور ممبئی کی سڑکوں پر سارنگی بجا کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ ’’جب میرے ماں باپ میرے چھوٹے بھائی وجے کے ساتھ ممبئی آئے تھے، تب میں صرف دو سال کا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ تب کشن اپنی بیٹی بھارتی سے بھی چھوٹی عمر کے تھے، جب انہوں نے اپنے والد کے ساتھ اسی طرح گھومنا شروع کیا تھا۔

جوگی کمیونٹی (جو راجستھان میں دیگر پسماندہ طبقہ کے طور پر درج ہے) سے تعلق رکھنے والے میتاجی خود کو ایک فنکار سمجھتے تھے۔

گاؤں میں ان کی فیملی روزی روٹی کمانے کے لیے راون ہتھّا بجاتی تھی۔ یہ تار اور کمان والا ایک قدیم ساز ہے، جسے عام طور پر فوک میوزک میں بجایا جاتا ہے۔ سنیں: راون کو جاودانی عطا کرنے والا آلہ موسیقی

کشن بتاتے ہیں، ’’گاؤں میں جب بھی کوئی ثقافتی اجتماع، یا مذہبی تقریب ہوتی، تو میرے باپ [والد] اور دوسرے فنکاروں کو آلہ موسیقی بجانے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا۔ پھر، عطیہ کے طور پر جو پیسے ملتے تھے انہیں بھی ان فنکاروں کے درمیان تقسیم کیا جاتا تھا۔‘‘

معمولی آمدنی نے میتاجی اور ان کی بیوی جمنا دیوی کو بہت کم دہاڑی (اجرت) پر زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے مجبور کیا۔ کشن مزید بتاتے ہیں، ’’گاؤں کی غریبی ہمیں ممبئی لے آئی۔ گاؤں میں کوئی دوسرا دھندہ یا مزدوری نہیں تھی۔‘‘

ممبئی میں میتاجی کو کوئی نوکری نہیں مل پائی، اس لیے شروع میں وہ گھوم گھوم کر راون ہتھا اور پھر سارنگی بجانے لگے۔ ’’راون ہتھا میں بہت سے تار ہوتے ہیں، مگر دُھن بہت دھیمی نکلتی ہے،‘‘ کشن ایک تجربہ کار فنکار کی طرح بتاتے ہیں۔ ’’سارنگی کی دُھن اس کے مقابلے میں بہت تیز ہوتی ہے، اور تار بھی کم ہوتے ہیں۔ میرے والد نے سارنگی بجانا اس لیے شروع کیا کیوں کہ عام لوگوں کو اس کی دُھن بہت پسند تھی۔ یہ مختلف قسم کی موسیقی پیش کرنے میں مدد کرتی ہے۔‘‘

A photograph of Kishan's father Mitaji Jogi hangs on the wall of his home, along with the sarangi he learnt to play from his father.
PHOTO • Aakanksha
Right: Kishan moves between stations and trains in search of a reasonably good crowd and some space for him to play
PHOTO • Aakanksha

بائیں: کشن کے گھر کی دیوار پر ان کے والد میتاجی جوگی کی تصویر ٹنگی ہے اور بغل میں وہ سارنگی بھی ٹنگی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اپنے والد سے اسے بجانے کا ہنر سیکھا تھا۔ دائیں: کشن مسافروں کی اچھی بھیڑ اور سارنگی بجانے لائق جگہ کی تلاش میں الگ الگ ٹرینوں سے مختلف اسٹیشنوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں

کشن کی ماں جمنا دیوی اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکتی رہیں۔ ’’جب ہم یہاں آئے، تو فٹ پاتھ ہی ہمارا گھر تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’ہمیں جہاں پر بھی جگہ مل جاتی تھی، ہم وہیں سو جاتے تھے۔‘‘ جب وہ آٹھ سال کے ہوئے، تب تک ان کے دو اور چھوٹے بھائی – سورج اور گوپی کی بھی پیدائش ہو چکی تھی۔ ’’میں اُن دنوں کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں،‘‘ کشن تھوڑا بے چین ہو کر کہتے ہیں۔

جن یادوں کو کشن اپنے ساتھ سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں وہ دراصل ان کے والد کی موسیقی کے ساتھ جڑی ہوئی یادیں ہیں۔ انہوں نے کشن اور ان کے بھائیوں کو لکڑی کی سارنگی بجانا سکھایا، جسے انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ ’’سڑکیں اور ٹرینیں ان کے اسٹیج ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی سارنگی بجانے لگتے تھے، اور انہیں کوئی نہیں روکتا تھا۔ وہ جہاں بھی بجاتے تھے، وہاں لوگوں کا مجمع لگ جاتا تھا،‘‘ کشن پورے جوش سے کہتے ہیں، اور بھیڑ کے بارے میں بتانے کے لیے دونوں بازوؤں کو کھول کر دکھاتے ہیں۔

حالانکہ، وہی سڑکیں ان کے بیٹے کے لیے اتنی مہربان ثابت نہیں ہوئیں۔ اور تو اور، ایک بار تو انہیں کافی بے عزتی بھی جھیلنی پڑی، جب جوہو چوپاٹی پر ایک پولیس والے نے سیاحوں کے لیے سارنگی بجانے کے جرم میں ان پر ۱۰۰۰ روپے کا جرمانہ لگا دیا تھا۔ جب وہ جرمانے کی رقم نہیں بھر سکے، تو ایک دو گھنٹے کے لیے انہیں لاک اَپ میں ڈال دیا گیا۔ کشن کہتے ہیں، ’’میں یہ بھی نہیں جان پایا کہ آخر میرا قصور کیا تھا۔‘‘ انہوں نے اس واقعہ کے بعد سے ہی ٹرینوں میں سارنگی بجانا شروع کر دیا۔ لیکن بقول ان کے، ان کی موسیقی کبھی بھی ان کے والد کی موسیقی کا مقابلہ نہیں کر پائی۔

کشن بتاتے ہیں، ’’میرے باپ مجھ سے بہت اچھی سارنگی بجاتے تھے، اور میرے مقابلے کہیں زیادہ پیار سے موسیقی بجاتے تھے۔‘‘ میتاجی سارنگی بجانے کے ساتھ ساتھ خود گاتے بھی تھے، لیکن ان کے برعکس کشن، بجانے کے وقت خود گانے سے ہچکچاتے ہیں۔ ’’میں اور میرا بھائی بس روزی روٹی کمانے کے لیے سارنگی بجاتے ہیں۔‘‘ جب ان کے والد کا انتقال ہوا، تب کشن صرف ۱۰ سال کے تھے۔ انہیں شاید ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) ہو گیا تھا۔ ’’تب ہمارے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا، انہیں اسپتال لے جانے کی تو بات ہی مت کیجئے۔‘‘

کشن کو کم عمر سے ہی اپنی روزی روٹی کمانے کی ضرورت پڑ گئی۔ ’’ہمارے پاس کسی دوسری چیز کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی کہاں تھا؟ باپ نے ہاتھوں میں سارنگی پکڑا دی، کبھی اسکول کا بھی نہیں سوچا، بس بجاتے گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Left: Kishan with one of his younger brothers, Suraj.
PHOTO • Aakanksha
Right: Kishan with his wife Rekha and two children, Yuvraj and Bharati
PHOTO • Aakanksha

بائیں: اپنے چھوٹے بھائی سورج کے ساتھ کشن۔ دائیں: اس تصویر میں، اپنی بیوی ریکھا اور دو بچوں – یوراج اور بھارتی کے ساتھ کشن

والد کی موت کے بعد کشن کے دو چھوٹے بھائی وجے اور گوپی، ماں کے ساتھ واپس راجستھان لوٹ گئے۔ سورج، ناسک چلا گیا۔ کشن بتاتے ہیں، ’’ان سبھی کو ممبئی کی بھاگ دوڑ اور شور شرابہ پسند نہیں تھا اور نہ وہ روزی روٹی کے لیے سارنگی بجانا چاہتے تھے۔ سورج کو یہ کام پسند تھا اور وہ آج بھی سارنگی بجاتا ہے، لیکن باقی دونوں بھائی معاش کے لیے دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔‘‘

کشن کہتے ہیں، ’’میں خود بھی نہیں جانتا کہ میں ممبئی میں کیوں رہتا ہوں، لیکن بہرحال، اب میری چھوٹی سی دنیا اسی شہر میں ہے۔‘‘ ان کی دنیا کا ایک حصہ نالاسوپارہ میں مٹی کے فرش والا کرایے کا ان کا خستہ حال کمرہ ہے۔ نالاسوپارہ، ممبئی کا ایک شمالی مضافاتی علاقہ ہے۔ اس دس گُنا دس مربع فٹ کے کمرے کی دیواریں ایسبسٹوس کی اور چھت ٹن کی ہے۔

ریکھا، جو ان کی پہلی محبت تھیں، گزشتہ ۱۵ سالوں سے ان کی بیوی اور دو بچوں – بھارتی اور ۳ سال کے یوراج کی ماں ہیں۔ کمرے میں داخل ہونے پر وہ ہمارا استقبال کرتی ہیں۔ اس چھوٹے سے کمرے میں فیملی کے چاروں رکن رہتے ہیں، اور اس کے علاوہ گھر میں ایک ٹیلی ویژن، ان کے پہننے کے کپڑے اور ایک باورچی خانہ بھی ہے۔ ان کی سارنگی، جو بقول ان کے، گھر کی سب سے قیمتی چیز ہے، کنکریٹ کے کھمبے کے پاس کمرے کی دیوار پر ٹنگی ہے۔

جیسے ہی ریکھا سے ان کے پسندیدہ گانے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، کشن تپاک سے کہتے ہیں، ’’ہر دُھن اس کے نام۔‘‘

ریکھا کہتی ہیں، ’’یہ جو کچھ بجاتے ہیں، مجھے سبھی دُھنیں اچھی لگتی ہیں، لیکن اب ہم اس پر منحصر نہیں رہ سکتے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ کوئی مستقل نوکری کر لیں۔ پہلے ہم صرف دو ہی تھے، لیکن اب ہمارے دو بچے بھی ہیں۔‘‘

'I can play even in my sleep. This is all that I know. But there are no earnings from sarangi, ' says Kishan
PHOTO • Aakanksha

کشن بتاتے ہیں، ’میں نیند میں بھی سارنگی بجا سکتا ہوں۔ ایک یہی کام ہے جو مجھے آتا ہے۔ لیکن سارنگی سے کوئی خاص کمائی نہیں ہوتی ہے‘

ٹرینوں میں کشن کے ساتھ گھومنے والی ان کی بیٹی بھارتی، ضلع پریشد سرکاری اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ یہ اسکول نلیمور میں جہاں وہ رہتے ہیں، وہاں سے بہت قریب ہے۔ اسکول کی چھٹی ہوتے ہی وہ اپنے والد کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’مجھے میرے والد کی بجائی ہوئی ہر دُھن بہت اچھی لگتی ہے، لیکن مجھے ان کے ساتھ روز روز جانا اچھا نہیں لگتا۔ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ ناچنا کھیلنا چاہتی ہوں۔‘‘

کشن بتاتے ہیں، ’’وہ مشکل سے پانچ سال کی رہی ہوگی، جب سے میں اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا تھا۔ میں کیا کروں؟ مجھے خود بھی اسے اپنے ساتھ لے جانا اچھا نہیں لگتا ہے، لیکن پیسے اکٹھا کرنے کے لیے مجھے کسی نہ کسی کو تو اپنے ساتھ رکھنا ہی ہوگا، ورنہ میں پیسے کیسے کما پاؤں گا؟‘‘

کشن شہر میں اپنے لیے کوئی دوسرا کام بھی تلاش کرتے رہتے ہیں، لیکن پڑھا لکھا نہیں ہونے کی وجہ سے قسمت نے ابھی تک ان کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ جب ٹرین کے مسافر ان سے فون نمبر مانگتے ہیں، تو انہیں لگتا ہے کہ وہ شاید کبھی کسی بڑی تقریب میں سارنگی بجانے کے لیے انہیں بلائے گا۔ انہیں ایک دو موقعوں پر اشتہارات میں بیک گراؤنڈ میوزک کا حصہ بننے کا موقع ملا ہے۔ اس کام کے لیے انہیں ممبئی کی فلم سٹی، پریل اور ورسووا کے اسٹوڈیو میں جانے کا موقع ملا۔ لیکن یہ سبھی صرف ایک بار کا ہی موقع بن کر رہ گئے، اور ان کاموں کے عوض انہیں ۲۰۰۰ سے ۴۰۰۰ روپے ہی دیے گئے۔ حالانکہ، چار سال گزر چکے ہیں اور ایسا موقع انہیں دوبارہ نہیں ملا ہے۔

Left: A sarangi hanging inside Kishan's house. He considers this his father's legacy.
PHOTO • Aakanksha
Right: Kishan sitting at home with Bharti and Yuvraj
PHOTO • Aakanksha

بائیں: کشن کے گھر کی دیوار پر ٹنگی ہوئی سارنگی۔ ان کی نظروں میں یہ ان کے والد کی وراثت ہے۔ دائیں: بھارتی اور یوراج کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھے کشن

دس سال پہلے تک، ایک دن میں ۴۰۰-۳۰۰ روپے کی آمدنی میں فیملی کا گزارہ ہو جاتا تھا، لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ ان کے گھر کا ماہانہ کرایہ ہی ۴۰۰۰ روپے ہے، اور اس کے بعد راشن، پانی، بجلی کا خرچ الگ – جو کل ملا کر ہر مہینے ۱۰ ہزار روپے تک چلا جاتا ہے۔ ہر چھ مہینے پر انہیں بیٹی کے اسکول کی ۴۰۰ روپے کی فیس بھی بھرنی ہوتی ہے۔

دن کے وقت، میاں بیوی دونوں ’چندی والے‘ کے طور پر گھر گھر گھوم کر پرانے کپڑے اکٹھا کرتے ہیں اور ان کپڑوں کو تاجروں کو بیچ دیتے ہیں۔ لیکن اس سے ہونے والی آمدنی بھی نہ تو متعین ہے اور نہ ہی مسلسل۔ جب بھی کام ملتا ہے، وہ ایک دن میں ۱۰۰ سے ۵۰۰ روپے کے درمیان کچھ کما لیتے ہیں۔

کشن کہتے ہیں، ’’میں نیند میں بھی سارنگی بجا سکتا ہوں۔ ایک یہی کام ہے جو مجھے آتا ہے۔ لیکن سارنگی سے کوئی خاص کمائی نہیں ہوتی ہے۔‘‘

’’یہ میرے باپ سے ملی نشانی ہے اور مجھے بھی لگتا ہے کہ میں فنکار ہوں…لیکن فنکاری سے پیٹ نہیں بھرتا نا؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Aakanksha

ਆਕਾਂਕਸ਼ਾ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਰਿਪੋਰਟਰ ਅਤੇ ਫੋਟੋਗ੍ਰਾਫਰ ਹਨ। ਉਹ ਐਜੂਕੇਸ਼ਨ ਟੀਮ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਇੱਕ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਵਜੋਂ ਅਤੇ ਪੇਂਡੂ ਖੇਤਰਾਂ ਵਿੱਚ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਨੂੰ ਉਹਨਾਂ ਦੇ ਆਲ਼ੇ-ਦੁਆਲ਼ੇ ਦੀਆਂ ਚੀਜ਼ਾਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਲਈ ਸਿਖਲਾਈ ਦਿੰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Aakanksha
Editor : Pratishtha Pandya

ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਪਾਂਡਿਆ PARI ਵਿੱਚ ਇੱਕ ਸੀਨੀਅਰ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਜਿੱਥੇ ਉਹ PARI ਦੇ ਰਚਨਾਤਮਕ ਲੇਖਣ ਭਾਗ ਦੀ ਅਗਵਾਈ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਉਹ ਪਾਰੀਭਾਸ਼ਾ ਟੀਮ ਦੀ ਮੈਂਬਰ ਵੀ ਹਨ ਅਤੇ ਗੁਜਰਾਤੀ ਵਿੱਚ ਕਹਾਣੀਆਂ ਦਾ ਅਨੁਵਾਦ ਅਤੇ ਸੰਪਾਦਨ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ। ਪ੍ਰਤਿਸ਼ਠਾ ਦੀਆਂ ਕਵਿਤਾਵਾਂ ਗੁਜਰਾਤੀ ਅਤੇ ਅੰਗਰੇਜ਼ੀ ਵਿੱਚ ਪ੍ਰਕਾਸ਼ਿਤ ਹੋ ਚੁੱਕਿਆਂ ਹਨ।

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique